وطنِ پاک کے تعلیمی اداروں میں منشیات کا زہر

286

مجھے یہ لکھتے ہوئے بہت افسوس ہورہا ہے کہ جن اداروں میں مستقبل کے معمار تیار ہوتے تھے اور جہاں سے باصلاحیت نوجوانوں کی ایک کھیپ نکلا کرتی تھی، جہاں اس ملک کا روشن مستقبل پروان چڑھتا تھا، وہاں اب دشمن نے ڈیرے ڈال لیے ہیں اور انہی نوجوانوں کی زندگی میں زہر انڈیلنا شروع کردیا ہے۔ افسوس ناک صورتِ حال یہ ہے کہ دنیا کے کسی اور ملک میں نہیں پاکستان کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں طلبہ و طالبات کو منشیات کے زہر میں جکڑنے کی خبریں سامنے آئی ہیں جو انتہائی روح فرسا ہیں۔کئی تعلیمی اداروں میں منشیات سپلائی کرنے والے مجرم پکڑے بھی گئے ہیں جو ہمارے ملک کا مستقبل تباہ کرنے میں لگے ہوئے تھے۔ منشیات کا استعمال ملک کے دارالحکومت سمیت بڑے شہروں میں موجود تقریباً تمام ہی تعلیمی اداروں میں بڑھتا جارہا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق صرف اسلام آباد کے اسکولوں کے 53 فیصد طلبہ منشیات استعمال کرتے ہیں جو کہ انتہائی تشویش ناک بات ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ آخر ہمارے نوجوان اس لت میں کیسے مبتلا ہورہے ہیں! ابھی پچھلے دنوں لاہور میں ایک کارروائی کے نتیجے میں پولیس نے ایک گروہ کو گرفتار کیا ہے، جو کہ تعلیمی اداروں میں منشیات سپلائی کرتا ہے۔ ان ملزمان کا کہنا تھا کہ وہ شہر کے بڑے تعلیمی اداروں میں منشیات سپلائی کرتے تھے اور زیادہ تر مہنگے تعلیمی اداروں اور امیروں کے بچوں کو منشیات فراہم کرتے تھے۔
منشیات کے بڑھتے ہوئے رجحان کو دیکھ کر پارلیمنٹ میں بھی اس پر بحث کی گئی ہے اور اس کے خلاف کارروائی کو تیز کرنے کا حکم بھی دیا گیا ہے۔ اسکولوں میں طلبہ کو نشہ کرتا دیکھ کر چھوٹی عمر کے بچے بھی اس لت میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور ان کی دیکھا دیکھی نشہ کرنا شروع کردیتے ہیں۔
نوجوانوں میں منشیات کے بڑھتے ہوئے استعمال کو دیکھ کر والدین میں بھی تشویش پائی جاتی ہے اور اس سلسلے میں انہوں نے حکومت سے کارروائی تیز کرنے کی اپیل کی ہے۔
ہمیں اپنی نوجوان نسل کو تباہ ہونے سے بچانا ہوگا اور اس کے لیے معاشرے کے ہر فرد کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ افسوس تو اس بات پر ہوتا ہے کہ حکومت نے 18 سال سے کم عمر افراد کو سگریٹ فروخت کرنے پر پابندی لگائی ہوئی ہے، لیکن پھر بھی سب سے زیادہ سگریٹ 18سال سے کم عمر افراد ہی خرید رہے ہوتے ہیں، اور دکھ کی بات یہ ہے کہ انہیں کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں ہوتا۔
اس کے سدباب کے لیے حکومت اور تعلیمی اداروں کو سخت پالیسیاں بنانا ہوں گی اور اس مسئلے کو سنجیدگی سے لینا ہوگا۔ اسکولوں کی انتظامیہ کو بچوں کے والدین سے اس معاملے میں بات کرنی چاہیے، اس کے ساتھ ساتھ والدین کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے بچوں پر کڑی نگاہ رکھیں اور انہیں خرچ کے لیے اتنے زیادہ پیسے نہ دیں کہ وہ ان سے نشہ کرنے کی چیزیں خرید سکیں۔ جن اسکولوں کے طلبہ نشہ کرتے ہوئے نظر آئیں، ان کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہیے تاکہ ہماری آئندہ آنے والی نسل تباہ ہونے سے محفوظ رہے۔
فہد احمد۔۔۔کراچی

حصہ