اللہ سے کون لوگ ڈرتے ہیں (محمدعمر احمد خان)

422

اللہ پاک اپنی مقدس کتاب قرآن مجید میں فرماتا ہے:
’’آسمانوں اور زمین کا پیداکرنا انسانوں کو پیدا کرنے کی بہ نسبت یقیناًزیادہ بڑا کام ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں‘‘۔
امام ابن کثیرؒ ایک واقعہ نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ بنی اسرائیل کے عابدوں میں سے ایک نے اپنی تیس برس کی مدتِ عبادت پوری کرلی تھی، مگر جس طرح اور عابدوں پر تیس برس کی عبادت کے بعد ابر کا سایہ ہوجایا کرتا تھا، اُس پر نہ ہوا تو اپنی عبادت گزار ماں کو گوش گزار کیا۔
ماں نے کہا: ’’بیٹا، تم نے اپنی اس عبادت کے زمانے میں کوئی گناہ کیا ہوگا؟‘‘
عابد نے کہا: ’’اماں، ایک بھی نہیں۔‘‘
ماں نے کہا: ’’پھر کسی گناہ کا پورا قصد کیا ہوگا؟‘‘
جواب دیا: ’’ایسا بھی مطلقاً نہیں ہوا۔‘‘
ماں نے کہا: ’’بہت ممکن ہے کہ تم نے آسمان کی طرف نظر کی ہو اور غوروفکر کے بغیر ہی ہٹالی ہو۔‘‘
عابد نے کہا: ’’ایساتو برابر ہوتا رہا۔‘‘
فرمایا: ’’بس یہی سبب ہے۔‘‘
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی لوگوں کو علم حاصل کرنے کا حکم دیا اور بڑی تاکید سے فرمایا کہ علم کا حصول ہمارے فرائض میں شامل ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمانِ مبارک ہے:
’’علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے‘‘۔
ایک اور مقام پر آپؐ نے فرمایا:
’’علم حاصل کرو اور دوسروں کو سکھاؤ‘‘۔
قرآن مجید کی سورہ فاطر کی آیت 28 میں باری تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’اللہ تعالیٰ سے اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں، جو صاحبِ علم ہیں‘‘۔
اس آیت کی روشنی میں اگر علامہ عنایت اللہ مشرقی کا وہ واقعہ بیان کیا جائے تو آپ سب کو سیکھنے میں یقیناًآسانی ہوگی۔ یہ واقعہ علامہ کے ساتھ اُس وقت پیش آیا، جب وہ برطانیہ میں زیر تعلیم تھے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’1909کا ذکر ہے، اتوار کا دن تھا اور زور کی بارش ہورہی تھی۔ میں کسی کام سے باہر نکلا تو جامعہ کیمبرج کے مشہور ماہر فلکیات سر جیمز جینس بغل میں انجیل دبائے چرچ کی طرف جارہے تھے۔ میں نے قریب ہوکر سلام کیا تو وہ متوجہ ہوئے اور پوچھنے لگے: ’’کیا چاہتے ہو؟‘‘
میں نے کہا: ’’دوباتیں، اوّل یہ کہ زور سے بارش ہورہی ہے اور آپ نے چھاتہ بغل میں داب رکھا ہے۔‘‘
یہ سُننا تھا کہ سر جیمز اپنی بدحواسی پر مسکرائے اور چھاتہ تان لیا۔
میں نے کہا: ’’دوم یہ کہ آپ جیسا شہرۂ آفاق آدمی گرجا میں عبادت کے لیے جارہا ہے؟‘‘
میر ے اس سوال پر سر جیمز لمحہ بھر کے لیے رُک گئے اور پھر میری طرف متوجہ ہوکر کہا: ’’آج شام میرے ساتھ چائے پیو!‘‘
میں شام کو ان کی رہائش گاہ پر پہنچا۔ ٹھیک چار بجے لیڈی جیمز نے باہر آکر کہا: ’’سر جیمز تمہارے منتظر ہیں۔‘‘
اُن کے کمرے میں پہنچا تو ایک چھوٹی سی میز پر چائے لگی ہوئی تھی اور پروفیسر صاحب کسی خیال میں ڈوبے ہوئے تھے۔ مجھے دیکھ کر کہنے لگے: ’’تمہارا سوال کیا تھا؟‘‘
پھرمیرے جواب کا انتظار کیے بغیر اجرام آسمانی کی تخلیق، ان کے حیرت انگیز نظام، بے انتہا پہنائیوں اور فاصلوں، ان کی پیچیدہ راہوں اور مداروں، نیز باہمی روابط اور طوفان ہائے نور پر وہ ایمان افروز تفصیلات پیش کیں کہ میرا دل اللہ کی اس کبریائی و جبروت پردہل اُٹھا اور ان کی اپنی کیفیت یہ تھی کہ سر کے بال کھڑے ہوگئے تھے اور آنکھوں سے حیرت و خشیت کی دوگونہ کیفیتیں عیاں تھیں۔ اللہ کی حکمت و دانش بیان کرتے ہوئے اس کی طاقت و ہیبت سے اُن کے ہاتھ قدرے کانپ رہے تھے اور آواز لرز رہی تھی۔ اسی حال میں فرمایا: ’’عنایت اللہ خاں، جب میں اللہ کے تخلیقی کارناموں پر نظر ڈالتا ہوں تو میری تمام ہستی اللہ کے جلال سے لرزنے لگتی ہے اورجب میں کلیسا میں اللہ کے سامنے سرنگوں ہوکر کہتا ہوں کہ تُو بہت بڑا ہے۔۔۔ تو میری ہستی کا ہر ذرّہ میرا ہم نوا بن جاتا ہے اور مجھے بے حد سکون اورخوشی نصیب ہوتی ہے۔ مجھے دوسروں کی نسبت عبادت میں ہزار گنا زیادہ کیف ملتا ہے۔۔۔ کہو عنایت اللہ خاں، تمہاری سمجھ میں آیا، میں کیوں گرجے جاتا ہوں؟‘‘
علامہ مشرقی بیان کرتے ہیں کہ پروفیسر جیمز کی اس تقریر نے میرے دل ودماغ میں ہلچل مچادی۔ میں نے کہا: ’’جنابِ والا، میں آپ کی روح پرور تفصیلات سے بے حد متاثر ہوا ہوں اور اس موقعے پر مجھے قرآن مجید کی ایک آیت یاد آگئی ہے، اجازت ہو تو پیش کروں؟‘‘
انہوں نے فرمایا: ’’ضرور۔۔۔ضرور۔۔۔‘‘
میں نے اُن کے سامنے سورہ فاطر کی آیت 27۔28 پڑھیں، جن کا ترجمہ یہ ہے:
’’اور پہاڑوں میں سفید اور سرخ رنگوں کے قطعات ہیں اور بعض کالے سیاہ ہیں۔ انسانوں، جانوروں اور چوپایوں کے بھی کئی طرح کے رنگ ہیں۔ اللہ سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں، جو صاحبِ علم ہیں۔‘‘
یہ سُننا تھا کہ پروفیسر جیمز تڑپ اُٹھے اور بولے:
’’کیا کہا۔۔۔اللہ سے صرف اہلِ علم ڈرتے ہیں؟ حیرت انگیز، بہت عجیب۔ یہ بات جو مجھے پچاس برس مسلسل مطالعے اور مشاہدے کے بعد معلوم ہوئی، محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کس نے بتائی؟کیا قرآن مجید میں واقعی یہ آیت موجود ہے؟ اگر ہے تو میری شہادت لکھ لو کہ قرآن ایک الہامی کتاب ہے۔ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اَن پڑھ تھے، انہیں یہ عظیم حقیقت خودبخود معلوم نہیں ہوسکتی تھی، یقیناًاللہ تعالیٰ نے انہیں بتائی تھی۔ بہت خوب۔۔۔بہت عجیب!‘‘
سائنس ہمیں اس کائنات اور دیگر موجودات کے مطالعے کا ایک طریقہ بتاتی ہے۔ قران مجید میں ہمیں مخلوق کے وجود کی رعنائیوں اور خالق کی حکمتِ بالغہ کا شعور ملتا ہے۔ اسلام سائنس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔پاک کتاب کے ذریعے ہم تخلیقاتِ خداوندی کی لطافتوں اور نزاکتوں کا بہتر مطالعہ کرکے اللہ کے پسندیدہ بندے بن سکتے ہیں!!
nn

حصہ