(وطن کو ہم نے سنوارنا ہے(عالیہ زاہد

272

(انعام یافتہ مضمون)
وطن کی تعریف پوچھنی ہو تو کسی بے وطن سے پوچھیے، بلکہ دور کیوں جاتے ہیں، وطن کی تعریف پوچھیے شام کے مہاجروں سے، ایلان کردی کی پانی میں نیلی پڑی لاش سے، مصر و فلسطین کے خونچکاں مرغزاروں سے، کشمیر کے لالہ زاروں سے کہ وطن کی اہمیت کیا ہے۔ آزاد وطن آج کے دور کا اور ہر دور کا لازوال تحفہ ہے۔
وطن کی آزادی پر ہجرت کرنے والوں کو دیکھنا چاہیں تو جائیں تاریخ کے جھروکوں میں جاکر مکہ کے ریگزاروں پر آبلہ پا سفرِ صحرائی کو دیکھیں، حبشہ کی ہجرت کو دیکھیں، طائف کی گلیوں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر تشدد کو دیکھیں تو وطن کی اہمیت خود ہی سمجھ میں آجائے گی، اور پھر وطن کو سنوارنے کا جذبہ بھی ابھرے گا۔ ایک بھرے پیٹ والے کو آپ بریانی کا لالچ دیں یا قورمے کا، یا موجودہ دور کے فاسٹ فوڈز کی چین پر ہی لے جائیں، اُس کا من کھانے پر آمادہ ہی نہیں ہوگا۔ ان نعمتوں کی قدر سڑک کے کنارے لوگوں کو کھاتے دیکھ کر ہی پیٹ بھرنے والے بچوں سے پوچھیے جو ہر ایک سے کہتے نظر آتے ہیں ’’صاحب کھانا کھلاؤ گے۔۔۔؟‘‘ اور صاحب کہتے ہیں ’’ہونہہ، یہ لوگ تو روز ہی اس طرح مانگ مانگ کر کھا لیتے ہوں گے۔۔۔ بیٹا کھڑکی کا شیشہ اوپر کردو ورنہ یہ لوگ جان نہیں چھوڑیں گے۔‘‘
ہر کسی سے ایسی پھٹکار سننے والے، بھوکے لبوں پر جمی پپڑی کو زبان سے تر کرنے والے جب رات کو بے اماں گلیوں میں اینٹ کے تکیوں پر سوتے ہیں تو بھوکے پیٹ کے خواب میں پیاز کے ساتھ سوکھی روٹی کا تصور ہی بھلا لگتا ہے۔ ایسے میں بریانی اور قورمے کی بات ہی چھوڑ دیجیے۔ اسی طرح کی بھوک اور وہ بھی وطن کی بھوک، آزاد وطن کی بھوک آج برما، شام، کشمیر اور فلسطین کے ہر کوچہ و بازار میں بال بکھرائے وحشت زدہ عوام کے چہروں پر نظر آتی ہے۔ یہ سب منظر دیکھ کر ہی وطن والے اگر اپنے آزاد وطن کی قدر و قیمت کو پہچان لیں اور اسے سنوارنے کا عزم مصمم کرلیں تو کوئی وجہ نہیں کہ وطن سنور نہ سکے۔ گھروں میں اپنے بچوں کے ’’لیک پاجامے‘‘ دھونے والی مائیں پاناما لیکس پر بھی توجہ دے لیں تو شاید یہ وطن ان کی درست ووٹنگ سے سنور جائے۔
کاش ہماری عورت یہ سمجھ جائے جو یاجوج ماجوج کی طرح روز اپنے اپنے گھر کے در و دیوار کو تو چمکا رہی ہے مگر گھر کا سارا کچرا باہر گلی میں پھینک دیتی ہے، جو ہمارے بے چارے ملزم، اوہ معاف کیجیے گا، میئر صاحب کے لیے وبالِ جان ہے۔ خیر وطن کو ہم نے اُن کے کہنے کے مطابق اگلے 100 دن تک سنوارنا ہے، یعنی پھر اگلے 265 دن گویا بگاڑنا ہے۔ بھئی تفصیلی بات کیا کریں ناں، مجھ جیسی ناقص عقل والوں نے تو اس کو یوں سمجھا تھا کہ 100 دن صفائی کے اور 265 دن ناصفائی کے (اب گندگی کہتے ہوئے بھی تو شرمندگی ہوتی ہے ناں)۔ وطن کو سنوارنے کی بات تو ہماری بی بی بے نظیر کا بیٹا بھی خوب کرتا ہے۔ اتنی زیادہ سنوارنے کی باتیں میں نے اور کہیں نہیں سنیں جتنی اس ’’بچے‘‘ کے منہ سے سنی ہیں۔ وہ تو وطن کو سنوارنے کی فکر میں اتنا ہلکان ہے کہ اس نے مندروں میں جاکر ہندو بھائیوں کے بتوں کو بھی دودھ سے نہلا کر سنوار دیا ہے۔ کاش اتنی فکر ہمارے مولانا فضل الرحمن کو بھی ہوجاتی وطن کو سنوارنے کی تو نوازشریف صاحب کی لبرل پالیسیوں کی مخالفت کرکے انہیں کچھ سمجھاتے، تاکہ اسلامی شقوں کے بارے میں اربابِ اختیار کے ذہن صاف و شفاف ہوجاتے۔
ایک ہمارے چودھری نثار صاحب ہیں جو اسحاق ڈار صاحب کے دیے گئے معاشی غم غلط کرنے کو آئے روز عوام کی پریس کانفرنسوں کے ذریعے بھل صفائی کرتے رہتے ہیں۔
خیر ہمیں ان سب سے کیا! ہمیں تو اپنے وطن کو سنوارنا ہے تاکہ حشر کے میدان میں خالقِ کائنات کے سامنے سرخرو ہوسکیں، جہاں مجھ سے ان اشخاص کے بارے میں سوال نہ ہوگا کہ انہوں نے کیا کیا۔۔۔ مجھ سے سوال ہوگا کہ تم نے کیا کیا اور کیا کرسکتے تھے۔ مجھے وطن کو سنوارنے کے لیے برائیوں سے نیکیوں کی طرف ہجرت کرنی ہوگی۔ اہل افراد کو امانتیں سپرد کرنے کی روش کی جانب ہجرت کرنی ہوگی۔ اللہ کے بندوں کو اللہ سے ملانے کی کوشش کے لیے ہجرت کرنی ہوگی۔ اللہ کی زمین پر اللہ کے نظام کو نافذ کرنے کے لیے کرپٹ نظام کے خلاف امانتوں کے راستوں پر ہجرت کرنی ہوگی۔ اگر مجھے اپنے بچوں کو شام، مصر، برما، فلسطین اور کشمیر جیسے حالات سے بچانا ہے تو پھر وطن کو اپنے سنوارنا ہے۔۔۔ اٹھیں میرا ساتھ دیں گے ناں؟
nn

حصہ