نادرا کمپیوٹڑ ائزڈ تکالیف دینے والا ادارہ (محمد انور)

299

نیشنل ڈیٹابیس رجسٹریشن اتھارٹی (این ڈی آر اے) جس کا مخفف نادرا ہے، بدقسمتی سے یہ اپنے قیام کے بعد سے ہی مقبول ہونے کے بجائے بدنام ہے۔ اس کی بہت سی وجوہات ہے۔ عام افراد کا کہنا ہے کہ اگر پاکستانی قوم کو اپنے ملک کے کسی ادارے کے اہلکاروں کے ہاتھوں پریشان ہونا ہو تو ’’نادرا‘‘ کے کسی بھی سینٹر سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔ وہاں ہر کھڑکی پر آپ کو تنگ کرنے کے لیے ایک شخص آپ کا منتظر ہوگا۔ وہ آپ سے انتہائی غیر متوقع سوال پوچھ کر حتمی طور پر آپ کو غیر ملکی شہری یا غیر ملکی قرار دے سکتا ہے۔ آپ کی دستاویزات چاہے وہ مصدقہ ہوں تب بھی وہ انہیں جعلی قرار دے سکتا ہے۔ کیونکہ اس کا مقصد بظاہر یہی نظر آئے گا کہ وہ لمبی قطار میں سے جلد سے جلد آپ کو خارج کردے۔
1998ء میں قائم ہونے والا یہ ادارہ جب 10مارچ 2000ء کو نیشنل ڈیٹا آفس اور ڈائریکٹوریٹ جنرل آف رجسٹریشن کے انضمام کے بعد نادرا کے روپ میں سامنے لایا گیا تو قوم کو توقع تھی کہ شناختی کارڈ اور بچوں کی پیدائش کی رجسٹریشن کے امور آسان اور سہل ہوجائیں گے۔ لوگوں کو کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈز کے حصول کی بہت خوشی بھی تھی، لیکن یہ خوشی جلد ہی اُس وقت ختم ہوگئی جب ان کے شناختی کارڈ بن کر انہیں ملنے لگے۔ وجہ یہ تھی کہ بیشتر کارڈز میں ان کے کوائف درست نہیں تھے۔ کسی کے کارڈ میں اس کے نام کے ساتھ والد کا نام غلط تھا، تو کسی میں جنس ہی تبدیل کردی گئی تھی۔ خاتون کو مرد اور مرد کو خاتون ظاہر کرنے کے ساتھ متعدد خواتین کو بیوہ لکھا گیا یا ان کے شوہر کا نام ہی غلط لکھ دیا گیا۔ غلط اندراج کو درست کرانے کے لیے پھر قطار میں لگنا اور پھر بلاوجہ کی تکلیف برداشت کرنا لوگوں کی مجبوری بن گئی۔ وقت گزرنے کے ساتھ خیال تھا کہ نادرا کا نظام بہتر ہوجائے گا۔ مگر نادرا اور وفاقی حکمرانوں کی نااہلی کے باعث اس انکشاف نے گزشتہ سال جولائی میں لوگوں کو مزید پریشان کردیا کہ نادرا کی جانب سے غیر متعلقہ افراد کا اندراج ان کے خاندان کی فہرست میں ہوچکا ہے اس لیے انہیں اپنے سی این آئی سی کی تصدیق کرانی پڑے گی۔ کوئی اور ملک ہوتا تو اس شرمناک غلطی پر متعلقہ ادارے کے افسران کو گرفتار کرلیا جاتا، بلکہ اُس وفاقی وزیر کو بھی فارغ کردیا جاتا جس کی نگرانی میں یہ ادارہ چل رہا ہے۔
نیشنل ڈیٹابیس اتھارٹی (نادرا ) وزارتِ داخلہ کی براہِ راست نگرانی میں چلنے والا ادارہ ہے۔ وفاقی وزیر چودھری نثار علی خان خود کو حکومت کا طاقت ور وزیر سمجھتے ہیں، لیکن ان کی وزارت کی نگرانی میں قائم تمام ہی شعبے عوام کے لیے دردِسر بنے ہوئے ہیں۔ لیکن انہیں عوام کا احساس ہی نہیں ہے۔ وہ تو صرف اپنے وزیراعظم اور اپنی وزارت کا استحکام چاہتے ہیں تاکہ ان کے معاملات ان کی خواہشات کے مطابق چلتے رہیں۔ جمہور کی پریشانیوں کے لیے کوئی اور نہیں موجودہ جمہوریت کی طرز حکمرانی ہی کافی ہے۔
نادرا پورے ملک کے تقریباً 20کروڑ افراد کی کمپیوٹرائزڈ اور اغلاط سے پاک رجسٹریشن کا ذمے دار ہے۔ اگر افغانی یا دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد نادرا سے کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ بنوانے میں کامیاب ہوچکے یا ہورہے ہیں تو یہ صرف نادرا ہی کی نہیں بلکہ پوری وزارتِ داخلہ کی بھی نااہلی اور مجرمانہ غفلت ہے۔ خصوصاً ان حالات میں جب اصل پاکستانیوں کا سی این آئی سی بننا مشکل ہے تو کس طرح غیرملکیوں کو یہ کارڈ بناکر دیا گیا ہے؟

خاندانوں کی تصدیق کے لیے 1980ء سے قبل کی دستاویزات کی طلبی کا نیا سلسلہ
نادرا کی جانب سے عوام کو کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ کا اجراء مفت نہیں کیا جاتا بلکہ لمبی اور مشقت بھری قطارکے ساتھ تین سو تا سولہ سو روپے کے عوض دیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود تاخیر سے کارڈ کے وصول ہونے کی شکایات عام ہیں۔ ان دنوں کراچی میں نادرا کے مختلف مراکز خصوصاً فیڈرل بی ایریا، گلشن اقبال، گلستان جوہر، قائدآباد، عوامی مرکز، صدر اور لانڈھی کے مراکز پر اٹھارہ سال کی عمر کو پہنچنے والے افراد سے کارڈ کے حصول کے لیے غیر ضروری دستاویزات ریکارڈ کی تصدیق کے نام پر طلب کی جارہی ہیں۔ حالانکہ ان مراکز کے کمپیوٹرائزڈ سسٹم میں تمام ڈیٹا سامنے آبھی جاتا ہے، جبکہ درخواست گزار کے پاس نادرا کی جانب سے جاری کردہ رجسٹریشن کی مصدقہ سند بھی موجود ہوتی ہے۔ نادرا کے ذرائع کا کہنا ہے کہ نادرا اپنی اغلاط کو درست کرنے اور اپنے ریکارڈ کی ازسرنو جانچ کے لیے عوام سے خاندانی تصدیق کے لیے 1980ء سے قبل کی دستاویز منگواتا ہے۔ یہ عمل کسی بھی لحاظ سے عوام کے مفاد میں نہیں، بلکہ لوگوں کو تکالیف سے دوچار کرنے کے مترادف ہے۔ اس سلسلے کو روکنے کے لیے وفاقی وزارت داخلہ کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ نادرا کو چاہیے کہ اپنی اغلاط کو درست کرنے کے لیے اپنے ہی جاری کردہ کاغذات کو تسلیم نہ کرکے خود کو مزید بدنام کرنے کے بجائے جدید طریقوں کو اپناکر خاندانوں کی رجسٹریشن کو درست کرے۔

حصہ