حلقۂ آہنگ اُردو زبان و ادب کے حوالے سے نہایت اہمیت کی حامل تنظیم ہے اور طویل عرصے سے اپنی کاوشوں کے حوالے سے ادبی حلقوں میں اپنی شناخت رکھتی ہے۔ اس کے عہدے داران و اراکین اپنی مدد آپ کے تحت ہر ماہ ایک پروگرام ترتیب دیتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے ایک ایسی ہی نشست انور جاوید ہاشمی کی صدارت میں منعقد ہوئی، جس کی نظامت حامد علی سیّد نے کی۔ سب سے پہلے ممتاز و معروف شاعر افسانہ نگار نجیب عمر نے اپنا افسانہ ’’پون گز کا رومال‘‘ پیش کیا۔ بعد میں حامد علی سیّد نے اس فن پارے پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ افسانہ دو کرداروں پر مشتمل ہے۔۔۔نمبر ایک بھانڈ، نمبر دو ٹھگ۔ برصغیر پاک و ہند کی تاریخ کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ ایک زمانے میں، خاص طور پر مغلیہ عہد میں، ٹھگ اور بھانڈ اپنے پون گز کے رومال سے کرائم اسٹریٹ میں کمال دکھاتے تھے اور لوگوں کو باآسانی لوٹ لیا کرتے تھے۔ اُف، افسانے میں نجیب عمر نے بہت خوب صورتی سے اس دور کی منظر کشی کی ہے۔ شفیق احمد شفیق نے کہا کہ یہ افسانہ موضوع کے اعتبار سے مکمل ہے، تاہم بھانڈ اور ٹھگ کے کرداروں کے ساتھ انصاف نہیں کیا گیا پھر یہ کہ اس افسانے میں افسانوی عنصرکا فقدان ہے۔ فہیم الاسلام انصاری نے کہا کہ یہ افسانہ ایک بیانہ کہانی ہے، جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ ٹھگ اور بھانڈ ایک مخصوص تیکنک کے ذریعے پون گز کے رومال سے انسان کو موت کی گھاٹ اتار کر مال و اسباب لوٹ لیا کرتے تھے۔ آج کل پستول یہ کام کررہا ہے۔ راہ چلتے ہوئے وارداتیں ہو رہی ہیں اور کوئی پُرسانِ حال نہیں ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ کرائم اسٹریٹ ہر دور میں ہوتے رہے، لیکن ان کا اسٹائل بدلتا رہا ہے۔ فرید شہزاد نے کہا کہ پون کا رومال، ایک چونکا دینے والا افسانہ ہے، صاحبِ صدر نے کہا کہ نواب رام پور تصور علی خاں کی موت کو جس سلیقے سے اس افسانے میں پیش کیا گیا ہے، وہ قابل ستائش ہے۔ اس سے افسانہ نگار کی مہارت نمایاں ہوتی ہے۔ اس پروگرام کے دوسرے دور میں صاحبِ صدر، ناظم مشاعرہ کے علاوہ شفیق احمد شفیق، احمد سعید فیض آبادی، فرید شہزاد، رازق عزیز اور نجیب عمر نے اپنا اپنا کلام نذرِ سامعین کیا۔
۔۔۔*۔۔۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم کے مطابق اُردو کو تمام اداروں کی زبان ہونا چاہیے، لیکن نفاذ اُردو میں رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیں۔ ہماری حکومت مصلحتوں کا شکار ہے اور نوکرشاہی اُرو زبان کے عملی نفاذ سے گریزاں نظر آتی ہے۔ ان خیالات کا اظہار سابق رکن قومی اسمبلی اور ممتاز سماجی رہنما مظفر ہاشمی نے تحریک نفاذ اُردو کی جانب سے منعقدہ مذاکرے میں بحیثیت مہمان خصوصی کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اُردو بین الاقوامی زبان ہے اور دنیا کے بیش تر ممالک میں اپنی جگہ بنارہی ہے، اس زبان میں یہ خاصیت ہے کہ یہ ہر زبان کے الفاظ اپنے اندر جذب کرلیتی ہے اور انہیں نئے استعاروں کے ساتھ پیش کرتی ہے۔ اس زبان کے مخالفین آج تک اس زبان کو صفحۂ ہستی سے مٹا نہیں سکے، کیوں کہ یہ پاکستان کی قومی زبان ہے اور ہر قوم و نسل کا آدمی اس زبان کو سمجھ لیتا ہے، با الفاظ دیگر یہ رابطے کی زبان ہے۔ اُردو زبان و ادب ہمارا قومی سرمایہ ہے، اس کی حفاظت کرنا ہم سب پر فرض ہے۔ الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا سے میری گزارش ہے کہ وہ اپنے اینکرز کے تلفّظ ٹھیک کرائیں، اُردو کے بگاڑ میں حصّہ نہ لیں بلکہ قومی زبان کی آب یاری کریں۔
تقریب کے صدر رفیع الدین راز نے کہا کہ اب امریکا میں بھی اُردو نے اپنے قدم جما لیے ہیں، اب وہاں بھی اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے متعدد تنظیمیں سرگرم عمل ہیں۔ اس موقع پر نسیم احمد شاہ نے خطبۂ استقبالیہ پیش کیا۔ ڈاکٹر نزہت عباسی نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ دیگر مقررین میں شبیر احمد انصاری، خالد احمد سیّد، حسین بخاری شامل تھے، جنہوں نے نفاذ اُردو کے حوالے سیرحاصل گفتگو کی اور حکومتِ وقت سے مطالبہ کیا کہ وہ نفاذ اُردو کی راہ میں حائل مشکلات دور کرے۔ تقریب کے دوسرے دور میں مشاعرہ ہوا، جس میں رفیع الدین راز، راشد نور، سیّد اختر علی انجم، کوثر نقوی، خلیل احمد خلیل، عاصم صدیقی، تزئین راز زیدی، ڈاکٹر نزہت عباسی، صفدر علی انشا، نجیب عمر سلطان مسعود، شاہین حبیب، سحر علی، مرتضیٰ شریف، محمد علی سوز، آسی سلطانی، عاشق شوکی، علی کوثر، مہتاب عالم مہتاب، شاہدہ عروج، اخلاق احمد درپن اور خورشید نیاز شامل تھے۔
۔۔۔*۔۔۔
’’ہندسوں کے درمیاں‘‘ رانا محمود قیصر کا پہلا شعری مجموعہ ہے۔ ان کی تخلیقات میں کہیں بھی اظہار و ابلاغ میں ہم آہنگی کا فقدان نظر نہیں آتا۔ انہیں اپنے مافی الضمیر کے اظہار پر مکمل دسترس حاصل ہے، انہوں نے کمالِ ہنری سے اپنی شاعری کو شعری محاسن سے آراستہ کیا ہے، ان کے یہاں منفی اور قنوطیت پسندی نہیں ہے بلکہ انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے معاشرے کو مثبت پیغام دیا ہے۔ ان خیالات کا اظہار ممتاز شاعر و ادیب مسلم شمیم نے راقم الحروف (ڈاکٹر نثار) سے ایک ملاقات کے دوران کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ رانا خالد محمود قیصر بہت تیزی سے ادبی منظر نامے میں اپنی جگہ بنارہے ہیں، یہ پیشہ وارانہ طور پر بینک کار ہیں، لیکن اتنے خشک پیشے سے وابستگی کے باوجود وہ سراپا خلوص و محبت ہیں، خوش خلق ہیں اور خوش کلام بھی۔ ان کے اشعار میں زندگی کے تمام رویّے رواں دواں نظر آتے ہیں۔ انہوں نے اپنی زمینیں نکالی ہیں اور دوسروں کی زمینوں پر قبضہ نہیں کیا۔ ان کے کلام میں بصیرت و بصارت نظر آتی ہیاور شعری جمالیات ان کے وسیع مطالعے کی آئنہ دار ہیں۔ ان کے اشعار میں کلاسیکی روایات کے ساتھ ساتھ جدید حسیت کا اظہار بھی پایا جاتا ہے۔ انہوں نے ہم عصر سماجی زندگی سے آنکھیں نہیں موڑیں بلکہ زمینی حقائق رقم کیے ہیں اور جدید لفظیات کو نہایت عمدہ پیرائے میں بیان کیا ہے۔ جذبات و احساساتِ انسانی کا جمالیاتی حسن بھی ان کے یہاں نظر آتا ہے۔ استعارات، تلمیحات، علامات کی مسلسل تکرار سے رانا خالد محمود قیصرؔ نے اپنے اشعار کو سنوارا ہے۔ ان کی غزلوں میں ردیفیں اور قافیے آپس میں چسپاں ہیں اور ہر شعر بہت عمدہ ہے۔ ان کے بہت سے اشعار ہمیں دعوتِ فکر دیتے ہیں۔ ان کے یہاں سچائی ہے، جو سامعین و قارئین کو اپنے حصار میں لے لیتی ہے۔ یہ نئی نسل کے شعرا کی فہرست میں اپنا اندراج کراچکے ہیں۔ اُردو ادب کی ترویج و اشاعت کے لیے انہوں نے اُردو لٹریری ایسوسی ایشن پاکستان اور غزل سنگت سے اپنا رشتہ جوڑا ہے اور بہت تن دہی سے مشاعرے و مذاکرے منعقد کرارہے ہیں۔ رانا خالد محمود قیصر نے ہر صنفِ سخن میں طبع آزمائی کی ہے۔ ان کی نعتیں، سلام، مرثیے بھی قابل تحسین ہیں، لیکن یہ بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں۔ غزل ایک مشکل صنف سخن ہے، اس میں اشعار نکالنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں، لیکن رانا محمود کی غزلوں میں غزل کے تمام رنگ نظر آتے ہیں۔ انہوں نے اپنے اسلوب سے ناقدینِ ادب سے داد و تحسین حاصل کی ہے۔ان کے اشعار ادب کا اثاثہ ہیں۔ مجھے امید ہے کہ ان کا یہ شعری مجموعہ اُردو ادب میں ہاتھوں ہاتھ لیا جائے گا۔
۔۔۔*۔۔۔
خیال آفاقی کی تحریروں میں زندگی رواں دواں نظر آتی ہے۔ ان خیالات کا اظہار ممتاز قانون دان جسٹس (ریٹائرڈ) حاذق الخیری نے قائد اعظم رائٹرز گلڈ پاکستان کی جانب سے معروف شاعر و ادیب پروفیسر خیال آفاقی کی کتاب ’’رسول اعظمؐ‘‘ کی تعارفی تقریب کے موقع پر اپنے صدارتی خطاب میں کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ پروفیسر خیال آفاقی کی یہ کتاب اسلامی تعلیمات کے موضوع پر بہت اہم ہے، اس کتاب کو ہر اسکول و کالج کی لائبریری میں شامل ہونا چاہیے۔ یہ کتاب ایمان افروز مضامین سے مزیّن ہے، جسکی اشاعت میں سات برس صرف ہوئے ہیں اوربڑی تحقیق و جستجو کے بعد یہ کتاب تخلیق کی گئی ہے۔ اس موقع پر جلیس سلاسل نے کلماتِ تشکر ادا کیے، جب کہ نسیم انجم نے خطبۂ استقبالیہ پیش کیا۔ پروفیسر شازیہ ناز نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ دیگر مقررین میں آزاد بن حیدر ایڈووکیٹ، میر نواز خان مروت اور ڈاکٹر مجید اللہ قادری شامل تھے۔ آزاد کشمیر سے ڈاکٹر علیم الدین نے ٹیلی فونک خطاب کیا۔ آزاد بن حیدر نے کہا کہ پروفیسر خیال آفاقی کی یہ کتاب اسلامی موضوعات پر ایک دستاویز ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ قوموں کے عروج و زوال میں ادب کا اہم کردار رہا ہے۔ جو قومیں اپنے ادیبوں اور شاعروں کی قدر نہیں کرتیں، وہ بے شمار سماجی اور معاشرتی بُرائیوں میں مبتلا ہوجاتی ہیں۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ پروفیسر خیال آفاقی کو صدارتی ایوارڈ سے نوازا جائے، کیوں کہ انہوں نے ’’رسول اعظمؐ‘‘ جیسی معرکۃ الآرا کتاب لکھ کر پاکستان کے اساتذہ کا حق ادا کردیا ہے۔ میر نواز خان مروت نے کہا کہ پروفیسر خیال آفاقی کی کتاب میں خانہ کعبہ کی مکمل تاریخ بیان کی گئی ہے، جِسے پڑھ کر ہماری دینی معلومات میں گراں قدر اضافہ ہوگا۔ اس کتاب میں آبِ زم زم کے بارے میں بھی سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔ یہ کتاب اُرو ادوب میں اہم اضافہ ہے۔ ڈاکٹر عابدہ پروین نے کہا کہ پروفیسر خیال آفاقی کی یہ کتاب انتہائی مُفید ہے، ہر بات تحقیق کے بعد شامل کی گئی ہے اور ان کا اندازِ تحریر قابل ستائش ہے۔ ڈاکٹر مجید اللہ قادری نے کہا کہ پروفیسر خیال آفاقی ایک ماہر تعلیم ہیں، اس حوالے سے انہوں نے زندگی بھر جہالت کے خلاف جہاد کیا ہے۔ یہ کتاب بھی اسی تسلسل کا حصّہ ہے۔
۔۔۔*۔۔۔
ممتاز شاعر وماہر تعلیم پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی نے کہا ہے کہ عقیل عباس جعفری ایک ہمہ جہت شخصیت ہیں، ان کا ہر حوالہ معتبر ہے، لیکن وہ بنیادی طور پر شاعر ہیں، جب کہ ان کی تحقیقی و ادبی خدمات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ان خیالات کا اظہار ڈاکٹر شاداب احسانی نے آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی لائبریری کمیٹی کے زیر اہتمام بزمِ ظرافت کے تعاون سے ممتاز شاعر و محقق، اُردو ڈکشنری بورڈ کے مدیر اعلیٰ عقیل عباس جعفری کے اعزاز میں منعقدہ تقریب پذیرائی کے موقع پر اپنے صدارتی خطاب میں کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ عقیل عباس جعفری اُردو ادب کی ترقی کے لیے مصروف عمل ہیں، انہوں نے جس ادارے میں اپنی خدمات انجام دیں، اس ادارے کو چار چاند لگائے۔ یہ اُردو ادب کے بہت اہم قلم کار ہیں۔ ڈاکٹر قیصر حیدر نے کہا کہ عقیل عباس جعفری ایک پڑھے لکھے انسان ہیں اور انہوں نے زندگی کے مختلف شعبوں پر کام کیا ہے، ان کی کتابیں تاریخی دستاویز ہیں۔ معلوماتِ عامہ کے حوالے سے بھی ہم انہیں فراموش نہیں کرسکتے۔ آصف انصاری نے کہا کہ عقیل عباس کو اُردو لُغت بورڈ کا مدیر اعلیٰ بناکر حکومت نے اچھا فیصلہ کیا ہے، کیوں کہ عقیل عباس جعفری محقق ہیں اور تنقیدی بصیرت سے مالا مال ہیں، اس لیے اُمید ہے کہ وہ اُردو لُغت بورڈ کی ترویج میں نمایاں کام انجام دیں گے۔ تقریب کے مہمان خصوصی ممتاز صنعت کار میاں عبدالمجید تھے، جب کہ ڈاکٹر سلیم نے نظامتی فریضہ انجام دیا۔ صاحبِ اعزاز عقیل عباس جعفری نے کہا کہ وہ آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے ممنون و مشکور ہیں کہ جس نے میرے لیے اتنی شان دار تقریب کا اہتمام کیا۔ میری کوشش ہوگی کہ میں اپنی تمام تر توانائیوں کے ساتھ اُردو لُغت کی ترقی کے لیے کام کروں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اُردو لُغت بورڈ کو انٹرنیٹ پر لارہے ہیں، موبائل ایپ کی بنائی جارہی ہے اور بچوں کی لُغت پر بھی کام شروع کردیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں وزیر اعظم پاکستان کے مشیر عرفان صدیقی نے بھرپور تعاون کا یقین دلایا ہے۔ اُردو لُغت بورڈ کے دفتر میں ہم ’’کتاب گھر‘‘ بنا رہے ہیں، جہاں بہت کم قیمت پر کتابیں فروخت کی جائیں گی۔ ہم ماہانہ بنیادوں پر ورکشاپ کا آغاز کرنے جارہے ہیں، جس میں ٹی وی اینکرز اور صحافیوں کو ترجیحی بنیادوں پر مدعو کیا جائے گا اور پھر یہ سلسلہ ہر قلم کار تک وسیع کیا جائے گا۔
۔۔۔*۔۔۔
محبان بھوپال فورم اُردو لُغت بورڈ کے تعاون سے محسن بھوپالی کی یاد میں ’’یادیں اور ملاقاتیں‘‘ کے عنوان سے ایک تقریب منعقد کی گئی، جس کی صدارت پروفیسر سحر انصاری نے کی۔ انہوں نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ محسن بھوپالی اس صدی کا اہم نام ہے، ان کی شاعری عوام اور خواص دونوں طبقوں میں مقبول ہے، انہوں نے زندگی کے مختلف شعبوں کو اپنی شاعری کا محور بنایا ہے، لیکن انہوں نے غزل کے روایتی مضامین سے منہ نہیں موڑا۔ تقریب کے مہمان خصوصی ڈاکٹر اکرام الحق شوق نے کہا کہ محسن بھوپالی پیشے کے اعتبار سے انجینئر تھے، وہ اپنے پروفیشن میں کام یاب رہے اور شاعری کے میدان میں بھی ان کا ڈنکا بج رہا ہے۔ انہوں نے اُردو ادب کے سرمائے میں اضافہ کیا، ان کی تحریریں ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔ رضوان صدیقی نے کہا کہ محسن بھوپالی نے اُردو ادب کی بہت خدمت کی، ان کا کلام پارلیمنٹ سے لے کر چائے خانوں اور ادبی محافل میں بڑے ذوق و شوق سے سُنا جاتا ہے۔ اُردو لُغت بورڈ کے مدیر اعلیٰ عقیل عباس جعفری نے کہا کہ محسن بھوپالی کی شاعری عوام کے دلون پر اثرانداز ہوتی ہے، وہ اردو ادب کے اہم قلم کار تھے، ان کے کلام میں بدرجہ اتم جدید لفظیات موجود ہیں۔ محبان بھوپال فورم کی چیئر پرسن شگفتہ فرحت نے ’’یادیں اور ملاقاتیں‘‘ کے عنوان پر ایک مضمون پیش کیا، جس میں محسن بھوپالی کے فن و شخصیت پر سیرحاصل بحث کی گئی۔ اس موقع پر محسن بھوپالی کی صاحبزادی شاہانہ جاوید نے کہا کہ میرے والد محسن بھوپالی ایک عظیم انسان تھے، انہوں نے ہمیں علم کی دولت سے مالا مالِ کیا۔ ان کی شاعرانہ صلاحیتوں کے اعتراف میں مختلف تقاریب ہوئی ہیں، ہر سطح پر ان کی پذیرائی کی گئی، لیکن حکومت نے انہیں صدارتی ایوارڈ سے نہیں نوازا۔ تقریب کی نظامت کار ڈاکٹر حسیب عنبر تھیں۔
۔۔۔*۔۔۔
دادا بھائی انسٹی ٹیوٹ ہائر ایجوکیشن میں ایک مشاعرہ منعقد ہوا، جس کی صدارت پروفیسر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی نے کی، جب کہ عباس ممتاز نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ اس موقع پر صدر مشاعرہ نے کہا کہ تعلیمی اداروں میں ادبی سرگرمیوں کا انعقاد خوش آئند اقدام ہے۔ اس سے طلبہ و طالبات میں ادبی ذوق پیدا ہوتا ہے، ان کی تربیت ہوتی ہے۔ آج کے طالب علم کل کے معمار ہیں، انہیں معاشرہ کا اچھا شہری بنانا ہر تعلیمی ادارے کی ذمّے داری ہے۔ ادب سے جڑے لوگوں کا فرض ہے کہ وہنوجوان نسل تک ادبی سرمایہ منتقل کریں۔ سرور جاوید نے کہا کہ ادب سے، بالخصوص شاعری سے شعور بیدار ہوتا ہے اور انسانوں میں جمالیاتی حُسن پیدا ہوتا ہے۔ دادا بھائی انسٹی ٹیوٹ قابل مبارک باد ہے کہ اس نے اپنے اسٹوڈنٹس کے لیے ادبی سرگرمیوں کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ دوسرے تعلیمی اداروں کو بھی اس ادارے کی تقلید کرنی چاہیے۔ اس موقع پر ڈاکٹر قاسم رضا اور پروفیسر جاذب قریشی کی خدمت میں شیلڈز پیش کی گئیں۔ مشاعرے میں پروفیسر پیرزادہ قاسم رضا، پروفیسر جاذب قریشی، سرور جاوید، لیاقت علی عاصم، سعید الظفر صدیقی، غلام علی وفا، سیف الرحمن سیفی، قیوم واثق، احمد سعید فیض آبادی، پروین حیدر، سعید آغا، مدثر عباس، نعیم سمیر، سلمان ثروت اور عباس ممتاز نے اپنا کلام پیش کیا۔