زمان�ۂجہالیت میں عرب قبائل معمولی معمولی بات پر برسوں جنگ لڑا کرتے تھے، جس میں جان ومال، عزّت و آبرو سب کچھ داؤ پر لگادیا جاتا تھا۔ قبائلی عصبیت ایسی تھی کہ سب کچھ قربان کر کے بھی اپنی اَنا کے لیے جنگ جاری رکھتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ جنگ بعاث دو قبائل میں 100برس سے بھی زیادہ عرصے تک لڑی گئی، جس میں تین نسلوں نے حصہ لیا۔ اس جنگ کا خاتمہ دینِ اسلام کو قبول کرنے اور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سائے میں آنے کے بعد ہوا۔ بعد میں لوگ اس جنگ کو یاد کرکے افسوس کا اظہار کیا کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں یہودی لڑایا کرتے تھے اور اصل میں ہمارے حکم ران یہودی ہی تھے، لیکن ان لوگوں نے اسلام قبول کرنے کے بعد نہ کسی کی غلامی قبول کی اور نہ ہی دیگراقوام کے لوگوں کو آزادی دلانے کے لیے لڑی جانے والی جنگ پر افسوس کا اظہار کیا بلکہ اسلام کی سر بَلندی اور انسان کو انسان کی غلامی اور ظلم و ستم سے نجات دلانے کے لیے اپنا سب کچھ قربان کردیا اور اس بات پر ہمیشہ فخر کیا۔
اسلامی تاریخ میں مسلمانوں نے طوقِ غلامی سے نجات کے لیے کئی جنگیں لڑیں اور طویل ترین جدوجہد کی۔ خود مختاری اور آزادی کے لیے دنیا میں آج بھی جدوجہد جاری ہے، جسے ’’جنگ آزادی کشمیر‘‘ کہا جاتا ہے۔ 70 برس سے لڑی جا نے والی یہ جنگ قبائلی عصبیت اور اِنا کے لیے نہیں بلکہ آزادی اور خود مختاری کے لیے لڑی جارہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ طویل جدوجہد کے بعد، جس میں اب تیسری نسل بھی شریک ہو چکی ہے، نے اپنے اُسی جذبے اور لگن کے ساتھ آزادی کی تحریک اور جدوجہد کو جاری رکھا ہوا ہے، جس دن سے یہ شروع ہوئی تھی۔ اتنی طویل جنگ سے اکثر لوگ اُکتا جاتے ہیں، قوتِ برداشت جواب دے جاتی ہے، نتیجہ برآمد نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں میں مایوسی پھیل جاتی ہے اور بعض اوقات تحریک بھی دم توڑ دیتی ہے، لیکن مقبوضہ وادی کشمیر میں اپنی خود مختاری اور جدوجہد آزادی کی یہ جنگ آج بھی اپنی پوری توانائیوں کے ساتھ نہ صرف جاری ہے بلکہ بوڑھے،جوان، عورت، مرد، بچے سب ہی پُرجوش ہیں، ان کے حوصلے جوان ہیں اور انہیں اُمید ہیں کہ ان شاء اللہ ان کی جدوجہد ضرور رنگ لائے گی۔ آزادی کے ان متوالوں کی ہمت کم ہو نے کے بجائے ہر روز بڑھ رہی ہے، کیوں کہ یہ جنگ آزادی کی جنگ ہے۔
مہینوں لگا رہنے والا کرفیو بھی اس جدوجہد آزادی کے جذبے کو سرد نہیں کر سکا۔ مسلسل کرفیو اور فوجی بوٹوں کی چاپ اور تمام تر ریاستی ظلم و ستم کے باوجود کشمیری عوام کے چہروں پر خوف کے بجائے اُمید کی کرن روشن ہے اور اسی اُمید کے سہارے 70 سال مقبوضہ کشمیر کا ایک ایک فرد ہر روز یہ نعرہ لگارہا ہے کہ ’’کشمیر بنے گا پاکستان۔۔۔‘‘ ’’ہمیں کیا چا ہیے آزادی۔۔۔‘‘ ظلم کی چکّی میں پسے ہوئے ان لوگوں کو معلوم ہے کہ ہماری جدوجہد آزادی کے لیے ہے تو پھر مایوسی کیسی؟ مایوس وہ ہوں، جو اس جنگ کو آزادی کی جنگ نہیں سمجھتے۔۔۔ کشمیری عوام کی ڈکشنری میں ’’مایوسی‘‘ کا لفظ ہی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے لوگ طویل کرفیو، بھارتی افواج اور انتظامیہ کے ہر ظلم و ستم کو برداشت کر تے ہیں۔۔۔ بھوک، پیاس اور آنسو گیس کے ساتھ ساتھ پلیٹ گن کا بھی سامنا کرتے ہیں، اپنی تعلیم کا ہرج اور اپنے کاروبار کا نقصان برداشت کرتے ہیں، لیکن کبھی بھی اپنی زبان پر مایوسی کا لفظ نہیں لاتے، کبھی یہ نہیں کہتے کہ ’’کہاں ہے پاکستان، جس کا جھنڈا ہم مقبوضہ وادی میں لہراتے ہیں۔۔۔؟ کہاں ہے عالمِ اسلام اور کہاں ہے عالمی برادری۔۔۔؟‘‘ کوئی ساتھ دے یا نہ دے‘ ان کے حق میں آواز بلند کرے یا نہ کرے‘ یہ لوگ ایک نظریہ رکھتے ہیں کہ ہماری جدوجہد آزادی کے لیے ہے اور یہی نظریہ اس جدوجہد کا سب سے بڑا پشتیبان ہے۔
مقبوضہ وادی کے لوگوں کی دادِ شجاعت اور ہمت کو سلام کہ جنہوں نے وسائل کی کمی، عالم اسلام کی بے حسی اور عالمی طاقتوں کی دوغلی پالیسیوں کے باوجود آزادی کی تحریک کو زندہ رکھا ہے۔ تحریک کو زندہ رکھنے میں مقبوضہ وادی کے وہ تمام لیڈران کا کردار قابل ستائش ہے، جو خود بھی مایوس نہیں ہیں اور نہ ہی کسی مرحلے پر اپنی قوم کو مایوس ہونے دیا ہے۔ ان لیڈروں میں جہدِ مسلسل کی زندہ مثال سید علی گیلانی ہیں، جنہوں نے 20 سال کی عمر میں قیامِ پاکستان اور کشمیر کو پاکستان کا حصہ بنانے کے لیے اپنی جدوجہدکا آغاز کیا اور پاکستان کی شہہ رگ کی آزادی کے لیے یہ جدوجہد آج بھی جاری ہے۔87 سالہ بوڑھے حریت رہنما کا عزم و حوصلہ اتنی طویل جدوجہد کے بعد بھی تروتازہ اور جوان ہے۔ سید علی گیلانی پُر اُمید ہے کہ ان شاء اللہ یہ جدوجہد آزادی ضرور کام یاب ہوگی۔
ستر سال سے اپنی قوم کو آزادی کی تحریک کے لیے متحرک کر نے والا آج بھی نظر بند ہے۔ انہوں نے اس تحریک کی پاداش میں اپنی زندگی کے بہترین 27 سال قیدوبند میں گزار دیے۔ آپ اپنی کتاب ’’رُوداد قفس‘‘ میں لکھتے ہیں: قید کے دوران مجھے پینے کے لیے جو پانی دیا جاتا، اکثر گلاس میں کیڑے تیر رہے ہو تے تھے۔ علی گیلانی ہاتھ سے کیڑوں کو الگ کرتے اور پھر پانی پیتے۔ علی گیلانی نے بھوک، پیاس اور مصائب و مشکلات کو اس لیے برداشت کیا کہ وہ غلامی کی زندگی کو ترجیح نہیں دیتے اور ظلم کے کسی ضا بطے اور قانون کو نہیں ما نتے۔ جن کے جسم کا رواں رواں آزادی کا نعرہ لگاتا ہے، جو اس راستے میں شہادت کے متلاشی ہیں۔ اپنے قائد کا یہی وہ جذبہ ہے، جو جوانوں کو ظلم کے آگے سینہ سپر ہونے اور جان کی بازی لگانے پر تیار کرتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے نوجوان اس آزادی کی تحریک کا ہر اوّل دستہ ہیں اور علامہ اقبال کے اس شعر کے مصداق
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی
کشمیری بغیرکسی تربیت اور سازوسامان کے جدوجہد آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ہر شہید کے جنازے میں لاکھوں افراد کی شرکت اس بات کا پتا دیتی ہے کہ کشمیری مایوس نہیں ہیں بلکہ پاکستانی پرچم میں لپٹا شہید کا جنازہ یہ پیغام دے رہا ہوتا ہے کہ ’’مایوس نہ ہو نا کیوں کہ یہ جنگ ہے، جنگِ آزادی ۔‘‘
اگر کو ئی مایوس ہے تو وہ ہمارے پاکستانی حکم ران ہیں۔ 70 سال سے تکمیل پاکستان کی جنگ جاری ہے، لیکن ہمارے حک ران آج بھی عالمی برادری اور اقوام متحدہ کی طرف دیکھتے ہیں کہ وہ مسئلہ کشمیر کو حل کرائیں، شاید اسی لیے متحدہ جہاد کونسل کے چیئرمین سید صلاح الدین نے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کا واحد حل جہاد ہے اور پاکستانی حکم ران مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے عالمی طاقتوں پر انحصار کرنا چھوڑ دیں۔
یقیناً جن عالمی طاقتوں نے 70 سال میں مسئلہ کشمیر کے لیے کوئی معمولی سی کوشش بھی نہیں کی، وہ اب کیوں کر اس مسئلے کو حل کریں گی؟ عالمی طاقتوں کا دوہرا معیار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں بلکہ اب یہ کھل کر سامنے آگیا ہے۔ کل تک عالمِ اسلام میں دو مسئلے فلسطین اور کشمیر کے تھے، لیکن آج ان اسلام دشمن اور دوہرے معیار کی حامل عالمی طاقتوں کی وجہ سے اسلامی دنیا کے اندر بے شمار ممالک مسائل کے گرداب میں پھنس چکے ہیں۔‘ اب اقوام متحدہ نہیں بلکہ امریکا اسلامی تنظیموں پر پابندی کا مطالبہ اقوام متحدہ کی قردادوں کے مطابق ہی کر رہا ہے اور پاکستان میں مسئلہ کشمیر پر آواز اُٹھانے والی تنظیم ’’جماعت الدعوۃ‘‘ پر پا بندی لگانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ یقیناًیہ پہلا مطالبہ ہے، دوسرا مطالبہ 5 فروری کی چھٹی ختم کرنے اور کشمیر سے دست برداری کا ہوسکتا ہے ۔ حیرت ہے اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹے۔ جن طاقتوں نے مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنا ہے، انہیں اقوام متحدہ کی قردادیں نظر نہیں آتیں، لیکن اسلام پسندوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ ان کے دوہرے معیار اور اسلام دشمنی کو سچا ثابت کرتا ہے ۔ یہ اسلام دشمنی ہی تھی کہ دو اسلامی ممالک میں چلنے والی علیحدگی کی تحریکوں پر اقوام متحدہ اور عالمی طاقتوں نے فوراً رائے شماری کرا کے ان کو آزادی کا پروانہ دے دیا، جب کہ دیکھا جائے تو مشرقی تیمور کے عوام نے انڈونیشیا سے علیحدگی کے لیے 1975 میں تحریک شروع کی اور 1999 میں یعنی چوبیس سال کے اندر ریفرنڈم کرا کے آزاد و خودمختار ریاست کا درجہ دے دیا گیا، جبکہ مشرقی تیمور کے لوگوں کو کسی طرح بھی ریاستی ظلم و ستم کا نشانہ نہیں بنایا گیا تھا۔ اسی طرح جنوبی سوڈان میں 1983 میں شروع ہونے والی علیحدگی کی تحریک کے حوالے سے اقوام متحدہ نے کہا تھا کہ جنوبی سوڈان میں امن صرف وہاں کے عوام کی خواہشات کے مطابق ریفرنڈم میں ہے اور 9 جولائی 2011 جنو بی سوڈان کو آزاد ریاست تسلیم کر لیا گیا۔ اقوام متحدہ اور عا لمی برادری نے ان علیحدگی کی تحریکوں کو اپنے منطقی انجام تک اس لیے پہنچایا کہ یہ دونوں ریاستیں عیسائی ریا ستوں کے طور پر آزاد ہوئیں اور دونوں ریاستوں نے مسلم ممالک سے آزادی حاصل کی لیکن کشمیری بھارت سے آزادی ما نگ رہے ہیں اور یہ کیسے ممکن ہے کہ عالمی طاقتیں اپنے دوست اور پاکستان دشمن ملک کو کم زور کر نے کے حوالے سے اقدامات کریں، اس لیے 70 سال سے مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادیں سرد خانے کی نذر ہیں۔ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کے پہلے سیکرٹری جنرل Trygve Lie کے سا منے رائے شماری کے ذریعے حل ہونا طے پایا تھا، لیکن اب تک اقوام متحدہ کے آٹھ سیکرٹری آچکے ہیں اور اب یکم جنوری 2017 کو Antonio Guterrs نے اقوام متحدہ کے 9 نویں سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے حلف اُٹھایا ہے، لیکن کسی بھی سیکرٹری جنرل کے ایجنڈے میں مسئلہ کشمیر کو حل کرنا شامل نہیں رہا، کیوں کہ یہ سب عالمی طاقتوں ہی کے اشارے پر کام کر تے ہیں۔ یہ اقوام عالم کی نگہبانی کے لیے نہیں بلکہ اسلام دشمن طاقتوں کی حفاظت کے لیے سرگرم رہتے ہیں۔
اقوام متحدہ اور عالمی طاقتوں کے دوہرے معیار ہی کا نتیجہ ہے کہ آج عالم اسلام خون میں نہایا ہوا ہے۔کہیں ظلم ہو رہا ہے تو مسلمانوں پر، کہیں جنگ ہو رہی ہے تو مسلمان ملکوں میں، ہجرت پر مجبور ہے تو مسلمان ممالک کے لوگ، کسی ملک پر دہشت گردی کی آڑ میں بم باری کی جارہی ہے تو وہ بھی مسلمان ملک، پھر بھی ہمارے مسلم حکم ران انہی عالمی طاقتوں سے امن کی اُمید لگائے بیٹھے ہیں۔
ڈیوس میں عالمی اقتصادی فورم کے مو قع پر اقوام متحدہ کے نئے سیکرٹری جنرل سے ہمارے وزیر اعظم نے ملاقات کی اور ان کے سامنے پاکستان کا دیرینہ مطالبہ پیش کیا کہ و ہ مسئلہ کشمیر اور آبی تنازع کو حل کرائیں، جس کے جواب میں سیکرٹری جنرل نے اتنا کہا کہ ہم پاکستان اور بھارت کے درمیان مسائل کی حسّاسیت سے آگاہ ہیں۔ یعنی وزیراعظم اقوام متحدہ اور عالمی طاقتوں سے یہ کہہ رہے تھے کہ بھارت کو سمجھائیں یہ بات شکست تسلیم کرنے کے مترادف ہے اور اپنے آپ کو کم زور ثابت کر نا ہے۔ ہمارے حکم ران دوسروں کے آگے رونا رونے کے بجائے کشمیریوں ہی سے سبق حاصل کریں، جنہوں نے عالمی برادری کی طرف دیکھنے کے بجائے اپنے بل بوتے پر آزادی کی تحریک کو زندہ رکھا ہوا ہے اور بھارت کی چھ لاکھ فوج کا مقا بلہ کررہے ہیں، اسی لیے کہا جاتا ہے کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں ما نتے۔ ان کا علاج اینٹ کا جواب پتھر سے دینے ہی میں پوشیدہ ہے۔ حریّت رہنما سید صلاح الدین نے صحیح کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کا واحد حل جہاد ہے!!
nn