سیرت: اسد یہ کیا ہے؟
اسد: بڑے مزے کی مووی (وڈیو) ہے، بچے سو جائیں تو دیکھیں گے، بچوں کے سامنے نہ چلانا۔
سیرت: کیا مطلب؟
اسد: بھئی بڑوں کے دیکھنے کی ہے۔
سیرت: اوہو۔۔۔ لیکن۔۔۔ یہ فلم ہمیں بھی نہیں دیکھنی چاہیے، اس قسم کی فلم دیکھنا زنا کے مترادف ہے۔
اسد: بھئی شروع ہوگئیں تمہاری دقیانوسی باتیں۔ کسی کو پتا نہیں چلے گا، ویسے بھی کل چھٹی ہے، رات کو دیر سے چلائیں گے۔
سیرت: اور ہمارا اللہ، وہ نہیں دیکھے گا! ہمارا ہر عمل اس کے سامنے عیاں ہے۔ ہمیں اس سے ڈرنا چاہیے۔
***
جمشید: بیگم دو گھنٹوں سے ان امتحانی کاپیوں میں سر کھپا رہی ہو، جلدی جلدی کام نمٹاؤ۔ لاؤ مجھے دو، میں تمہیں بتاؤں کیسے چیک ہوتی ہیں کاپیاں۔
صنوبر: جناب! پڑھنا پڑھتا ہے ایک ایک لفظ۔
جمشید: ارے بھئی سب پر بغیر پڑھے راہٹ (صحیح) ڈالتی جاؤ، سب پاس ہوجائیں گے، تمہیں دعائیں بھی دیں گے۔ ویسے بھی یہ فائنل کی کاپیاں ہیں، کون دیکھے گا!
صنوبر: پہلی بات یہ کہ مجھے کسی اور کی نہیں اپنے رب کی فکر ہے کہ وہ تو دیکھ رہا ہے۔ دوسری بات یہ کہ ہر بچے کی محنت کا صلہ اسے ملنا چاہیے۔ پڑھنے والے اور نہ پڑھنے والے بچے سب برابر کیسے ہو سکتے ہیں! یہ تو سراسر ناانصافی ہوگی۔
علم دینا اور لینا نبیوں کا شیوہ ہے، اس مقدس پیشے میں خیانت مَیں نہیں کرسکتی۔ اپنے رب کو ناراض نہیں کرسکتی۔ مجھے اللہ کے سامنے جواب دہی کرنی ہے۔ اس بات کا مجھے خوف ہے۔
***
’’سر میرا کام تو ہوجائے گا ناں۔۔۔؟‘‘
’’ہاں ہاں، میں نے کہا ناں، ہوجائے گا، مگر میرے اوپر بھی کچھ لوگ ہیں جنہیں راضی کرنا ہے۔۔۔ اس کے لیے۔۔۔‘‘
’’ارے صاحب، آپ اس کی فکر نہ کریں‘‘۔ یہ کہتے ہوئے صدیقی نے جیب سے ایک لفافہ (رقم کا) نکال کر سر (آفیسر کے) کے سامنے رکھا۔‘‘
’’ارے۔۔۔ ارے یہ کیا کررہے ہیں! اسے یہاں سے اٹھائیں۔ کوئی دیکھ لے گا تو میری تو ملازمت گئی۔ اسے آپ آفس ٹائم کے بعد۔۔۔‘‘
’’میں سمجھ گیا سر۔ فون پر میں آپ سے۔۔۔‘‘
’’ٹھیک ہے ٹھیک ہے، لیکن دیکھو کسی کو پتا نہ چلے۔‘‘
’’جی سر، ہمیں خوش کریں ہم آپ کی خوشی کا خیال رکھیں گے۔‘‘
***
’’ابا۔۔۔ ابا یہ غلط کام ہے۔ آپ نے دودھ میں پانی ملایا ہے۔‘‘
ابا نے غصے سے 12 سالہ بیٹے کو دیکھا اور کہا ’’چل بے، تُو یہاں کیا کررہا ہے! جا۔۔۔ جا گھر، میرے کام میں رخنہ نہ ڈال، کسی نے سن لیا تو۔۔۔! دھندا خراب کرے گا۔ جا اور آئندہ دکان پر نہ آنا۔ دو لفظ کیا پڑھ لیے، باپ کو پڑھانے آگیا۔‘‘
’’لیکن ابا یہ گناہ ہے، اللہ دیکھ رہا ہے۔ آپ لوگوں سے چھپ رہے ہیں لیکن اللہ۔۔۔‘‘
’’ابے چل جا، مغز کھا رہا ہے۔ اور سن، زبان کو بند رکھیو۔ چل جا یہاں سے، میں گھر آکر تجھ سے بات کرتا ہوں۔‘‘
***
’’ماسی میری طبیعت خراب ہے، اچھی طرح کام کرلینا، کل بھی اتوار ہے چھٹی کا دن ہے۔‘‘
’’باجی جی تسی فکر نہ کرو۔ میں سب کام ٹھیک طرح کرلوں گی، آپ آرام کرو۔‘‘
’’لو جی۔۔۔ باجی کام ہوگیا، اب میں جاؤں؟‘‘
’’کام ہوگیا۔۔۔! اتنی جلدی!‘‘ ثمینہ نے کراہتے ہوئے صوفے سے اٹھتے ہوئے کہا۔ دوسرے کمروں کا جائزہ لیا تو اسے غصہ آگیا۔ ’’ماسی تم نے پوچا نہیں لگایا؟‘‘
’’قسم سے باجی، لگایا ہے، سب کمروں کا لگایا ہے۔‘‘
’’نہیں، صاف پتا چل رہا ہے کہ اِسی کمرے کا لگایا، باقی کمروں میں صرف جھاڑو لگائی اور کچن۔۔۔ کچن کی حالت دیکھو، وہاں تو جھاڑو بھی نہیں لگی۔۔۔ ماسی میں نہیں دیکھ رہی تھی لیکن میرا رب تو دیکھ رہا تھا، جو تمہارا رب بھی ہے، تم لوگوں کو بالکل خوفِ خدا نہیں رہا!‘‘
***
میں نے بیٹے اور بہو سے کہا: میں تھک گئی ہوں، آپ دونوں میاں بیوی سامنے دکان سے بچوں کے جوتے لے کر آئیں، ہم دونوں میاں بیوی گاڑی میں ہی بیٹھے ہیں۔ چونکہ دکانوں کے پاس کوئی جگہ پارکنگ کے لیے خالی نہ تھی، تو بیٹے نے تھوڑا آگے گلی کے موڑ پر ایک جگہ خالی دیکھ کر گاڑی کھڑی کردی اور دونوں میاں بیوی شاپنگ کے لیے چلے گئے۔ میری نظریں چاروں طرف کا جائزہ لے رہی تھیں (ایسے موقعوں پر مجھے اپنے کالم کے لیے مواد مل جاتا ہے) اور جاکر ایک دکان پر ٹک گئیں۔ دکان کے اوپر کوئی بورڈ آویزاں نہ تھا۔ عجیب دکان تھی۔ چاروں طرف سے پوری بند، صرف کاؤنٹر پر ایک کھڑکی، وہ بھی بند تھی جہاں دو بندے کھڑے ہوئے تھے لیکن بار بار پیچھے مڑ کر دیکھ رہے تھے کہ کوئی انہیں دیکھ تو نہیں رہا۔ میں نے شوہر سے پوچھا ’’یہ کس چیز کی دکان ہے؟‘‘ شوہر نے اُس طرف دیکھا اور کہنے لگے ’’یہ شراب کی دکان ہے‘‘۔ ’’شراب کی دکان۔۔۔! یہ تو رہائشی علاقہ ہے اور یہ اسلامی ملک ہے، یہ حرام کا کاروبار بھی یہاں ہوتا ہے! کیا حکومت کو اس کا نہیں معلوم؟‘‘ شوہر نے ہنستے ہوئے کہا ’’ہر غلط کام حکومت کی ناک کے نیچے ہی ہوتا ہے، جب عام بندوں کو معلوم ہے تو کیا اعلیٰ حکام کو نہیں معلوم ہوگا؟‘‘ ابھی ہم اس سلسلے میں گفتگو کر ہی رہے تھے کہ کھڑکی پر کھڑا ایک شخص پلٹا، اُس کے ہاتھ میں لفافے میں بوتل ٹائپ کی کوئی چیز تھی جسے چھپاتا ہوا نکلا اور جلدی سے سامنے پارک کی ہوئی گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہوگیا۔ میں نے شوہر سے کہا ’’وہ اس گناہِ کبیرہ کو لوگوں سے تو چھپا رہا ہے، کیا میرے رب سے اس گناہِ کبیرہ کو چھپا پائے گا!‘‘ میں نے گردن کو پیچھے موڑا تو نظر اتفاقاً ایک سبزی والے پر پڑی جو ٹھیلا لیے کھڑا تھا۔ میں نے شوہر سے کہا کہ جب تک میں اس سبزی والے سے سبزی لے لوں۔ ابھی میں گاڑی کا دروازہ کھول کر اترنے کا سوچ ہی رہی تھی کہ سبزی والے کی حرکت پر ششدر رہ گئی۔ اس بندے (سبزی والے) نے زمین پر بہتے ہوئے گندے پانی میں سے پانی کا لوٹا بھرا، پھر چاروں طرف دیکھا کہ کوئی اس حرکت کو دیکھ تو نہیں رہا۔ مطمئن ہونے کے بعد اُس نے اس گندے پانی سے سبزیوں پر چھڑکاؤ کیا اور ساتھ میں آواز لگانے لگا ’’لے لو۔۔۔ لے لو۔۔۔ تازہ سبزی‘‘۔ میں نے شوہر کو سبزی والے کی حرکت بتائی۔ اتنے میں گلی میں سے ایک عورت نمودار ہوئی، اُس نے سبزی والے کو ناپ تول کے بعد پیسے تھمائے اور بقیہ پیسوں کا انتظار کرنے لگی۔ سبزی والا اپنی جیب سے پیسے نکالنے میں مگن تھا، عورت نے سبزی والے کی آنکھ بچا کر دو تین ٹماٹر ٹھیلے سے پار کرلیے اور اپنے سبزی کے تھیلے میں ڈال کر اِدھر اُدھر دیکھنے لگی۔ اس کے چہرے پر کامیابی کی ایک لکیر تھی کہ جیسے میں نے کیسے چھپ کر ٹماٹر اڑائے کہ سبزی والے کو پتا بھی نہیں چلا۔ میں پندرہ منٹ میں دیکھے ان تین واقعات پر غور کررہی تھی کہ یہ تو اُن جانوروں کی طرح ہیں جو آنکھیں بند کرکے سوچتے ہیں کہ اب ہمیں کوئی نہیں دیکھ رہا ہے۔ لیکن یہ ان کی بھول ہوتی ہے۔ دیکھنے والوں کی نظروں سے وہ پوشیدہ نہیں رہ سکتے۔ اسی طرح یہ نادان لوگ اپنے گناہوں کو لوگوں سے پوشیدہ رکھ کر خوش ہورہے ہیں کہ ہمیں کسی نے نہیں دیکھا۔ حالانکہ وہ ذاتِ عظیم جس سے کائنات کا کوئی ذرہ بھی پوشیدہ نہیں، کس طرح ان کے صغیرہ کبیرہ گناہ اس ذات سے پوشیدہ رہ سکتے ہیں! ایسی ذات جو ہماری شہہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے، ہمارے دلوں کے بھیدوں سے بھی واقف ہے۔ تو کیا ہمارے یہ عمل اس سے پوشیدہ رہ سکتے ہیں؟
***
بچپن سے ہی والدین اور اساتذہ کرام ہماری تربیت اسی زاویے پر استوار کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ بیٹا کوئی غلط کام نہ کرنا، چوری نہ کرنا، جھوٹ نہ بولنا، نقل نہ کرنا اللہ دیکھ رہا ہے، وہ غلط کاموں پر سزا دے گا۔ اسی ڈر و خوف سے کہ اللہ ہمیں دیکھ رہا ہے، سزا نہ دے، بچے اپنے آپ کو غلط کاموں سے روکتے ہیں۔
لیکن جوانی میں قدم رکھتے ہی بہت سے انسان اس بات کو شاید فراموش کردیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں چاروں طرف دھوکے بازی، ملاوٹ، زنا، چوری، شراب، جوا جیسی برائیاں نظر آتی ہیں۔ لوگوں سے ڈر کر تو لوگ برائیوں سے دور رہ جاتے ہیں، یا ان سے پوشیدہ برے کام کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ تو کیا ہم رب کے خوف سے اپنے آپ کو ان برائیوں سے نہیں روک سکتے؟ جب کہ وہ ذات قادرِ مطلق، سمیع و بصیر، حاضر وناظر اور موجود ہے۔ جیسا کہ خود اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں 27 ویں پارے میں ارشاد فرمایا ہے: ’’اور وہ تمہارے ساتھ ہے خواہ تم کہیں بھی ہو۔‘‘
تف ہے ایسی زندگی پر جو حاضر و ناظر اور ہمہ وقت موجود علیم و خبیر اللہ کی نافرمانی کرے‘‘۔
یعنی جو فرماں بردار ہوگا رب کا، وہ تو اپنے آپ کو حاضر و ناظر کے خوف سے ہر برے عمل سے روکے گا۔ جو ایسا نہیں کرے گا تو یقیناًوہ رب کا نافرمان ہوگا۔ یعنی وہی بندہ برائی سے بچتا ہے جس کے دل میں اللہ کا ڈر ہو، خوف ہو۔
جیسا کہ قرآن پاک میں تیسرے پارے میں ارشاد ربانی ہے: ’’اللہ تم کو اپنی ذات سے ڈراتا ہے‘‘۔ اللہ سے ڈرنے والے ہی حقیقت میں رب کی رضا حاصل کرپاتے ہیں۔ دین پر، احکام الٰہی پر ثابت قدم رہتے ہیں۔ انہیں لوگوں کی نہیں رب کی پروا، رب کی ناراضی کی فکر ہوتی ہے۔ لہٰذا وہ ہر برائی سے اپنے آپ کو بچا کر چلیں گے۔ یہی تقویٰ ہے۔ حضرت عمرؓ سے کسی نے پوچھا تقویٰ کیا ہے؟ آپؓ نے فرمایا کہ (تقویٰ یہ ہے کہ) پگڈنڈی کے دونوں طرف خاردار جھاڑیاں ہوں اور بندہ ان خاردار جھاڑیوں کے درمیان اپنے لباس اور جسم کو بچاتا ہوا گزرے‘‘۔ بے شک وہ بندے جو دل سے یقین رکھتے ہیں کہ اللہ دیکھ رہا ہے، اُس کے ڈرو خوف سے اپنے آپ کو تمام چھوٹے بڑے گناہوں سے بچا کر زندگی گزاریں گے۔
خوفِ خدا کا فائدہ یہ بھی ہے کہ نہ صرف گناہوں سے بچا جا سکتا ہے بلکہ گناہوں کا استیصال ہوجاتا ہے۔ یعنی گناہ مٹ جاتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا ’’جب صرف اللہ کے ڈر سے مومن بندے کے رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں تو اس کے تمام گناہ ایسے جھڑتے ہیں جیسے بالکل سوکھے درخت سے پتّے جھڑتے ہیں (ابن حبان)۔لہٰذا اولاد کی تربیت کے وقت بھی یہی چیز ان کے ذہنوں میں پیوست رکھیں کہ وہ ہر گھڑی اس خو ف کو ذہن میں رکھیں کہ اللہ ہر وقت، ہر لمحہ ہمارے ہر عمل سے واقف رہتا ہے، وہ دیکھ رہا ہے، ہر برے عمل پر ہماری جوابدہی اس کے سامنے ہوگی، ہر چھوٹے سے چھوٹے اچھے عمل پر جس طرح اجر ملے گا تو برے عمل پر سزا بھی ملے گی۔ آخر میں صرف یہی کہہ سکتی ہوں کہ تمام برائیوں سے بچاؤ کا مضبوط قلعہ خوفِ خدا ہے۔ اس قلعے کو اپنے چاروں طرف پہرے کے لیے مضبوط سے مضبوط رکھیں، کوئی دراڑ نہ چھوڑیں کہ گناہ سرزد ہوجائے، اور یقین جانیے کہ صرف اس ایک قلعہ کی وجہ سے آپ بہت سے برے اعمال اور گناہوں سے نہ صرف خود محفوظ رہ سکتے ہیں بلکہ اپنے چاروں طرف دوست و احباب و اولاد کو بھی برائیوں اور نقصانات سے بچا سکتے ہیں۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ دوسروں کو نقصانات سے کیوں؟ تو آپ اوپر دی گئی میری مثالوں (حقیقی) سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ لوگوں سے چھپ کر کیے گئے گناہ سامنے والے کے لیے کس طرح نقصان کا سبب بنتے ہیں چاہے وہ ملاوٹ کرنے والا ہو، چوری کرنے والا، رشوت دینے والا ہو یا سود وغیرہ لینے والا ہو، شرابی ہو یا زانی۔۔۔ اس کے شکار بننے والے نقصان میں ہی تو ہیں۔ یعنی اپنی تو عاقبت خراب ہوئی، دوسروں کو بھی مالی، جسمانی و ذہنی نقصان پہنچا۔ لہٰذا اپنے من کو خدا کے خوف سے منور کرنا ضروری عمل ہے، جس سے ہماری دنیا و آخرت سنور جائے۔
nn