ملک کی سیاست اور سیاسی نظام شفاف نہ ہو تو غیر یقینی حالات کا پیدا ہونا فطری بات ہے۔ موجودہ جمہوری دور میں حکومتی پارٹی مسلم لیگ نواز اور تحریک انصاف کرپشن کے عنوان تلے غیر معمولی سرگرم ہیں۔ نواز لیگ کرپشن کے الزامات سے جان چھڑانے کے لیے سب کچھ کرگزرنا چاہتی ہے، تو تحریک انصاف الزامات کا سونامی بپا کرنے کی خواہش لیے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہے۔ دونوں جماعتیں بالترتیب حکومتی اور اپوزیشن پارٹی کا اول مدمقابل کے طور پر کردار ادا کررہی ہیں، جس سے پیپلز پارٹی جو اصل اپوزیشن جماعت ہے، کی ساکھ بحیثیت اپوزیشن جماعت روز بروز متاثر ہورہی ہے اور گزشتہ تین سالوں میں ہوئی بھی ہے۔ لیکن ساکھ کے حوالے سے وہ سوچتے ہیں جو سنجیدہ سیاست کے حامل ہوتے ہیں۔ سنجیدہ سیاست کا مطلب اپوزیشن اور حکومت کا کردار ادا کرنا نہیں ہوتا، بلکہ دونوں کرداروں کے روپ میں ملک و قوم کی خدمت کرنا ہوتا ہے۔
ملک کی موجودہ سیاسی پارٹیوں میں ملک و قوم سے مخلص اور ان کی خدمت کے لیے کوشاں صرف ایک ہی جماعت ’’جماعت اسلامی‘‘ نظر آتی ہے جو مکمل دیانت داری اور اسلامی اصولوں کے مطابق عوام کی خدمت کے لیے ہر حال میں فعال رہتی ہے، چاہے حکومت میں ہو یا نہ ہو۔ مگر یہاں اس تحریر کا مقصد جماعت اسلامی یا کسی بھی جماعت کی تعریف یا ان پر تنقید کرنا نہیں ہے۔ ان لائنوں کا اصل مقصد صرف سیاست کی آڑ میں کی جانے والی ’’ڈرامے بازی‘‘ کو عیاں کرنا ہے۔ وہ سیاسی ڈرامے بازی جس سے لوگ بیزار ہوچکے ہیں۔
پیپلزپارٹی اگر ملک کی اپوزیشن پارٹی ہے تو وہ کم ازکم رواں جمہوری دور میں حزبِ اختلاف کا کردار ادا نہیں کررہی۔ وہ بالکل اسی طرح کا کردار ادا کررہی ہے جیسے مسلم لیگ نواز نے 2008ء تا 2013ء اپوزیشن کا پراسرار بلکہ دوستانہ کردار ادا کیا تھا۔ شاید یہ کسی خفیہ معاہدے کے باعث ہو جس کے تحت پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز دونوں نے اپنے اپنے ادوار میں اپوزیشن کے نام پر حکومت کی حمایتی یا حلیف جماعت بن کر قوم کو بے وقوف بنانے کا سودا طے کیا ہو۔ ان کرداروں کے لیے جے یو آئی (ف) جمہوریت کے نام پر اپنا ’’مخصوص کردار‘‘ اس خوبصورتی سے ادا کرتی ہے کہ اس پر تبصرہ کرنا ہر کسی کے لیے مناسب نہیں ہوتا۔ جے یو آئی دراصل حکومتوں کے لیے ’’سہولت کار‘‘ جماعت کا کردار ادا کرتی ہے۔ حکومتوں کے لیے سہولتیں پیدا کرنے والی تو اور بھی بہت سی جماعتیں ہیں جو ایوانوں میں نہ بھی ہوں تو اپنا وہی کردار بخوبی ادا کرتی رہتی ہیں۔
یہاں بات کرنی ہے مسلم لیگ نواز اور تحریک انصاف کی، جنہوں نے ساڑھے تین سال سے پورے نظام کو غیر یقینی صورت حال سے دوچار کیا ہوا ہے۔ گزشتہ تین سال سے تحریک انصاف ہر سال حکومت مخالف دھرنے کے لیے اپنے کارکنوں کا خون گرم کرتی ہے مگر پھر اچانک ہی اپنے جوشیلے جوانوں کو بمشکل ٹھنڈا کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے، جس سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ پی ٹی آئی بغیر ہوم ورک، بس کسی کے ایسے اسکرپٹ پر میدانِ سیاست میں کود پڑتی ہے جس کا خاتمہ کرداروں سے چھپا لیا جاتا ہے۔ نتیجے میں اسکرپٹ رائٹرکے بجائے ڈائریکٹر خود بے ہنگم طریقے سے ختم کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ جس طرح پاکستان مسلم لیگ نواز اپنی ساری توجہ پنجاب تک مرکوز رکھتی ہے اسی طرح تحریک انصاف نے بھی اپنی سیاست کو مرکزی حکومت کے تعاقب تک رکھا ہوا ہے۔ شاید کسی نے کپتان کو باور کرادیا ہوکہ اصل سیاست وفاق کی حکومت کو گرانے کا نام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بظاہر نہ تحریک انصاف کو سندھ اور دیگر چھوٹے صوبوں کے امور سے دلچسپی ہے، اور نہ ہی حکومتی جماعت کی ترجیحات میں چھوٹے صوبوں کے امور کو درست طریقے سے چلانا شامل ہے، جس کی سب سے بڑی دلیل موجودہ حکومت کی جانب سے نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ کا فیصلہ کرنے کے لیے ہچکچاہٹ ہے۔ اس سال مارچ سے نویں مردم اور خانہ شماری ہونے کا جواز بناکر آٹھویں این ایف سی ایوارڈ کے معاملے کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔ یہ بات ہے یا کچھ اور، یہ واضح نہیں کیا جارہا۔ البتہ وزیراعظم میاں نوازشریف کچھ زیادہ ہی جلدی میں نظر آرہے ہیں۔ جلد بازی میں وہ نامکمل منصوبوں کا افتتاح کررہے ہیں۔ کراچی اور حیدرآباد سپرہائی وے و نیشنل ہائی وے پر مشتمل ایم نائن موٹر وے کا اس کی تکمیل سے قبل افتتاح کرنے کے بعد شیخوپورہ میں بھکھی پاور پلانٹ کا بھی اس کی تکمیل سے قبل افتتاح کردیا گیا۔ اس پاور پلانٹ کے افتتاح کے بعد نوازشریف نے انتہائی ڈھٹائی سے یہ واضح کیا کہ ’’بھکھی پاور پلانٹ منصوبہ 84 فیصد مکمل ہوچکا ہے، اس منصوبے کا اتنی جلدی مکمل ہونا انہونی سی بات ہے‘‘۔ مطلب یہ کہ ابھی بھی یہ مکمل نہیں ہوا تھا۔
قوم کو انہونی بات یہ لگ رہی ہے کہ منصوبہ مکمل بھی نہیں ہوا پھر بھی یہ کہا جارہا ہے کہ وہ مکمل ہوگیا ہے۔ جس سے یقین ہونے لگا ہے کہ حکمراں قوم کو بیوقوف سمجھنے لگے ہیں یا سمجھتے ہیں۔
وزیراعظم نوازشریف کا یہ کہنا بھی مضحکہ خیز ہے کہ ’’پاکستان تیزی سے ترقی کررہا ہے، جس کو دنیا بھی تسلیم کررہی ہے، ایسے میں ہم ترقیاتی منصوبوں کے فیتے نہ کاٹیں تو کیا کریں؟‘‘ حالانکہ قوم کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نے ترقی تو صرف اپنے شہر لاہور اور رائے ونڈ کو دی ہے جہاں ان کا قلعہ نما گھر ہے، جہاں اندر داخل ہونے کے بعد بھی ایک حصے سے دوسرے حصے میں جانے کے لیے گاڑیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر کوئی ملک کرپشن کے پھلنے، پھولنے اور افراتفری سے ترقی کرتا تو وزیراعظم کی بات درست تسلیم کرلی جاتی۔ لیکن ایسی کوئی مثال ابھی تک پوری دنیا میں کہیں بھی نہیں ہے۔ اس کے باوجود ناقدین کو جواب دیتے ہوئے نوازشریف ان دنوں یہ کہنے لگے ہیں کہ ہم صرف موٹر وے نہیں بنارہے بلکہ ایکسپریس وے، میٹرو بس، اورنج لائن، کراچی کی گرین لائن، کراچی سرکلر ریلوے سب ہمارے دور کے منصوبے ہیں۔ (کے سی آر کا منصوبہ اب تک فائلوں میں ہے جبکہ دیگر منصوبے ان کی حکومت کے خاتمے تک مکمل ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے)
وزیراعظم نوازشریف اور ان کی حکومت سے منسلک شخصیات کے بیانات سے ایسا لگ رہا ہے کہ وہ اپنی حکمرانی کا آخری دور گزار رہے ہیں۔ انہیں خود یقین نہیں ہے کہ وہ دوبارہ اقتدار میں آسکیں گے، بلکہ شاید انہیں یہ یقین ہوچکا ہے کہ وہ موجودہ جمہوری دورِ حکومت بھی پورا نہیں کرپائیں گے۔ اسی بنا پر نامکمل منصوبوں کا افتتاح کرکے سرکاری خرچے پر اپنی کارکردگی کی تشہیر کی جارہی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ مسلم لیگ نواز کی حکومت نے اپنے سابقہ دور سے زیادہ اِس بار عوام کو مایوس کیا ہے۔ نوازشریف حکومت نے قوم کو چھ ماہ کے اندر، پھر ایک سال میں بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا آسرا دلایا، لیکن ساڑھے تین سال گزرنے کے باوجود لوڈشیڈنگ ختم نہیں کرسکی، اور اس وعدے کے حوالے سے جھوٹ بولنا شروع کردیا۔ کرپشن کی رقم سے آف شور کمپنیاں قائم کرنے اور پاناما اسکینڈل کو غلط ثابت کرنے کے لیے حکومت نے قطر کے شہزادے کا خط سامنے لاکر اپنا ہی مذاق اڑایا۔ اگرچہ خط کی حقیقت اب واضح ہوچکی ہے، قطر کے سفیر نے یہ کہہ کر کہ ’’کسی خط کا قطر سے کوئی تعلق نہیں‘‘، سارے معاملے کا بھانڈا پھوڑ دیا۔
حکومت کی جانب سے مختلف منصوبوں کے پے درپے افتتاح کے بارے میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان متعدد بار دعویٰ کرچکے ہیں کہ ’’جب بھی ان کی جانب سے حکومت کے خلاف احتجاج تیز کیا جاتا ہے، حکومت کی جانب سے منصوبوں کے افتتاح تیز ہوجاتے ہیں‘‘۔ ممکن ہے کہ عمران خان بھی اپنے مؤقف میں ’’میاں مٹھو‘‘ کی طرح سچے ہوں۔ لیکن ایک سچ یہ بھی ہے کہ حکومت کی بدعنوانیوں کو ثابت کرنے کے لیے تحریک انصاف اور اس کے رہنماؤں کو تاحال خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوسکی۔ ان تمام سیاسی حالات اور صورت حال کے باوجود اگر میاں نوازشریف اور ان کی حکومت اپنی مدت مکمل کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو یہ کامیابی جمہوریت کی نہیں بلکہ کرپشن اور کرپٹ لوگوں کی ہوگی۔ اللہ ایسی کامیابیوں سے محفوظ رکھے، آمین۔