جسارت سنڈے میگزین: اپنی تصنیف و تالیف کے بارے میں کچھ بتائیں۔
انوار احمد زئی: میری پہلی کتاب افسانوں کا مجموعہ ’’درد کا رشتہ‘‘ حیدرآباد سے شائع ہوئی تھی، اس کے بعد افسانوں کے جو مجموعے آئے، ان میں آنکھ سمندر، سوچ کا گھاؤ، دل دریچے شامل ہیں۔ اس کے علاوہ سفر ناموں پر مشتمل جو کتابیں ہیں، ان میں دیس پردیس اور اپنوں کے درمیاں شامل ہیں۔ مضامین کا مجموعہ ’’قلم گوئد‘‘ ہے، اسلامی نقطۂ نظر سے میں نے ایک کتاب لکھی، جس کا نام ہے ’’آفتاب، دلیلِ آفتاب‘‘ اس میں نعت، سلام اور منقبت کے حوالے سے سیرِحاصل گفتگو کی گئی ہے، اس کے علاوہ دنیا بھر کے ادبی رسائل و اخبارات میں میرے مضمون شائع ہوتے رہتے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا پر بھی میں نے مختلف موضوعات پر گفتگو کی،جو کہ ریکارڈ پر ہے۔
جسارت سنڈے میگزین: اس وقت آپ کی سوشل ایکٹی ویٹیز کیا ہیں اور ادبی مصروفیات کیا ہیں؟
انوار احمد زئی: میرا نظریہ یہ ہے کہ اپنے وقت کو مثبت سرگرمیوں میں استعمال کیا جائے، لہٰذا میں اس وقت مختلف ٹی وی چینلز پر مختلف موضوعات پر گفتگو کرتا ہوں، اس کے ساتھ ساتھ مختلف تنقیدی محفلوں میں نقد و نظر کے حوالے سے شریک ہوتا ہوں، کراچی کی ایک یونیورسٹی نے بھی مجھ سے رابطہ کیا ہے، میں عنقریب اس سلسلے میں فائنل کرنے جارہا ہوں، اس کے علاوہ ایک امریکن اور یورپئین نیٹ ورک ہے، میں اس نیٹ ورک کے اسکولوں میں اسلامی تعلیمات کے فروغ کے لیے کام کرنا چاہتا ہوں۔ اس کا ذمے میں نے لیا ہے، دُعا کیجیے کہ میں اس مقصد میں کام یاب ہوجاؤں۔
جسارت سنڈے میگزین: موجودہ زمانے میں ہماری تنقید کا معیار کیا ہے اور کیا آج کے تنقید نگار اپنی ذمّے داریاں پوری کر رہے ہیں؟
انوار احمد زئی: تنقید کا بنیادی مطلب پرکھنا، جانچنا، نقد و نظر ہے۔ جو لوگ کیڑے نکالنے کو تنقید کہتے ہیں، وہ تنقید کا مطلب نہیں سمجھتے۔ پہلے زمانے میں مشاعروں میں ملنے والی داد کو ’’خراج تحسین‘‘ سمجھا جاتا تھا اور جن اشعار پر داد نہیں ملتی تھی، وہ تنقید کے ذیل میں آتے تھے اور شاعر یہ سمجھتا تھا کہ اس کے اشعار میں کچھ کمی ہے، لہٰذا وہ نئے سرے سے مصرعے کہتا تھا۔ آج کل یہ سب نہیں ہورہا، آج کل مشاعروں کو میلے کی شکل دے دی گئی ہے۔ لوگ مشاعروں میں تالیاں بجا رہے ہیں، تکیوں پر آرام سے ٹیک لگائے بیٹھتے ہیں اور مشاعروں کے آداب کو پامال کر رہے ہیں۔ سامعین میں سے کوئی مصرعہ نہیں اٹھاتا۔ ترنم سے اشعار پڑھنے والوں کو، اس کے ترنم کی داد مل رہی ہوتی ہے۔ اشعار کے مفہوم اور معنونیت پر غور بہت کم کیا جارہا ہے، ہمیں ان رویّوں کے بدلنے کی ضرورت ہے۔
اردو ادب میں الطاف حسین حالی، شبلی نعمانی اور محمد حسین، جن کو ہم اتحادِ ثلاثہ کہتے ہیں، تنقید نگاری کے اعتبار سے ان حضرات کا بہت اہم مرتبہ ہے۔ ان کو تنقید نگاری کا ٹرائی اینگل کہا جاتا ہے۔ ان کی کاوشوں سے شعراُلعجم، مقدمہ شعر و شاعری اور آبِ حیات جیسی عظیم تصانیف، اردو ادب میں شامل ہوئی ہیں، نیز گورنمنٹ آف پنجاب نے ان حضرات کے ذمّے یہ ڈیوٹی بھی لگائی تھی کہ یہ مغربی تنقیدی رویّوں کو اردو زبان و ادب میں آنے سے پہلے ان رویّوں کی اصلاح کریں اور ناقدانِ علم و فن کے لیے صحیح سمت کا تعیّن کریں۔ یہ حضرات اس مقصد میں پورے اترے اور انہوں نے یہ بتایا کہ کسی فن پارے کو جانچنے کے لیے ہمیں کن کن مراحل سے گزرنا چاہیے۔ ان معتبر ہستیوں کے بعد میرا جی اور حسن عسکری نے جس طرح بالالتزام مغربی تنقیدی رویّوں کا جائزہ لینے کے بعد جو راہیں متعیّن کی ہیں، ان کی اہمیت و افادیت سے انکار ممکن نہیں۔ آج کل جو تنقید لکھی جارہی ہے، اس میں ایک اہم نام سلیم احمد کا بھی آتا ہے۔ ایک زمانے میں تنقید نگار ایمپائر ہوتا تھا۔ منصف ہوتا تھا، غیر جانب دار ہوتا تھا۔ مختلف قسم کی تحریکیں بھی تنقید نگاروں پر اثر انداز ہوئی ہیں، جن میں ترقی پسند تحریک بھی شامل ہے۔ اس تحریک کے تناظر میں ادیبوں اور شعرا میں مختلف گروپ، دھڑے بن گئے اور تنقید نگاری کا شعبہ کم زور ہوتا چلا گیا، اس طرح تنقید نگاری اپنے محور و مرکز سے ہٹ گئی۔ آج کل کے زمانے میں یہ ہورہا ہے کہ ہم نے اپنے اپنے گروہ بنا لیے ہیں، کلاسی فیکشن کرلی ہے، اپنے اپنے کمپارٹ منٹ بنا لیے ہیں، انجمن ستائش باہمی کی بنیاد پر تنقید نگاری ہورہی ہے، ہم اپنے من پسند قلم کاروں کو پروموٹ کررہے ہیں، ان رویّوں سے تنقید قریباً ختم ہوکر رہ گئی ہے۔ آج کل بیش تر تنقید نگار پوری کتاب نہیں پڑھتے بلکہ وہی رٹے رٹائے جملے لکھ دیتے ہیں، جو وہ برسوں سے لکھ رہے ہیں۔ وہ مصلحتوں کے شکار ہوگئے ہیں، حقائق بیان کرنے میں کنجوسی سے کام لے رہے ہیں، وہ کھل کر کوئی فیصلہ نہیں کر پارہے۔ میرے نزدیک نقّاد وہ ہے، جو کسی بھی قلم کار کا سارا متن پڑھے، اس کی ایک ایک لائن پڑھے اور سمجھے، اس کے بعد وہ قلم کار کے مزاج کو سمجھے اور یہ فیصلہ کرے کہ تنقید کے لیے پیش کی جانے والی تخلیق کا موجودہ زمانے میں کیا مقام بنتا ہے اور آنے والے وقت میں اس فن پارے کا کیا مقام ہوگا؟ اگر تنقید نگاروں نے تنقید نگاری کے مروجہ اصولوں سے ہٹ کر تنقید لکھی تو اردو زبان و ادب کی ترقی ممکن نہیں۔
جسارت سنڈے میگزین: اس زمانے میں الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کس حد تک کردار ادا کر رہے ہیں؟
انوار احمد زئی: پرنٹ میڈیا میں اگر کوئی چیز غلط شائع ہوجاتی ہے تو آپ اس کی تصحیح چھاپ دیتے ہیں، لیکن الیکٹرانک میڈیا میں لمحاتی کھیل ہوتا ہے، لمحہ آیا اور گزر گیا۔ آج کل الیکٹرانک میڈیا میں ٹی وی چینلز پر جو پٹی چل رہی ہوتی ہے، اس کی املا غلط ہوتی ہے، اس کی انشا ٹھیک نہیں ہوتی، ٹی وی اینکرز کا تلفظ (استثنیٰ اپنی جگہ پر) غلط ہوتا ہے ان کی ’’ادائی‘‘ ٹھیک نہیں ہوتی۔ اس وقت ہمارے طلبا و طالبات غیر رسمی طور پر موجودہ الیکٹرانک میڈیا شاگرد بن چکے ہیں، وہ غیر شعوری طور پر یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ٹی وی اینکرز کا ادا شدہ تلفظ صحیح ہے۔ وہ ان الفاظ کو اسی طرح بولتے ہیں، اسی طرح برتنے لگتے ہیں، اس طرح غیر شعوری طور پر ٹی وی اینکرز کے غلط تلفظ کو صحیح سمجھ کر اپنے استعمال میں لاتے ہیں، اس لیے بے حد ضرورت ہے کہ پیمرا اور جو انضباطی کام کرنے والے ادارے ہیں، وہ یہ کام کریں کہ غلط تلفظ بند کرائیں، ورنہ ہماری نسل اردو کے حوالے سے غلط روش پر جائے گی، جس کا خمیازہ ہمیں ہی بھگتنا پڑے گا۔
جسارت سنڈے میگزین: اردو ادب کی ترقی کے لیے جو محکمے بنائے گئے تھے، کیا وہ اپنا کام خوش اسلوبی سے یا ایمان داری سے کر رہے ہیں؟ آپ اس سلسلے میں کیا کہتے ہیں؟َ
انوار احمد زئی: میں بہت واضح طور پر یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ پہلی چیز تو یہ ہے کہ اردو مرکزی بورڈ، انجمن ترقئ اردو، اردو لُغت بورڈ، اکادمی ادبیات پاکستان، مقتدرہ اردو قومی زبان یہ وہ ادارے ہیں، جن کو اردو زبان و ادب کی ترویج کے لیے قائم کیا گیا تھا، اس میں سندھی زبان کو بھی شامل کیجیے کہ سندھی زبان کا جو ادارہ ہے، وہ اپنی جگہ کام کررہا ہے، ہم صرف ایک زبان کی بات نہ کریں ، ادب کی بات کریں، مثلاً سندھی زبان و ادب میں کوئی نئی بات آرہی ہے تو اس کا اردو ترجمہ کرکے لوگوں تک پہنچانا ہماری ذمّے داری ہے اور اردو ادب کے سرمائے کو سندھی میں ترجمہ کرکے آگے بڑھائیں۔ ان اداروں میں (معذرت کے ساتھ کہہ رہا ہوں) اقربا پروری نظر آرہی ہے، یہاں اپنے اپنے حلقے کے لوگوں کی پزیرائی ہورہی ہے اور جو صحیح معنوں میں خلاق ہیں، وہ چپ چاپ ایک کونے میں بیٹھے ہیں۔ کوئی ان کی داد رسی نہیں کررہا۔
جسارت سنڈے میگزین:آپ کا نظریۂ ادب کیا ہے؟
انوار احمد زئی: شاعری ایک ایسی کیفیت ہے، جو کہ ہر شخص پر اثر انداز ہوتی ہے، جو شاعری کو سمجھتا ہے یا نہیں سمجھتا، شاعری ایک گونج ہے، ایک آواز ہے، ایک بازگشت ہے، ایکو ہے۔ جب یہ آواز آتی ہے تو ہر سماعت سے ٹکراتی ہے، اب سماعت کنندہ کی مرضی ہے کہ وہ اسے رد کرتا ہے یا تسلیم کرتا ہے۔ میرے نزدیک ادب کی تین جہتیں ہیں۔ پہلی جہت وہ ہے کہ جس میں شاعر اپنی ذات کا اظہار کرتا ہے، اپنی بات کرتا ہے۔ اب یہ وقت بتاتا ہے کہ شاعر کے جذبات کتنے پُراثر ہیں، سامع فیصلہ کرتا ہے کہ شاعر کی بات اسے کتنا متاثر کرتی ہے۔ وہ شاعر کے خیالات کو رد کرتا یا تسلیم کرتا ہے۔ نقّاد بھی یہ بتاتا ہے کہ شاعر کی بات میں کتنا وزن ہے۔ اس کے بعد دوسرا مرحلہ آتا ہے، جسے ’’عصری‘‘ مرحلہ کہہ سکتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ شاعر کی بات نے، شاعر کے خیالات و افکار نے عصرِ حاضر میں کیا مقام بنایا ہے۔ یہ فیصلہ خود بخود شعوری طور پر ہوجاتا ہے۔ اگر کسی شاعر کی تخلیق زمانہ عصر تسلیم کرلیتا ہے تو وہ شاعری آنے والے زمانے کے لیے ادبی شہ پارہ بن جاتی ہے۔
جسارت سنڈے میگزین: کراچی میں ہونے والی تنقیدی نشستوں کے بارے میں آپ کے کیا تاثرات ہیں؟
انوار احمد زئی: آج کا تنقید نگار دراصل ایک مکبّر ہے۔ وہ اپنی آواز بَلند کررہا ہے۔ جب تک ہم ادب کا مطالعہ نہیں کریں گے، ہم نقّاد نہیں بن سکتے۔ صرف اس فن پارے کا مطالعہ ہی کافی نہیں، جس پر آپ بات کررہے ہیں، نیز آج کل کی تنقیدی نشستوں کے تمام شرکاء یہ دعویٰ ہے کہ وہ تنقید کے معیار سے واقف ہیں۔ تنقیدی نشستوں کے شرکا ہر فن پارے کو اپنے اعتبار سے پرکھتے ضرور ہیں، لیکن وہ یہ نہیں دیکھ رہے کہ تنقید کے لیے پیش کیے جانے والا فن پارہ عروض کے اعتبار سے، بحر کے اعتبار سے، خیال کے اعتبار سے، زبان کے اعتبار سے، عہد کے اعتبار سے، ادبی روّیوں کے اعتبار سے اور اسلوب کے اعتبار سے کیسا ہے؟ جب تک آپ تنقید کے تمام اصول و ضوابط کی پابندی نہیں کریں گے، آپ ایک اچھے تنقید نگار نہیں بن سکتے۔ آج کل کی تنقیدی نشستوں کو آپ فضا ہموار کرنے کی نشست کہہ سکتے ہیں، اس کو نقد و نظر کی آخری نشست نہ سمجھیں۔
جسارت سنڈے میگزین: ترقی پسند تحریک نے اردو ادب پر کیا اثرات مرتب کیے؟
انوار احمد زئی: یہ موضوع بہت پرانا ہوچکا ہے، اس پر بہت کچھ کہا اور لکھا جاچکا ہے۔ میں صرف اعادے کے طور پر یہ کہنا چاہتا ہوں کہ 1930 یا 1935 کے بعد جب ترقی پسند تحریک نے ہندوستان میں قدم جمائے، تو اس وقت برصغیر پاک و ہند کے لوگوں کا مزاج آج کے سماجی روّیوں سے مختلف تھا۔ اس وقت تک دوسری جنگِ عظیم شروع نہیں ہوئی تھی، لیکن اردو ادب پر پہلی جنگِ عظیم کے اثرات مرتب ہونے شروع ہوگئے تھے، اسی طرح مغرب میں ایسے نقّاد اور قلم کار سامنے آئے کہ معیشت کے حوالے سے ان کی پالیسی کے خدوخال بہت حد تک واضح ہوگئے۔ پولی ٹیکل اکانومی ڈومی نیٹ کررہی تھی، انڈسٹریل ریگولیشن آچکا تھا، اس لیے ہندوستان میں یہ گونج پیدا ہوئی کہ ادب برائے ادب ہے یا ادب برائے زندگی ہے اور پھر یہ فیصلہ ہوا کہ اگر ادب زندگی سے مربوط نہیں تو وہ ادب نہیں ہے، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ فلسفہ دم توڑ گیا اور جیسے جیسے ترقی پسند تحریک کم زور ہوئی، اس کے اثرات ختم ہوتے چلے گئے۔ جس ملک سے یہ تحریک آئی تھی، اس ملک کا شیرازہ ہی بکھرگیا، لہٰذا ترقی پسند تحریک کے محرکات بھی ختم ہوگئے۔ بہت سے لوگ تجرباتی طور پر ترقی پسند تحریک میں گئے اور واپس آئے، کیوں کہ وہاں جا کر معلوم ہوا کہ بظاہر تو کچھ اور نعرہ لگایا جارہا ہے، لیکن اندرونی معاملات کچھ اور ہیں، لیکن یہ بات کہنا پڑے گی کہ مسابقت نے ادب کو فروغ دیا ہے۔ ترقی پسند تحریک نے نئے نئے عنوانات دیے، نیا لب و لہجہ دیا، نیا ڈکشن دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ ترقی پسند تحریک کے دیے گئے موضوعات و عنوانات وقت کے ساتھ ہم آہنگ ہوئے یا نہیں، لیکن اس تحریک سے اردو ادب کے سرمائے میں اضافہ ضرور ہوا ہے۔
جسارت سنڈے میگزین: جدیدیت اور مابعد جدیدیت کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟
انوار احمد زئی: مغرب میں جدیدیت اور مابعد جدیدیت کی اصطلاحات بہ وجوہ آئی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مغرب کا طرزِ زندگی ہمارے لیونگ اسٹائل سے مختلف ہے۔ ہمارے اور ان کے گھریلو ماحول میں بھی نمایاں فرق ہے، ہمارے یہاں جدیدیت کی بات نکلی تو وہ ایک تحریک کے طور پر سامنے آئی ہے، مغرب میں جب معاشی انقلاب آیا تو اس کے اثرات وہاں کے ادب پر بھی مرتب ہوئے۔ یاد رکھیے کہ جدیدیت کا تعلق قدامت پسندی سے نکلتا ہے، اس میں ایک ارتقائی کیفیت آتی ہے، ہمارے جدیدیت اور مابعد جدیدیت یا وجودیت کا نعرہ لگانے والے شاعر و ادیب، ادب میں سودا کاری کے ایجنٹ بننا چاہتے ہیں۔ ہمارے یہاں ابھی حال ہی میں ایک کتاب آئی ہے، جس کا نام غالب اور مابعد جدیدیت ہے۔ غالب جو کہ 1797 میں پیدا ہوئے اور 1869 میں انتقال کرگئے، انہوں نے اپنے کلام میں اس وقت جو خیالات و نظریات پیش کیے تھے، وہ آج کی جدیدیت پر پورے اترتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ غالب کے یہاں جدیدیت اور مابعد جدیدیت کا فلسفہ پایا جاتا ہے، اس لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر کسی قدیم شاعر نے کوئی ایسی بات کہی ہے، جو آنے والے زمانوں میں بھی قابل قبول ہو تو پھر جدیدیت کا مفہوم بدل جاتا ہے۔
جسارت سنڈے میگزین: آپ کی نظر میں نثری نظم کی کیا حیثیت ہے؟
انوار احمد زئی: ایک زمانہ تھا کہ بہت سے لوگ نثری نظم کے حوالے سے سامنے آئے۔ نثری نظم کے موّید، وکیل آہستہ آہستہ ادبی منظر نامے سے غائب ہوگئے، البتہ ایک آدھ شاعر آج بھی نثری نظم کی تعریف کرتا نظر آتا ہے۔ دیکھیے، نظم اور نثر دو الگ الگ چیزیں ہیں، یہ دنوں یک جا نہیں ہوسکتے، کیا آپ نے کبھی کڑھی میں کھیر ڈال کر کھائی ہے؟ آپ کا جواب یقیناًنفی میں ہوگا، لہٰذا نثر، نثر ہے اور نظم، نظم ہے۔ نظم میں تنظیم ہے، غنائیت ہے، مضمون کی رنگا رنگی ہے، بحر ہے اور شعری محاسن ہیں، جب کہ نثری نظم بغیر بحر، بغیر قافیے، بغیر ردیف کے کہی جارہی ہے، اسی لیے نثری نظم کا کوئی چانس نہیں ہے کہ وہ زندہ رہے یا ترقی کرے۔
جسارت سنڈے میگزین: سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود بھی اردو زبان نافذ العمل نہیں ہورہی، آپ اس سلسلے میں کیا کہتے ہیں؟
انوار احمد زئی: دستور پاکستان میں اردو کے نفاذ کا حوالہ موجود ہے، لہٰذا سپریم کورٹ نے حکومتِ وقت کو یاد دلایا ہے کہ آپ کب تک اردو سے پہلو تہی کرتے رہیں گے؟ آپ کو اردو زبان کو نافذ العمل کرنا ہوگا۔ اردو کے نفاذ میں بیورو کریسی حائل ہے، بیورو کریسی اردو میں بات کرنا اپنی توہین سمجھتی ہے۔ بہت سے لوگ بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ ان کے بچوں کو اردو نہیں آتی۔ بڑے بڑے گھرانوں کا یہ اسٹیٹس بن گیا ہے کہ ان کے بچے انگلش میڈیم اسکولوں میں پڑھتے ہیں، اردو میں بات نہیں کرتے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اردو ہماری مادری زبان ہے اور اس زبان کا کسی بھی علاقائی زبان سے کوئی جھگڑا یا تنازع نہیں۔ دوسری زبانیں ترقی کریں گی تو اردو بہت زیادہ ترقی کرے گی۔ آپ اردو کو دل و جان سے اپنائیں، اس کو اپنانے سے آپ کو کوئی نقصان نہیں ہوگا بلکہ بہت سے فوائد حاصل ہوں گے۔
جسارت سنڈے میگزین: نعت نگاری کے بنیادی تقاضے کیا ہیں؟ اس سلسلے میں روشنی ڈالیے۔
انوار احمد زئی: میرے نزدیک حمد کہنا آسان ہے،‘ نعت کہنا مشکل ہے۔ نعت کہنے کا منصب یہ ہے کہ آپ نعت میں اتنی احتیاط برتیں کہ سوئے ادب نہ ہو، عبد اور معبود کی حدیں آپس میں مل نہ جائیں۔ عبد اور معبود میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ نعت کہتے وقت سیرت مصطفیؐ، شریعت مصطفیؐ، عشق مصطفیؐ کی ضرورت ہے۔ نعت میں شمائیل رسول اور سیرت مصطفیؐ بیان کرنے کے ساتھ ساتھ آپ اپنی کیفیت دل بھی رقم کرتے ہیں۔ نعت کے مجرد اشعار وہ ہیں، جن میں صرف رسالت مآبؐ کی بات کی جائے، لیکن ہر شاعر حضورؐ سے اپنی عقیدت و محبت کا اظہار کرتا ہے، جیسے ’’مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ دیدہ‘‘ یہ واردات قلبی ہوسکتی ہے، لیکن مجرد نعت کے زمرے میں یہ چیز نہیں آسکتی۔ مدینے کی تعریف یا وہاں جا کر آپ جو کچھ محسوس کریں گے، وہ سب واقعات نعت میں لکھے جارہے ہیں، یہ سب اظہارِ عشقِ محمد مصطفیؐ ہے۔
جسارت سنڈے میگزین: کیا ہم نعت کو اصنافِ سخن میں شامل کرسکتے ہیں؟
انوار احمد زئی: اب نعت بھی اصنافِ سخن میں شامل ہے۔ جب مکمل طور پر نعت ایک شعبہ بن گیا ہے تو یہ صنفِ سخن ہوئی۔ غزل اور نظم دونوں اصناف سخن ہیں، جب کہ غزل کا انداز الگ ہے اور نظم کا انداز جدا ہے۔ نظم کی مختلف شکلیں ہیں، اس میں دو مصرعوں والی نظم بھی ہے، اس میں ثلائی ہے، رباعی ہے، قطعہ ہے، مسدس ہے، مخمس ہے۔ جب آپ نعت کو ایک صنفِ سخن تسلیم کرتے ہیں تو نعت کو کسی بھی ایک صنفِ سخن کا پابند نہیں کرسکتے۔ نعت، غزل کی صورت میں کہی جارہی ہے۔ نعت، نظم کی تمام اشکال میں لکھی جارہی ہے، اس لیے اب نعت ایک صنفِ سخن بن گئی ہے۔
جسارت سنڈے میگزین: اثائی ادب کے سلسلے میں آپ کے کیا تاثرات ہیں؟
انوار احمد زئی: اثائی ادب نے ہمیں بہت سی تراکیب دی ہیں، بہت سی تماثیل دی ہیں۔ اثائی ادب اردو ادب کا اہم حصہ ہے۔ اس ادب نے ہمارے ادب کے سرمائے میں اضافہ کیا ہے اور ادبی ورثے کو ثروت مند کیا ہے۔
جسارت سنڈے میگزین: وہ کیا وجوہ ہیں، جن کی بنا پر کتب بینی کا شعبہ کم زور ہوگیا ہے؟
انوار احمد زئی: ہم نے اب تک کتاب کی اہمیت کو پسِ پشت ڈال دیا ہے۔ ہم نے اپنے بچوں کو مجبور کردیا ہے کہ وہ امتحان پاس کرنے کے نکتۂ نظر سے نصابی کتب کا مطالعہ کریں، لہٰذا بچے وہ اسباق پڑھ رہے ہیں کہ جن سے ان کا نصاب وابستہ ہے۔ جب کوئی بچہ امتحان دے لیتا ہے تو وہ اپنے آپ کو کتاب سے علیحدہ کرلیتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ انٹرنیٹ کے آجانے سے اور الیکٹرانک میڈیا کی فراوانی سے آج کے بچے اس میڈیا کی طرف راغب ہوگئے ہیں اور کتاب سے دور ہوگئے ہیں۔ اب وہ اپنے مطلب کا مضمون انٹرنٹ پر تلاش کرتے ہیں اور اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں، نیز یہ بات بھی ہے کہ اب ہمارے یہاں لائبریریاں نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہیں۔ پہلے زمانے میں ہر اسکولوں اور کالجوں میں لائبریریاں ہوتی تھیں، جہاں سے طلبہ و طالبات کتابیں لے کر پڑھتے تھے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی نسل کو مطالعے کے فوائد بتائیں اور انہیں کتب بینی کی طرف راغب کریں۔
جسارت سنڈے میگزین: گروہ بندیوں نے اردو ادب کو فائدہ پہنچایا ہے یا نقصان؟ آپ اس سلسلے میں کیا فرماتے ہیں؟
انوار احمد زئی: گروہ بندی نے اردو ادب کو فائدہ نہیں، نقصان ہی پہنچایا ہے۔ اگر آپ صحت مند مسابقت کے ساتھ اساتذہ کے ان گروپ کو برت رہے ہیں تویہ عمل فائدہ مند ہے، لیکن آپ نے اپنے شاگردوں کا ایک گروپ بنالیا ہے اور آپ اپنی کہی ہوئی چیزوں کی داد تحسین کے لیے اپنے گروپ کو استعمال کررہے ہیں تو یہ رویّہ غلط ہے۔ ذوق و غالب کا گروپ مشہور تھا، پاکستان میں آغا وزیر صاحب اور احمد ندیم قاسمی کے اپنے اپنے گروپ تھے۔ صحت مند، تنقیدی رویّوں سے ادب کو فائدہ ہوتا ہے۔
جسارت سنڈے میگزین: کیا مشاعرے بھی اردو ادب کے فروغ میں کوئی کردار ادا کرتے ہیں؟
انوار احمد زئی: آج کل تو یہ دیکھا جارہا ہے کہ مشاعرے تفریح طبع کا ایک ذریعہ بن گئے ہیں۔ مشاعروں میں ایک میلے کا سماں ہوتا ہے۔ اب مشاعروں میں تالیاں بجائی جاتی ہیں، تکیوں پر لیٹ کر مشاعرہ سنا جا رہا ہے۔ اب شاعری کے بجائے ترنّم پر داد دی جارہی ہے۔ ان سب رویّوں نے مشاعرے کی اہمیت کو کمزور کیا ہے، جب کہ ایک زمانہ تھا کہ جب مشاعرے ادب کے فروغ کا اہم ذریعہ تھے۔ جب کسی کے کلام پر داد نہیں ملتی تھی تو وہ یہ سمجھ لیتا تھا کہ اس کے کلام میں کوئی کمی یا خامی رہ گئی ہے، لہٰذا وہ اپنے مصرعوں کو دوبارہ کہتا تھا۔ اسی طرح اگر اچھے اشعار پر داد ملتی تھی تو اس کی بازگشت دیر تک سنائی دیتی تھی۔ مشاعرہ ایک ادبی ادارہ ہے، مشاعرہ تنقید کا مضبوط حوالہ اور ہماری تہذیبی اقدار کی آبیاری کا استعارہ ہے۔
جسارت سنڈے میگزین: ایک اچھے افسانے کی کیا خوبی ہونی چاہیے؟
انوار احمد زئی: فی زمانہ افسانے کے بارے میں دو، تین جملے عام طور پر مشہور ہوگئے ہیں، میں ان جملوں کو رد کرتا ہوں۔ آپ کہتے ہیں کہ ذرا سی بات کا افسانہ بنا دیا گیا ہے، حالاں کہ بڑی بات کو مختصر کرکے بیان کرنے کا نام افسانہ ہے۔ ذرا سی بات کو افسانہ نہیں بنایا جاسکتا۔ دوسری بات یہ ہے کہ آپ نے یہ جملہ بھی سنا ہوگا کہ یہ حقیقت ہے یا افسانہ؟ اگر کسی بات میں کوئی حقیقت نہیں تو وہ داستان ہے۔ افسانے میں بنیادی چیز ارتقازِفکر ہے، آج کل افسانے کو گنجلک بنا دیا گیا ہے، افسانے میں نصیحت آمیز گفتگو نہیں کی جاتی بلکہ کرداروں کے ذریعے یعنی کرداروں کے مکالمات کے ذریعے اپنا نفسِ مضمون سامنے لایا جاتا ہے۔ ہمیں افسانچے، ناولٹ اور ناول کے درمیان فرق کرنا پڑے گا۔ افسانہ کبھی منطقی انجام تک نہیں جاتا۔
جسارت سنڈے میگزین: سفر نامے کے سلسلے میں آپ کیا کہتے ہیں؟ سفرنامہ لکھنے کے کیا آداب ہیں؟
انوار احمد زئی: سفر نامے کی ایک پوری تاریخ ہے۔ سند باد جہازی اور ابنِ بطوطہ کے سفر ناموں نے ادب کو مربوط، مرتّب اور منظّم کیا ہے۔ اس زمانے میں جب سفر کی آسانیاں میسر نہیں تھیں، سفر نامے کے ذریعے پتا چلتا تھا کہ کسی علاقے کی تہذیب و تمدن کیا ہے‘ وہاں کی سماجیات کیا ہیں؟ ایک زمانے میں سفر کرنا بھی دشوار تھا اور سفر نامہ لکھنا بھی مشکل کام تھا۔ سفر نامہ لکھنے کے لیے ہمیں وہاں جانا پڑتا تھا کہ جہاں کا سفر نامہ ہم لکھنا چاہتے ہیں، لیکن آج کل تمام معلومات انٹرنٹ پر دستاب ہیں، لہٰذا کچھ لوگ گھر بیٹھے انٹرنیٹ کے فیضِ عام کے بل بوتے پر سفرنامہ لکھ رہے ہیں۔ یہ انتہائی درجے کی چوری ہے، سرقہ ہے۔ سفر نامہ نگاروں کی دوسری قبیل وہ ہے کہ جو حقیقت میں ان ممالک میں جاتے ہیں، جہاں کا وہ سفر نامہ لکھ رہے ہیں، لیکن وہ وہاں جاکر سڑکیں ناپتے ہیں، عمارتیں گنتے ہیں اور کچھ عاشقی معشوقی کے واقعات ڈال کر سفر نامے کو رنگین اور دل چسپ بنا رہے ہیں۔ یہ دوسری قسم کی بددیانتی ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ لذّت کے لیے سفر نامہ لکھ رہے ہیں۔ میرے نزدیک سماجی امتیازات کو سفر نامے کا حصہ ہونا چاہیے۔
جسارت سنڈے میگزین: آپ معیار تعلیم کی سربَلندی کے لیے کیا تجاویز پیش کرنا چاہیں گے؟
انوار احمد زئی: میں نے میٹرک بورڈ، انٹر بورڈ کی چیئرمین شپ کے دوران تعلیم کی بہتری کے لیے کچھ اقدامات اٹھائے تھے، مثلاً میں نے امتحانی پرچوں کے طریقۂ کار کو تبدیل کیا، امتحانی مراکز کے سلیکشن کے معیار تبدیل کیے، امتحانی مراکز پر چیکنگ کرنے والے افراد کا جائزہ لے کر ان کو منتخب کیا۔ میرے ان اقدامات سے کچھ فائدہ ہوا، لیکن سو فی صد نتائج نہیں نکل سکے۔ اگر میں ان اداروں میں مزید رہتا تو بہت کچھ کرتا، کیوں کہ میرے ذہن میں پوری منصوبہ بندی تھی، جس پر میں مکمل طور پر عمل نہیں کرسکا۔ اب یہ بات بھی غور طلب ہے کہ اسکولوں میں نویں، دسویں کا مجوزہ نصاب مکمل نہیں ہو پاتا، جس کے نتیجے میں طلباء و طالبات کوچنگ سینٹرز کا رخ کر رہے ہیں، نہم اور دہم کاتجویز کردہ نصاب 221 دنوں کا ہے، جب کہ آپ 221 دن تک اسکولنگ نہیں کررہے۔ آپ کے تعلیمی ورکنگ ڈیز 170 ہیں، یعنی آپ نے 50 دن کم کردیے ہیں، اگر آپ ہر اسکول میں صبح 8 بجے سے 2 بجے تک کلاسز لگائیں، تب آپ کا مجوزہ سلیبس مکمل ہوگا، لیکن کراچی میں 90 فی صد ڈبل شفٹ اسکولز ہیں۔ صبح کا اسکول 8 بجے سے 12:30 تک ہے اور دوپہر کا اسکول 12:45 دسے 5:10 تک لگتا ہے، جب کہ مجوزہ نصاب کی تکمیل کے لیے ضروری ہے کہ ہر اسکول میں سات گھنٹے پڑھائی ہو، جب کہ ہم 5 گھنٹے پڑھا رہے ہیں۔ میرے نزدیک ہر پیریڈ 45 منٹ یا ایک گھنٹے پر محیط ہونا چاہیے۔ جن اسکولوں میں سات گھنٹے پڑھائی ہورہی ہے، وہاں نصاب کی تکمیل کا کوئی مسئلہ نہیں۔ اگر ہم نے نصاب کم کردیا تو ہم دوسرے ممالک سے پیچھے رہ جائیں گے۔ تعلیمی معیار کی سر بلندی کے لیے لازم ہے کہ والدین کی جانب سے ایک پریشر گروپ بنایا جائے، جو تعلیمی اداروں کے معاملات پر نظر رکھے اور ہر تعلیمی ادارے کو مجبور کرے کہ وہ مجوزہ نصاب کو مکمل کرائے۔
جسارت سنڈے میگزین: پرائیویٹ اسکولوں اور گورنمنٹ کے اسکولوں کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو آپ کی کیا رائے ہوگی؟
انوار احمد زئی: میں بلا خوف یہ کہہ رہا ہوں کہ گورنمنٹ اسکولز اپنی اہمیت اور افادیت کھوتے جارہے ہیں۔ مانیٹرنگ کا فقدان ہے، حاضریوں کا تناسب کم ہے، گورنمنٹ کے تعلیمی اداروں میں گھوسٹ ملازمین بھی ایک اہم مسئلہ بنے ہوئے ہیں۔ سیکنڈری بورڈ میں امتحان دینے والے طلبہ و طالبات کی 70 فی صد اکثریت کا تعلق پرائیویٹ اسکولوں سے ہے، جب کہ گورنمنٹ کے اسکولوں سے صرف 30 فی صد طلبہ آرہے ہیں۔ جب رزلٹ آتا ہے تو 85 فی صد پرائیویٹ اسکولوں کے طلبہ پاس ہوتے ہیں، 15 فی صد گورنمنٹ اسکولوں کے بچے اور بچیاں کام یاب ہوتی ہیں۔ اے ون گریڈ پانے والوں میں 90 فی صد پرائیویٹ اسکولوں کے طلبا و طالبات ہوتے ہیں۔ پوری کراچی کی سطح پر پوزیشن لینے والوں میں پرائیویٹ اسکول کے 100 فی صد طلبا وطالبات ہوتے ہیں، گورنمنٹ اسکول اس معاملے پر صفر پر کھڑے ہیں۔ آپ گورنمنٹ اسکولوں میں مفت درسی کتب بانٹ کر یا انہیں وظیفہ دے کر گورنمنٹ اسکولوں کا معیار بہتر نہیں بناسکتے۔ ہمیں شیڈول آف اسٹڈیزکی ضرورت ہے۔ 1997 تک گورنمنٹ اسکولوں کا معیارِ تعلیم بہتر تھا، لیکن 1997 کے بعد مختلف وجوہ کی بنا پر گورنمنٹ اسکولوں کا معیار تعلیم زوال کا شکار ہوا۔ا گر آپ گورنمنٹ کے اسکولوں کا معیار بَلند کرنا چاہتے ہیں تو ہنگامی بنیادوں پر کام کرنا پڑے گا، گورنمنٹ اسکولوں کے بنیادی مسائل حل کرنے ہوں گے اور مانیٹرنگ کے شعبے کو آزادی دینی ہوگی۔