برسغیر میں اسلام کے (احیا نجیب ایوبی)

334

 مولانا ابوالکلام آزاد کی ہمہ گیر شخصیت کے بہت سے پہلو ایسے ہیں جن پر مولانا کے انتقال کے بعد سے لے کر اب تک مباحث جاری ہیں۔ لیکن ان کی شخصیت اور صلاحیتوں پر کسی نے آج تک الگ رائے نہیں دی۔ بلاشبہ وہ بہت عمدہ ترین صلاحیت کے حامل فرد تھے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ان کی سیاسی زندگی بہت سے حوالوں سے زیر بحث اور موضوع گفتگو رہی۔
مولانا آزاد ایک عرصے تک سرسید احمد خان کے خیالات سے خاصے متاثر رہے اور اپنے مضامین میں جو ان کے پرچے میں شائع ہوتے رہے، سرسید کے خیالات کی حمایت میں اُن کے مخالفین کو جواب دیتے رہے۔ مگر یہ تعلق زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکا۔ بعد میں انھوں نے سرسید کے خیالات سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔ یقیناًاس کی بنیادی وجہ سرسید کی انگریزوں کے ساتھ حد درجہ وابستگی اور وفاداری رہی ہوگی۔
مولانا شبلی نعمانی کے تو شاگرد تھے ہی، ان ہی کے توسط سے سید سلیمان ندوی سے بھی ایک گہرا تعلق قائم ہوگیا۔ شبلی نعمانی نے مولانا آزاد سے ماہنامہ ’’الندوہ‘‘ میں نائب مدیر کی حیثیت سے کام کرنے کی درخواست کی، جسے ابوالکلام آزاد نے بخوشی قبول کیا۔
نامور خطیب کی حیثیت سے ان کی شہرت پورے ہندوستان میں پھیل چکی تھی۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک مرتبہ لاہور میں قومی سطح کے ایک جلسے سے خطاب کرنے کے لیے آزادؔ کو دعوت دی گئی، غالباً 1906ء میں۔ لاہور اسٹیشن لوگوں سے کھچاکھچ بھرا ہوا تھا۔ استقبالی مولانا آزاد کی تقریر سننے اور استقبال کرنے کے لیے موجود تھے۔ سامعین اس وقت حیرت زدہ رہ گئے جب سولہ سالہ نوجوان کو ابوالکلام آزاد کہہ کر پکارا گیا۔ بہت سوں کو یقین ہی نہیں آیا کہ یہ نوجوان مولانا آزاد ہیں؟ کہنے والے کہتے ہیں کہ اس جلسے میں مولانا ابوالکلام آزاد نے ڈھائی گھنٹہ متواتر روانی کے ساتھ خطاب کیا اور اُس موقع پر صدرِ جلسہ مولانا الطاف حسین حالی نے برجستہ کہا کہ ’’عزیز صاحب زادے! مجھے اپنی آنکھوں اور کانوں پر تو بہرحال یقین کرنا پڑرہا ہے، لیکن حیرت مجھے اب بھی ہے۔‘‘
مولانا ابوالکلام آزاد کے حوالے سے اور ان کے سیاسی میدان میں داخل ہونے کی تمام تر کیفیات و واقعات معروف اسکالر جناب ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم نے اپنی تقریر میں بیان کیے جو بعد میں ’’میرا مؤقف‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی (اور یو ٹیوب بصری ذخیرے میں بھی محفوظ ہے)۔ ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کا بیان ہے:
’’سیاسی و ملّی مساعی (کوششوں) کے میدان میں حضرت شیخ الہند (مولانا محمود حسینؒ دیوبندی) کے ’’خلیفہ‘‘ کی حیثیت مولانا ابوالکلام آزاد کو حاصل ہے۔ اس لیے کہ نومبر 1920ء میں دہلی میں ’’جمعیت العلماء ہند‘‘ کا جو دوسرا سالانہ اجلاس منعقد ہوا تھا اس میں حضرت شیخ الہند جو کہ صدر جلسہ تھے، کی جانب سے ’’امامتِ ہند‘‘ کے لیے مولانا ابوالکلام آزاد کا نام تجویز ہوا تھا، مولانا مدنی کا نہیں!
البتہ جہاں تک مولانا ابوالکلام آزاد کا تعلق ہے، میں ان کو اپنا امام تسلیم کرتا رہا ہوں اور ڈنکے کی چوٹ پر کرتا رہوں گا۔ بلکہ ان ہی کے واسطے سے اپنا دینی سلسلۂ نسب شیخ الہند سے جوڑتا ہوں۔ لیکن اس صراحت کے ساتھ کہ میرا ’’امام‘‘ صرف 1912ء سے لے کر 1920ء تک کا ابوالکلام ہے ۔ اس کے بعد کا نہیں۔‘‘
(حوالہ ماہنامہ ’میثاق‘۔ اکتوبر 1994ء، صفحہ نمبر 57)
1912ء اور 1920ء کی بھی وضاحت اس طرح کی کہ 1912ء میں الہلال اور البلاغ کے ذریعے ہندوستان کے مسلمانوں کو قرآن کی بنیاد پر اذان دے کر بلایا جس کی وجہ سے شیخ الہندؒ نے کہا کہ ’’اس نوجوان نے ہمیں بھولا ہوا سبق یاد دلایا‘‘۔
اور پھر 1913ء میں حزب اللہ قائم کی۔ ہندوستان میں پہلی آواز تھی جو ابوالکلام آزاد نے بہت عرصے کے بعد تازہ دم انداز میں بلند کی۔ قرآن اور جہاد کی بنیاد پر ہندوستانی مسلمانوں کو اپنی جانب بلایا۔ ورنہ اس سے پہلے اسلام حدیث اور فقہ کے اردگرد ہی موجود رہا۔
اسرار احمد مرحوم کے کہنے کے مطابق مولانا آزاد بلاشبہ عقبری (جینئس) شخصیت کے حامل تھے اور ایسے لوگ بالعموم عملی آدمی نہیں ہوتے، باَلفاظِ دیگر وہ بہت ذہین و مفکرانہ صلاحیتوں کے حامل تو ہوتے ہیں مگر ان میں مسلسل محنت کا مادہ دوسروں کے مقابلے میں کم ہوتا ہے۔
اس حوالے سے مولانا آزاد کے سیاسی رفیقِ کار گاندھی جی نے اس طرح کہا ’’مولانا آزاد بہت ذہین ہیں اور ہمارے بڑے بڑے فیصلے ان کے مشوروں سے ہوتے ہیں، مگر ان کے قریب بیٹھ کر روحانیت کا اندازہ نہیں ہوتا۔‘‘
مولانا ابوالکلام آزاد کی شخصیت کے بہت سے گوشے ایسے ہیں جن پر ان کے انتقال کے بعد بھی تعجب، حیرت اور گفتگو ہوتی رہی۔ ان کی مذہبی شناخت اور ان کا مرتبہ، ان کا سیاسی رجحان اور انڈین کانگریس کے ساتھ جذباتی و نظریاتی وابستگی۔۔۔آزاد وطن کی خواہش اور جدوجہد اور مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کی جدوجہد سے سرمو اختلاف۔۔۔ ان سب پر بہت کچھ لکھا اور کہا گیا ہے۔
اس میں کوئی دو رائے ہو ہی نہیں سکتیں کہ ہندوستان کی تحریکِ آزادی میں مولانا ابوالکلام آزاد کا بہت اہم کردار ہے۔ اور اس جدوجہد کی پاداش میں کئی بار پابندِ سلاسل بھی ہونا پڑا۔
1920ء کے بعد کا تمام دور ان کی سیاسی جدوجہد سے عبارت ہے جب وہ مکمل طور پر اپنے آپ کو کانگریس کے حوالے کرچکے تھے۔ خلافت کانفرنس میں ہی اعلانیہ طور پر گاندھی جی کو رہنما تسلیم کرتے ہوئے اُن کے اصولوں پر کاربند ہونے کا مشورہ دیا۔
اب گاندھی جی کے اصول کیا تھے؟ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ وہ عدم تشدد کے پرچارک تھے اور وطنی سیاست پر یقین رکھتے تھے۔ لیکن عین ریشمی رومال تحریک سے گاندھی جی کی علیحدگی نے ’ہندو اور مسلمان دو الگ قومیں ہیں‘ کے تصور کو واضح کرکے رکھ دیا۔
کانگریسی سیاست نے مولانا آزاد کو ایک الگ حاشیے میں فٹ کردیا تھا جہاں مولانا آزاد اپنے مذہبی و دینی تشخص کی پروا نہ کرتے ہوئے امتِ مسلمہ اور وطنی سیاست کی باریکی کو نظرانداز کرتے دکھائی دیئے۔ ہندوستان کو آزاد کروانے کے عزم مصمصم میں وہ دو قومی نظریے کے خلاف جا کھڑے ہوئے اور کھل کر اپنا مؤقف رکھا کہ ہندو اور مسلمان کی بنیاد پر کسی بھی علیحدہ مملکت کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
قاضی عبدالغفار کی کتاب ’’آثار ابوالکلام آزاد‘‘ کے حوالے سے ایک عبارت نقل کررہا ہوں۔
قاضی عبدالغفار رقم طراز ہیں کہ ابوالکلام آزاد کا روایتی مُلّا اور مروجہ اہلِ مذہب کے حوالے سے ایک خاص نقطہ نظر روز اول سے ہی رہا جس کا تذکرہ یوں کیا:
’’مذہب کے دکان داروں نے جہل اور ہوا پرستی کا نام مذہب رکھا ہے۔ اور روشن خیالی اور تحقیقِ جدید کے عقل فروشوں نے الحاد و بے قیدی کو حکمت و اجتہاد کے لباس سے سنوارا ہے۔ نہ مدرسے میں علم ہے، نہ محراب و مسجد میں اخلاص، اور نہ میکدے میں رندانِ بے ریا۔ اربابِ صدق و صفا ان سب سے الگ ہیں اور سب سے پناہ مانگتے ہیں۔ ان کی راہ دوسری ہے۔‘‘
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کیا عوامل تھے جنہوں نے مولانا آزاد کو جو ’’امام الہند‘‘ بننے والے تھے، اچانک مذہبی میدان سے سیاسی میدان میں اس طرح داخل کردیا کہ ان کی دی ہوئی اذان کہیں گم ہوکر رہ گئی؟
اب چونکہ مولانا آزاد جبہ و دستار، حلیے کہیں سے بھی سکہ بند مولوی نہیں تھے اور نہ ہی منطق اور فلسفہ وہاں کے مدارس سے پڑھا تھا لہٰذا ناممکن تھا کہ ان کی مذہبی حیثیت کو اس طرح تسلیم کیا جاتا جیسے کہ مولانا آزاد چاہتے تھے۔ اس ضمن میں کچھ تفصیل تو ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کے ذریعے پہنچی ہے جو اس طرح ہے، حوالہ وہی ہے جو اوپر درج کرچکا ہوں (نومبر 1920ء میں دہلی میں ’’جمعیت العلماء ہند‘‘ کا دوسرا سالانہ اجلاس)
’’اس اجلاس میں مولانا احمد سعید صاحب کے خطاب سے پہلے مولانا ابوالکلام آزاد نے خطاب کیا اور خوب مدلل و جذباتی انداز میں حاضرین کو ہندوستان کے حالات سے باخبر کیا۔ ان کے بعد مولانا احمد سعید صاحب نے خطاب فرمایا اور دورانِ خطاب نہایت جذباتی انداز میں حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کی قیادت کی مسند خالی ہے اور اب شیخ الہند کے بجائے ’’امام الہند‘‘ کی ضرورت ہے! لہٰذا ابوالکلام کو امام الہند مان کر ان کے ہاتھ پر بیعت کی جائے۔ اس موقع پر حاضرین بے تاب تھے کہ اٹھیں اور مولانا آزاد کے ہاتھ پر بیعت کریں۔ مگر علامہ معین الدین اجمیری اٹھے اور مولانا آزاد کی امام الہند کی حیثیت سے اختلاف کرتے ہوئے حضرت عمرؓ کا قول دہرایا کہ:
’’بیعت کا اچانک ہوجانا فتنے سے خالی نہیں‘‘۔
دلیل بہت مضبوط تھی، حاضرین کو چپ لگ گئی۔ اس موقع پر شیخ الہند جو بہت بیماری کی حالت میں تھے، کی چارپائی اسٹیج کے قریب لگائی گئی۔ انھوں نے اس نازک وقت کہا کہ ’’مجھے قریب لے چلو، میں بیعت کے بناء مرنا نہیں چاہتا۔‘‘
علامہ معیں الدین اجمیری جو مجلس منتظمہ کے اہم رکن تھے، اپنے مؤقف پر قائم رہے اور مزید کہا کہ ’’مولانا آزاد کی یہ حیثیت نہیں ہے۔‘‘
قیاس ہے کہ یہ وہ ممکنہ پس منظر ہوسکتا ہے جو مولانا آزاد کو مکمل طور پر کانگریسی سیاست میں لے کر آیا ہوگا۔
(جاری ہے )

حصہ