خاص الخاص ایجادات پیٹنٹ کرنے والی ایک مشہور امریکی کمپنی کا ڈائریکٹر اپنی ڈاک دیکھ رہا تھا کہ اس کی نظر ایک ایسے خط پر پڑی، جس پر پاکستانی پرچم والا ڈاک ٹکٹ چھپا تھا۔ اس نے خط پلٹا تو دوسری طرف خان نامی سائنس داں کا نام جگمگا رہا تھا۔ ’’اس ملک کے مایہ ناز سائنس داں ڈاکٹر خان کو تو ہم نے سائیڈ لائن کراکے ان کے تمام سائنس دانوں پر خوف کی ایک لکیر کھینچ دی ہے، اب یہ دوسرا خان کون آگیا؟‘‘ وہ بڑبڑایا اور پھر خط چاک کرکے پڑھنے لگا، لکھا تھا:
’’پاکستان، 26 فروری 2018ء
محترم ڈائریکٹر صاحب!
آداب عرض کرتا ہوں۔ میرا نام پروفیسر خان ہے، میرا تعلق پاکستان سے ہے۔ میں ایک حقیر سا سائنس داں ہوں۔ میں نے ایک نہایت اہم مشین ایجاد کی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ میری مشین میرے ملک کے نام سے پیٹنٹ کردیں۔ یہ ایک معرکۃ الآرا مشین ہے اور میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ اس جیسی مشین آج تک کوئی بھی سائنس داں نہیں بناسکا اور نہ بنا پائے گا۔ اگر آپ اسے دیکھنے اور اس کی آزمائش کرنا چاہتے ہیں تو میں آپ کو پاکستان میں خوش آمدید کہوں گا۔
آپ کی آمد کا منتظر۔۔۔
پروفیسر خان‘‘
’’پاکستان میں تو کام کے دو ہی خان ہیں، ایک ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور دوسرا سرپھرا عمران خان، جو اپنی قوم سے مخلص ہے، یہ تیسرا قوم کا ہمدرد خان کہاں سے آگیا، جو اپنی اہم ایجاد اپنے نام کرانے کے بجائے ملک وقوم کے نام کرانا چاہ رہا ہے؟ آخر اس پاکستانی نے ایسی کیا چیز ایجاد کرلی ہے، جو آج تک کوئی بھی سائنس داں نہیں بناسکا۔ میرے خیال میں مجھے چل کر یہ مشین دیکھنی چاہیے اور ساتھ ہی اپنے قابل ذکر دماغوں کو بھی پاکستان لے جاکر اس کا معائنہ کرانا چاہیے۔‘‘ ڈائریکٹر بڑبڑایا، پھر ایک فیصلہ کرنے کے بعد اس نے چوٹی کے چند سائنس دانوں کو ساتھ لیا اور اپنے خاص طیارے میں پاکستان پہنچ گیا۔
ان لوگوں کے پاکستان پہنچتے ہی نوکرشاہی کی سانسیں اوپر نیچے رہ گئیں۔ وہ سمجھے کہ اہم لوگ شاید شکیل آفریدی جیسے غدار کو لینے یا اسے اپنی وفاداری کا گولڈ میڈل دینے آئے ہیں، لیکن جب انہیں پتا چلا کہ وہ پاکستان کے ایک معمولی سے سائنس داں سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں تو سب کی سانسیں واپس آئیں۔ خیر، سائنس کے شعبے سے تعلق رکھنے والے چند افراد کی ذمے داری لگائی گئی کہ وہ ملاقات کا انتظام کریں۔ اس ملاقات سے پہلے ان خاص امریکیوں کو شہرِ قائد کے خاص مقامات کی سیر کروائی گئی، پھر پروفیسر خان کے پاس لے جایا گیا۔ ’’ہٹو بچو‘‘ کے شور میں سرکاری اہل کاروں کی حفاظتی گاڑیاں امریکی سائنس دانوں کی بلیک مرسڈیز کو اپنے حصار میں لے کر ایک ایسی کچی آبادی میں داخل ہوئیں، جہاں کی گلیاں بے حد تنگ تھیں اور جگہ جگہ گندگی اور کچرے کے ڈھیر اپنی بہار دکھا رہے تھے۔ گٹروں سے گندا پانی ہر گلی میں بہہ رہا تھا اور ماحول بہت زیادہ متعفن ہورہا تھا۔ ساری گاڑیاں ایک پرانے گھر کے سامنے آکر رُکیں تو بستی کے سارے لوگ اپنے اپنے گھروں میں دُبک گئے۔ ڈاکٹر خان کی گلی کو حفاظتی اہل کاروں نے گھیرے میں لے لیا تھا، کوئی گلی میں آسکتا تھا، نہ جاسکتا تھا۔ یہ اقدام امریکی سائنس دانوں کی حفاظت کے لیے کیا گیا تھا۔ جب کہ اہلِ محلہ سمجھ رہے تھے کہ شاید ڈاکٹر عبدالقدیر خان یا حافظ سعید کی طرح ڈاکٹر خان کو بھی پاکستان سے محبت کی سزا ملنے والی ہے۔ ایک سپاہی نے دروازہ کھٹکھٹایا تو پروفیسر خان باہر آئے اور پھر سب امریکیوں کو اپنے ساتھ گھر میں لے گئے۔ معمولی سا گھر تھا اورگھر کی سفید پوشی امریکیوں کو حیران کررہی تھی۔ پروفیسر صاحب امریکیوں کو ایک ایسے کمرے میں لے گئے، جہاں ایک بڑی بھاری بھرکم سی لوہے کی مشین رکھی تھی، لگ رہا تھا شیرشاہ کے کباڑ بازار کی کوئی پرانی مشین ہے۔ اس کے فرنٹ پر شیشے کی ایک خوب صورت اسکرین روشن تھی، جیسے کسی بڑے سے کمپیوٹر کی اسکرین ہوتی ہے۔ اسکرین کے نچلے حصے میں بے شمار رنگ برنگے بٹن جگمگا رہے تھے۔ پروفیسر خان نے ایک دو بٹنوں کو چھیڑا اور کہا: ’’میں آپ تمام لوگوں کا مزید وقت نہیں لوں گا۔ اب جو حیرت انگیز تجربہ دکھانے والا ہوں، آپ لوگ اُس پر یقین نہیں کریں گے، لیکن آپ کو کرنا پڑے گا، آئیے، اس میں بیٹھ کر صرف پندرہ منٹ میں بھارت پہنچتے ہیں۔‘‘
’’یہ بھلا کیسے ممکن ہے؟‘‘
’’بالکل ممکن ہے، کیوں کہ اِسے میں نے بنایا ہے۔‘‘
’’بھارتی سرحد پر پہنچ کر دیکھوکہیں مروا نہ دینا، وہ تمہاری سرحدوں پر آئے دن فائرنگ کا بازار گرم رکھتے ہیں۔‘‘
’’ڈریں نہیں، آپ بیٹھیں تو، کسی بھارتی کی ہمت نہیں کہ وہ ہم پر فائر کھولے، یہ مشین سیدھی قصرِ مودی میں اُترے گی اور آپ لوگوں کی دوستی کی وجہ سے وہ ہمیں کچھ نہیں کہے گا۔ ہمارے حکم رانوں کی طرح وہ بھی تو آپ کی سرکار کی ہر ہر بات مانتا ہے۔‘‘
امریکی سائنس داں ڈرتے ڈرتے مشین میں داخل ہوگئے۔ سب کے اندر آنے کے بعد مشین کا دروازہ خود بند ہوگیا۔ پھر شوں شوں کی آواز آئی اور پندرہ منٹ کے انتہائی قلیل دورانیے میں سب مودی کے محل کے لان پر تھے۔ وہاں کے اہل کار ایک مشین نما جہاز کو دیکھ کر حیران و پریشان ہورہے تھے کہ یہ کیا بلا وزیراعظم ہاؤس میں گھس آئی ہے؟ سب بھاگ لیے، مودی کو پتا چلا تو وہ محل میں کہیں چھپ گیا۔ جب اس میں سے امریکی سائنس داں فون کرتے ہوئے باہر نکلے تو مودی کی جان میں جان آئی۔
اسی وقت پروفیسر خان نے بٹن دبایا تو مشین اچانک دوبارہ امریکیوں کو لے کر پاکستان کی طرف روانہ ہوگئی۔
پروفیسر خان امریکی سائنس دانوں اور ڈائریکٹر کو چاند کے علاوہ گزرے ہوئے زمانوں میں بھی لے گئے اور ان سب کو اس کرشماتی مشین سے حیرت زدہ کیے رکھا۔ اچانک ڈائریکٹر کے دماغ میں کوئی خیال آیا، کہنے لگا: ’’کیا یہ مشین ہمیں دوسو سال بعد کا زمانہ دکھاسکتی ہے؟‘‘
پروفیسر نے کچھ خاص بٹن دبائے تو وہ دو سو سال بعد کے زمانے میں پہنچ گئے۔ ہر سُو ترقی کا دور دورہ تھا، آسمان پر گاڑیاں دوڑ نہیں بلکہ اُڑ رہی تھیں اور تمام کاروبارِ زندگی کاکنٹرول روبوٹوں نے سنبھالا ہوا تھا۔ کہیں بھی لوگوں کو ٹریفک جام کی تکلیف کا سامنا نہیں تھا۔ سب نے دیکھا کہ ہر گھر میں روبوٹس موجود ہیں، جو انسانوں کی طرح ان کے سارے کام کررہے ہیں۔
تمام امریکی سائنس داں پروفیسر خان سے بڑے مرعوب نظر آرہے تھے، جب کہ امریکی ڈائریکٹر اس تمام تر مشاہدے کے درمیان کسی گہری سوچ و بچار میں گم تھا، کہنے لگا : ’’اب آپ ہمارے سائنس دانوں کو اس مشین کو آپریٹ کرنا سکھائیں گے اور ساتھ ہی اس جیسی مزید مشینیں بھی بناکر دیں گے، اگر آپ ہمارا ساتھ دیں گے تو ہم آپ کو آپ کے وزیراعظم اور امیر صدور سے بھی کہیں زیادہ امیروکبیر بنا دیں گے۔‘‘
پروفیسر خان نے نفی میں کہا: ’’مجھے کسی پائی پیسے کا لالچ نہیں، میں نے تو یہ مشین اپنے ملک، اپنی قوم کے لیے بنائی ہے۔‘‘
’’ارے میاں، اپنے سیاست دانوں کی طرح بھاڑ میں ڈالو اس ملک وقوم کو۔۔۔ دیکھتے نہیں، تمہارے ملک کے اکثر سیاست داں ہماری خدمت کرکے کتنے سکون میں ہیں، ایک ہمارے ملک میں تمہارا سفیر لگا تھا، اس نے تمہارے ملک کی نمائندگی کرنے کے بجائے ہمیشہ ہماری نمائندگی کی۔ تم لوگوں نے تو اسے سفارت سے ہٹادیا، لیکن ہم نے نہیں ہٹایا، وہ آج بھی ہمارے ملک میں ایک سفیر جیسے مزے لوٹ رہا ہے۔ تم اپنے ایک سابق صدر ہی کو دیکھ لو، ہمیں اس کے سارے کالے کرتوت معلوم ہیں، لیکن چوں کہ وہ ہمارے کام کرتا ہے، اس لیے تم خود دیکھ لو، کتنے مزے سے کسی اور ملک میں بیٹھ کر اپنی حکومت چلا رہا اور مال بنارہا ہے۔ وہ اس ملک میں آتا بھی ہے اور تمہاری اینٹ سے اینٹ بجاکر چلا بھی جاتا ہے، تمہاری حکومت کی مجال نہیں کہ اسے گرفتار کرنا تو کجا، ہاتھ لگاکر بھی دکھادے۔ یاد رکھو، ہم جس پر ہاتھ رکھ دیں، دنیا اس کے لیے جنت بن جاتی ہے اور جس سے۔۔۔‘‘
پروفیسر خان نے بات کاٹ کر کہا: ’’اور جس سے ناراض ہوجائیں، اسے پتھروں کے ڈھیر میں تبدیل کردیتے ہیں، آپ لوگوں کی اسی دھمکی سے مرعوب ہوکر ہمارے ایک صدر لیٹ گئے تھے اور ہر وقت لیٹے رہنے سے ان کی ریڑھ کی ہڈی کے مہرے تک ہل گئے ہیں اور وہ بے چارے ان مہروں کے علاج کے لیے آج بھی ملکوں ملکوں مارے مارے پھررہے ہیں۔‘‘
’’شاباش، تم سمجھ گئے، عقل مند انسان لگتے ہو۔‘‘
’’لیکن یہ مشین میری نہیں، اس ملک، اس قوم کی ہے، اس لیے اسے۔۔۔‘‘ یہ سُن کر ڈائریکٹر کا لہجہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح درشت ہوگیا: ’’دیکھو غریب پروفیسر، یہ مشین تمہارے اس پس ماندہ ملک اور اس کی گنوار قوم کے کسی کام کی نہیں، اس سے صرف ہمارا ترقی یافتہ ملک اور ہمارے پڑھے لکھے افراد ہی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ تم سیدھی شرافت سے اسے ہمارے حوالے کردو، ورنہ ہمیں لینے کے اور بہت سے طریقے آتے ہیں۔‘‘
پروفیسر خان نے متکبر ڈائریکٹرکی دھمکی پر کچھ غور کیا، پھر بڑی خوش دلی سے کہا: ’’میں تو معمولی پاکستانی ہوں، ہمارے صدور، وزیرِاعظم، آرمی چیف جیسے ’’بڑے‘‘ آپ کی مرضی کے بغیر کام نہیں کرتے تو پھر میری کیا مجال۔۔۔ میں اس کی ہر چیز آپ کو بتادوں گا، اب آپ میری صرف ایک بات مان لیں، وہ بات یہ ہے کہ یہ مشین صرف اللہ کے بندوں کی بات مانتی ہے۔‘‘
’’یہ کیا بات ہوئی؟‘‘
’’آپ سب میرے ساتھ عربی میں پڑھیے:
اللہ ایک ہے اور محمدؐ اس کے بندے اور رسول ہیں۔۔۔‘‘
’’تو تم ہمیں مسلمان کرنا چاہتے ہو۔۔۔!‘‘
’’بالکل، کیوں کہ جب تک آپ اللہ کے بندے نہیں بنیں گے، یہ مشین آپ کو فائدہ نہیں پہنچا سکے گی۔‘‘
’’یہ کبھی نہیں ہوسکتا، تم پاکستانی ہمارے غلام ہو اور ہم غلام ابنِ غلاموں کی بات بھلا کیسے مان سکتے ہیں۔۔۔!‘‘ ایک سائنس داں نے چیخ کر کہا۔
لیکن ڈائریکٹر مُسکرایا، اس کے چہرے پر ایک شیطانی مسکراہٹ دوڑنے لگی تھی۔ اس نے چِلّانے والے سائنس داں کو آنکھ ماری اور پروفیسر خان سے کہا: ’’ہمیں اس مشین کے ذریعے پوری دنیا پر حکومت کرنی ہے۔۔۔ پروفیسر، تم اپنا کلمہ دہراؤ، ہم سب تمہارے ساتھ مل کر پڑھیں گے۔۔۔‘‘
پروفیسر خان نے عربی میں پڑھنا شروع کیا اور سب ان کی آواز میں آواز ملانے لگے: ’’اللہ ایک ہے۔۔۔‘‘ اس عمل کے دوران ان سب کو ایک شیطانی آنکھ سیٹلائٹ پر دیکھ رہی تھی۔
جب سارا عمل مکمل ہوگیا تو چیف اور سارے سائنس داں مشین کے اندر بیٹھ گئے۔ اب پروفیسرخان نے سب کو بائے بائے کہتے ہوئے ہاتھ ہلایا اور نیچے اُترگئے۔ ڈائریکٹر نے مشین چلانے کے لیے ایک بٹن پر ہاتھ رکھا توشوں شوں کی آواز آئی اور مشین پندرہ منٹ میں امریکا پہنچ گئی۔ ائیرپورٹ پر اُترنے سے پہلے ڈائریکٹر نے اپنے سرپھرے صدر کا نمبر ملایا اور ایک عجوبۂ روزگار مشین لانے کی خوش خبری سنائی۔ خوف میں ڈوبے، سرپھرے امریکی صدر نے ساری تفصیل سننے کے بعد کہا:
’تم سب لوگ ابھی اندر ہی رہنا، مشین سے باہر نہیں آنا۔۔۔‘‘ پھر اس نے ائیرپورٹ کے انٹیلی جینس آفیسر کا نمبر ملایا اور بدحواس لہجے میں اسے حکم دیا:
’’اس مشین میں جو امریکی ہیں، وہ مسلمان ہوگئے ہیں، اُڑادو انہیں۔۔۔ ہمیں غدار نہیں چاہئیں۔۔۔‘‘
’’ٹھیک ہے سر، ایسا ہی ہوگا۔۔۔‘‘ آفیسر نے تابعداری سے کہا۔
ڈائریکٹر سمیت، تمام امریکی سائنس داں مشین سے اُترنے کا انتظار کررہے تھے اور سوچ رہے تھے کہ دیر اس لیے ہورہی ہے کہ امریکی صدر ان کا استقبال کرنے بنفس نفیس خود آرہا ہے، لیکن ان کا استقبال ایک زوردار دھماکے سے ہوا۔ ٹائم مشین پر ایک گولہ آکر لگا، وہ دو ٹکڑوں میں بٹ گئی اور شعلوں میں گھرکر چند ہی لمحوں میں متکبر امریکی سائنس دانوں کے ساتھ راکھ کا ڈھیر بن گئی!!
ادھر ڈائریکٹر کا حکم اس مرکز کی اسکرین پر چل رہا تھا، جہاں سے گولہ داغا گیا تھا، اسکرین پر لکھا جملہ آسانی سے پڑھا جاسکتا تھا، لکھا ہوا تھا:
’’امریکی سائنس دانوں نے اسلام قبول کرلیا ہے اور ہم کسی مسلمان کو امریکا میں داخل نہیں ہونے دیں گے!!‘‘
nn