(برصغیر میں اسلام کے احیاء ور اازادی کی تحریرکیں (نجیب ایوبی

315

انڈین کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ دونوں اپنے اپنے مؤقف پر ڈٹے ہوئے تھے، انگریز سے آزادی کے لیے بھرپور سیاسی جدوجہد کا آغاز ہوچکا تھا۔
دو قومی نظریے کی بنیاد پر پاکستان کے قیام کا مطالبہ زور پکڑتا جارہا تھا۔ اس کے جواب میں انڈین کانگریس نے متحدہ ہندوستان (اکھنڈ بھارت) کے نعرے کے ساتھ قیام پاکستان کی تجویز کی مخالفت میں سیاسی دورے شروع کیے۔ مولانا ابوالکلام آزاد اور گاندھی اس مخالفت میں پیش پیش رہے۔
انگریز وائسرائے ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو مولانا آزاد نے تجویز دی کہ وہ کسی طرح بنگال کی تقسیم کا اعلان کردے، اس طرح بنگالی مسلمان مسلم لیگ کی حمایت سے دستبردار ہوجائیں گے۔ مگر ایسا ممکن نہ ہوسکا اور بنگال کو دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا۔ بنگال کے مسلمانوں نے مسلم لیگ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا اور درحقیقت برصغیر کی تقسیم کی تحریک کی ابتدا ہی بنگال سے ہوئی تھی۔
30 دسمبر 1906ء کو آل انڈیا مسلم لیگ نے ڈھاکا میں جنم لیا اور 1937ء میں پہلی حکومت بھی بنگال میں بنائی۔ مولانا آزاد کلکتہ سے تعلق کی بنیاد پر اپنے آپ کو بنگالیوں کے زیادہ قریب سمجھتے تھے۔
شیرِ بنگال مولوی فضل حق بنگالیوں کے مقبول رہنما تھے۔ کسی معاملے میں قائداعظم سے اختلاف پیدا ہونے کے بعد انہوں نے 1936ء میں اے کے فضل حق کے قائداعظم سے اختلافات پیدا ہونے پر کرشک پرجا پارٹی بنالی تھی اور 1937ء کے الیکشن میں 40 نشستیں جیت لیں، جبکہ مسلم لیگ کی 39 اور کانگریس کی 54 نشستیں تھیں۔ اے کے فضل حق بنگالی مسلمانوں کے لیڈر تھے، لہٰذا مسلمانوں کے دباؤ پر انہوں نے کانگریس کے بجائے مسلم لیگ سے اتحاد کیا جو مولانا آزادکی بہت بڑی ناکامی تھی۔
انڈین کانگریس میں نہرو اور گاندھی جی کے علاوہ بھی لیڈرشپ موجود تھی۔ خاص کر بنگالیوں میں ہندوؤں کا لیڈر سبھاش چندر بوس موجود تھا اور اس کی گاندھی اور نہرو سے نہیں بنتی تھی۔ سبھاش چندر بوس کیونکہ متعصب ہندو رہنما کے طور پر جانا جاتا تھا لہٰذا مسلمان انڈین کانگریس کو ناپسند کرنے پر مجبور ہوئے۔
اسی کی وجہ سے کلکتہ میں ایک وقت وہ بھی آیا جب وہاں کے مسلمانوں نے مولانا آزاد کی امامت میں نمازِ عید ادا کرنے سے انکار کیا۔
حسین شہید سہروردی نے جو متحدہ بنگال کے وزیراعظم تھے، 1946ء میں قائداعظم کی منظوری سے بھرپور کوشش کی کہ بنگال کی تقسیم نہ ہو۔ انڈین کانگریس کے کئی ہندو بنگالی لیڈر متحدہ بنگال کو ایک علیحدہ مملکت بنانے کے لیے تیار تھے۔(حوالہ: کالم ’’ابوالکلام آزاد اور پاکستان‘‘۔ قلم کمان۔ مصنف، حامد میر)
قائداعظم بنگال اور پنجاب کی تقسیم کے خلاف تھے لیکن گاندھی اور نہرو تیار نہ تھے۔ لہٰذا بنگالی مسلمانوں نے آخری آپشن کے طور پر پاکستان کا حصہ بننا پسند کیا۔ 23 مارچ 1940ء کی قراردادِ لاہور (پاکستان) کے مطابق مسلمانوں کی ایک سے زائد مملکتیں وجود میں آسکتی تھیں، لیکن کانگریس نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے ساتھ مل کر ایک طرف متحدہ بنگال کا راستہ روکا، دوسری طرف کشمیر کی آزادی کا راستہ روکا۔
(حوالہ ’’بنگالی مسلمان اور تحریکِ پاکستان‘‘۔ زاہد چودھری)
نظریۂ پاکستان اور دو قومی نظریے کے مخالفین مولانا آزاد کی پاکستان کے حوالے سے کی گئی پیش گوئیوں کو پاکستان کے وجود کے خلاف ایک دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ اس ضمن میں اور پاکستان کے حوالے سے مولانا آزاد کی ہر پیش گوئی کا جواب منیر احمد منیر کی تازہ تصنیف ’’مولانا ابوالکلام آزاد اور پاکستان۔۔۔ ہر پیش گوئی حرف بہ حرف غلط‘‘ میں بھرپور طریقے سے دیا گیا۔
مولانا آزاد کی پیش گوئی تھی کہ ’’بنگالی بیرونی قیادت قبول نہیں کرتے اسی لیے مسٹر اے کے فضل حق نے قائداعظم کے خلاف بغاوت کردی تھی‘‘۔ مصنف منیر احمد منیر نے تاریخی حوالوں سے اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’اے کے فضل حق نے قائداعظم کے خلاف کوئی بغاوت نہیں کی تھی۔ ان کی طرف سے پارٹی ڈسپلن کی مسلسل اور سنگین خلاف ورزیوں پر آل انڈیا مسلم لیگ کے آئین کی رو سے صدر مسلم لیگ قائداعظم نے انضباطی کارروائی کی‘‘۔ مولانا آزاد کی اس دلیل کہ ’’بنگالی باہر کی قیادت کو مسترد کردیتے ہیں‘‘ کے جواب میں مصنف نے تاریخی حوالوں کی تفصیل دیتے ہوئے لکھا ہے کہ بنگال کے پہلے غیر بنگالی مگر مسلمان حکمران سلطان بختیار خلجی سے لے کر جنرل ایوب خان تک بنگالیوں نے کسی بھی حکمران کو اس لیے مسترد نہیں کیا کہ وہ غیر بنگالی تھا۔ مولانا آزاد نے یہ پیش گوئی بھی کی تھی کہ ’’پاکستان بن گیا تو نااہل سیاست دانوں کی وجہ سے یہاں بھی فوج حکمران رہے گی جس طرح کہ باقی کے اسلامی ملکوں میں ہے‘‘۔ ’’مولانا آزاد کی ہر پیش گوئی۔۔۔ حرف بہ حرف غلط‘‘ کے تحت مصنف نے مولانا آزاد کی اس پیش گوئی کے رد میں لکھا ہے کہ 1946ء میں جب مولانا نے یہ انٹرویو دیا صرف چار مسلمان ملک آزاد تھے۔ سعودی عرب، ایران اور افغانستان میں بادشاہت تھی اور ترکی میں جمہوریت۔ باقی سارا عالم اسلام برطانیہ، فرانس، ہالینڈ وغیرہ کی غلامی میں تھا۔ کسی بھی اسلامی مملکت میں فوج کی حکمرانی نہ تھی۔ مولانا آزاد کی پیش گوئیوں میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ ’’پارسی اور یہودی مذاہب کی طرح ہندو بھی موروثی مذہب ہے‘‘۔ جس کے جواب میں مصنف نے ثابت کیا ہے کہ صرف پارسی اور یہودی موروثی مذاہب ہیں، ہندو ازم قطعاً موروثی نہیں۔ اگر ہندو موروثی مذہب ہوتا تو ہندو برہمن قیادت کو مسلمانوں کو دوبارہ ہندو بنانے کے لیے شدھی کی تحریک شروع نہ کرنا پڑتی اور نہ گاندھی یہ کہتے کہ مسلمانوں کو یا تو ہندو بنا لیا جائے گا یا غلام۔
مولانا ابوالکلام آزاد کیبنٹ مشن پلان کے زبردست حامی تھے۔ یہ مشن ہندوستان آیا تو مولانا آزاد کانگریس کے صدر تھے۔ مولانا کی پیش گوئی تھی کہ ان کے جانشین جواہر لال نہرو کیبنٹ مشن پلان تسلیم کیے رکھیں گے۔ اس لیے مولانا کانگریس کی صدارت سے پنڈت نہرو کے حق میں دست بردار ہوگئے، لیکن نہرو جب کانگریس کی کرسئ صدارت پر بیٹھ گئے تو انہوں نے کیبنٹ مشن پلان مسترد کردیا۔ یوں مولانا کی یہ پیش گوئی بھی حرف بہ حرف غلط ثابت ہوئی جس کا مولانا کو عمر بھر افسوس رہا۔ مولانا نے یہ پیش گوئی بھی کی کہ ’’جو صوبے ہندوستان سے علیحدگی کے حق میں ووٹ دیں گے وہ بہت جلد ہندوستان میں واپس آجائیں گے‘‘۔ مولانا کی یہ پیش گوئی بھی حرف بہ حرف غلط ثابت ہوئی۔ حتیٰ کہ بھارت نے سوویت یونین، امریکا اور اسرائیل کی بھرپور سیاسی، سفارتی اور عسکری مدد سے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش تو بنا دیا لیکن آج تک بنگلہ دیش نے بھی انڈین یونین کا حصہ بننے کی خواہش نہیں کی۔
مولانا آزاد نے پیش گوئی کی تھی کہ ’’پاکستان غیر ملکی قرضوں کے بوجھ تلے دبا رہے گا‘‘۔ اس کے جواب میں مصنف نے لکھا ہے کہ 2012-13ء تک پاکستان کے غیر ملکی قرضے ساٹھ بلین ڈالر تھے جبکہ بھارت کے 390 بلین ڈالر۔ مولانا آزاد نے یہ پیش گوئی بھی کی کہ پاکستان میں اندرونی خلفشار اور صوبائی جھگڑے رہیں گے۔ اس کے جواب میں کتاب میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان نہیں بلکہ بھارت اپنے اندرونی خلفشار اور صوبائی جھگڑوں کا خوفناک حد تک شکار ہے جس کے 29 صوبوں میں 14 میں علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں۔ مولانا آزاد نے یہ پیش گوئی بھی کی تھی کہ پاکستان میں غیر ملکی کنٹرول رہے گا۔ مصنف منیر احمد منیر نے ریکارڈ اور شواہد سے تقابلی جائزہ لیتے ہوئے عیاں کیا ہے کہ پاکستان کے مقابلے میں بھارت شروع دن سے غیر ملکی اثرات میں گھرا ہوا ہے۔ ’’مولانا ابوالکلام آزاد اور پاکستان۔۔۔ ہر پیش گوئی حرف بہ حرف غلط‘‘ میں مصنف نے لکھا ہے کہ ایک طرف مولانا آزاد دو قومی نظریے کو پامال بحث قرار دیتے ہیں، دوسری طرف جب اسی دو قومی نظریے کی بنیاد پر پاکستان وجود میں آتا ہے تو بقول شورش کاشمیری مولانا آزاد خان عبدالغفار خان اور صدر مجلس احرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی کو، اور ان کی وساطت سے احرار کو مسلم لیگ میں شامل ہونے کا مشورہ دیتے ہیں۔ گاندھی جی کو پتا چلا تو انہوں نے مولانا آزاد کو بھی مسلم لیگ میں شامل ہونے کا مشورہ دے دیا۔ مولانا آزاد کے انٹرویو نگار شورش کاشمیری کے حوالے سے کتاب میں اسی کانگریسی روپے کی تفصیل بھی دی گئی جو 45ء اور 46ء کے انتخابات میں مسلم لیگ کا مقابلہ کرنے کے لیے نیشنلسٹ علما میں تقسیم کیا گیا۔ مقصد قیام پاکستان کو ناممکن بنانا تھا۔
معروف محقق رضی الدین سید نے اپنے مقالے ’’اگر مولانا قائداعظم کا ساتھ دیتے‘‘ میں نہایت مدلل انداز میں اس طرح لکھا کہ ’’مولانا ابوالکلام آزاد ایک بہت بڑے عالم دین تھے اور دین کی انقلابی دعوت کا آغاز اس دور کے بھارت میں سب سے پہلے انہوں نے ہی کیا تھا۔ لیکن محض ایک ڈیڑھ سال کے عرصے کے بعد ہی صدا لگا کر وہ نہ جانے کیوں اچانک ’چانکیہ سیاست‘ کے گلی کوچے میں اس طرح جانکلے کہ اسلام کا تمام بوریا بستر بھی لپیٹ کر اپنے ساتھ لے گئے! اسی باعث مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے ایک دور میں ان کے بارے میں بہت خوبصورت اور جامع تبصرہ کیا تھاکہ ’’مولانا نے نماز کے لیے اذان تو دی، مگر اس کے بعد جاکر خود گہری نیند سوگئے‘‘ (مفہوم)۔ ملک کے عوام سے راقم کا سادہ سا سوال ہے کہ آخر کوئی وجہ تو ایسی ہوگی کہ اُس دور کا مسلم سوادِ اعظم، قائداعظم کے سوا دوسرے کسی بھی رہنما کی بات سننے کو تیار نہیں تھا۔ بلکہ سننا تو درکنار، پاکستان مخالف شخصیات کو وہ مسلمانوں کے مستقبل کا دشمن گردانتا تھا، خواہ اس شخصیت کا قد و قامت کتنا ہی بلند کیوں نہ پایا جاتا تھا!
حیرت کی بات یہ ہے کہ مولانا نے مسلمانانِ ہند کے لیے سوادِ اعظم سے ہٹ کر ’وطن کی بنیاد‘ کو اسلام سے ہٹ کر ’’سرزمین‘‘ کو قرار دیا تھا۔
(جاری ہے )

حصہ