(پنجاب میں بسنت پر پابندی کا تازہ حکم(حامد ریاض ڈوگر

262

مقامِ شکر ہے کہ آخرکار صوبے کے خادم اعلیٰ کو پنجاب کے عوام کے جان و مال کی حفاظت کا خیال آ ہی گیا اور انہوں نے اپنے ایک ٹویٹ کے ذریعے ایک واضح اور دوٹوک پیغام دیا ہے کہ صوبے میں بسنت منانے پر مکمل پابندی ہے اور یہ پابندی برقرار رہے گی، پتنگ بازی پر پابندی کے قانون کی خلاف ورزی کی صورت میں متعلقہ ضلع کا ڈی پی او ذمہ دار ہوگا۔ کسی کو بسنت منانے کے نام پر عوام کی جان سے کھیلنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ پنجاب بھر میں پتنگ بازی پر پابندی کے قانون پر سختی سے عملدرآمد کرایا جائے اور اس ضمن میں خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کی جائے۔ مجھے صوبے کے عوام کا مفاد سب سے زیادہ مقدم ہے۔
خادم اعلیٰ کے بعد ان کے خدام کو بھی اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہوا اور صوبے کے سب سے بااختیار اور باکمال وزیر قانون و پارلیمانی امور نے بھی ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں واضح کرنا ضروری سمجھا کہ حکومت بسنت کی کسی صورت اجازت نہیں دے گی۔ کائٹ فلائنگ ایسوسی ایشن سے ماضی میں ہونے والے مذاکرات کی روشنی میں اگر اس کے عہدیدار اس بات کی ہامی بھریں کہ گلا کٹنے کی صورت میں 302 کا پرچہ اُن کے خلاف درج ہوگا تو حکومت بسنت کی اجازت دینے کو تیار ہے، بصورتِ دیگر حکومت لوگوں کے گلے کٹوانے کی ذمہ داری نہیں اٹھا سکتی۔
برصغیر میں پتنگ بازی کی روایت کوئی نئی نہیں۔ یہ قیام پاکستان سے پہلے سے یہاں رائج تھی، مگر فوجی آمر جنرل پرویزمشرف کے دور میں اسے ملک میں روشن خیالی کی علامت کے طور پر فروغ دیا گیا اور نئی نئی لغویات کو اس کا حصہ بنادیا گیا، جس میں سب سے خطرناک اور جان لیوا ایجاد ’ڈھائی ڈور‘ کا استعمال تھا۔ اس کے علاوہ بعض دیگر بے ہودہ اور اذیت ناک رسوم جن میں نہایت بلند آواز میں ڈیک بجانا، لچر اور فحش گانے، خواتین کا ڈانس اور شور و ہنگامہ، آتش بازی، ہوائی فائرنگ اور رنگ برنگے کھانوں پر فضول خرچی وغیرہ شامل تھے۔ یہ سارا ہاؤ ہُو کا ہنگامہ عوام کے لیے ناقابلِ برداشت اور تکلیف دہ تھا، مگر جان لیوا دھاتی ڈور نے تو حد ہی کردی۔۔۔ گردنوں پر گردنیں کٹنے لگیں، خصوصاً موٹر سائیکل سوار اور ان کے معصوم بچے ان کا نشانہ بنے، اور کوئی ایک دو نہیں سینکڑوں بچے اور بڑے جاں بحق اور زخمی ہوئے۔ اس کے علاوہ مالی نقصان الگ تھا۔ لہو کی ان بہتی دھاروں اور بے دریغ خونریزی پر پوری قوم سراپا احتجاج تھی، ارکانِ اسمبلی بار بار اس خونِ ناحق کی دہائی دے کر موت کا یہ کھیل بند کرنے کا مطالبہ کررہے تھے، مگر اُس وقت کی صوبائی حکومت کوئی معقول جواز بیان کیے بغیر بسنت کے نام پر یہ خونخوار کھیل جاری رکھنے پر بضد تھی۔ جب عوام اور صوبائی اسمبلی میں عوامی نمائندوں کا دباؤ زیادہ بڑھا تو اُس وقت کے صوبائی وزیر قانون راجا بشارت نے ایوان میں بظاہر حزبِ اختلاف کو دھمکاتے ہوئے اپنی مجبوری و بے بسی کا پردہ چاک کردیا اور اعلان کیا کہ ’’جنرل پرویزمشرف ضرور لاہور آئیں گے اور بسنت بھی منائیں گے، حزبِ اختلاف کو اگر کوئی تکلیف ہے تو وہ صدر کا یہ دورہ رکوالے‘‘۔ اور حقیقت بھی یہی تھی کہ جنرل پرویزمشرف کا فرمایا پورے ملک کے لیے حرفِ آخر اور ہر قانون و ضابطے سے بالاتر ہوتا تھا، اور انہوں نے مغرب کے سامنے اپنی روشن خیالی کا ڈھنڈورا پیٹنے کے لیے بسنت ہی نہیں مخلوط میراتھن ریس جیسی کئی فضولیات کو پاکستانی معاشرے میں متعارف کرانے کے لیے پورا زور لگا دیا تھا، اور صوبائی حکومتیں اور پورا انتظامی ڈھانچہ اُن کے سامنے مجبورِ محض اور بے بس دکھائی دیتا تھا۔
اس صورتِ حال میں شہریوں نے عدالتِ عالیہ میں بھی متعدد درخواستیں گزاریں اور احتجاجی مظاہروں وغیرہ کا راستہ بھی اختیار کیا، مگر جنرل پرویزمشرف کی ہٹ دھرمی اور آمرانہ طرزِ حکمرانی کے باعث مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ آخر جب پانی سر سے گزرنے لگا اور شہریوں کا جانی و مالی نقصان بڑھتا ہی چلا گیا تو ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کو لوگوں کی حالتِ زار پر ترس آگیا اور عدالتِ عظمیٰ نے اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے ازخود نوٹس لے کر 25 اکتوبر 2005ء کو پتنگ بازی، پتنگ و ڈور سازی اور ان کی خرید و فروخت پر مکمل پابندی عائد کردی، جس پر شہریوں نے سُکھ کا سانس لیا۔
عدالتِ عظمیٰ نے تو حکم جاری کردیا، مگر اس پر عملدرآمد تو حکومت اور انتظامیہ کا کام تھا، جنہوں نے حسبِ معمول اس حکم پر مؤثر عملدرآمد کی راہ میں روڑے اٹکانا شروع کردیئے اور ان لوگوں کو ہزاروں خاندانوں کے بے روزگار ہونے کی فکر ستانے لگی، جب کہ تفریح کے مواقع ناپید ہونے کا غم بھی بہت سے لوگوں کو لاحق ہو گیا، چنانچہ عدالت سے بھی اپیلیں کی جانے لگیں اور عملاً بھی اس پابندی پر عملدرآمد کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ بعد ازاں عدالتِ عظمیٰ نے بھی حکم پر مؤثر عملدرآمد نہ ہونے کا سختی سے نوٹس لیا اور حکومتی سطح پر بھی باقاعدہ حکم نامہ کے ذریعے بسنت اور پتنگ بازی پر پابندی عائد کردی گئی، مگر اس کے باوجود پتنگ بازی کی آڑ میں خونریزی کا یہ سلسلہ پوری طرح رک نہ سکا۔ وزیراعلیٰ شہبازشریف کے تازہ اعلان سے محض دو دن قبل اتوار کو صوبائی دارالحکومت لاہور میں ان کی ناک کے نیچے پتنگ بازی کا سلسلہ پورے زور شور سے جاری رہا جس کے باعث باغبان پورہ، غازی آباد اور راوی روڈ پر موٹر سائیکل پر جاتے ہوئے گردن اور منہ پر ڈور پھرنے سے تین نوجوان لہولہان ہوگئے۔ اس کے بعد انتظامیہ اور پولیس کو ہوش آیا اور ہنگامی طور پر پتنگ بازوں اور پتنگ فروشوں کے خلاف آپریشن کا آغاز کردیا گیا، اور محض ایک دن بلکہ صرف بارہ گھنٹوں میں 47 افراد کو گرفتار کیا گیا، جب کہ شہر کے مختلف حصوں میں مجموعی طور پر 282 مقدمات درج کیے گئے، جب کہ گوجرانوالہ پولیس نے بھی فوری اور مربوط کریک ڈاؤن کرتے ہوئے سینکڑوں پتنگ بازوں اور پتنگ بازی کا سامان فروخت کرنے والے افراد کو گرفتار کرلیا۔ ان کے قبضے سے 13 ہزار سے زائد پتنگیں، 60 سے زائد دھاتی ڈور کی چرخیاں اور کیمیائی ڈور کی گوٹیں برآمد ہوئیں۔ اس کے علاوہ بیس عدد بارودی اناروں سمیت آتش بازی کا بھاری سامان بھی قبضے میں لیا گیا۔ ایسی ہی صورت حال صوبے کے دیگر اضلاع کی بھی تھی۔
سوال یہ ہے کہ جب صوبے میں کئی سال سے پتنگ بازی اور پتنگ سازی پر پابندی ہے تو ہر سال فروری، مارچ کے مہینوں میں یہ مسئلہ کیوں سر اٹھا لیتا ہے اور حکومت کوئی مؤثر کارروائی کرنے سے قبل جانی و مالی نقصان کی اطلاعات کا انتظار کیوں کرتی ہے۔۔۔! حیران کن بات ہے کہ جب پتنگ بازی اور آتش بازی سے متعلقہ سامان کی تیاری اور خرید و فروخت پر پابندی عائد ہے تو پھر یہ چیزیں شہر شہر میں تیار ہوکر لوگوں کے ہاتھوں تک کیوں کر پہنچ جاتی ہیں۔۔۔! جب یہ سب سامان تیار اور خریدا اور بیچا جارہا ہوتا ہے تو انتظامیہ اور پولیس اُس وقت کہاں سورہی ہوتی ہیں۔۔۔! اگر بروقت کارروائی کرتے ہوئے ان اشیاء کی تیاری ہی کو مؤثر طور پر روک دیا جائے تو اس کے خوفناک نقصانات اور بعد کے اذیت ناک مراحل سے آسانی سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے، مگر افسوس ناک امر یہی ہے کہ ہمارے حکمران اور سرکاری مشینری اس ضمن میں اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنے اور بروقت اقدام کرنے میں ناکام رہے ہیں جس کے باعث عوام کو ہر سال جانی و مالی نقصان سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔۔۔ اے کاش ہمارے حکمران اور حکام انسانی جان کی اہمیت اور احترام کا ازخود احساس کرسکیں۔۔۔!!!

حصہ