(انعام یافتہ کہانی)
زندگی کے ماہ و سال، جہاں انسان کو آزمائشوں سے گزارتے ہیں، وہیں کہیں کچھ تجرباتِ زندگی بڑے سبق آموز بھی ہوتے ہیں، جو بقایا زندگی میں ہمارے لیے رہبری کرتے ہیں۔۔۔ چاہے جس وقت وہ واقعہ وقوع پذیر ہوا ہو، ہمارے لیے تکلیف کا باعث ہی رہا ہو۔
اسی طرح کا ایک واقعہ میرے بچپن کا بھی ہے۔ میرے نانا، دادا کا تعلق انڈیا سے تھا، پاکستان بننے کے بعد تکالیف و قربانیاں دے کر ہجرت کرنے والوں میں ان کے گھرانے بھی شامل تھے۔ اسی نسبت سے لوگ ہمیں بھی مہاجر ہی کہتے ہیں۔ ویسے میری پیدائش کراچی کی ہے اور میری والدہ بھی کراچی ہی میں پیدا ہوئیں۔ سو، میں اپنی نسبت انڈیا کے مقابلے میں پاکستان سے جوڑنا پسند کرتی ہوں۔ والد چوں کہ ڈھاکا میں پیدا ہوئے، سو انہوں نے اور ان کے خاندان (میرے ددھیال) نے ہجرت کے مصائب کا دو دفعہ سامنا کیا اور بے سرو سامانی کی حالت میں اُس وقت اپنے پاؤں جمانے کے لیے نئے سرے سے محنت کی۔ بہرحال، لوگ ہمیں ’’اردو بولنے والے‘‘ کہتے ہیں اور یہی ہماری شناخت ٹھیری۔ کراچی جہاں اردو بولنے والوں کا مسکن اور بڑی پناہ گاہ تھا، وہیں ہر بڑے شہر کی طرح باقی شہروں کے رہنے والوں کے لیے بھی روزگار کا بڑا ذریعہ تھا۔ یہ واقعہ جس دور کا ہے، اُس وقت بھی یہ مشہور تھا کہ کراچی کی سڑکوں پر کوئی بھوکا نہیں سو سکتا، یعنی ہر محنت کرنے والے کے لیے روزگار مہیا ہے۔
یہ واقعہ نومبر 1986 کا ہے، جب کراچی پر ملک دشمن ایجنٹوں کا داؤ چل گیا اور شہر بھر میں مہاجر، پٹھان فسادات کی لہر دوڑ گئی۔
میرے والد سرکاری ملازم تھے اور ہم پٹیل پاڑہ سے ملحق گورنمنٹ کوارٹرز میں رہائش پذیر تھے۔ میری عمر فقط پونے پانچ سال اور میری چھوٹی بہن کی دو روز بعد دوسری سال گرہ تھی۔ ابو آفس سے ہی کچھ گھبرائے ہوئے آئے اور امی کو بتایا کہ ’’آفس میں موجود ان کے سندھی دوستوں نے خبر دی ہے کہ آج کل ہر اُس جگہ جہاں مہاجروں کی آبادی کم ہے، پٹھان دھاوا بول دیں گے، اب ہم تو یہاں ’’انہی‘‘ میں گھرے ہوئے ہیں۔ سب خبردار کررہے تھے، مگر میں نے کہا کہ ہمارے پرانے پڑوسی ہیں، ایسی کوئی بات نہیں ہے۔‘‘
ابو خبر سنانے کے ساتھ ساتھ تسلّی بھی دے رہے تھے، مگر میں امی ابو دونوں کے چہروں سے اندازہ لگانے کی کوشش میں تھی کہ خوف زدہ ہونے والی کیا بات ہے؟
تھوڑی دیر گزری ہوگی کہ ہمارے برابر والے جاوید بھائی ابو کے پاس آئے اور بتایا کہ ہمارے پچھلے دروازوں پر کوئی چاک سے کراس (X) کا نشان لگا گیا ہے۔ ’’عجیب حالات ہیں، کچھ معلوم نہیں کیا ہونے والا ہے‘‘۔ وہ تو کہہ کر اپنے گھر چلے گئے مگر ابو نے دروازہ سختی سے بند کرلیا۔ نہ گھر میں فون تھا نہ موبائل کا زمانہ۔۔۔ کم سن بچیوں اور پردہ دار بیوی کو تنہا چھوڑ کر کسی کو خبر کرنے یا کہیں جانے کا سوچنا بھی اُس سرد شام میں محال تھا۔ امی ابو نے احتیاطاً ایک ضروری سامان تیار کرلیا، مگر کہیں نکلنے کے بجائے گھر کے دروازے بند کرکے اللہ توکل پر بیٹھ گئے۔ امی ابو کو ہر معاملے کی طرح اِس مشکل گھڑی میں بھی برابر تسلّی دے رہی تھیں کہ کوئی قوم بری نہیں ہوتی، اب ایسا بھی نہیں کہ یہاں سب لوگ ہی بلوائی بن جائیں۔ ابو بھی بظاہر مطمئن نظر آنے کی کوشش کرنے لگتے، مگر درپردہ ذہن میں ڈھاکا کی وہی تصویر گھومنے لگتی جب اپنوں سے ہی زخم کھا کر چُور چُور یہاں پہنچے تھے۔
رات ابھی شروع ہی ہوئی تھی، ہمیں تو امی نے روٹی چائے میں کھلا کر سلا دیا تھا، کہ پچھلے دروازے پر، جو پٹیل پاڑہ میں ہی کھلتا تھا، کھٹ پٹ، اور لوگوں کی آوازیں آنے لگیں۔ ابو نے جو دروازے کی جھری سے جھانکا تو بالکل سامنے گھر والا بخت خان اپنی چارپائی گھر سے نکال کر ہمارے دروازے پر بچھا رہا تھا، ساتھ ساتھ دوسروں کو ہدایت دے رہا تھا کہ ’’بس یہ تین مکان ہیں، میں نے نشان مار دیا ہے۔‘‘
ابو صدمے سے مڑے اور امی کو دبی آواز میں بتایا ’’یہ بخت خان میرے سامنے میرا کتنا احترام کرتا ہے۔‘‘
امی نے ابو کے کندھے پر ہاتھ کر تسلّی دی اور اپنی انگلی ہونٹوں پر رکھ کر اشارہ دیا کہ دروازے پر بات کرنا مناسب نہیں۔
ابو اور امی دروازے سے لگے چپ چاپ دیکھتے رہے۔ آس پڑوس کے دیرینہ مراسم والے پڑوسی نکل کر چارپائیاں گلی میں بچھاتے رہے، گویا گھیرا ڈال رہے ہوں۔ بخت خان نے اپنے بستر پر کافی اسلحہ رکھ کر اسے چادر سے ڈھانک دیا تو امی ابو کی پریشانی سوا ہوگئی، اور کچھ نہ سوجھا تو گھر کی بھاری میز کو دروازے سے اندر کی طرف لگادیا کہ کچھ تو مزاحمت ہو۔ گویا دروازے کی وہ جھری جس سے ابو باہر جھانک سکتے، بند ہوگئی، مگر بڑھتی رات خوف میں اضافے کا ہی باعث بن رہی تھی۔ میں میز کی کھٹ پٹ سے اٹھ چکی تھی۔ آج تیس سال پرانے اس واقعے کو سوچتی ہوں تو ساتھ ہی آنکھ کھولتے ہی خوف کا جو پہلا احساس تھا، وہ بھی ساتھ ہی جاگ جاتا ہے۔
رات کے ڈھائی بجے تھے کہ ہمارے دوسرے دروازے پر زور سے دستک ہوئی، ابّو کے کچھ جاننے والے جو گورنمٹ کوارٹرز سے خاصا دور رہتے تھے، وہ رات کے آخری پہر فرشتہ بنے چلے آئے تھے۔
’’ہاں ہاں آپ لوگ آجائیں۔۔۔‘‘ ابو نے امی کو کہا۔ ساتھ ساتھ بیگ اٹھایا ’’دولہا بھائی! آپ بھی آجائیں، کچھ روز بعد معاملہ ٹھنڈا ہو تو آجایئے گا، حالات ایسے نہیں کہ آپ اکیلے یہاں ٹھیر سکیں‘‘۔ ابوکو حالات کی سنگینی کا اندازہ تو تھا ہی، پچھلے دروازے پر ابھی خاموشی تھی مگر۔۔۔ سو ابو بھی اس غیبی مدد پر شکر ادا کرتے گاڑی میں بیٹھ گئے۔
واقعہ یہ نہیں تھا۔۔۔ واقعہ تو یہ ہوا کہ جب ابو چند روز بعد اپنی نوکری کی مجبوری کے باعث گھر لوٹے تو سب سے پہلے بخت خان دروازہ کھٹکھٹانے آپہنچا۔
’’کیا ہوا صاحب؟ آپ کہاں چلے گئے تھے؟ میں روز سویرے بھی آتا، شام بھی آتا۔‘‘
میرے ابو دل میں کینہ رکھنے والے آدمی نہیں ہیں اور نہ ہی دو رُخے لوگوں کو پسند کرتے ہیں، سو تیزی میں جواب دیا: ’’حالات ایسے نہیں رہے کہ یہاں رہتے، بچوں کو ننھیال بھیج دیا ہے، میری تو مجبوری ہے، وہاں سے دفتر آنا جانا مشکل ہے، آخر کمائیں گے تو اپنے بچوں کی روزی روٹی کریں گے۔‘‘
’’صاحب کیا بات کررہے ہو، حالات؟ کیسے حالات۔۔۔؟ ہمیں تو جب سے معلوم ہوا ہے کہ بدمعاش لوگ گھروں پر حملے کرنا چاہتے ہیں تب سے تمہارے دروازے پر چارپائی ڈالے سورہا ہوں، ہمارا اپنے گھر میں سونا حرام ہے جب تک کہ ہمارا پڑوسی خوف میں ہو۔ میں تو سارا سامان (اسلحہ) لے کر سوتا ہوں، کوئی بدمعاش کا بچہ اِدھر آکر تو دیکھے اور میں کیا، پورا محلہ چارپائیاں لے کر گھر سے گلی میں نکل آیا تھا، وہ تو میں نے ہی بھیجا کہ ان تین گھروں کی حفاظت کے لیے تو میں اکیلا ہی کافی ہوں۔ آپ بال بچوں والے شریف آدمی ہو صاحب، بڑے لوگ ہو، آپ کو کوئی تکلیف نہیں ہونے دیں گے‘‘۔ بخت خان تو جذباتی ہوگیا تھا، اونچی آواز میں بولتا ہی چلا گیا۔
امی ابو کئی سال اپنے غلط گمان پر شرمندہ رہے۔ اللہ نے پردہ رکھ لیا کہ انہوں نے اُس سے کوئی دل دُکھانے والی بات نہ کہی۔
ہم دونوں بہنوں کے بعد اللہ نے امی ابو کو ایک بیٹا بھی عطا کیا۔ ہم تینوں نے اپنا بچپن، لڑکپن وہیں گزارا، لیکن اب حالات بدل گئے ہیں۔ میں پہلے سے بہتر علاقے میں رہتی ہوں، لیکن اپنی بیٹی کو گلی کے ہی دوسرے گھر یا کونے پر دکان جانے کی اجازت نہیں دے سکتی، جب کہ ہم تینوں بہن بھائی وہیں گلیوں میں کھیلتے، دن میں کئی بار دکان کا چکر لگاتے، اسکول سے کالج تک وہیں سے پہنچے۔ میری شادی بھی اسی گھر سے ہوئی۔ اب میں سوچتی ہوں ہمارے معاونین بھی کون تھے، ابو کے ’’سندھی دوست‘‘، ماموں کے ’’بلوچی پڑوسی ڈرائیور‘‘، جو گاڑی لے کر آدھی رات کو تین کلومیٹر کے فاصلے پر چل پڑے۔ ’’پنجابی پڑوسی‘‘ جو ابو کو دونوں وقت کا کھانا بھیجتے رہے، جب تک امی واپس نہیں آگئیں (قریباً ایک ماہ بعد)۔ معاشرہ اسی کا تو نام ہے۔ اور ہاں ہمارا پہرہ دیتے ہمارے مخلص غیرت مند ’’پٹھان بھائی‘‘۔
اس محلہ داری کا مزا تو آج چاروں طرف اپنے ہم زبانوں میں گھر کر رہنے میں بھی نہیں آتا۔ ’’وہ دور ہی پُرخلوص تھا۔۔۔‘‘ یہ سوچنا آج کے محلے داروں سے غلط گمان ہوجائے گا۔ آج بھی پُرخلوص لوگوں کی کمی نہیں۔۔۔ اس واقعے سے مجھے زندگی گزارنے کا جو سبق ملا وہ یہ ہے کہ ’’کوئی قوم بُری نہیں ہوتی، گمان برے ہوتے ہیں‘‘۔ ہمیں بدگمانی سے بچنا چاہیے اور دوسروں کے لیے حُسنِ ظن رکھنا چاہیے، کیوں کہ قرآن فرماتا ہے ’’زیادہ گمان سے بچو، اکثر گمان گناہ ہوتے ہیں۔‘‘ (سورۃ الحجرات)