(طلبہ کوقجدید تعلیم سے آراستہ کرنا کیوں ضروری ہے ،(ارم فاطمہ

500

ضرورت ایجاد کی ماں ہے ۔ یہ مقولہ فطری طور پر انسان کی سوچ اورعمل پر پورا اترتا ہے جو اس رب کائنات کی ایسی تخلیق ہے جسے شعور اور علم سے نوازا گیا۔اس مخلوق نے اپنی ضرورت اور وقت کے حساب سے مختلف ادوار سے گذرتے اور زندگی کو آسان سے آسان تر بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ جب اس نے لکھنا سیکھا اور قلم بنایا تو بوقت ضرورت چمڑا، سفید ململ کا کپڑا،پتھروں اور یہاں تک کہ پتوں کو بھی اشکال اور جملوں کی صورت مین خبر رسانی اور معلومات اور روزمرہ حالات سے باخبر رکھنے کا ذریعہ بنایا۔وقت اور حالات بدلتے رہے۔کاغذ ایجاد ہواتو یہ سلسلہ خط و کتابت سے نکل کر اخبارات تک پہنچ گیا۔ اس دور میں خبر رسانی اورپڑھنے پڑھانے کا سلسلہ جرائد رسائل اور میگزین تک پہنچا۔ترقی کے ادوار چلتے رہے اور پھر یہی دور ترقی کرتے کرتے ریڈیائی لہروں سے ہوتا ہوا ریڈیو کی ایجاد تک پہنچا جسے تاریخ میں الیکٹرانک میڈیا کی ایجاد کی پہلی اکائی تصور کیا جاتا ہے۔ وقت کے ساتھ زندگی کی سہولتوں میں اضافہ ہوتا گیا اور اب گذشتہ کئی عشروں سے دنیا نے دیکھا مختلف قسم کے ٹی وی چینلز ریڈیو سٹیشنز اور کمپیوٹر سے جڑے انٹرنیٹ نے سوشل میڈیا کو متعارف کروا کر انسان کوانگلیوں کی جنبش سے پوری دنیا کے ہر مقام پر ایک ایک شخص سے جوڑ کر رکھ دیا ہے
اکیسویں صدی میں جدید ٹیکنالوجی زندگی کے ہر شعبہ میں داخل ہو گئی ہے۔ ٹیکنالوجی کا استعمال اپنے کام کو بہتر بنانے میں لازمی تصور کیا جاتا ہے۔آج کے اس دور میں جہاں ٹیکنالوجی کے اثرات نے زندگی کو تیز رفتار بنا دیا ہے وہیں تعلیم کے شعبے میں جدید ٹیکنالوجی کی ضرورت وقت کا اہم تقاضا ہے۔وہ ممالک جو اپنی حقیقی دولت یعنی نوجوانوں کے لئے معیاری تعلیمی ادارے قائم کر رہے ہیں اور ان کی صلاحیتوں کو ابھار کر علم کی معیشت میں منتقل کر رہے ہیں وہ ترقی کی راہ پر تیزی سے گامزن ہیں۔
تعلیم ایک مسلسل عمل ہے اس میں والدین اور تعلیمی اداروں کی ذمہ داروں کے لیے ضروری ہے کہ وہ طلباء کو معیاری تعلیم دینے کے لئے عصری تقاضوں کو مد نظر رکھیں۔ اسکول کی سطح پہ انٹرنیٹ پروگرامز کے ذریعے کسی بھی موضوع سے متعلق معلومات تعلیمی اسباق میں مدد لی جا سکتی ہے۔ ہماری تعلیمی پسماندگی کا بنیادی سبب یہی ہے کہ اسکولوں میں اب بھی مروجہ نصاب رائج ہے جب کہ یہ دور ایک بہترین طالب علم کی بنیاد رکھنے میں پہلا اہم قدم ہے۔ کہیں کہیں پرائیویٹ ادارے جدید طریقہ تعلیم سے استفادہ کر رہے ہیں مگر ان کا تناسب بہت کم ہے۔
نصاب کوحکومتی سطح پر تبدیلی کی اشد ضرورت ہے تا کہ تعلیم میں طبقاتی فرق ختم ہو سکے۔اس کے ساتھ جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے تعلیم کو اپ گریڈ کیا جائے۔ جیسے کہ google سرچ انجن کا کہنا ہے وہاں سب کچھ ملتا ہے۔کسی لفظ کے معنی دیکھنے ہوں، معلوماتی مضامین اور کسی موضوع کی ویڈیو یا پھر کسی موضوع کا کسی زبان میں ترجمہ چاہیے ہو، ہر چیز آپ کی دسترس میں ہے۔ والدین اساتذہ طلباء کی تعلیمی ویب سائٹس تک رسائی کو ممکن بنا کر ان کی رہنمائی کریں تو وہ انٹرنیٹ سے بہتر طور پر استفادہ کر سکتے ہیں۔
آج کل طالب علم جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ انٹرنیٹ ٹیلی ویژن اور سیل فون کے اچھے اور برے اثرات کے ساتھ تعلیمی میدان میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ان کے لئے علم کا خزانہ لائبریری ہوتی ہے۔انٹرنیٹ کے ذریعے ای کتابیں اور دنیا بھر کی لائبریریوں سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔سابقہ امتحانوں کے پرچے اورامتحان کی تیاری کا مواد حاسل کیا جا سکتا ہے اور تدریس کو عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق کیا جا سکتا ہے تاکہ آج کی ہماری نسل تعلیم میں کسی طرح پیچھے نہ رہیں۔
موجودہ انفارمیشن کے دور میں نوجوان اور نو عمر افراد ہمارے معاشرے کے اہم ارکان ہیں ہمارا آنے والا کل ہیں۔انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ارتقاء کے ساتھ یہ نوجوان بڑے ہوئے ہیں۔کل یہ وڈیوگیمز کھیلتے تھے اور اب آئی۔سی۔ ٹی کے دور میں جنم لینے والی نئی نسل نے اپنا علم اور توانائی جدید تصورات اور آن لائن ٹیکنالوجی پر مرکوز کر دیا ہے اور اکثر انفارمیشن ٹیکنالوجی میں نئی جدت لانے والے بیس سال سے کم عمر نوجوان ہیں۔
اس وقت اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ آئی ۔ سی۔ ٹی (انفارمیشن ٹیکنالوجی) تک رسائی عام طلباء کے لئے ممکن بنائی جائے۔ ان کی تربیت کے لئے ماہر اساتذہ موجود ہوں اس طرح نوجوان با اختیار ہو جائیں گے گھر بیٹھے تعلیم اور ملازمت کے مواقع سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔ آن لائن تعلیمی پروگراموں کے ذریعے ترقی یافتہ ملکوں کے نوجوانوں کی طرح معیاری تعلیم حاصل کر سکیں گے۔
ترقی کی سماجی تنظیم یوتھ ایسوسی ایٹ فار ہیپی ٹیٹ 1996ء ملک میں نوجوان نسل کو مستقبل کی ضروریات کے مطابق کمیونیکیشن اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں مہارت فراہم کر رہی ہے۔ ان کی تربیت کر رہی ہے اس وقت ترکی کے 13 شہروں میں یہ تربیت جاری ہے اور اب تک بہت سے افراد کو ٹیکنالوجی کی تربیت کے ساتھ ملازمت بھی مل گئی۔
تعلیم کسی بھی معاشرے کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ قوموں کی تعمیر ترقی خوشحالی اور استحکام کا عمل نظام تعلیم سے مشروط ہے۔حکومتوں کی تبدیلی اور سیاسی اختلافات سے بالاتر ہو کر مظبوط تعلیمی پالیسیاں بنائیں جاتیں ہیں اور ان پر عمل کرایا جاتا ہے۔اگر پاکستان کو ترقی کرنا ہے اپنی نئی نسل کی صلاحیتوں سے ملک کو معاشی ترقی کی راہ پر ڈالنا ہے تو سائنس اور ٹیکنالوجی کے بجٹ میں اضافہ کرنا ہوگا۔
ڈاکٹر عطاء الرحمن اپنے مضمون جدید ٹیکنالوجی اور نئی ایجادات میں لکھتے ہیں .سائنس اور ٹیکنالوجی کے اس دور میں تعلیمی معیار میں پاکستان کا شرح خواندگی کاکم تناسب تعلیمی زبوں حالی کا ثبوت ہے۔اس معاملے میں پاکستان ہمیشہ سے تنزلی کا شکار رہا ہے۔ افسوس کہ ہم خود ہی اپنے دشمن ہیں جدید ٹیکنالوجی نہ صرف آج کے نوجوان طلباء کی تعلیمی استعداد میں اضافہ کرتی ہے بلکہ انہیں ایک روشن مستقبل کی ضمانت دے کر انہیں ایک بلند معیار زندگی کو اپنانے کا موقعہ دیتی ہے۔ نہ صرف وہ زندگی کے صحیح راستے پر گامزن ہوتے ہیں بلکہ قوم کے لئے نشان راہ بن کر اسے عالمی افق میں ایک ممتاز مقام دلاتے ہیں کیونکہ وہی ملک کی پہچان بھی بنتے ہیں اور فخر بھی۔ان کی مناسب پرورش اور آبیاری سے آنے والے زمانوں میں یہ ایک نیا پر امن جہاں تعمیر کر سکتے ہیں۔

حصہ