بہت عرصے بعد میں نے آج اپنی بڑی بہن فضیلہ کو دیکھا، جو کبھی اتنی خوب صورت ہوا کرتی تھیں کہ میں انہیں گھنٹوں تکا کرتی۔ ہاں، میں انہیں دیکھ دیکھ کر جیا کرتی تھی، کیوں کہ جب حمید بھائی سے اُن کی شادی ہوئی تو مجھے ایسا لگا کہ میری زندگی کا مقصد ختم ہوگیا ہو۔ آج برسوں بعد جب میں یہ باتیں سوچتی ہوں تو بے ساختہ مسکراہٹ میرے لبوں تک آکر رک جاتی ہے اور اندر سے ایک آہ نکلتی ہے کہ کاش ہم نے زندگی کی بے ثباتی کو محسوس کیا ہوتا اور اپنی زندگی، جس کا مقصد رضائے الٰہی کا حصول ہے، اس کی تگ و دو میں گزارتے۔ کاش، ہم اپنے اردگرد بسنے والوں سے ہی عبرت لے لیتے۔ میری بہن جو ہم سب میں بڑی تھیں، وہ بڑی ہونے کے ناتے ہم سب پر اپنی مرضی مسلط کردیتی تھیں، اور یہی اپنا فرض سمجھتیں۔ پڑھائی سے لے کر شادی تک اپنی من مانی کی۔ اماں ابا کی کوئی بات نہ مانتیں۔ میری ماں ایک نجی اسپتال میں مڈوائف کی نوکری کرتی تھیں۔ ساری زندگی ہم چاروں بھائی بہنوں نے اپنے بے روزگار باپ کی ٹھنڈی آہیں سنیں۔ اس میں سارا دن کچھ بھوک اور لاچاری میں گزارتے۔ بقول اماں کے، ہمارے ابا بھی کافی اچھا کاروبار کرتے تھے۔ ہمارے گھر میں نوکر چاکر ہوا کرتے تھے۔ اس بات کی گواہی تو باجی بھی دیتی ہیں کیوں کہ جب دونوں ملکوں کی سرحدیں الگ ہوئیں تو باجی اُس وقت خاصی ہوشیار ہوچکی تھی۔ جب ہم پاکستان آئے تو میں کھیلنے کودنے کے سوا کوئی کام نہ کرتی تھی اور نہ آتا تھا۔ ہمارے پڑوسی حمید بھائی بلا ضرورت گھر میں آنا جانا رکھتے تھے۔ اماں ابا گھر میں نہ ہوتے تو ان کا آنا جانا ہوتا۔ گھر کچی آبادی میں تھا، ہجرت کے بعد یہ سر چھپانے کا واحد ٹھکانا تھا۔ اماں ابا خدا کے شکر گزار رہتے۔ بہت جلد باجی نے اپنی زندگی کے ساتھی کا فیصلہ کرلیا جو حمید بھائی تھے۔
شادی تو کردی ابا نے، مگر ساتھ ہی یہ بھی بتادیا کہ بیٹا اپنی مرضی کرنے والے ہمیں بالکل ہی ناپسند ہیں، اس بستی میں ہم عزّت سے جو وقت کاٹ رہے ہیں اس کو کاٹ لینے دو، اس لیے ہمارے گھر کے دروازے تم پر اب بند ہیں۔
مگر جناب، باجی نے اس فیصلے پر کوئی واویلا کیا نہ رونا دھونا مچایا۔ بڑی خاموشی سے رخصت ہوکر اپنے دولہا کے ساتھ نئی زندگی کی طرف قدم بڑھا چکی تھیں۔ اسی بستی کے دوسرے حصے میں، جہاں حمید بھائی اپنے باقی بھائی بہنوٍں کے ساتھ رہتے تھے۔ وہ کراچی کے بلدیاتی ادارے میں ملازم تھے، ان کے گھر کے حالات ہمارے گھر سے بہتر تھے اور وقت کے ساتھ ساتھ مزید بہتر ہوتے گئے۔ پھر حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ جس ادارے میں ملازمت کبھی خواب ہوا کرتی تھی۔۔۔ لسانیت کی بنیاد پر لوگوں کی لوٹ کھسوٹ نے، جی ہاں میری نظر میں وہ ناحق ہی ہے جو اپنے حصے سے زیادہ لے، دنیا میں جیت ہوگی لیکن آخرت میں اللہ کے حضور پہنچ کر اپنا کھاتہ بھی تو کھولے گا۔۔۔ وہاں پر ملازمت کرلی۔
باجی کہتی تھیں کہ میں خوش گوار ازدواجی زندگی گزار رہی ہوں۔ ان کو کسی کی مداخلت برداشت نہیں تھی اور ہماری باجی اپنے دو بچوں اور میاں کی ہمراہی میں زندگی بسر کررہی تھیں۔ نہ وہ بیٹی رہیں، نہ بہن، نہ کوئی اور رشتہ رہا۔ وقتاً فوقتاً ہم ان سے ملنے جاتے تھے۔ ان کے حالات بھی بہتر ہوگئے تھے۔
جوں جوں بچے بڑے ہورہے تھے، باجی کی وہی حکم رانی کی عادت چل رہی تھی اور باپ بھی بے بس تھا۔ ان دونوں کی پریشانیوں میں اضافہ ہی ہورہا تھا۔ بڑے بیٹے نے باپ اور ماں کی تقلید کرتے ہوئے اپنی کسی کولیگ سے شادی رچالی۔ باپ کے برے وقتوں کے لیے بچائے گئے بینک بیلنس سے کیا گیا کاروبار کچھ دن کی چاندنی ثابت ہوا۔ چھوٹے بیٹے نے بڑے بھائی کے ساتھ مل کر کاروبار میں خوب گھپلا کیا، پھر اسی پاداش میں بڑے بھائی نے دوسرے پارٹنر سے جھگڑا کیا، اسی لڑائی جھگڑے میں چھوٹا بھائی اپنی جوانی کے کئی سال جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارنے پر مجبور تھا۔ آخر جھگڑوں اور دھمکیوں سے تنگ آکر بڑا بھائی اور باجی کا شوہر بھی روپوش ہوگئے اور وہ دونوں آج کل گم نامی کی زندگی بلکہ بیوی بچوں سے لاتعلقی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
اس کہانی کی ابتدا اس خاندان کی ہجرت سے ہوئی تھی، لیکن دین سے دوری اور دولت کی ہوس، ہٹ دھرمی اور خوفِ خدا نہ ہونے کے باعث اس کا شیرازہ بکھرگیا۔ کاش کہ اس وقت ہجرت کے اصل معنی سمجھ جاتے تو یہ حالات نہ ہوتے۔ آج ہمارے معاشرے میں ہر انسان بے سکون، بے کل اور بیمار ہے، سوائے اُن چند نفوس کے جو خدا کے لیے خدا کے بندوں کے کام آتے ہیں۔ صبر اور حق سے کام لیتے ہیں اور بہی لوگ کام یاب ہیں!!
nn