:5 فروری یوم یکجہتی کشمیر/ڈاکٹر اقبال خلیل

361

بالعموم بھارتی کشمیر کے موضوع پر بات نہیں کرتے ۔ اگر آپ ان کے ساتھ گفتگو میں کشمیر کا حوالہ دیں تو یا تو وہ چراغپا ہو کر سخت جواب دیتے ہیں یا پھر خاموشی اختیار کر لیتے ہیں ۔ بین الاقوامی کانفرنسوں میں یا پاکستان میں جب بھی میر ابھارتی باشندوں سے واسطہ پڑا ہے میں نے ذاتی طور پر بھی یہ بات نوٹ کی تھی کہ وہ کشمیر کے موضوع پر بالکل بات نہیں کرنا چاہتے ۔ لیکن اب ایسا ممکن نہیں رہا ۔ اب ان کے برقی چینلوں میں یہ بھی گفتگو کا موضوع بن چکا ہے۔ ان کے کئی دانشورتو کھل کر کشمیر یوں کو ان کا حق خود ارادیت دینے کی حمایت کر چکے ہیں جب کہ عام طور پر ان کے لکھاری اور اینکر پرسن پاکستان کو مورد الزام قرار دے کر سارا ملبہ اس پر گرانے کی کوشش کر تے ہیں ۔ موجودہ تحریک کے مقامی ہونے اور خالصتاً کشمیری بنیاد پر اٹھنے کی حقیقت اتنی واضح ہے کہ پاکستان میں بھی لبرل اور سیکولر لابی جو بالعموم بھارت نواز ہے اور ہندوستان کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی شدید خواہش رکھتی ہے ۔ اب کشمیر یوں کی طرفداری اور ان کی مرضی سے مسئلہ کشمیر کے حل کی بات کر رہی ہے ۔ عجیب بات یہ ہے کہ اب بھی ان لوگوں کو کشمیریوں کی پاکستان سے محبت بھلی نہیں لگتی ۔ ہزاروں کشمیریوں کے مجمع میں سینکڑوں پاکستانی پرچم جو انہوں نے اپنے ہاتھو ں سے گھروں میں بنا کر اٹھائے ہوتے ہیں وہ ا ن کو نظر نہیںآتے ۔ چکوال کے مشہور مذہب بیزار لکھاری ایاز امیر اب بھی لکھتے ہیں کہ جو لوگ کشمیریوں کی تحریک کو پاکستان کے حق میں قرار دیتے ہیں وہ احمق ہیں۔ لیکن بہر کیف یہ لوگ مجبوراً اقرار کرتے ہیں کہ کشمیریوں کی تحریک میں جان ہے ، وزن ہے اور اس کو اب سنجیدگی سے لیناہوگا۔ حالانکہ یہ امر تو بار بار ثابت ہو چکا ہے کہ چاہیے پاکستان کتنا ہی گرا پرا ہو،کمزور اور ناتواں ہو اپنی تخلیق کے مقصد کو بھلا چکا ہو لیکن کشمیریوں کی اس سے محبت لازوال ہے ۔ وہ جب پاکستان کا جھنڈا اٹھا کر نعرہ تکبیر بلند کرتے ہیں تو وہ تحریک پاکستان کی یاد تازہ کرتے ہیں۔ اس طرح وہ اپنی موت کو دعوت دیتے ہیں ۔ اپنی جان خطرے میں ڈالتے ہیں کیونکہ بھارتی فوجیوں کے لیے اس سے بڑھ کر اشتعال انگیز حرکت کوئی اور انہیں ہو سکتی لیکن کشمیری نوجوان اس سے بے نیاز ہو کر ،جذبہ جہاد سے سر شار ہو کر یہ حرکت کرتے ہیں۔بھارتی قابض فوج نے کشمیریوں کے جذبوں کو پست کرنے اور ان کی تحریک کو کچلنے کے لیے ایک نیا حربہ استعمال کیا ،ایک نئی گن ایجا د کی اور اس کا بے دریغ استعمال کیا ۔ برہان وانی کی شہادت کے بعد اٹھنے والی عوامی تحریک کو کچلنے کے لیے ایک نیا حربہ استعمال کیا گیا۔ اس شاٹ گن کا استعمال کیا جا رہا ہے جس کے کارتوس میں چھوٹے چھوٹے دھاتی چھرے ہوتے ہیں ۔ جن کی تعداد 100سے زائد ہوتی ہے ۔
یہ چھرے قریب سے لگتے ہیں تو کپڑوں کو پھاڑتے ہوئے جسم میں گھس جاتے ہیں اور بے پناہ تکلیف کا باعث بنتے ہیں۔ ان چھروں کو انسانی جلد اور عضلات کے اندر سے نکالنا عملاً ممکن نہیں ہوتا اور یہ مستقل تکلیف دیتے ہیں ۔ اگر یہی چھرے چہرے پر لگ جائیں تو بھی جلد کو چیرتے ہوئے اندر گھس جاتے ہیں اور اگر آنکھ پر لگ جائیں تو اس کو ناقابل علاج نقصان پہنچاتے ہیں اور مجروح بصارت سے محروم ہو جاتا ہے ۔ اب تک سینکڑوں کشمیری اس گن کا شکار ہو چکے ہیں اور ایک بھیانک اذیت سے دو چار ہیں اس میں وہ بچے اور بچیاں بھی شامل ہیں جو اپنے گھروں میں تھے اور اچانک اس گن کا ہدف بن گئے اور معذوری سے دو چار ہو گئے ۔ چھروں والی اس گن کا استعمال اس سے پہلے 2010کی عوامی تحریک کے خلاف بھی کیا گیا تھا لیکن پھر مقامی و عالمی رد عمل کے بعد اس کو ترک کر دیا گیا ۔
یہ محض اتفاق ہے کہ اس وقت کشمیر رہنما محبوبہ مفتی مقبوضہ کشمیر کی نام نہاد اسمبلی میں اپوزیشن رہنما تھیں اور انہوں نے اس ظالمانہ اقدام پر سخت احتجاج کیا تھا اور اب وہی محبوبہ صاحبہ مقبوضہ جموں و کشمیر کی کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ ہیں لیکن انھی کے دور اقتدار میں کشمیریون پر وہی چھروں والی بندوق استعمال کی جارہی ہے ۔ بییسیوں بچے بچیاں اپنی بینائی کھوچکے ہیں ،سینکڑوں سخت زخمی حالات میں ہسپتال میں میں پڑے ہوئے ہیں لیکن بھارتی ایجنٹوں کو یہ توفیق نہیں ہو پا رہی کہ وہ اپنی پولیس کو اس کے استعمال سے منع کر سکیں۔
کشمیر ی نوجوانوں اور بچوں کو چہرے پر چھروں والی بندوق کے مارنے سے جس اذیت کا سامنا ہے کشمیر ی اور پاکستانی بلاگر ز نے مل کر سماجی میڈیا پر ایک عجیب انداز میں اپنے غم و غصے کا اظہار کیا ہے ۔ انہوں نے مشہور عالمی، بھارتی وپاکستانی شخصیات کی تصاویر کو فوٹو شاپ سے گزار کر چھروں سے زخمی دکھانا شروع کیا کہ کیا خیال ہے کہ اگر کشمیری بچوں کی جگہ آپ کے ساتھ یہ عمل ہوتا تو آپ کیسے نظر آتے ۔ نریندر سنگھ مودی ، سونیا گاندھی ، امیتابچن اورشاہ رخ خان سے لے کر پاکستانی وزیر اعظم میاں نواز شریف اور فیس بک کے بانی مارک ذکر برگ کو اس عمل سے گزارا گیا اور ان کی بلیک اینڈ وائٹ تصاویر فیس بک کی زینت بنیں پوری دنیا میں اس سلسلہ کو مقبولیت حاصل ہوئی اور کروڑوں کی تعداد میں اس کو شےئر کیا گیا ۔ لیکن مقبوضہ کشمیر میں جاری تحریک مسلسل قربانیوں اور بھارتی فوج کے مظالم پر جو رد عمل پاکستان میں ہونا چاہیے تھا وہ نظر نہیں آیا ۔ عوامی سطح پر جماعت اسلامی نے سرگرمیاں دکھائی ہیں اور جلسوں ،مظاہروں اور ریلیوں کا اہتمام کیا ۔ بعض دیگر جماعتوں کے قائدین بشمول بلاول بھٹو نے کشمیر یوں کے حق میں بیانات دئیے لیکن ٹھوس صورت میں اقدامات نہیں کئے گئے ۔ اصل کام بین الاقوامی سطح پر سفارتکاری ہے ۔اس کے لیے ضروری ہے کہ پاکستانی سفارتی حلقے کشمیر کے مسئلہ پر عالمی رائے عامہ میں آگہی پیدا کریں اور بھارتی مظالم اور کشمیری عوام کے جذبات و احساسات کو زبان دیں ۔ اگر پاکستانی سفارتخانے پوری دنیا میں اس مسئلہ کو نمبر ون ترجیح دیکر اس مقصد کے لیے کام کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ کشمیر یوں کو عالمی فورمز میں اپنا حق نہ ملے اور وہ اپنا کیس خود لڑنے کی پوزیشن میں آجائیں گے۔ اگر دنیا واقعتاً عالمی امن کی خواہاں ہے اور دہشت گردی کے بنیادی اسباب کا سد باب چاہتی ہے تو اس کو دو مسئلے لازماً حل کرنے ہوں گے ۔ ایک مسئلہ فلسطین اور دوسرا مسئلہ کشمیر ۔ یہ دو ایسے رستے ہوئے ناسور ہیں جن کے علاج کے بغیر دنیا میں امن قائم نہیں ہو سکتا ۔ طاقت اور بد معاشی سے قوموں کو نہیں دبا یا جا سکتا ۔ عدل و انصاف کے تقاضے پورے کر کے ہی مسائل حل ہوں گے ۔ اس اصول کو جتنی جلد قبول کر کے تسلیم کر لیا جائے اور بروئے کار لایا جائے اتنی جلد ہی ہم عالمی امن کا خواب شرمندہ تعبیر کر سکتے ہیں۔
اس بار 5فروری کو ایک قابل افسوس اقدام جماعتہ الدعوۃکے قائد اور جہاد کشمیر کے ایک بڑے پشتیباں حافظ سعید کی نظر بندی ہے ۔ بین الاقوامی دباؤ اور بھارتی لابی کے ایماء پر اس قسم کی کاروائی کشمیریوں کو ایک غلط پیغام دینا ہے ۔ کشمیر ی حریت رہنما تو پہلے بھی حکومت پاکستان کے کردار سے شاکی ہیں اور بر ملا اس کا اظہار بھی کرتے ہیں ۔یوم یکجہتی کشمیر سے چند روز پہلے جماعتہ الدعوۃ کے خلاف کاروائی اور حافظ سعید کی نظر بندی کا اعلان کیا معنی رکھتا ہے ۔ دوسری طرف بھارت اپنے سخت موقف سے ایک انچ بھی ہٹنے کا ارادہ نہیں رکھتا ۔ اس نے کشمیریوں کو خیر سگالی کا معمولی سا اشارہ بھی نہیں کیا بلکہ وہ مسلسل لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزیاں کر رہا ہے بلا اشتعال فائرنگ اور گولہ باری کے ذریعے آزاد کشمیر کے شہروں کی زندگی کو مشکلات کا شکار کیا ہے ۔اب بھی سرجیکل سٹرائیک کی دھمکیاں دے رہا ہے ۔ ہماری بہادر فوج اور کشمیری عوام مسلسل اس کی زیادتیوں کا جواب دے رہے ہیں تو ہم کیوں کمزور پڑ رہے ہیں۔ کشمیر پر ہمار ا موقف مبنی بر انصاف ہے ۔ پوری کشمیر ی قوم آزادی کے لیے بے چین ہے ۔ قربانیاں پیش کر رہی ہے تو ہم کیوں کمزوری دکھائیں۔ یہ بات حکومت کو سمجھنی ہو گی اور پاکستانی قوم کو اس نکتے پر اپنی توجہ مرکوز کرنی ہو گی یہی 5فروری کا پیغام ہے ۔

حصہ