بانئ پاکستان، بابائے قوم، محمد علی جناح نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا تو یہ کوئی شاعرانہ تعلی تھی نہ کسی خطیب شعلہ بیان کی جوش خطابت میں مجمع کو گرمانے اور فلک شگاف نعرے لگوانے کی خاطر چھوڑی ہوئی پھلجھڑی اور نہ ہی یہ عام سیاست دانوں کے طرز عمل کے مطابق حالات کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے داغا گیا سیاسی بیان تھا۔۔۔ یہ برصغیر کی ملت اسلامیہ کے ایک سنجیدہ فکر قائد کی سوچی سمجھی رائے اور اپنی قوم کے لیے بروقت رہنمائی تھی کیونکہ اس قائد کی خطے کی تاریخ اور حغرافیہ پر گہری نظر تھی اور وہ انگریز اور ہندو کی ذہنیت اور شاطرانہ چالوں سے بخوبی آگاہ تھا۔۔۔ قائد کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ نوخیز مملکت خداداد کے نہایت نازک حالات اور ناگفتہ بہ صورت حال کے باوجود اور اپنی خالصتاً جمہوری سوچ اور پر امن جدوجہد کے ذریعے مقاصد کے حصول کی پالیسی کے باوجود اپنی مملکت کی شہ رگ کو دشمن کے پنجہ میں جانے سے بچانے کی خاطر انتہائی بے سروسامانی اور تہس دامانی کے عالم میں بھی ’’کشمیر بزور شمشیر‘‘ حاصل کرنے کا فیصلہ کیا اور اس پر عملاً پیش رفت بھی کی جس کے نتیجے میں جموں و کشمیر کے ایک بڑے حصے کو قبائلی مجاہدین نے ہندو کے ظالم پنجہ سے آزاد بھی کرا لیا۔۔۔ اس آزاد کرائے گئے علاقے کا ایک حصہ آج ’آزاد ریاست جموں و کشمیر کی صورت میں دنیا کے نقشے پر موجود ہے۔۔۔ مگر پھر ایک جانب قائد کی خراب صحت اور دوسری جانب اپنوں، پرائیوں کی بے وفائیوں اور پاکستانی قیادت کی بھارتی ہندو بنیئے کی چکنی چپڑی باتوں اور اقوام متحدہ میں اس کے وعدوں پر اعتبار کے باعث آزادئ کشمیر کا یہ سنہری موقع ضائع ہو گیا۔۔۔اس غلطی کی سزا کشمیری مسلمان گزشتہ ستر برس سے بھگت رہے ہیں۔۔۔ اور یہ سزا ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی لیکن آفرین ہے حریت پسند کشمیری قوم پر کہ ہر قسم کے ظلم و ستم کے حربوں کے باوجود سات لاکھ بھارتی فوج کی سنگینیوں کے سائے تلے آج بھی ہندو کی وہ غلامی کی لعنت کو کسی قیمت پر قبول کرنے پر تیار نہیں۔۔۔ لاکھوں جانوں کی قربانی، قید و بند کی صعوبتوں اور ظالم فوج کی اذیت ناکیوں کے سامنے کشمیری نوجوان سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنے ہوئے ہیں۔۔۔ بھارت ہر طرح کے ظلم، جبر اور لالچ کے حربوں کو آزما کر تھک چکا ہے مگر وہ کشمیری عوام کے جذبۂ حریت کو ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ کیفیت یہ ہے کہ ظلم جتنا بڑھتا ہے تحریکِ آزادی اتنی ہی تیز ہوتی چلی جاتی ہے۔نشیب و فراز سے گزرتی ہوئی، کشمیر ی مسلمانوں کی جدوجہد آزادی اب اس مرحلے پر پہنچ چکی ہے کہ بھارت ہو یا اس کا سرپرست امریکہ اور دوسری طاقتیں سب مل کر بھی مسلمانان کشمیر کے جذبہ حریت کو سرد نہیں کر سکتیں تحریک آزادی کشمیر کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ کشمیری مسلمان قیام پاکستان سے بھی بہت پہلے سے آزادی کی خاطر جان، مال، عزت، آبرو ہر طرح کی قربانیاں دیتے چلے آ رہے ہیں۔۔۔ تحریک کی تازہ لہر نے 1987ء میں جنم لیا جب ریاستی اسمبلیک ے انتخابات میں بدترین دھاندلی کے نتیجے میں مسئلہ دھاندلی کے نتیجے میں مسئلہ کشمیر کے پر امن عمل اور کوششوں کو سبوتاژ کیا گیا اور نتیجہ ریاست گیر عسکری جدوجہد کی شکل میں نکلا۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب عسکری مزاحمت نے پورے بھارت کی سلامتی کو داؤ پر لگا دیا تو نہ صرف بھارتی سیاسی قیادت بلکہ فوجی قیادت بھی چیخ اٹھی کہ مسئلہ کشمیر کا حل فوجی نہیں بلکہ سیاسی ہے۔ مذاکرات کے ذریعے مسائل کا حل نکلنا چاہئے۔ 9/11 اور مملکت پاکستان کے بزدل ترین سربراہ جنرل پرویز مشرف نے یہ موقع فراہم کیا۔ لیکن بھارتی چانکیوں نے پرویز مشرف کے کمزور اعصاب پر اثر انداز ہو کر اس موقع کا ناجائز فائدہ اٹھایا اور امن امن اور مذاکرات کی رٹ لگا کر، جموں و کشمیر میں اپنے قبضے کو مزید دوام بخشنے کی کوشش کی۔ عسکری جدوجہد دھیمی پڑ گئی۔ مذاکرات کے نام کا خوب استعمال ہوا لیکن ہر بار مسئلہ کشمیر سے ہٹ کر دیگر غیر اہم ایشوز پر بات چیت کے ڈرامے دکھائے جانے لگے۔ جب کشمیری عوام کو اندازہ ہوا کہ بے مقصد مذاکرات کی آڑ میں کشمیریوں کو بہلایا جا رہا ہے تو 2008ء سے انتفاضہ کی تحریک شروع ہوئی اور 2010ء میں یہ تحریک عروج کو پہنچ گئی۔ 2011ء میں کشمیر کے منظر نامے پر قدرے خاموشی نظر آئی۔ بھارتی سرکار اور اس کے حاشیہ برداروں نے اس خاموشی کو ریاست میں امن اور بھارت کے حوالے سے کشمیریوں کی سوچ میں تبدیلی کا پیش خیمہ قرار دینے کی کوشش کی تاہم تحریک آزادی کشمیر کی جدوجہد پر گہری نظر رکھنے والوں نے اس خموشی کو قبرستان کی خموشی کے مترادف قرار دیا تھا۔
بھارتی قیادت کی اس منفی سوچ نے برہان مظفر وانی کو جنم دیا۔ سینکڑوں بچوں اور جوانوں نے اس کی قیادت میں مسلح جدوجہد کا دوبارہ آغاز کیا۔ برہان کشمیری قوم کی امیدوں کا مرکز بنا۔ 8 جولائی 2016ء جب اس جواں سال رہنما شہادت کا جام پیا تو پوری کشمیری قوم نے اسے پرنم آنکھوں سے وداع کیا۔ ایک ملین سے زیادہ لوگوں نے اس کے جنازے میں شرکت کی۔ ریاست کے چپے چپے پر اس کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی۔ مقبولیت کے تمام ریکارڈ اس شاہین بچے نے توڑ ڈالے۔ دنیا دیکھ رہی ہے کہ تب سے آج کی تاریخ تک پوری قوم بھارت کے خلاف تنگ آمد بہ جنگ آمد کے مصداق اپنی آزادی کے حق میں مظاہرے کر رہی ہے۔ لیکن بھارتی قیادت اس عوامی بغاوت کو بزور طاقت کچلنے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔ انسانی حقوق کی بدترین پامالیاں ہو رہی ہیں۔ کٹھ پتلی حکومت کی آڑ لے کر بھارتی فورسز اور پولیس صرف اور صرف بے تحاشہ طاقت کی زبان استعمال کر رہی ہے۔ 15 ہزار سے زائد کشمیری زخمی ہیں۔ 12 سول افراد پیلٹ گن سے شدید متاثر ہیں اور سینکڑوں بینائی سے محروم ہو چکے ہیں۔ 8 ہزار سے زائد افراد گرفتارہیں۔ ایک ہزار افراد پر بدنام زمانہ کالا قانون پی ایس اے لاگو کیا گیا ہے۔ روزانہ 1 ارب 40 کروڑ کا معاشی و اقتصادی نقصان ہو رہا ہے۔ قتل و غارت گری کے بعد قابض بھارتی افواج نے کشمیریوں کے کھیت و کھلیان اور باغ تباہ کرنا شروع کر دیئے ہیں۔ فصلوں کو آگ لگا کر راکھ کے ڈھیروں میں تبدیل کیا گیا۔ پھلوں سے لدی گاڑیاں لوٹی گئیں۔ اس عرصہ کے دوران اقوام متحدہ سمیت عالمی برادری اور بڑی طاقتوں نے مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے اور ان کا دہرا معیار ہے۔ 2016ء نے اصولی طور پر یہ ثابت کیا کہ کشمیری عوام کے ذہنوں میں اس بات پھر ایک بار راسخ کر دیا کہ پر امن ذرائع سے مسئلہ کشمیر کا حل مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ 2016ء میں سینکڑوں جوان حزب المجاہدین کی صفوں میں شامل ہوئے ہیں۔ فورسز اہلکاروں سے ہتھیار چھیننے کے واقعات روز مرہ کا معمول بنتے جا رہے ہیں۔ حزب سربراہ سید صلاح الدین جس نے کئی بار یہ واضح کیا تھا کہ اگر پر امن ذرائع سے مسئلہ کشمیر حل ہو جاتا ہے تو انہیں سب سے زیادہ خوشی ہو گی۔ لیکن 2016ء میں پر امن تحریک کی پوری قوت سے دبانے کی تاریخ دہرائی گئی تو حزب سربراہ یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ ’’مذاکرات، قراردادوں اور پر امن جدوجہد کے ذریعے مسئلہ کشمیر حل نہیں ہو گا۔ پر امن ذرائع کی ناکامی اور عالمی برادری کی خموشی نے کشمیری عوام کو پھر ایک بار ایک منظم اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ عسکریت کی طرف دھکیل دیا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ یہ عمل بہت ہی خطرناک صورتحال کو جنم دے سکتا ہے۔ ایسی خطرناک صورتحال جو شاید پھر کسی کے قابو میں نہ رہ سکے۔ 2017ء میں کیا صورتحال ہو گی، یہ تو وقت بتائے گاہی، تاہم آثار و قرائن سے محسوس ہو رہا ہے کہ اگر بھارت کی ہٹ دھرمی اور عالمی برادری کی بے حسی جوں کی توں رہ، تو پھر اس ہٹ دھرمی کو توڑنے کے لیے، عسکریت کا محاذ کچھ زیادہ ہی گرم ہونے کے امکانات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
جہاں تک پاکستانی قوم کا تعلق ہے وہ دامے، درمے، سخنے ہر ہر طرح سے اپنے حریت پسند کشمیری بھائیوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ 1987ء کے بعد سے جاری جدوجہد آزادی میں پاکستانی نوجوانوں نے بھی اپنے کشمیری بھائیوں کے لہو میں اپنا لہو شامل کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ کنٹرول لائن کے آرپار بسنے والے الگ الگ نہیں بلکہ ایک ہی قوم، ایک ہی سوچ اور ایک ہی فکر کے حامل ہیں اور پاکستانی قوم صرف نوے کی حد تک نہیں بلکہ جان و دل سے کشمیر کو اپنی شہ رگ سمجھتی ہے اور اس کی حفاظت اور آزادی کی خاطر ہر طرح کی قربانی دینے پر تیار ہے تاہم انہیں جذبات کے اظہار کے لیے 1990ء میں مجاہد ملت امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد نے تحریک کو سیاسی، سفارتی اور سماجی استحکام عطا کرنے کے لیے پانچ فروری کو ’’یوم یکجہتی کشمیر‘‘ منانے کا اعلان کیا۔۔۔ پاکستانی قوم نے اندرون ملک ہی نہیں بلکہ دنیا بھر اس اعلان کا زبردست خیر مقدم کیا اور ملت پاکستان نے اسے اس قدر پذیرائی بخشی کی حکمران بھی اس کا حصہ بننے پر مجبور ہو گئے اور تب سے اب تک یہ ایک ایسی پختہ روایت بن چکی ہے کہ کوئی چاہیے بھی اب اسے ختم نہیں کر سکتا۔ پاکستانی قوم ملک کے گوشے گوشے میں اس دن اپنے کشمیری بھائیوں کے مبنی برحق موقف کی حمایت میں سڑکوں پر نکلتی ہے اور دنیا بھر کو یہ باور کراتی ہے کہ کشمیری اور پاکستانی یک جان دو قالب ہیں جنہیں کسی صورت باہم دگر جدا نہیں کیا جا سکتا۔۔۔ قاضی حسین احمد جنہوں نے اس نیک کام کا آغاز کیا تھا، آج ہم میں نہیں اور خالق و مالک کے حضور حاضر ہو چکے ہیں تاہم یقین ہے کہ جب وہ جنت میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھتے ہوں گے تو اپنے دیگر بے شمار کارناموں کے ساتھ یہ ذکر بھی ضرور کرتے ہوں گے کہ پانچ فروری کو ’’یوم یکجہتی کشمیر‘‘ قرار دینے کا اعزاز انہیں حاصل ہے۔
اس میں شک نہیں کہ پاکستانی عوام نے باربار یہ ثابت کیا ہے کہ تن من دھن سے اپنے کشمیری بھائیوں کی تحریک آزادی کے پشتی بان اور دست و بازو ہیں۔۔۔ لیکن اس تضاد کا کیا کیجئے کہ جس طرح دوسرے بہت سے معاملات میں مسلمان ممالک کے حکمرانوں کا عمل عوام کے جذبات سے ہم آہنگ نہیں اسی طرح کشمیر کے مسئلہ پر بھی پاکستانی حکمران اپنے عوام کے حقیقی جذبات کی ترجمانی میں بری طرح ناکام رہے ہیں وہ عوام کے خوف سے کبھی کبھار زبانی جمع خرچ تو ضرور کرتے ہیں مگر عملاً ان کا طرز عمل تحریک آزادی کشمیر کی تقویت کے بجائے کمزور کرنے کا سبب بنا ہے ورنہ اگر ہمارے ارباب اختیار سنجیدگی اور متانت سے اس معاملہ پر توجہ دیتے تو آج پاکستان کی شہ رگ پنجۂ ہنود سے آزاد ہو چکی ہوتی اور بھارت کے انتہا پسند سوچ کے حامل وزیر اعظم نریندر مودی کو یہ جرأت نہ ہوتی کہ وہ بین الاقوامی ضمانتوں کے حامل ’سندھ طاس معاہدہ‘ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان کے دریاؤں میں بھارت کے غاصبانہ تسلط میں موجود کشمیر کے خطے سے آنے والا پانی روک کر پاکستانی زمینوں کو بنجر کر دیں گے اور یہاں کے عوام کو فاقو مار دیں گے۔۔۔ مگر افسوس کہ پاکستانی حکمران اس کا بھی بھر پور جواب دینے کی سکت اپنے اندر نہیں پاتے جس کے باعث بھارتی حکمرانوں کے حوصلے مزید بڑھ رہے ہیں اور آئے روز نت نئی دھمکیاں پاکستان کو دینا ان کا معمول بنتا جا رہا ہے۔۔۔!!!
مسئلہ کشمیر سے متعلق پاکستانی حکمرانوں کی سنجیدگی کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ پارلیمنٹ کی کشمیر کمیٹی، جو کسی زمانہ میں خصوصاً نوابزادہ نصر اللہ خان مرحوم کی سربراہی کے دور میں نہایت فعال و متحرک ہوا کرتی تھی اور اس کمیٹی نے دنیا بھر میں مسئلہ کشمیر کو اجاگر کر کے نہ صرف عالمی رائے عامہ کی بھر پور حمایت حاصل کی تھی بلکہ بھارتی فوج کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں روا رکھی جانے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو مختلف عالمی اداروں میں نمایاں کر کے ان کے پیش رو حکمرانوں کے دور میں کشمیر کمیٹی کی قیادت کا تاج ایک ایسی محترم ہستی کے سر پر سجا دیا گیا ہے جنہوں نے کمیٹی کے بجٹ اور دیگر مراعات سے تو خوب خوب استفادہ کیا ہے مگر کمیٹی کی کارکردگی ان کی قیادت میں فی الواقع صفر رہی ہے اور گزشتہ آٹھ نو برس کے دوران کمیٹی اور اس کے سربراہ نے کبھی کشمیر کا نام تک لینا گوارا نہیں کیا۔ حالانکہ بھارت نے اپنے زیر قبضہ کشمیر میں آٹھ لاکھ فوجی متعین کر رکھے ہیں، جو دنیا بھر میں اتنے رقبے میں گنجان ترین فوجی تعیناتی ہے اور یہ فوج صرف سرحد یا کنٹرول لائن پر ہی موجود نہیں بلکہ اس کی اکثریت شہری علاقوں میں موجود ہے جس نے پورے مقبوضہ کشمیر کو چھاؤنی میں بدل کر رکھ دیا ہے، اور نہتے کشمیری مسلمانوں پر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑ رہی ہے اور ہمارے کشمیری مسلمان بزرگوں، بچوں، بھائیوں، بہنوں، ماؤں اور بیٹیوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کی پامالی میں مصروف ہے جس پر خود بھارت کے اپنے اور دوسرے بین الاقوامی انسانی حقوق کے ادارے چیخ رہے ہیں کہ بھارت کشمیری مسلمانوں کی نسل کشی کا مرتکب ہو رہا ہے مگر ہم ہیں کہ اس ظلم اور تشدد پر صدائے احتجاج بلند کرنے پر بھی آمادہ نہیں اور ’’ٹک ٹک دیدم۔۔۔ دم نہ کشیدم‘‘ کی تصویر بنے بیٹھے ہیں۔۔۔!!!
ایسے میں معلوم نہیں کہ مولانا فضل الرحمن جو خود بھی عالم دین ہیں اور ایک ممتاز عالم دین کے فرزند بھی بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر علماء اسلام کی جمعیت کے سربراہ بھی معلوم نہیں انہوں نے کبھی سوچا ہے یا نہیں کہ وہ کشمیر کمیٹی کے سربراہ کی حیثیت سے جو مراعات حاصل کرتے ہیں اور کشمیر کمیٹی کی صورت میں قوم کی ایک نہایت اہم امانت جو ان کے سپرد کی گئی ہے انہیں ایک روز اس امانت کا حساب اپنے رب کے حضور بھی پیش کرنا ہے۔۔۔ !!!
ہمارے حکمرانوں کی بے حسی ہی کیا کشمیری عوام کے دشمن کے ہاتھوں لگے ہوئے گہرے زخموں پر نمک پاشی کے لیے کیا کم تھی کہ اب انہوں نے دشمن کے آلہ کار کے طور پر بھی کام کرنا شروع کر دیا ہے اور تازہ اقدام ان کی جانب سے یہ سامنے آیا کہ کشمیر کے عوام کے حق میں پاکستان میں بلند ہونے والی ایک توانا اواز حافظ محمد سعید اور ان کے ساتھیوں کو ایک ایسے وقت نظر بند کر دیا ہے جب پوری قوم 5 فروری کو یوم یکجہتی کشمیر منانے میں مصروف ہے۔۔۔ اس نازک اور حساس وقت پر یہ عاقبت نا اندیشنہ اقدام ظاہر کرتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں کو اپنے اقتدار کے علاوہ ملک و قوم کے مفاد سے قطعاً کوئی دلچسپی نہیں ورنہ انہیں کیا اتنا بھی احساس نہیں کہ عین یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر حافظ محمد سعید اور ان کے ساتھیوں کی نظر بندی اور پھر اس سے آگے بڑھتے ہوئے ان کے بیرون ملک جانے پر پابندی کی خاطر ان کا نام ای سی ایل میں شامل کرنا کیا معانی رکھتا ہے۔ ان کے اس اقدام سے تحریک آزادی کشمیر کو کس قدر نقصان پہنچے گا اور کشمیری عوام کو کیا پیغام جائے گا۔۔۔) یہ اقدام جہاں مظلوم و مجبور اور محکوم کشمیری مسلمانوں میں مایوسی اور بد دلی پھیلانے کا باعث ہو گا وہیں یہ پاکستان کے دشمنوں بھارتی حکمرانوں خصوصاً انتہا پسند بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے لیے یقیناًبیش قیمت تحفے سے کم نہیں۔۔۔!!!
جہاں تک حافظ سعید کی گرفتاری کے اسباب کا تعلق ہے تو اس سے خود ہمارے حکمران بھی بے خبر ہیں صرف اتنی بات ہے کہ اس اقدام کا حکم انہیں ان کے آقا امریکہ بہادر کی طرف سے دیا گیا ہے جس سے وجہ پوچھے اور کیوں؟ کہنے کی جرات و ہمت اور سکوت ہی ہمارے حکمرانوں میں موجود نہیں چنانچہ پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ ے جب گرفتاری کی وجوہ کے بارے میں استفسار کیا گیا تو ان کے پاس اس کے سوا کوئی جواب نہیں تھا کہ صوبائی حکومت کے پاس حافظ سعید کے خلاف کوئی ثبوت نہیں۔۔۔ ہم نے انہیں وفاقی حکومت کی ہدایت پر نظر بند کیا ہے۔۔۔!!!
جہاں تک حافظ سعید صاحب کی نظر بندی کے اسباب کا تعلق ہے تو حقیقت یہی ہے کہ ان کا کوئی قصور اس کے سوا نہیں کہ وہ اسلام اور پاکستان کے دشمنوں کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتے ہیں۔۔۔ حافظ صاحب اور ساتھیوں کی نظر بندی اور جماعۃ الدعوۃ پر پابندیاں پہلی بار عائد نہیں کی گئیں ہمارے حکمران امریکہ کی خوشنودی کی خاطر پہلے بھی یہ مشق ستم کر چکے ہیں مگر جب حافظ صاحب اور ساتھیوں کی نظر بندی کو عدالت عالیہ اور عدالت عظمیٰ میں چیلنج کیا گیا تو حکومت نے ان کے خلاف کوئی ایک بھی ثبوت پیش نہ کر سکی جس پر عدالت عظمیٰ کے حکم پر حکمرانوں کو مجبوراً انہیں رہا کرنا پڑا۔۔۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے حکمران آخر کب تک دشمنوں کی خوشنودی کی خاطر ملک اور قوم کے مفاد کے منافی اقدامات کرتے رہیں گے۔۔۔ کیا قوم پہلے اسی طرح کے حکمرانوں کے نا قابل فہم اقدامات کے باعث سقوط مشرقی پاکستان جیسے عظیم سانحہ سے دو چار نہیں ہو چکی ؟؟؟ حکمران آخر تاریخ سے سبق کیوں نہیں سیکھتے۔۔۔؟؟؟