(مصر کی صورت حال(ڈاکٹر محمد اقبال خلیل

315

ممبر بورڈ آف ڈائریکٹرز انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل اسٹڈیز پشاور

مصر کی تاریخ کا ایک المناک باب14اگست 2013ء کو میدانِ رابعہ میں ہونے والا خونریز واقعہ ہے، جس میں مصری خودساختہ صدر جنرل عبدالفتاح السیسی کے حکم پر مصری فوج نے اپنے ہی عوام کے خلاف شدید ظالمانہ اقدامات کیے اور دنیا میں ظلم و سفاکی کی ایک نئی بدترین مثال قائم کی۔ پہلے مصری منتخب صدر ڈاکٹر محمد مرسی کی حکومت کو فوجی انقلاب کے ذریعے ختم کرنے کے فیصلے پر پورے مصر میں عوام سراپا احتجاج تھے۔ اسی احتجاجی تحریک کے سلسلے میں قاہرہ میں رابعہ العدویہ اسکوائر میں ہزاروں کی تعداد میں مرد و زن و بچے جمع تھے اور فوجی اقدام کے خلاف نعرے بلند کررہے تھے۔ عوام کا ایک اور ہجوم قاہرہ کے انہدہ اسکوائر میں بھی جمع تھا۔ ڈاکٹر مرسی کی حکومت کو ختم ہوئے ایک ماہ کا عرصہ گزرچکا تھا۔ فوجی ٹینکوں، ٹرکوں اور جیپوں نے چاروں طرف سے احتجاجی عوام کو گھیرے میں لے کر بغیر کسی اشتعال اور وارننگ کے فائرنگ شروع کردی۔ مظاہرین کو براہِ راست نشانہ بنایا گیا۔ بیک وقت ہر جانب سے فائرنگ شروع کی گئی۔ مظاہرین کو جو کئی دنوں سے اسکوائر میں جمع تھے، بھاگنے کا موقع بھی نہ ملا۔ حکومتی ذرائع کہتے ہیں کہ پہلے سے وارننگ دی گئی تھی، لیکن موقع پر موجود گواہوں، آزاد مبصرین اور صحافیوں کے مطابق کوئی وارننگ نہیں دی گئی تھی۔ مظاہرین کا دو دن پہلے سے محاصرہ کرلیا گیا تھا اور نئے لوگوں کو میدان میں داخل ہونے سے روکا جا رہا تھا، لیکن ہزاروں کی تعداد میں نوجوان محاصرہ توڑ کر میدان میں داخل ہوگئے تھے۔
14اگست صبح 7:00 بجے سے باقاعدہ کارروائی شروع کردی گئی اور فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوگیا، جو سار دن جاری رہا۔ صرف اسکوائر میں بیٹھے ہوئے مظاہرین کو نشانہ نہیں بنایا گیا بلکہ میدان کے قریبی مسجد میں پناہ لینے والے افراد کو بھی چن چن کر گولیاں ماری گئیں۔ ہر قسم کے اسلحہ سے لیس پولیس اور فوجی جوانوں کے ساتھ ساتھ بلڈوزروں کے ذریعے بھی مظاہرین کو کچلا گیا۔ بکتربند گاڑیوں کی مشین گنوں سے فائرنگ کے ساتھ ساتھ عمارتوں کی چھتوں پر تعینات نشانہ بازوں نے بھی مظاہرین کو تاک تاک کا نشانہ بنایا۔ فوجی ہیلی کاپٹروں کے ذریعے بھی فائرنگ کی گئی۔ اس سے پہلے رابعہ اسکوائر کی جانب آنے والے تمام راستے سیل کردئیے گئے تھے اور وہ ہزاروں نوجوان جو اپنے بھائیوں اور بہنوں کا ساتھ دینے کے لیے آنا چاہتے تھے، ان پر بھی فائرنگ کی جاتی رہی۔ رابعہ کے واقعے کی ویڈیوز جو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی گئی ہیں، ان میں جو مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں وہ ناقابلِ بیان ہیں۔ جو مظاہرین محفوظ جگہوں کی طرف جانا چاہتے تھے ان کو بھی ہلاک کیا گیا۔ جو اُن کو بچانے کے لیے یا زخمیوں کو اٹھانے کے لیے آگے بڑھے انہیں بھی نشانہ بنایا گیا، حتیٰ کہ قریبی ہسپتال میں جن زخمیوں کو لے جایا گیا اُن کو بھی نہیں بخشا گیا۔ انسانی حقوق کی عالم تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے 14 اگست کے اس واقعے کو ’’ایک دن میں سب سے بڑی تعداد میں قتل ہونے والے مظاہرین‘‘ قرار دیا۔ ان کے مطابق ایک ہزار سے زائد مظاہرین کو قتل اور چار ہزار سے زائد کو زخمی کیا گیا، جب کہ اخوان المسلمون نے اس تعداد کو کہیں زیادہ قرار دیا۔ اس سانحے کے دن پورے مصر میں ایک کہرام برپا ہوگیا۔ ہرشہر اور قصبے میں لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور پولیس کے ساتھ جھڑپیں شروع ہوگئیں۔ چوکوں اور میدانوں میں احتجاجی مظاہروں کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوگیا۔ فوجی حکومت نے فوری طور پر قاہرہ کے کئی علاقوں میں کرفیو نافذ کردیا اور پورے ملک میں ایمرجنسی لگا دی۔ 16اگست کو جمعہ کے دن اخوان نے یوم احتجاج کا اعلان کردیا۔ حکومت نے اخوان کے مرکزی رہنما ڈاکٹر محمد بدیع کو بھی گرفتار کرلیا اور پورے ملک میں کریک ڈاؤن کردیا۔
30 اگست کو ایک اور واقعے میں 6 مظاہرین قتل کردیے گئے۔ پورے مصر میں ایمرجنسی اور کرفیو کے ساتھ وسیع پیمانے پر گرفتاریوں کا سلسلہ دراز ہوتا گیا۔ سرکاری اعدادو شمار میں جو محکمہ صحت نے جاری کیے، 638 افراد مقتول اور 3994 زخمی قرار دیے گئے۔ بعض ذرائع نے مقتولین کی تعداد 2600 بھی بتائی ہے۔ ہیومن رائٹس واچ نے ایک ہزار ہلاک شدگان کی تصدیق کی اور کہا کہ یہ کام اتفاقیہ نہ تھا بلکہ مصری حکومت نے اعلیٰ ترین سطح پر اس کے لیے منصوبہ بنایا تھا۔ 200کی تعداد میں جلی ہوئی ایسی لاشیں اٹھائی گئیں جو ناقابلِ شناخت تھیں۔
نصر شہر کی الامام مسجد میں بھی سینکڑوں افراد کو مارا گیا اور ان میں سے بھی درجنوں میتیں ناقابلِ شناخت تھیں۔ مردوں کے ساتھ خواتین بھی ان مقتولین میں شامل تھیں، جن میں رکن پارلیمنٹ محمدالبلتابی کی بیٹی بھی تھی۔ کئی صحافی اور فوٹو گرافر بھی ہلاک ہوئے، جن میں اسکائی نیوز اور سی این این کے 61 سالہ تجربہ کار فوٹوگرافر مائیکل ڈین بھی شامل تھے۔ مشہور مصری صحافی حبیبہ احمد عبدالجواد، مصاب الشامی بھی ہلاک شدگان میں شامل تھے، جب کہ ایک درجن کے لگ بھگ زخمی ہوئے۔ اس کے باوجود انٹرنیشنل میڈیا پر اخوان المسلمون پر تنقید جاری رہی اور وہ اس کو اخوان کے حق میں پروپیگنڈا قرار دیتے رہے۔ مصری حکومتی ذرائع نے اخوان کو دہشت گرد تنظیم قرار دے کر اس کے خلاف ہر قسم کی کارروائی کو جائز قرار دیا۔
محمد البرادعی نے جو مصر میں سیکولر اور لبرل عناصر کے ترجمان قرار دئیے جاتے ہیں اور فوجی عبوری حکومت میں نائب صدر تھے، احتجاجاً اپنے منصب سے استعفیٰ دے دیا اور پُرامن مظاہرین پر براہِ راست فائرنگ کو ظالمانہ اقدام قرار دیا۔ ان کے خلاف بھی حکومت نے غداری کا مقدمہ دائر کردیا جس کی وجہ سے وہ ملک چھوڑ کر ویانا چلے گئے۔ فوجی آمر جنرل عبدالفتاح السیسی نے فوجی اقدام کی مکمل حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ہم آئندہ بھی ایسے اقدامات کرتے رہیں گے اور دہشت گردوں کے خلاف ہر قسم کی کارروائی کریں گے۔ انھوں نے فوجی کارروائی کو بہادری قرار دیتے ہوئے کہا کہ میں اپنے فوجیوں کو کسی قسم کی کارروائی کرنے سے نہیں روکوں گا۔ لندن میں قائم اخوان کے دفتر نے دنیا بھر کی آزاد اور امن پسند قوتوں سے اپیل کی کہ وہ اس ظالمانہ اقدام پر خاموش نہ رہیں اور اس کے خلاف آواز اٹھائیں۔ انہوں نے مصری حکومت کو ایک مافیا سے تشبیہ دی جس نے مصری عوام سے حکومت کا اختیار چھین لیا ہے۔ جامعہ الازہر کے امام احمد الطیب نے تمام پارٹیوں سے صبر اور برداشت کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ صورت حال کو سیاسی طور پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔ کئی پارٹیوں کے سربراہوں نے اس سانحے کا ذمہ دار حکومت اور اخوان دونوں کی قیادت کو قرار دیا۔ قاہرہ کی انسانی حقوق کی تنظیم نے حکومت پر شدید تنقید کرتے ہوئے مظاہرین کے خلاف کارروائی کو بلاجواز اور ظالمانہ قرار دیا۔ اس واقعہ کے تین ماہ بعد 10دسمبر کو عالمی سطح پر 13بڑی انسانی حقوق کی تنظیموں نے مشترکہ طور بڑے پیمانے پر انسانی ہلاکتوں کے اس واقعہ کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ اس میں ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ اور مصری قومی تنظیم شامل تھی جس کے نمائندے عبدالرزاق کا کہنا تھا کہ یہ کارروائی کسی بھی قومی یا بین الاقوامی قانون اور ضابطے کی خلاف ورزی ہے جس کی کسی بھی صورت میں اجازت نہیں دی سکتی۔ اس لیے ضروری ہے کہ آزادانہ طور پر اس کی تحقیقات کرکے ذمہ داروں کا تعین کیا جائے۔
یورپین یونین کے صدر، سیکرٹری اور یورپی ممالک کے سربراہان نے اس قتلِ عام کی شدید مذمت کرتے ہوئے مصری مسلح افواج کے افسران سے اپیل کی کہ وہ اس سلسلے کو روکیں اور جمہوری نظام کو تہہ و بالا کرنے سے گریز کریں۔ سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ کے نمائندے نے بھی اس واقعے پر اظہارِ افسوس کرتے ہوئے تمام فریقوں سے اپیل کی کہ وہ ضبط و تحمل کا مظاہرہ کریں۔ برطانیہ، فرانس اور آسٹریلیا کی حکومتوں نے اس مسئلے پر سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا۔ امریکا، ترکی، کینیڈا، جرمنی اور کئی درجن ممالک کے سربراہان اور نمائندوں نے ان ظالمانہ واقعات کی شدید مذمت کرتے ہوئے ان پر اظہارِ افسوس کیا۔ ویانا، جکارتا، الجزائر، ترکی، مراکش، کویت، اردن اور غزہ سمیت کئی ممالک میں احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے۔ الجزیرہ ٹیلی وژن نے اپنی رپورٹ میں مصری حکومت کے اس دعوے کو مضحکہ خیز قرار دیا کہ مظاہرین کے پاس بڑی تعداد میں اسلحہ موجود تھا۔ کئی دیگر میڈیا ذرائع نے بھی اس حکومتی اطلاع کو باطل قرار دیا۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے جو اس سے پہلے بھی ڈاکٹر محمد مرسی کی برطرفی کے خلاف تھے، میدان رابعہ کے سانحے کے بعد چار انگلیوں کے نشان کو عوامی احتجاج کی علامت قرار دے دیا۔
اسی علامت کو ایک ٹی شرٹ کی صورت میں پہن کر مصری کھلاڑی محمد یوسف نے جب روس کے عالمی مقابلوں میں شرکت کی تو پوری دنیا میں احتجاج کے اس انوکھے انداز کو سراہا گیا۔ محمد یوسف کو جو مارشل آرٹ کنگ فو کے گولڈ میڈلسٹ اور قومی چیمپئن تھے، فوری طور پر مقابلوں سے دستبردار کرکے ملک واپس بلا کر بلیک لسٹ کردیا گیا اور ان پر مقابلوں میں شرکت پر پابندی عائد کردی گئی۔ ایک اور مصری کھلاڑی احمد عبدالظاہر کو بھی جو قومی فٹ بال ٹیم کا رکن تھا، ڈاکٹر مرسی کی حمایت پر ٹیم سے نکال دیا گیا۔
جنرل عبدالفتاح السیسی نے 2013ء میں فوجی انقلاب کے بعد ملکی باگ ڈور سنبھالنے کے ایک سال بعد جون 2014ء میں صدارتی انتخاب کا ڈھونگ رچانے اور بھاری اکثریت حاصل کرنے کے بعد کرسئ صدارت بھی سنبھال لی۔ اس دوران اخوان کے پچاس ہزار سے زائد مرد و خواتین کارکنوں، حامیوں کو گرفتار کیا گیا، سینکڑوں کو پھانسی کی سزائیں سنائی گئیں اور ہر قسم کا جبر و ستم اپنا گیا۔
صدر مرسی پر بھی بے سروپا الزام لگا کر انہیں پھانسی کی سزا سنائی گئی اور اخوان المسلمون پر پابندی عائد کی گئی۔ تقریباً تین ہزار افراد کو پھانسی کی سزائیں سنائی گئیں۔ دہشت گردی کے خلاف سخت قانون بناکر اس کا اطلاق سیاسی مخالفین پر کیا گیا۔ ماورائے عدالت قتل اور ٹارچر کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ ہر قسم کی سیاسی سرگرمیوں اور حکومت مخالف بیانات پر پابندی رہی۔ غیر سرکاری اور سماجی تنظیموں کے خلاف بھی کارروائی کی گئی اور آزادئ رائے کے حق کو پامال کیا گیا۔
گرفتاریوں اور مقدمات کا یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ جولائی 2014ء تک سرکاری اعدادو شمار کے مطابق 22 ہزار لوگ گرفتار تھے۔ جب کہ 2015ء میں مزید 12ہزار افراد گرفتار کیے گئے۔ لیکن اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ مصر کے سماجی بہبود کے ایک مرکز نے 2013ء سے 2014ء تک 41 ہزار افراد کو گرفتار رجسٹرڈ کیا ہے۔ ان گرفتار ہونے والوں میں اخوان کے علاوہ دیگر آزاد گروپوں اور نوجوانوں کی تنظیموں کے افراد بھی شامل ہیں۔ صحافیوں اور فوٹو گرافروں کے خلاف بھی کارروائیاں کی گئی ہیں۔ انسانی حقوق کی ایک اور تنظیم نے بتایا ہے کہ جنوری سے جون 2014ء تک 47 افراد زیر حراست قتل کردےئے گئے۔ ایک اور رپورٹ میں 209 زیر حراست افراد مختلف طبی وجوہات کی بنیاد پر موت سے ہمکنار ہوئے۔ (جاری ہے)

حصہ