کتاب
:
معاصر فکری تحریکیں
مصنف
ؒ :
ڈاکٹر نعیم احمد
صفحات
:
124 قیمت 150روپے
ناشر
:
ڈاکٹر تحسین فراقی، ناظم مجلس ترقی ادب۔ 2 کلب روڈ۔ لاہور
فون042-99200856,99200857
ڈاکٹر نعیم احمد سابق اقبال پروفیسر و چیئرمین شعبہ فلسفہ جامعہ پنجاب لاہور نے یہ جامع مختصر کتاب معاصر فکری تحریکوں کے متعلق ترتیب دی ہے۔ اس کتاب سے پہلے وہ درج ذیل کتب تحریر کرچکے ہیں:
’’تاریخ فلسفۂ یونان‘‘ علمی کتاب خانہ لاہور، ’’تاریخ فلسفۂ جدید‘‘ علمی کتاب خانہ لاہور، ’’اقبال کا تصورِ بقائے دوام‘‘، ’’فرائڈ کا نظریۂ تحلیل نفسی‘‘، ’’برگساں کا فلسفہ‘‘ ادارہ تصنیف و ترجمہ پنجاب یونیورسٹی لاہور، ’’فلسفے کی ماہیت‘‘ ادارہ تصنیف و ترجمہ پنجاب یونیورسٹی لاہور، ’’حکومتیں کیسے چلتی ہیں‘‘ (ترجمہ)، ’’سائنسی نقطۂ نگاہ‘‘ (ترجمہ)، رسل کے مضامین‘‘ (تدوین و ترتیب)، ’’رسل کی بنیادی تحریریں‘‘ (تدوین و ترتیب)، ’’ایام حبیب صلی اللہ علیہ وسلم‘‘، ’’فلاسفی ان پاکستان‘‘ (انگریزی)، ’’تصوراتِ اقبال‘‘ (زیر طبع)
ڈاکٹر نعیم احمد تحریر فرماتے ہیں:
’’میں نے اپنی پہلی کتاب ’’تاریخ فلسفۂ یونان‘‘ 1970ء میں لکھی تھی۔ اُس وقت تک اردو میں فلسفہ لکھنے پڑھنے کا رواج نہیں تھا۔ نہ ہی اردو زبان میں فلسفے کی کوئی ڈھنگ کی کتاب ملتی تھی۔ چند ایک کتابیں جو ملتی بھی تھیں انہیں پڑھ کر بجائے فلسفے کی تفہیم کے، قاری کا ذہن الجھ جاتا تھا۔ میں نے اپنی سی کوشش کی اور اس کتاب کا مسودہ ڈاکٹر سی۔اے قادر مرحوم کو نظرثانی اور اصلاح کے لیے پیش کیا۔ انہوں نے میری اس کوشش کو بہت سراہا اور بعض جگہوں پر ترامیم اور اضافے کیے۔ اس کتاب کو لکھتے ہوئے مجھے جو سب سے بڑا مسئلہ پیش آیا، وہ فلسفیانہ اصطلاحات کے ترجمے کا تھا۔ بعدازاں مولانا حنیف ندوی نے اس سلسلے میں میری بڑی رہنمائی کی۔
اس کے بعد مجھ سے تقاضا کیا گیا کہ میں فلسفۂ جدید پر بھی اسی طرح کی کتاب لکھوں۔ چنانچہ 1982ء میں فلسفۂ جدید پر بھی میری کتاب شائع ہوگئی۔ لیکن یہ ڈیکارٹ سے ہیگل تک تھی اور فلسفے کے قاری کی ضروریات کو کسی حد تک پورا کرتی تھی۔ مابعدِ ہیگل کے فلسفے کے لیے اسے پھر انگریزی کتب کا سہارا لینا پڑتا تھا۔ 2012-13ء میں مَیں نے مابعدِ ہیگل کے فلسفے پر پانچ ابواب مزید لکھے اور اس میں شامل کردیے۔ اس طرح ازمنۂ وسطیٰ کو چھوڑ کر فلسفۂ یونان اور فلسفۂ جدید کے تقریباً تمام اہم اور ضروری مفکرین کا تذکرہ ان دونوں کتابوں میں مل جاتا ہے۔ مجھے اس بات کی ازحد خوشی اور اطمینان ہے کہ اب فلسفے پر دیگر مصنفین کی متعدد کتب منظرعام پر آچکی ہیں اور اردو میں فلسفے کے ابلاغ کے لیے بتدریج ایک فنی اور تکنیکی زبان بھی وجود میں آرہی ہے اور اس میں استعمال ہونے والی اردو اصطلاحات بھی اجنبی اور نامانوس معلوم نہیں ہوتیں۔
ان دو کتابوں کے علاوہ میرا ارادہ تھا کہ دورِ جدید میں جو فکری تحریکیں ابھری ہیں، ان سے بھی تعرض کروں اور اس سلسلے میں میں نے کچھ کام بھی کررکھا تھا۔ اسی لیے میں نے فلسفۂ یونان کے بیک کور پر ’’معاصر فکری تحریکیں‘‘ (زیرطبع) کا اشتہار چھپوا دیا۔ اشتہار چھپوا کر میں نے نئی مصیبت کھڑی کرلی۔ قارئین تھوڑے تھوڑے وقفوں سے استفسار کرتے کہ یہ کتاب کب منظرعام پر آئے گی۔ کچھ حالات ایسے بنے کہ میں گزشتہ کئی برسوں تک اس کتاب کے لیے ایک لفظ بھی نہ لکھ پایا۔ اب تدریسی ذمہ داریوں سے فراغت پاکر میں نے اس کتاب کو مکمل کیا ہے اور اسے قارئین کی خدمت میں پیش کررہا ہوں۔
آخری باب ’’مابعد جدیدیت‘‘ میں نے خاص طور پر اس لیے لکھا ہے کہ پتا چل سکے کہ دورِِ جدید کا خاتمہ ہوچکا ہے اور ہم جدیدیت کے بعد والے دور میں داخل ہوچکے ہیں۔ ایک مختصر باب میں مابعد جدیدیت جیسے پیچیدہ اور کثیرالجہات انقلاب کے تمام پہلوؤں کا احاطہ ناممکن ہے۔ تاہم میں نے کوشش کی ہے کہ جدیدیت اور مابعدِ جدیدیت کے مابین جو ’’گارڈز کی تبدیلی‘‘ یا “Paradigm Shift” ہوئی ہے اس کا کسی حد تک اندازہ ہوجائے۔ اس طرح ہم تاریخِ فلسفہ کا طویل سفر طے کرکے گویا فلسفۂ جدید کی آخری سرحد پر آکھڑے ہوئے ہیں جس کے آگے مابعدِ جدیدیت کی مسافتیں ہماری منتظر ہیں۔
مجھے امید ہے قارئین حسبِ سابق مجھے اپنی آرا سے آگاہ فرمائیں گے۔ میں پروفیسر اعظم خاں، سربراہ شعبۂ فلسفہ جی۔ سی۔ یونیورسٹی کا شکر گزار ہوں جنہوں نے مجھے بعض اہم کتب فراہم کیں۔ پروفیسر اقبال آفاقی نے پچھلے سال مابعد جدیدیت پر اہم اور وقیع کتاب چھاپی ہے۔ ان سے میری مشاورت نہ صرف مابعد جدیدیت بلکہ دیگر ابواب کے سلسلے میں بھی ہوتی رہی جو میرے لیے نہایت خیال افروز اور فکر انگیز ثابت ہوئی۔
میرے خصوصی شکریے کے مستحق ہیں مجلس ترقی ادب لاہور کے سربراہ جناب ڈاکٹر تحسین فراقی، جن کے تعاون اور اہتمام سے اس کتاب کی اشاعت ممکن ہوئی‘‘۔
کتاب گو مختصر ہے لیکن اپنے موضوع کی جامع ہے۔ اس کے محتویات درج ذیل ہیں:
پہلا باب: ارادیت۔ 1۔ نفسیاتی ارادیت، 2۔ اخلاقی ارادیت، 3۔ الٰہیاتی ارادیت، 4۔ مابعدالطبیعیاتی یا فلسفیانہ ارادیت، شوپنہار، نٹشے، ولیم جیمز، برگساں، علامہ اقبالؒ ۔
دوسرا باب: جدلیاتی مادیت۔ 1۔ تعارف، 2۔ تصانیف، 3۔ مادیت پسندی، 4۔ جدلیاتی مادیت، 5۔ جدلیاتی مادیت کا نظریۂ علم، 6۔ تاریخی مادیت پسندی، 7۔ نظریۂ مغائرت، 8۔ سرمایہ اور قدرِ زائد، 9۔ تبصرہ۔
تیسرا باب: منطقی اثباتیت۔ 1۔ آغاز و تاریخی پس منظر، 2۔ مابعدالطبیعیات کا اخراج، 3۔ اساسی نظریات، 4۔ اصولِ تصدیق کا منطقی مقام۔
چوتھا باب: وجودیت۔ 1۔ الٰہیاتی وجودیت، 2۔ غیر الٰہیاتی وجودیت، تنقیدی جائزہ۔
پانچواں باب: مابعدِ جدیدیت۔ 1۔ تعارف، 2۔ مابعد جدیدیت، 3۔ مابعد جدیدیت کا ہراول دستہ، 4۔ مابعد جدیدیت کے اہم نکات، منتخب کتابیات۔
کتاب سفید کاغذ پر عمدہ طبع ہوئی ہے، مجلّد ہے۔
ڈاکٹر نعیم احمد صاحب کا پتا ہے: 186۔ قیوم بلاک، مصطفی ٹاؤن، لاہور۔
۔۔۔۔۔۔***۔۔۔۔۔۔
مجلہ
:
ششماہی امتزاج کراچی (شمارہ 2)
مدیر اعلیٰ
:
پروفیسر ڈاکٹر ذوالقرنین احمد
(شاداب احسانی)
مدیران
:
پروفیسر ڈاکٹر عظمیٰ فرمان
پروفیسر ڈاکٹر تنظیم الفردوس
ڈاکٹر رؤف پاریکھ
ناشر
:
شعبہ اردو، جامعہ کراچی، کراچی
برقی ڈاک
:
imtezaajurdu@gmail.com
ویب گاہ
:
www.urduku.edu.pk
صفحات
:
192 قیمت 400 روپے
شعبہ اردو جامعہ کراچی کے شعبہ جاتی مجلے کا یہ دوسرا شمارہ ہے۔ پہلے شمارے کا تعارف ہم کراچکے ہیں۔ ڈاکٹر ذوالقرنین احمد مدیراعلیٰ اداریے میں تحریر فرماتے ہیں:
’’ڈاکٹر وزیرآغا نے ’’اردو شاعری کا مزاج‘‘ نامی کتاب میں ہندو پاک کی تہذیبی و تمدنی فضا کے ساتھ ساتھ دیومالا کو بھی اردو شاعری کے مزاج کو سمجھنے میں ممدومعاون پایا۔ ڈاکٹر صاحب اگر اردو زبان کے مزاج کو سمجھنے کی سعی کرتے تو یقیناًاردو شاعری کا مزاج سمجھنا نہایت آسان ہوجاتا۔ پاکستان کا پورا خطہ اردو بولتا ہے، اردو لکھتا ہے اور سمجھتا ہے۔ اس کے باوجود اردو زبان کا مزاج سمجھنا نہیں چاہتا۔ اردو زبان سے محبت کے باوجود ناشناسانِ مزاجِ اردو اردو زبان کو سرکاری زبان بنانے میں حائل ہیں۔ دانستہ و نادانستہ اردو کے خلاف اقدامات جاری ہیں۔ دانستہ وہ لوگ ہیں کہ جو نہیں چاہتے کہ اقتدار میں عام آدمی کی شرکت ہوسکے۔ اگر ایسا ہوگیا تو طبقاتی نظام کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا۔ نادانستہ وہ علما و فضلا شریک ہیں جو اردو زبان سے بے پایاں محبت رکھتے ہیں لیکن یہ سمجھتے ہیں کہ گلوبلائزیشن کے دور میں انفارمیشن کی یلغار ہے، اردو زبان اس یلغار کا ساتھ نہیں دے سکتی، علمی سطح پر ہم پیچھے رہ جائیں گے۔ اس زاویۂ نگاہ میں یقیناًدردمندی ہے لیکن بصیرت کا فقدان صاف نظر آتا ہے۔ انہیں یورپ کے ڈارک ایجز کا مطالعہ کرنا چاہیے اور اس پر خاص طور پر غور کرنا چاہیے کہ وہ کون سے عوامل تھے کہ آئزک نیوٹن کی کتاب Principia Mathematica کی لاطینی زبان میں اشاعت کے باوجود انگلستان میں انگریزی زبان کو سرکاری سطح پر رائج کیا گیا۔ چاسر کی Tales پڑھ لیجیے، یقیناًوہ انگریزی کا قلی قطب شاہ نظر آئے گا۔ ادبی سطح ہو کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی فضا، اٹھارہویں صدی کا یورپ لاطینی زبان کا دم بھرتا نظر آتا ہے۔ ایسے ماحول میں ترقی کا خیال تشخص سے جڑ جاتا ہے۔ تشخص اُس وقت تک پیدا نہیں ہوتا جب تک خطہ اپنی زبان میں جملہ معاشرتی سرگرمیوں کو جاری و ساری نہیں کرلیتا۔ تشخص کے بغیر ترقی کا تصور ایسا ہی ہے کہ جیسے آج پاکستان کی ترقی کا سوال ہم سب کے سامنے ہے۔ جتنی جلد سرکاری سطح پر ہم اردو کو اپنالیں گے اتنی ہی جلد پاکستانی تشخص کے ساتھ ہم شاہراہِ ترقی پر گامزن ہوسکیں گے، ورنہ ترقی کرتے نظر آئیں گے جب کہ عملاً ترقی اُن ممالک کی ہورہی ہوگی جن کے ہم زیراثر ہیں۔ اب رہا سوال اردو زبان کے علمی قد کا! اس ضمن میں عرض ہے کہ جس زبان میں تقریباً دو سو برس کا تدریسی تجربہ ہو اُس کے متعلق ایسے گمراہ کن اعتراضات کا حل غوروفکر کیے بغیر نہیں نکل سکتا۔
اربابِ اعلیٰ تعلیمی کمیشن سائنس اور ٹیکنالوجی کے حوالے سے تحقیق، تحقیق اور صرف تحقیق کی رٹ لگائے ہوئے ہیں۔ کیا کبھی انہوں نے یہ سوچا کہ تدریس کے بغیر انہیں واقعی محقق دستیاب ہوسکتے ہیں؟ تدریسی امور کا یہ احوال ہے کہ جامعات کے اکثر اساتذہ تحقیق کے ذریعے اپنے آپ کو ہر سطح پر آگے لانا چاہتے ہیں جس کے سبب تدریسی امور بری طرح سے نظرانداز ہوتے جارہے ہیں۔ اب رہا سوال سماجی علوم کا، بالخصوص اردو زبان و ادب کا، تو اس ضمن میں معذرت کے ساتھ عرض کرنا ناگزیر ہے کہ اردو زبان میں 1822ء سے پرچے نکل رہے ہیں، بعض شمارے جن میں مراۃ الہند، رسالہ حسن، الماس، مخزن، عالمگیر، ادبی دنیا، نقاد، زمانہ، نیا دور، افکار، نقوش، ادبِ لطیف، ہمایوں، برہان، فنون، اوراق اور شب خون وغیرہ ایک طویل فہرست ہے کہ ہم مر کر بھی زندہ ہوجائیں تو اُن جیسے خاص شمارے مرتب نہیں کرسکتے۔ اب آپ حضرات نے اردو زبان و ادب کے اساتذہ کو اس کام پر لگا دیا ہے کہ وہ مقالات اور کتب میں محض دھڑا دھڑ اضافے کرتے جائیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایچ ای سی کے رسائل کے لیے ایسی اعلیٰ سطح پرکمیٹی تشکیل دی جائے جو مقالات کو صرف طریقہ کار پر نہ جانچے بلکہ موضوعات کی تکرار، ماخذات کی جانچ پڑتال، کٹ اینڈ پیسٹ کی ارزانی سے نجات اور پھر اس بات کو بھی یقینی بنائے کہ استاد اپنے تدریسی امور خاص طور پر ادبی متون کو پڑھائے اور اس طرح پڑھانے کا عمل ان کی ترقیوں کے لیے لازمی ہو۔ اگر اردو زبان و ادب کے اساتذہ تدریسی امور میں بے اعتنائی برتیں گے تو یقیناًاردو زبان و ادب کا مستقبل تاریک سے تاریک تر ہوتا جائے گا۔ ناشناسانِ مزاجِ اردو نادانستگی میں اردو زبان کو درخورِ اعتنا نہ سمجھنے میں حق بجانب ہوں گے۔ علی گڑھ یونیورسٹی، اورینٹل کالج لاہور اور جامعہ عثمانیہ کے اساتذہ نے اردو زبان کا مستقبل تابناک بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ اس قحط الرجال کے زمانے میں مذکورہ اساتذہ کے نقش قدم پر چلنا ناگزیر ہے۔
اس شمارے میں سات مقالات شامل ہیں۔ جس تحقیق اور تنقید میں تخلیقی اُپچ موجود نہ ہو وہ cut and paste یا ترقیوں کے سلسلے میں تحریر کیا جانے والا تحقیقی مضمون شمار ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے میری یہ خوش قسمتی ہے کہ اس شمارے میں (سوائے ڈاکٹر رؤف پاریکھ کے) نامی گرامی محققین یا قلم کاروں کے مضامین شامل نہیں ہیں لیکن تخلیقی اُپچ کے ساتھ تحقیقی مزاج پر پورے اترتے ہیں۔ ایچ ای سی کی تعین کردہ حدود میں رسائل کی رسمت (رسمِ تحقیق) کا تعین کرتے ہوئے TURABIAN/CHICAGO اسلوب کو مدنظر رکھا گیا ہے، جب کہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ رسائل میں چھپنے والے تحقیقی مضامین کے معیارات کا تعین صرف اور صرف ریفریز کی آرا پر نہیں چھوڑا جانا چاہیے تھا۔ ہم لوگ یا ہمارا معاشرہ جس قسم کے غیر علمی و ادبی معاملات کا شکار ہیں اس کے پیش نظر شنید ہے کہ بعض جگہوں پر ریفریز کا حوالہ بھی ستائشِ باہمی کے سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اس صورتِ حال میں ’’امتزاج‘‘ کا شمار اس تحقیقی جرنل میں کیا جانا چاہیے کہ جو غیر جانب دار رہ کر ریفریز کی آرا کا احترام کرتا ہے۔ دائیں اور بائیں بازو کا امتیاز بالکل روا نہیں رکھتا۔ ہر اُس مضمون نگار کا مضمون توثیقی سند کے لیے ریفریز کو بھیج دیا جاتا ہے کہ جس میں تحقیقی نوعیت اور اس کے شواہد مضمون
(باقی صفحہ 41پر)
نگار کے اصل مسئلے یعنی عنوان سے پیوست ہوتے ہیں۔ لہٰذا ایسے تمام معروف اور غیر معروف محققین سے التماس ہے کہ وہ اپنے تحقیقی مضامین ارسال فرمائیں۔ امید کرتا ہوں کہ ’’امتزاج‘‘ صرف ایک تحقیقی مجلہ ہی نہیں بلکہ مستقبل میں پاکستانیت اور اردو زبان و ادب کا قافلہ ثابت ہوگا۔ ان شاء اللہ‘‘۔
مجلے کے محتویات درج ذیل ہیں:
’’اعظم کریوی کے افسانوں میں سماجی مسائل‘‘ تہمینہ عباس، اسسٹنٹ پروفیسر، جی ڈی اے پبلک اسکول، گوادر۔ ’’ماہنامہ ’’عصمت‘‘ کے سو برس: ایک مختصر جائزہ‘‘ داؤد عثمانی، استاد شعبۂ اردو، گورنمنٹ ڈگری کالج، بلدیہ کراچی۔ ’’توقیتِ میر: تاریخی و تہذیبی تناظر‘‘ ذکیہ رانی، استاد شعبۂ اردو، وفاقی اردو یونیورسٹی، کراچی۔ ’’اردو کی چند طویل نظمیں اور ان کا سیاسی پس منظر‘‘ رخسانہ صبا، ریسرچ اسکالر، شعبۂ اردو، جامعہ کراچی۔ ’’مولوی عبدالحلیم شرر کے تاریخی ناولوں میں فعال نسوانی کرداروں کا جائزہ‘‘ نادیہ راحیل، ریسرچ اسکالر، شعبۂ اردو، جامعہ کراچی۔ ’’آزادی کے بعد کراچی کے ادبی رسائل کا مختصر جائزہ‘‘ ندیم مقبول، ریسرچ اسکالر، شعبۂ اردو، جامعہ کراچی۔ ’’تاریخی لغت نویسی: اصول، پس منظر اور بنیاد‘‘ ڈاکٹر رؤف پاریکھ، ایسوسی ایٹ پروفیسر، شعبہ اردو، جامعہ کراچی۔ ’’نوادرات‘‘ (فیض احمد فیض کے چند نادر خطوط)۔ ادارہ
مجلّہ سفید کاغذ پر خوبصورت طبع ہوا ہے۔
nn