راحت، خوشی، دکھ، غم زندگی کے ساتھ وابستہ ہیں، مگر انسان اپنی صحت سے جو راحت و خوشی حاصل کرتے ہیں وہ بے مول ہے، لیکن کبھی کبھی کسی اچانک بیماری کا انکشاف بھی ہوجائے تو اداسی طاری کرنے کی ضرورت نہیں۔ قدرت نے ہمیں بے شمار نعمتیں عطا کی ہیں، جن میں صحت کے خزانے بھرے ہوئے ہیں۔ مثلاً گاجر اور خوبانی میں بیٹا کروٹین پایا جاتا ہے، جو بصارت کے لیے ضروری ہے۔ اس طرح کریلے کا روزانہ استعمال پٹھوں کو پوٹاشیم، میگنیشیم دے کر دوبارہ کام کرنے کی قوت بڑھاتا ہے۔
کریلا ایک مشہور سبزی ہے جو کھانے کے ساتھ ساتھ محاورے میں بھی استعمال ہوتی ہے، مثلاً ’’کریلا اور نیم چڑھا‘‘۔ تلخ مزاج لوگوں کے لیے یہ مثال صدیوں سے عام ہے۔کریلا دو قسم کا ہوتا ہے: کاشت شدہ اور جنگلی۔ جنگلی کریلے کو ککوڑہ کہا جاتا ہے، جب کہ کاشت شدہ کی بھی دو قسمیں ہیں۔ کاشت شدہ کڑوا اور جنگلی مزے دار ہوتا ہے۔ گوشت یا قیمہ کے ساتھ پکایا جاتا ہے۔ اس کے بیج اگر سخت ہوں تو نکال دیئے جاتے ہیں۔ پکانے سے پہلے اسے کاٹ کر، نمک لگاکر دھوپ میں ذرا دیر رکھنے کے بعد دھولیں اور پھر پکائیں۔ کڑواہٹ کم ہوجائے گی اور ذائقہ کسی قدر مناسب ہوجائے گا۔ فولاد، کیلشیم، فاسفورس، پروٹین اور وٹامن بی۔ سی اس کے اجزاء ہیں۔ اس کا مزاج گرم خشک ہے۔ درد میں فائدہ دیتا اور اعصاب کو طاقتور بناتا ہے۔ جوڑوں کے درد اور گٹھیا میں نفع بخش غذا ہے۔
کریلا خون کی کثافت دور کرتا ہے۔ ذیابیطس کے مرض میں بہت مفید ہے۔ یہ جسم میں موجود گلوکوز کو درست رکھتا ہے، جسم کو طاقت دیتا ہے، بے خوابی دور کرتا ہے، کام کرنے کی قوت مزید بڑھاتا ہے، آنکھوں کی روشنی کے لیے بھی بہت مفید ہے۔ کریلے کا رس جسم کی قوتِ مدافعت بڑھاتا ہے، انفیکشن کے خلاف طاقت دیتا ہے۔ کریلے کے پتوں سے تین چمچے رس نکال کر اسے بٹر ملک کے ایک گلاس کے ساتھ ملا کر روزانہ خالی پیٹ پینے سے بواسیر کی تکلیف دور ہوجاتی ہے۔ اس کی جڑوں کا پیسٹ بواسیر کے مسوں پر لگانے سے فائدہ ہوتا ہے۔
آج کل کریلے تازہ اور عمدہ کوالٹی کے دستیاب ہیں۔ کڑواہٹ کی بناء پر ان سے اجتناب نہ کریں۔ کڑواہٹ دور کرنے کے لیے پہلے کریلے ثابت دھولیں، خشک کرکے کھرچ لیں اور کاٹ کر بیج نکال دیں۔ پھر نمک لگا کر دو گھنٹے کے لیے رکھ دیں۔ اس کے بعد دھوکر چھان لیں اور ململ کے کپڑے میں پانی خشک کرلیں۔ اس کے بعد انہیں فرائی کرلیں۔ اس طرح آپ کریلوں کو مختلف طریقوں سے پکا سکتے ہیں۔
کریلے صرف لذیذ ترکاری ہی نہیں بلکہ ایک ایسی مفید غذا اور دوائی بھی ہے جس کے جسمِ انسانی پر بہت اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ کڑوے ہونے کی وجہ سے کریلے مشتہی، ہاضم اور مصفی خون ہوتے ہیں اور ان کے کھانے سے پیٹ میں پیدا ہونے والے ریاح تحلیل ہوتے ہیں۔ اس سے نظام انہضام کے خصوصی اعضاء مثلاً معدہ اور امعاء وغیرہ کو تقویت بھی حاصل ہوتی ہے۔ یہ کڑوے اور تلخ ہونے کی وجہ سے امعاء کے کیڑوں کو بھی ختم کرتے ہیں۔ اس عمل کے لیے اس پائے کی کوئی بھی دوسری سبزی یا ترکاری نہیں ہوتی۔ کریلوں کا پانی امعاء کے امراض میں بہت ہی نافع ہے۔ خصوصی طور پر ہیضہ جو عالمگیر مرض کی حیثیت رکھتا ہے، اس کا جرثومہ آنتوں میں ہی نشوونما پاتا ہے اور کریلوں کا پانی ایک سے دوچمچہ کی مقدار میں پلانا ان جرثوموں کو ختم کردیتا ہے۔ پیٹ میں پانی پڑجانے میں بھی یہ بہت نافع ہے۔
کریلے کے پودے کی جڑوں کو قدیم زمانے سے سانس کی بیماریوں کے علاج میں استعمال کیا جارہا ہے۔ جڑوں کا ملیدہ ایک چائے کا چمچ، اسی مقدار میں شہد یا تلسی کے پتوں کا جوس ملا کر ایک ماہ تک روزانہ رات کو پینے سے دمہ، برونکائٹس، زکام، گلے کی سوزش اور ناک کے استر کی سوزش کا عمدہ علاج میسر آتا ہے۔
کریلا اعلیٰ قسم کی خوبیوں سے مالامال ہے۔ یہ دافع زہر، دافع بخار، اشتہا انگیز، مقوی معدہ، دافع صفرا اور مسہل ہے۔ کریلا ذیابیطس کے لیے دیسی علاج ہے۔ اس میں انسولین سے مشابہہ ایک مادہ پایا جاتا ہے جسے نباتی انسولین کا نام دیا گیا ہے۔ یہ مادہ خون اور پیشاب میں شوگر کی مقدار کم کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ طبیب کریلے کا استعمال غذا کے طور پر شوگر کے مریضوں کو باقاعدگی سے کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ زیادہ بہتر نتائج حاصل کرنے کے لیے ذیابیطس (شوگر) کے مریضوں کو چار پانچ کریلوں کا پانی روزانہ صبح نہار منہ پینا چاہیے۔ کریلوں کے بیج سفوف بناکر غذا میں شامل کرنا بھی بہتر ہے۔ شوگر کے مریض کریلوں کو ابال کر اس کا پانی (جوشاندہ) پئیں یا اس کا سفوف استعمال کریں تو شفایاب رہتے ہیں۔
شوگر کے زیادہ تر مریض عموماً ناقص غذائیت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ کریلے میں چونکہ تمام ضروری معدنی اجزاء اور وٹامن ہوتے ہیں، چنانچہ اس کا باقاعدہ استعمال بہت سی پیچیدگیوں سے محفوظ رکھتا ہے، جن میں ہائی بلڈ پریشر، آنکھوں کے امراض، اعصاب کی سوزش اور کاربو ہائیڈریٹس کا ہضم نہ ہونا شامل ہے۔ کریلوں کا استعمال انفیکشن سے بھی محفوظ رکھتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ تیزی سے بڑھتے ہوئے موذی مرض ذیابیطس کے لیے کوئی نیا، سستا اور مؤثر علاج دریافت کیا جائے تاکہ مریض انسولین سے چھٹکارا حاصل کرسکیں۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ ذیابیطس کے مریض جلد صحت پانے کی خواہش میں کریلے کا زیادہ رس پینے لگتے ہیں، جو اکثر فائدے کے بجائے نقصان پہنچاتا ہے۔ کریلے کو بطور دوا استعمال کرنے سے قبل اپنے معالج سے ضرور مشورہ کرلیں۔
کریلوں کے تازہ پتوں کا جوس بواسیر میں بہت مفید رہتا ہے۔ چائے کے تین چمچے پتوں کا جوس ایک گلاس لسی میں شامل کرکے روزانہ صبح ایک ماہ تک پینا بواسیر کا عارضہ دور کرتا ہے۔ کریلوں کی جڑوں کا پیسٹ بواسیر کے مسوں پر لگانا بھی مفید ہے۔
کریلے کے پتوں کا رس پینے سے آنتوں کے کیڑے مر جاتے ہیں۔ اس کے پتوں کا لیپ کرنے سے پاؤں کے تلووں کی گرمی دور ہوجاتی ہے۔ کریلا بخار کم کرتا ہے۔ یہ توانائی بخشتا اور بھوک بڑھاتا ہے۔ جذام کے علاج میں بھی کریلا کام کرتا ہے۔ کریلا بواسیر، یرقان، گٹھیا، پیشاب کی تکالیف، دمہ، جگر، تلی، خون اور آنکھوں کی بیماریاں دور کرنے میں بھی کھایا جاتا ہے۔
خون کے متعدد امراض جن میں فسادِ خون سے پھوڑے، پھنسیاں نکلنا، خارش، چنبل، بھگندر، جالندھر شامل ہیں، کے علاج کے لیے کریلا بہت کارآمد ہے۔ تازہ کریلوں کا جوس (پانی) ایک کپ، ایک چائے کا چمچ لیموں کا رس ملا کر صبح نہار منہ ایک ایک چسکی پینا مفید ہے۔ پرانے امراض میں یہ علاج چار سے چھ ماہ تک جاری رکھنا پڑتا ہے۔
موسم گرما میں لاحق ہونے والے ہیضہ اور اسہال کے ابتدائی مرحلوں میں کریلوں کے پتوں کا تازہ جوس شفا بخش دوا ہے۔ چائے کے دو چمچ جوس ہم وزن پیاز کے جوس اور ایک چائے کا چمچ لیموں کا رس ملاکر دینا شافی علاج ہے۔ کریلے کے پتوں کا جوس، شراب کے بد اثرات کا اچھا علاج ہے۔ شراب کے زہریلے مادوں کے لیے مؤثر تریاق کا کام دیتا ہے۔ شراب نوشی سے جگر کو پہنچنے والے نقصان کی بھی اصلاح ہوتی ہے۔
چائے کے ایک چمچ کے برابر دن میں دو مرتبہ کریلے کا رس پینے سے کھانا بخوبی ہضم ہوجاتا ہے اور پیٹ میں گیس بھی نہیں بنتی، قبض بھی نہیں رہتا۔ کریلے کی سبزی چند روز تک باقاعدہ کھانے اور کھانا کھانے سے پہلے کریلے کا ایک چمچ رس پینے سے بھوک لگنے لگتی ہے۔
جگر کے امراض میں چند روز تک بالغوں کو تین مرتبہ ایک چائے کے چمچ کے برابر کریلے کا رس پلانے، اور بچوں کو ان کی عمر کے مطابق نصف یا چوتھائی چائے کے چمچ کے برابر کریلے کا رس پلانے سے جگر ٹھیک ہوجاتا ہے اور اس کی نوعیت معمول کے مطابق بھی ہوجاتی ہے۔ اگر جگر بڑھنے کے ساتھ جلندھر بھی ہوجائے تو کریلے کے رس کی مقدار بڑھا کر چار گنا کردینی چاہیے۔
25گرام کریلے کا رس پانی میں ملا کر باقاعدگی کے ساتھ دن میں تین مرتبہ پینے سے چند ہی روز میں تلی کی بڑھوتری ختم ہوجاتی ہے۔
کریلے کی سبزی ہر روز باقاعدہ کھانے سے جسم میں کافی مقدار میں فاسفورس پہنچنے سے جسم کی پھرتی برقرار رہتی ہے۔ دمہ، کھانسی میں کریلے کا رس پینے یا اس کی سبزی کھانے سے آرام پہنچتا ہے۔ چند روز تک باقاعدہ صبح شام دو دو چمچ کریلے کا رس پینے اور کریلے کی سبزی کھانے سے گردے یا مثانے میں موجود پتھری ٹوٹ کر پیشاب کے راستے باہر نکل آتی ہے۔ دن میں دو مرتبہ دو چمچ کریلے کا رس پینے سے حیض جاری ہوجاتا ہے۔
ماں کے دودھ میں خرابی آنے پر ماں کو کریلے کا رس اور کریلے کی سبزی روز کھانی چاہیے۔ صبح شام دو دو چمچ کریلے کا رس پینے اور کریلے کی سبزی کھانے، اور جس جوڑ میں گٹھیا ہو وہاں کریلے کا رس لگانے اور جوڑوں میں درد ہونے پر اس جوڑ پر کریلے کے پتوں کے رس کی مالش کرنے سے گٹھیا میں بہت افاقہ ہوتا ہے۔ بخار میں کریلے کی سبزی کھانے کو کہا جاتا ہے۔ اس مرض میں کریلے کا رس پینے سے افاقہ ہوتا ہے۔ جسم میں کہیں بھی سوجن ہونے پر کریلے کی سبزی کھانے یا کریلے کا رس پینے سے سوجن میں بہت فائدہ ہوتا ہے۔ کوڑھ اور زخم پر کریلے کدوکش کرکے اس کا لیپ کرنا بہت فائدہ مند ہوتا ہے۔ پیروں یا جسم پر کہیں بھی جلن ہونے پر کریلے کے پتوں کے رس کی مالش کرنی چاہیے۔
nn
س: عمر 12 سال ہے۔ بچپن سے سانس کی مریضہ ہوں۔ اس کی وجہ اور علاج بتائیں۔ (ثمرہ خان، لاہور)
ج: بہ ظاہر تو آپ کو دمے کا عارضہ ہے۔ سانس کی نالیوں میں تنگی پیدا ہوجانے سے یہ مرض پیدا ہوتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آپ کی پیدائشی ایگزیما ہو اور اسے آرام ہوگیا ہو۔ اس سے بھی دمہ پیدا ہوسکتا ہے۔ نہ جانے آپ نے اپنا خون کبھی ٹیسٹ کرایا ہے یا نہیں؟ ضرورت اس کی ہے کہ آپ کسی اچھے طبیب سے اپنا علاج کرائیں۔ گیہوں کی بھوسی چائے کا چمچہ بھر، دودھ یا پانی میں جوش دے لیں۔ چھان کر اس میں ذرا ساشہد ملا کر پی لیں۔ اس سے دمے کی تکلیف کم ہونے کا امکان ہے۔
س: عمر 16 سال ہے۔ مجھے سانس کی بیماری ہے اور میرے بھائی کو بھی یہی شکایت ہے۔ اس کی عمر 8 سال ہے۔ ازراہ کرم علاج تجویز فرمائیے۔ (انیلہ انجم، ملتان)
ج: اب میرے لیے جواب مشکل ہوگیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ کوئی موروثی کیفیت ہے۔ اگر آپ کے اطباء اور ڈاکٹروں نے اسے دمہ تشخیص کیا ہے تو پھر آپ کو برگِ تلسی پر توجہ کرنی چاہیے۔ پورا نسخہ یہ ہے:
برگ تلسی 6 گرام، تخم میتھی 6گرام، لہسن 2 عدد ایک کپ پانی میں جوش دے کر صبح و شب بہت دنوں تک پیتے رہیں۔ اگر مزید ضرورت ہو تو لعوقِ سپستان 9 گرام کا اضافہ کرلیں۔
آپ کو زیادہ سے زیادہ ہوا (آکسیجن236 بادِنسیم) کی ضرورت ہے۔ صبح کھلے میدان میں جاکر ذرا دوڑ لگائیے اور گہرے گہرے سانس 15۔20منٹ تک لینا شروع کریں۔
س: عمر 12 سال ہے۔ سردیاں شروع ہوتی ہیں تو دمہ شروع ہوجاتا ہے۔ رات بھر کھانسی رہتی ہے۔ دھویں اورگردو غبار سے چھینکیں آنا شروع ہوجاتی ہیں۔ (محمد اسلم، پشاور)
ج: ہاں بھئی آپ کو واقعی دمہ ہے۔ دھویں اور گردوغبار سے چھینکیں آنا واضح طور پر یہ بتاتا ہے کہ ان دونوں سے آپ کا جسم میل نہیں کھاتا۔ اسے آج کی زبان میں ’’الرجی‘‘ کہتے ہیں۔ جہاں تک ممکن ہو دھویں سے بچیں اور گرد و غبار سے دور رہیں۔ دوا کے طور پر صبح و شام: تخم میتھی 6 گرام، خولنجان6 گرام، برگ تلسی 6 گرام پانی میں جوش دیں اور چھان کر ذرا سا خالص شہد ملا کر پی لیں۔
س: میری عمر 15 سال ہے۔ ڈاکٹر سے آنکھیں ٹیسٹ کروائیں تو انہوں نے چار نمبر کا چشمہ دیا۔ کیا کوئی ایسی ترکیب نہیں ہوسکتی کہ چشمہ اتر جائے۔ دوائیں کون سی استعمال کروں؟ (اقبال حسین، دیر)
ج: سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ماہرِ چشم نے جس نمبر کی عینک دی ہے اسے ضرور استعمال کرنا چاہیے، ورنہ آنکھیں مزید کمزور ہوجانے کا خطرہ رہے گا۔ ممکن ہے کہ اب چشمے کا نمبر بدل نہ سکے اور یہی رہے، پھر بھی کوشش ضرور کرنی چاہیے۔ ایک تو یہ ہے کہ جہاں تک ممکن ہو اب آئندہ قدرتی روشنی میں پڑھا کریں، ورنہ کم ازکم اس کا خیال رکھیں کہ مطالعے کے وقت روشنی کم نہ ہو۔ نظر کی کمزوری کا تعلق غذائیت سے بھی ہے۔ اگر غذا میں حیاتین الف (وٹامن اے) کم ہو تو بینائی کمزور ہوسکتی ہے۔ اس کا علاج وٹامن اے ہے اور اچھی غذا۔
س: میری عمر 17 سال ہے، میرے ہاتھ اور پاؤں بہت کانپتے ہیں، خاص طور پر جب بھی لکھنے بیٹھتا ہوں۔ کہتے ہیں کہ میرا نروس سسٹم کمزور ہے۔ آپ دوائیں تجویز کردیں۔ میں فرسٹ ائیر کا طالب علم ہوں۔ (محمد ابراہیم، مانسہرہ)
ج: ہاں، بظاہر یہ اعصاب کی کمزوری ہے۔ اس کے اسباب مختلف ہوسکتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ عام کمزوری سے ایسا ہورہا ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ نظامِ اعصاب پر کوئی دباؤ پڑرہا ہو۔ اچھا تو یہ ہے کہ کسی ماہر معالج سے مشورہ کرلیا جائے۔ ویسے مغز بادام اور کشمش (رات کو بھگو کر) صبح کھا لینے سے فائدہ ہوسکتا ہے۔ اگر ایسا ہے کہ آپ اپنے ہاتھوں اپنی صحت برباد کررہے ہیں تو آپ کی موجودہ حالت آپ کو غور کرنے کی دعوت دے رہی ہے۔ زندگی میں اعتدال ضروری ہے اور صحت کی حفاظت آپ کا ذاتی حق اور ملّی فریضہ ہے۔