بلیک چیف چیخا: ’’میرے پاس زیادہ وقت نہیں۔ میرا ہیلی کاپٹر یہ رصدگاہ تباہ کرنے آرہا ہے اور۔۔۔ اور اب میں ’’دس تک‘‘ گنتی گن رہا ہوں۔ یہ موت کی ’’دستک‘‘ ہے‘‘۔
’’حیرت ہے۔ تمہیں صرف دس تک گنتی آتی ہے!‘‘
’’نہیں۔۔۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ تمہاری زندگی میں صرف دس لمحے باقی رہ گئے ہیں پروفیسر خورشید‘‘۔
یہ کہہ کر بلیک چیف گنتی گننے لگا:
’’ایک۔۔۔ دو۔۔۔ تین۔۔۔‘‘
n n
’’دشمن کا ہیلی کاپٹر ہمارے نشانے پر ہے‘‘۔
’’چار۔۔۔ پانچ۔۔۔ چھ۔۔۔‘‘
’’یہ۔۔۔ یہ فائر کیوں نہیں ہورہا؟ لگتا ہے ہمارے ہیلی کاپٹر کا فائر سسٹم ناکارہ ہوگیا ہے‘‘۔
’’تو۔۔۔ تو کیا رصدگاہ تباہ ہوجائے گی۔۔۔‘‘
’’اے رب! ہماری مدد کر۔۔۔ ہمارا کنٹرول ٹاور سے رابطہ بھی نہیں ہورہا‘‘۔
’’میں نے ایک ناول پڑھا جو سائنس فکشن پر مبنی تھا، اس میں لکھا تھا کہ جب کسی اجنبی سیّارے سے کوئی خلائی جہاز زمین پر آتا ہے تو زمین کے ہوائی جہازوں یا ہیلی کاپٹروں کا کنٹرول ٹاور سے رابطہ ختم ہوجاتا ہے اور ریڈیائی لہروں کا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے‘‘۔
’’تو۔۔۔ تو کیا تمہارا مطلب ہے،کوئی خلائی جہاز میں فضا میں پرواز کررہا ہے! اور اگر ایسا ہے تو وہ ہمیں نظر کیوں نہیں آرہا۔۔۔؟‘‘
’’سات۔۔۔آٹھ۔۔۔نو۔۔۔‘‘ بلیک چیف نے یہاں تک گنتی گنی ہی تھی کہ کان پھاڑ دینے والا دھماکا ہوا۔۔۔ اتنا زوردار کہ دیواریں ہل گئیں اور بلیک چیف اُچھل کر دور جاگرا۔
وہ کراہتے ہوئے بولا: ’’یہ۔۔۔ یہ کیا تھا؟‘‘
’’قدرت کا کرشمہ۔۔۔‘‘ پروفیسر خورشید بولے۔ ’’ہمارا ملک اللہ کے نام پر بنا ہے اور تم لوگ کبھی اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہوسکتے‘‘۔
’’یہ۔۔۔یہ کیا؟ یہ ہماری آنکھوں کا دھوکا تو نہیں۔۔۔!‘‘
’’مجھے خود یقین نہیں آرہا۔ مگر دشمن کا ہیلی کاپٹر کیسے تباہ ہوا؟‘‘
’’یہ۔۔۔ یہ اللہ کی طرف سے غیبی مدد تھی۔ ہم نے اللہ سے مدد مانگی تھی ناں۔۔۔ وہ ضرور کوئی سبیل پیدا کرتا ہے‘‘۔
آسمان پر ہیلی کاپٹر واپس اپنی منزل کی جانب پرواز کررہا تھا۔۔۔ ایک ان دیکھی فتح کے ساتھ۔۔۔
n n
بلیک چیف کہہ رہا تھا: ’’پروفیسر! میں آخری بار سمجھا رہا ہوں۔ مجھے بتادو کہ وہ فائل کہاں ہے؟ میں یہاں سے ہر چیز حاصل کرسکتا ہوں۔ میرے لیے یہاں آنا بھی کچھ مشکل نہ تھا۔ میں نے یہاں آتے ہوئے ایک خاص مقام پر بم فٹ کردیا ہے، جس کا کنٹرول میرے پاس ہے، میری ایک انگلی کی حرکت سے یہ عمارت تباہ ہوجائے گی۔۔۔ سب جل کر خاک ہوجائیں گے۔۔۔ مجھے بتادو کہ فائل کہاں ہے۔۔۔آخری بار کہہ رہا ہوں‘‘۔
’’فائل میرے پاس ہے‘‘۔ ایک آواز اُبھری۔
بلیک چیف نے دروازے کی طرف دیکھا، جہاں بلیک کھڑا تھا۔ اس کے ہاتھ میں ایک فائل تھی۔
’’بلیک مائیکل! تم؟؟ مجھے تو اطلاع ملی تھی کہ تم یہاں قید ہو‘‘۔ بلیک چیف نے حیرت سے کہا۔
’’ہاں، کیوں کہ میں نے حافظ جان کو قتل کیا تھا۔ میں چاہتا تو بھاگ سکتا تھا، اور میں ابھی بھی آزاد ہوں۔ چوں کہ مجھے تمہارے خطرناک پروگرام کا اچھی طرح پتا تھا اس لیے میں نے وہ ہنر، جو تم نے مجھے سکھائے تھے، تمہارے ہی خلاف استعمال کیے، اور مجھے یقین تھا کہ تم خود یہاں آؤ گے، اس لیے میں نے خفیہ طریقے سے فائل نکال لی تھی۔۔۔‘‘
بلیک چیف فائل چھیننے کے لیے آگے بڑھا ہی تھا کہ سیکورٹی آفیسر اندر داخل ہوا، ساتھ ہی محافظوں نے بلیک چیف کو قابو میں کرلیا۔
’’اب تمہاری کہانی بلیک ہوگئی ہے بلیک!‘‘ سیکورٹی آفیسر خوشی سے چہکا۔
n n
اجنبی سیّارے سے ملنے والا پیغام قدرت کے سربستہ اسرار و رموز کی طرح پُراسرار ہی رہا۔ اعلیٰ سے اعلیٰ ماہرین فلکیات اس پیغام سے کوئی نتیجہ اخذ کرنے میں ناکام رہے۔۔۔ ہاں۔۔۔ البتہ۔۔۔ یونیورسل اسکیچ سے کچھ دور بلیک کے تباہ شدہ ہیلی کاپٹر کے پاس سے ایسے جہاز کے ٹکڑے ملے، جو خاص طور پر خلا میں بھیجنے کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ یونیورسل اسکیچ کے ماہرین متفق ہیں کہ اس جہاز کا ماڈل زمین پر نہیں بنایا جاسکتا اور بلیکس کا ہیلی کاپٹر اجنبی سیّارے سے زمین پر آنے والے خلائی جہاز ہی سے ٹکراکر پاش پاش ہوا تھا۔
اس جہاز کے ٹکڑے اور وہ فائل بہ طور یادگارآج بھی یونیورسل اسکیچ میوزیم میں موجود ہیں اور رب العزت کے نام پر بنائی جانے والی مملکتِ خداداد آج بھی قائم ہے اور ہمیشہ قائم رہے گی، ان شاء اللہ!!
n n