(فیملی پالننگ (ڈاکٹر ذکیہ اورنگزیب

591

’’دنیا کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے،جبکہ وسائلِ حیات اس قدر تیزی سے نہیں بڑھ رہے، لہٰذا آبادی کو بڑھنے سے روکنا ناگزیر ہے‘‘۔ یہ وہ نظریہ تھا جو انگلستان کے مشہور ماہر معاشیات مالتھس نے اٹھارہویں صدی کے اواخر میں پیش کیا۔ اس نظریے کو انیسویں صدی کے صنعتی انقلاب نے تقویت بخشی۔ اور اس مقصد کے حصول کو میڈیکل سائنس کی ترقی نے آسان تر بنادیا۔ یہ غالباً انسانی فکر کی محدودیت ہی ہے کہ وہ تصویر کے سارے رخ دیکھنے سے قاصر رہتی ہے۔ مالتھس کیونکہ ماہر معیشت تھا لہٰذا وہ اعداد وشمار سے صرف یہی اندازہ لگا سکا کہ آئندہ 50 سال میں آبادی کی شرح میں اتنا اضافہ ہوگا۔ وہ مؤرخ ہوتا تو یقیناًتاریخ سے سبق لیتا۔
ایس ڈورکن “The American Sexual Revolution” (pp78- 79) میں لکھتا ہے’’جیسا کہ یہ قدرت کا قانون ہے کہ جو اقوام لذت پرستی اور جنسی آلودگی میں مبتلا ہوتی ہیں وہ افزائشِ اطفال سے غافل رہتی ہیں اور بچوں کو اپنی آزادی اور خوش فعلی کی راہ میں مانع تصور کرتی ہیں۔ یہ رویہ پرستارانِ جنس کو مانع حمل ذرائع کے استعمال، اسقاطِ حمل اور اسی نوع کی دوسری تدابیر اختیار کرنے کی ترغیب دیتا ہے، اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس قوم کی آبادی پہلے تو ساکن اور متغیر ہوجاتی ہے اور پھر کم ہونے لگتی ہے، حتیٰ کہ وہ اس مقام پر پہنچ جاتی ہے جہاں وہ اپنی بنیادی ضرورتیں تک پوری کرنے کی اہل نہیں رہتی‘‘۔ مؤرخ انسانی تاریخ کے گہرے مشاہدے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہے، چنانچہ وہ آگے لکھتا ہے:
’’خودکشی کے اس طریقے نے تاریخ انسانی میں بہت سے شاہی خاندانوں، دولت مند اور اونچے طبقوں، اور اجتماعی گروہوں کو حیاتیاتی اور سماجی حیثیت سے نیست ونابود کردیا ہے اور اسی کے ذریعے بہت سی قومیں زوال وانحطاط کی شکار ہوئی ہیں۔‘‘ (اسلام اور ضبط ولادت، از سید مودودیؒ )
اور اگر مالتھس موحد ہوتا تو شاید یہ سوچتا کہ وقت گزرنے کے ساتھ بے شمار جانور ناپید ہوتے جارہے ہیں لیکن آخر گائے، بکریاں، دنبے، اونٹ ہر سال لاکھوں کی تعداد میں قربان کیے جانے کے باوجود ان کی نسلیں ناپید نہیں ہورہی، تو یقیناًوہ اس نتیجے پر پہنچ جاتا کہ اس کائنات کی اور یہاں کے رہنے والوں کی پلاننگ ایک علیم وخبیر ہستی کررہی ہے۔
آج اس کرۂ ارض کا مسئلہ آبادی کی زیادتی نہیں، بلکہ کرۂ ارض پر انسان کی بقاء کو دوررس خطرات لاحق ہوچکے ہیں۔ اس خطرے کا احساس عظیم مفکرِ اسلام سید مودودیؒ نے نصف صدی پہلے ہی کرلیا تھا۔ چنانچہ وہ اپنی کتاب ’’اسلام اور ضبطِ ولادت‘‘ میں رقم طراز ہیں:
’’ایسی آبادی کے لیے جس میں دو بچوں کا رواج ہو، یا جس میں بالآخر ہر شادی پر دو بچے زندہ رہیں، نیست ونابود ہوجانا مقدر ہے۔ ایسی آبادی نسلاً بعد نسل کم ہوتی چلی جائے گی اور ہر تیس سال بعد وہ پہلے سے کم ہوجائے گی‘‘۔
’’مثال کے طور پر اس کو یوں سمجھیے کہ ایسے ہزار افراد جن میں دو بچوں کا رواج ہو، پہلے تیس سال کے بعد صرف 631 رہ جائیں گے۔ 60 سال بعد 386، اور ڈیڑھ سو سال بعد صرف 92۔ اس طرح ضبطِ ولادت کی بدولت ایک طرف تو ملک کا طبقاتی توازن درہم برہم ہوجاتا ہے اور کارفرما عنصر آہستہ آہستہ کم ہونے لگتا ہے۔ دوسری طرف اس کا نتیجہ یہ بھی ہوتا ہے کہ آبادی میں بچوں اور بوڑھوں کا تناسب بگڑ جاتا ہے۔‘‘
وقت نے یہ ثابت کردیا ہے کہ مولانا کی راست فکر نے نصف صدی قبل ہی اس خطرے کو محسوس کرلیا تھا۔ اب ہم دنیا کی موجودہ صورت حال پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
یہ رپورٹ امریکی سینسس بیورو نے شائع کی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق آئندہ چار سال کی قلیل مدت میں یعنی 2020ء تک پہلی بار انسانی تاریخ میں 65 سال سے زائد عمرافراد کی تعداد، پانچ سال اور اس سے کم عمر بچوں کی تعداد سے بڑھ جائے گی۔ اسی رپورٹ کے مطابق اندازہ یہ ہے کہ 2050ء تک بوڑھوں کی تعداد دگنی ہوجائے گی، جبکہ 20 سال کی عمر کے نوجوانوں کی تعداد کے تناسب میں کوئی خاص تغیر واقع نہیں ہوگا۔ آئندہ 35 سالوں میں 65 سال کے بوڑھوں کی تعداد میں 150 فیصد اضافہ ہوگا، جبکہ 2015ء کی مردم شماری کے مطابق 20 سال کی عمر کے نوجوانوں کی تعداد 2.5 بلین سے بڑھ کر 2050ء میں صرف 6.2 بلین ہوگی۔ سینسس بیورو کے مطابق آئندہ دہائیوں میں 20 سے 64 سال کی عمر کے افراد جن کو ورکنگ ایج پاپولیشن کہا جاتا ہے، کی تعداد میں اضافہ صرف 25.6 فیصد ہوگا۔
(اس گراف سے واضح ہورہاہے کہ دنیا میں بوڑھوں کی تعداد میں بتدریج اضافہ ایک خطرے کی گھنٹی ہے۔ اور آئندہ تیس سالوں میں کرۂ ارض پر انسان کی بقاء کو سنگیں خطرات لاحق ہوں گے۔ اگر اس میں جنگوں میں ہونے والی حالیہ ہلاکتوں کے اعداد و شمار بھی شامل کرلیے جائیں تو نتائج مزید ہوشربا ہوں گے۔)
رپورٹ کے مطابق دنیا میں اس وقت آبادی کی افزائش کی شرح 2.1 سے گرچکی ہے (دنیا کی آبادی کی قلت روکنے کے لیے ناگزیر ہے کہ ہر عورت2.1 بچوں کو جنم دے ایک مرد اور عورت اپنے متبادل کے طور پر، اور 10/1 اس لیے کہ بچے بوجوہ مرجاتے ہیں (اس میں جنگ، بھوک، افلاس اور بیماریوں کے باعث ہلاک ہونے والے کئی ملین بچے شامل نہیں)۔ سینسس بیورو کے مطابق کیونکہ یورپ میں آبادی کی منصوبہ بندی کی تحریک کا آغاز ایک صدی پہلے ہوا تھا چنانچہ وہاں آبادی کی افزائش کی شرح 1.6 تک گر گئی ہے۔
رپورٹ کے آخر میں جیفری یہ سوال رکھتا ہے ’’نیا چیلنج یہ ہے کہ آبادی کے ان بوڑھوں اور بے اولاد لوگوں کی مدد کون کرے گا؟ ان کو سہارا کون دے گا؟ اسٹیٹ اس سلسلے میں کیا کردار ادا کرے گی‘‘۔ چنانچہ ایک ماہر عمرانیات کے مطابق:
’’اگر مالتھس آج زندہ ہوتا تو غالباً اس بات کو اچھی طرح محسوس کرلیتا کہ مغربی انسان نے پیدائش کو روکنے میں کچھ زیادہ ہی دوراندیشی سے کام لیا ہے، بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ اپنی تہذیب کے مستقبل کی فکر کرنے میں وہ بہت ہی کوتاہ نظر ثابت ہوا ہے۔‘‘
اگر ہم اس مسئلے کی سنگینی کا اندازہ کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں میکس روزر کے مضمون کے اس اقتباس اور مستقبل بینی پر مشتمل اس گراف کو سنجیدگی سے دیکھنا ہوگا۔ میکس روزر ایک ماہر معیشت ہیں اور ورلڈ ان ڈیٹا ویب سائٹ پر دیے گئے اپنے مضمون ورلڈ پاپولیشن گروتھ میں لکھتے ہیں:
’’دنیا کی تاریخ میں اضافۂ آبادی کو تین ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ایک زمانۂ قبل از جدیدیت جس میں آبادی میں اضافہ قدرے سست تھا، دوسرا دور جب جدید تہذیب کا آغاز ہوا اور لوگوں کے رہن سہن اور صحت کی سہولیات میں اضافہ ہوا، یہ دور 1962ء تک رہا، اس میں آبادی میں نہایت تیزی سے اضافہ ہوا۔ اور اب تیسرا دور ہے جس میں آبادی میں اضافے کی شرح تیزی سے گر رہی ہے اور امکان ہے کہ اس صدی کے اختتام تک بالکل رک جائے گی۔‘‘
(اس گراف کے مطابق 1980ء میں آبادی افزائش کی شرح 2.1 کی کم از کم درکار شرح تک پہنچنے کے بعد مستقل زوال کا شکار ہورہی ہے اور امکان ہے کہ 90 سال بعد یہ شرح صرف 0.1 رہ جائے گی)
اب ہم پاکستان کی صورت حال کا جائزہ لیتے ہیں۔
پاکستان میں آبادی میں اضافے کی شرح 1955ء سے 1980ء تک 6.6 تھی۔ حالیہ تحریک، اور بین الاقوامی دباؤ کے باعث یہ شرح3.6 پر آگئی ہے جو آبادی کی قلت میں کمی کو روکنے کی کم ازکم شرح2.1 سے قریب تر ہے۔ جیسا کہ ہم لکھ چکے ہیں کہ 2.1 میں حادثات اور وباؤں سے ہونے والی قلت کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ اس کے باوجود آبادی کی زیادتی اور فیملی پلاننگ کا رونا کیوں رویا جارہا ہے! فیملی پلاننگ کے حق میں ایک اہم دلیل یہ دی جاتی ہے کہ ہماری آبادی میں اس قدر تیزی سے اضافہ ہورہا ہے کہ اس وقت دنیا میں پاکستان چھٹے نمبر پر آچکا ہے۔ یہ عذر گناہ بد تر از گناہ کے مصداق ہے۔ اس وقت پاکستان چھٹے نمبر پر اس لیے ہے کہ دیگر ممالک کی شرح پیدائش، قلت آبادی روکنے کی کم از کم شرح سے گر چکی ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ امریکا میں آبادی میں اضافے کی شرح 2015ء کی مردم شماری کے مطابق 1.84، فرانس1.01، جبکہ آسٹریلیا اور برطانیہ میں یہ شرح1.93 ریکارڈ کی گئی۔ گویا دیگر ممالک کی شرح تیزی سے گرنے کی وجہ سے ہم چھٹے نمبر پر ہیں۔ کیا ضروری ہے کہ خودکشی کا جو راستہ انہوں نے اختیار کیا ہے ہم بھی اسی پر عمل پیرا ہوجائیں۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ہم تحدیدِ آبادی کی تحریک کے باعث پیدا ہونے والے سنگین نتائج بھگت رہے ہیں جن کی طرف سید مودودیؒ نے ’’اسلام اور ضبطِ ولادت‘‘ میں ان الفاظ میں نشاندہی کی تھی:
’’اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ضبطِ ولادت پر عمل کرنے والی سوسائٹی میں جسمانی محنت کرنے والے طبقے بڑھ رہے ہیں اور ان لوگوں کی تعداد روز بروز گھٹتی جا رہی ہے جو عقلی وذہنی لحاظ سے بلند درجہ رکھتے ہیں۔ جن میں کارفرمائی اور رہنمائی کی صلاحیت ہے۔ یہ چیز آخرکار ایک قوم کے زوال کا موجب ہوتی ہے۔ اس لیے کہ اس کا لازمی نتیجہ قحط الرجال ہے، اور قحط الرجال کے بعد کوئی قوم دنیا میں سربلند نہیں رہ سکتی۔‘‘
’’باصلاحیت طبقات کی کمی، عام ذہنی اور عقلی معیار کی پستی، اور قحط الرجال۔۔۔ یہ وہ خطرات ہیں جن سے ضبطِ ولادت کرنے والے ممالک آج دوچار ہوچکے ہیں، اور اس صورت حال سے ان کے مفکرین بے حد پریشان ہیں۔‘‘ (اسلام اور ضبطِ ولادت۔ از مولانا مودودیؒ )
انگلستان کے مشہور مفکر برٹرینڈ رسل موجودہ حالت کا مقابلہ تہذیبِ روما سے کرتا ہے اور کہتا ہے:
’’دوسری اور چوتھی صدی عیسوی میں سلطنتِ روما کے اندر قوت، کارکردگی اور ذہانت کا جو انحطاط رونما ہوا وہ ہمیشہ ناقابلِ فہم رہا ہے، لیکن یہ رائے قائم کرلینے کے لیے قوی بنیادیں موجود ہیں کہ اُس زمانے میں بھی وہی کچھ ہوا تھا جو آج ہماری تہذیب میں ہورہا ہے، یعنی رومیوں کی ہر پشت میں ان کے بہترین عناصر اپنی مساوی تعداد کو جنم دینے میں ناکام ہوتے رہے اور آبادی کی افزائش ان عناصر کے ذریعے سے ہوتی رہی جن کی قوتِ عمل کم تھی۔‘‘
کیا ہمارے ملک میں ایسے صاحبِ بصیرت لوگ موجود نہیں جو اس خطرے کا ادراک کرسکتے ہوں؟ بلکہ اگر دیکھا جائے توکیا ہم قحط الرجال کا شکار نہیں ہوگئے؟ آج ہم بار بار کہتے ہیں کہ شاعروں میں اقبال، غالب سے لے کر احمد ندیم قاسمی تک جس پائے کے شعراء برصغیر پاک و ہند نے پیدا کیے، اب ناپید ہیں۔ ادب میں منشی پریم چند سے لے کر اشفاق احمد تک جو کڑی تھی اب گویا ٹوٹ چکی ہے، اب کسی اور سید مودودی کے پیدا ہونے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ اور المیہ تو یہ ہے کہ جس قوم نے قائداعظم محمد علی جناح، مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی سے لے کر مولانا نورانی، قاضی حسین احمد، مفتی محمود جیسے سیاست دان پیدا کیے اب اپنے سیاسی مستقبل سے مایوس نظر آتی ہے ۔
جیفری کی طرح قوم کے سامنے میں بھی یہ سوال رکھتی ہوں کہ مستقبل کا نقشہ کیا ہوگا؟
امریکا اور یورپ میں آبادی کی منصوبہ بندی نے یہ صورت حال پیدا کردی ہے کہ معیشت کی گاڑی چلانے کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ تیسری دنیا کی آبادی کو شہریت دیں۔ اس صورت حال نے ہمارے بہترین دماغ ہی نہیں، لیبر کلاس کے لیے بھی معاش کے دروازے کھول دیے ہیں اور ایک بڑی تعداد بیرون ملک منتقل ہورہی ہے۔ اب جبکہ نصف دہائی کی مستقل کوششوں کے بعد پاکستان کی آبادی کی شرح 3.6 رہ گئی ہے، دوسری طرف ہمارے ہاں بھی لڑکیوں کی شادی یا طلاق ایک معاشرتی مسئلہ بنتی جارہی ہے، کیا اہل نظر کو مستقبل کا یہ ہولناک نقشہ نظر نہیں آرہا کہ بوڑھے ماں باپ اولڈ ہوم میں ہوں گے اور جوان عورتوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہوگی جو معاشرے میں تنہا اپنے مسائل سے نبرد آزما ہوں گی۔
’’اس مضمون کی تیاری میں سید مودودیؒ کی کتاب ’’اسلام اور ضبط ولادت‘‘ سے رہنمائی لی گئی۔ یہ کتاب آپ نے 1961ء میں تحریر کی، اور اس میں انسانی آبادی کے معاشی مسائل کے حل میں اسلام کا نقطہ نظر بھی پیش کیا گیا ہے۔ بلاشبہ یہ کتاب حکمتِ مودودی کا شاہکار ہے)
nn

حصہ