میرے ایک استاد جو صحیح معنوں میں میرے استاد بھی کبھی نہیں رہے، ان کا کبھی باقاعدہ طالب علم بھی نہیں رہا کہ کوئی مضمون ان سے کبھی پڑھ ہی سکا ہوں۔ اس کے باوجود انہیں آج بھی اپنا استاد سمجھتا ہوں۔ اور اب جب کہ وہ دنیا میں رہے بھی نہیں، ان کی شفقت، اصول پسندی اور اس حوالے سے ماضی کے واقعات کو یاد کرتا ہوں تو ایک کسک، ایک محرومی سی اپنے اندر پاتا ہوں۔ بہت یاد آتے ہیں، اکثر یاد آتے ہیں۔ پھر یہ دنیا کی زندگی اور اس کے جھمیلے ایسے ہیں کہ یہ لمحاتی احساس دب کر رہ جاتا ہے روزمرہ کی مصروفیتوں اور الجھنوں میں۔ اچھا ہی ہے کہ ایسا ہے، ورنہ ایسے استادوں اور محسنوں کی ہمہ وقت یاد سے ہمہ وقت دل گرفتہ رہنا، کتنا اور کس قدر بوجھل و تکلیف دہ بنادیتا زندگی کو۔ زندگی جیسی کیسی ہے، مصروف ہی اچھی کہ دل لگا رہتا ہے دنیا میں۔ سوچنے کی مہلت ہی نہیں ملتی اپنے بارے میں، دوسروں کے بارے میں، یہاں تک کہ زندگی کی معنویت اور اپنی بے کار سی مصروفیتوں کے بارے میں۔ زندگی کا حُسن اس کے بھید کو نہ جاننے ہی میں چھپا ہے، اور چھپا رہنا ہی اچھا کہ بہ قول سقراط جو جان گیا، وہ دکھ سے آشنا ہوگیا۔
وہ استاد جن کے تذکرے سے تلازمۂ خیال دوسری باتوں، دوسرے موضوعات کی طرف بہا لے گیا، ہاں وہ استاد ڈاکٹر انعام الرحمن ہیں۔ شعبۂ صحافت کے ایک بے مثل استاد، ایک عمدہ تحقیقی کتاب کے مصنف، انگریزی زبان پر عبور رکھنے والے ، نہایت قاعدے ضابطے اور اصولوں کے پابند، حافظِ قرآن، صحیح معنوں میں استاد۔۔۔ اوپر سے سخت، اندر سے نرم۔ سختی اور اصول پسندی ایسی کہ یہ گمان کرنا بھی مشکل کہ اندر شفقت و محبت کی خوشگوار نیلی جھیل سی بہتی ہے۔ شعبے کے دوبار چیئرمین رہے، طلبہ میں اپنی ظاہری سختی و اصول پسندی کی وجہ سے کبھی بہت مقبول اور پسندیدہ نہیں رہے، لیکن عزت و احترام میں کبھی کمی نہیں دیکھی۔ جس نے جب بھی ذکر کیا تعظیم کے احساس کے ساتھ ہی کیا۔ طلبہ کے دلوں میں یہ احترام اُس احساسِ ذمہ داری اور پابندئ وقت کی وجہ سے تھا جس کا اظہار وہ اپنے رویّے سے کرتے رہتے تھے۔ مثلاًکبھی ایسا نہیں ہوا کہ سر انعام کلاس میں پانچ منٹ کی بھی تاخیر سے پہنچے ہوں۔ ایسا بھی ہوا کہ طلبہ و طالبات کلاس روم میں ذرا تاخیر سے داخل ہوئے تو استادِ محترم کو اپنا منتظر پایا۔ جب میں نے داخلہ لیا تو شعبے کے سربراہ وہی تھے اور ایم اے کی کلاسوں کو پڑھاتے تھے۔ میں آنرز سالِ اول کا طالب علم تھا تو کبھی ان کی براہِ راست شاگردی نصیب ہی نہ ہوئی۔ البتہ چونکہ آتے جاتے ہاتھ میں حاضری رجسٹر دبائے، ایک وقار اور تمکت کے ساتھ، مجال ہے جو کبھی ہونٹ ان کے مسکراہٹ سے سجے نظر آجائیں (بلکہ بعد میں دو ایک بار مسکراتے دیکھ لیا تو کچھ ڈر سا گیا، سراسیمہ کردینے والی ایسی مسکراہٹ مسکراتے پھر کسی کو نہ دیکھا) میں لان میں سردیوں کی دھوپ سینکتا سر انعام الرحمن کو راہداری سے گزرتا دیکھتا رہتا تھا۔ جب دیکھتا تو ایک استعجاب سا ان کی بابت اندر پیدا ہوجاتا تھا۔ مگر ہمت کبھی نہ پڑی کہ جاکر ملوں، قریب سے دیکھوں، یہ جان سکوں کہ ایسے کیوں ہیں کہ دیکھ کر انہیں تجسس اندر جاگ اٹھتا ہے۔آخر کچھ سمجھ میں نہ آیا تو ایک روز ان کی کلاس کی آخری صف کی ہتھے والی کرسی پہ اگلی صف کے طالب علم کے پیچھے چھپ کر اس طرح بیٹھ رہا کہ استادِ محترم کی نگاہ مجھ پر نہ پڑسکے۔ ایسا اس اندیشے کے پیش نظر کیا کہ اگر پوچھ بیٹھے کہ میاں صاحبزادے! آپ تو اس کلاس کے طالب علم ہیں ہی نہیں، یہاں بیٹھے کیا کررہے ہیں! جایئے اپنی کلاس میں۔۔۔ تو کیا جواب دوں گا۔ طلبہ الگ اس صورت حال سے لطف اٹھائیں گے۔ لیکن غالباً انہوں نے مجھے دیکھا بھی، کہا کچھ نہیں۔ ورلڈ پالیٹکس کے کسی ایشو کی بابت وہ بلیک بورڈ کے نزدیک کھڑے، کبھی چہل قدمی کرتے، ہاتھ میں سفید چاک لیے، کسی قدر آہستہ آواز میں انگریزی زبان میں لیکچر دیتے رہے۔ یاد نہیں، کیا کچھ بتایا، کیا کیا سمجھایا۔ میں تو انہیں سننے گیا تھا۔۔۔ سننے بھی کیا، دیکھنے گیا تھا کہ لیکچر کیسے دیتے ہیں، کلاس میں کیسے لگتے ہیں۔ شعبے کی راہداری میں چلتے پھرتے، آتے جاتے تو کبھی سمجھ میں آ نہ سکے۔ خیر کلاس میں جاکر بھی کون سا سمجھ میں آئے۔ لیکن وہ جو اک اجنبیت سی تھی، استعجاب سا تھا ان کے بارے میں، وہ مکمل رفع تو نہ ہوا مگر کم ضرور ہوگیا۔
پھر یہ ہوا کہ ایک دن ڈاکٹر انعام الرحمن صاحب ریٹائر ہوکر شعبے سے رخصت ہوگئے۔ یاد نہیں پڑتا کہ ان کے اعزاز میں کوئی الوداعی تقریب ہوئی یا نہیں۔ یقیناًنہیں ہوئی ہوگی، ورنہ یاد ضرور رہتی۔ جن شخصیات سے مجھے دلچسپی ہوتی ہے، قدرت نہایت اہتمام سے ان سے وابستہ یادوں کو، معمولی معمولی جزئیات تک کو حافظے میں محفوظ کردیتی ہے۔ لکھنے بیٹھتا ہوں تو تحت الشعور سے سب باتیں نہایت سعادت مندی سے شعور کی سطح پر ابھر آتی ہیں۔ تو ڈاکٹر انعام کی شعبے سے رخصتی کو کم سے کم طالب علموں نے شدت سے محسوس نہ کیا۔ ان کے جانے کے بعد ان کا تذکرہ بھی زیادہ سننے میں نہ آیا۔ کچھ باتیں پروفیسر شریف المجاہد صاحب اور ان کے حوالے سے یعنی ہر دو اساتذہ کے اختلافات کے حوالے سے شعبے میں گشت کرتی رہی تھیں، لیکن ایک طالب علم کا یہ منصب نہیں اور نہ ہی یہ زیب ہی دیتا ہے کہ اساتذہ کے آپسی اختلافات کو بیان کرکے خود کو اپنی ہی نظروں میں شرمندہ کروں، جبکہ دونوں ہی اساتذہ علم و تحقیق کے میدان میں اور بہ حیثیت استاد بھی بلند مرتبہ رکھتے ہوں۔
سرانعام الرحمن کی بابت میرے محسن استاد پروفیسر زکریا ساجد کی زبانی جو معلومات ملیں، اس کے مطابق انعام صاحب نے مغربی پنجاب کی ریاست مالیر کوٹلہ میں آنکھ کھولی تھی۔ سنِ شعور کو پہنچے تو اعلیٰ تعلیم کے لیے دلی گئے، جہاں ان کے بڑے ماموں ڈاکٹر احمد مختار (بانی آئی بی اے کراچی یونیورسٹی) مقیم تھے۔ دلی یونیورسٹی سے تاریخ کے مضمون میں ماسٹرز کیا۔ اُس زمانے میں شعبۂ تاریخ کے سربراہ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی تھے جو بہت بعد میں کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر بنے اور ان ہی کے زمانۂ وائس چانسلری میں انعام صاحب شعبۂ صحافت سے بہ حیثیت استاد منسلک ہوئے۔ لیکن یہ واقعہ بھی بعد کا ہے۔ انعام صاحب قیامِ پاکستان کے بعد ہجرت کرکے کراچی آئے تو ایک عرصے تک ریڈیو پاکستان کے شعبۂ خبر سے منسلک رہے۔ وہاں ترقی پاکر نیوز ایڈیٹر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ 1955ء میں جب پریس کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں صحافیوں اور اس پیشے سے وابستگی کے خواہش مندوں کے لیے صحافت کی تعلیم و تربیت کے لیے جامعات میں شعبہ ہائے صحافت کے قیام کا فیصلہ کیا گیا اور اسی سلسلے میں کراچی یونیورسٹی میں شعبۂ صحافت پروفیسر شریف المجاہد کی نگرانی میں قائم کرکے ڈپلومہ کورس شروع کیا گیا تو انعام الرحمن صاحب ڈپلومہ کورس میں داخلہ لینے والے اوّلین طالب علموں میں شامل تھے۔ مجاہد صاحب نے ان کے پیشہ ورانہ پس منظر کے پیش نظر انہیں ڈپلومہ کے بعد بہ حیثیت استاد شعبے سے وابستہ کردیا۔ پھر جب شعبے میں ایم اے کی کلاسوں کا آغاز ہوا تو وہ دو اساتذہ جو اس مضمون میں استاد رہتے ہوئے، بغیر کلاسیں اٹینڈ کیے محض اپنے علم اور تجربے کی وجہ سے صرف امتحان دینے کے مستحق ٹھہرائے گئے ان میں ایک تو محسن علی تھے جو بلند پایہ صحافی اور مارننگ نیوز کے ایڈیٹر تھے، اور دوسرے ہمارے انعام صاحب تھے۔ ماسٹرز کے بعد انعام صاحب نے ریڈیو کی ملازمت کو خیرباد کہا اور شعبے سے بہ حیثیت ریڈر وابستہ ہورہے، جہاں رہتے ہوئے انہوں نے پی ایچ ڈی کی۔ یوں وہ ہمارے شعبے کے اولین پی ایچ ڈی کی ڈگری رکھنے والے استاد تھے۔ ان کا مقالہ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے شائع کیا، عنوان تھا “Public opinion and political development in pakistan” میں نے بہادر آباد کے ایک کتب فروش سے یہ کتاب خریدی (اُن دنوں بہادر آباد اور طارق روڈ پر کتابوں کی نہایت اچھی دکانیں ہوا کرتی تھیں۔ پھر زرق برق ملبوسات کی طلب اور کبابوں کی بھوک نے کتابوں کی دکانوں کو کھالیا)۔کتاب خرید کر اس پر مصنف یعنی اپنے انعام صاحب سے دستخط کرانے ان کی قیام گاہ پر پہنچ گیا۔ وہ کشمیر روڈ سے متصل پی ای سی ایچ سوسائٹی میں اپنے بیٹے کے ساتھ رہتے تھے۔ مجھے دیکھ کے خوش ہوئے کہ ان کی ریٹائرمنٹ سے پہلے ان سے تعارف حاصل ہوچکا تھا۔ شفقت سے حال احوال دریافت فرمایا۔ پھر میں نے ان کی خدمت میں کتاب دستخط کے لیے پیش کی تو انہوں نے عجیب ہی سا مؤقف اختیار کیا۔ کہنے لگے: ’’یہ کتاب تو تمہاری خریدی ہوئی ہے، اس پر میں کیسے دستخط کرسکتا ہوں! اس سے تو یہ تاثر ملے گا کہ میں نے یہ کتاب تمہیں دی ہے۔ تو دستخط کرکے یہ غلط تاثر میں کیوں قائم کروں؟‘‘
میں نے عرض کیا:’’سر! آپ دستخط کردیں گے تو کتاب میرے لیے قیمتی اور یادگار ہوجائے گی۔‘‘
یہ سن کر کچھ دیر توقف کیا، پھر فرمایا:’’اگر ایسا ہے تو پھر میرے پاس کتاب کا آخری نسخہ ہے۔ وہ تمہیں دستخط کے ساتھ پیش کردیتا ہوں۔‘‘
یہ کہہ کر اندر گئے۔ واپس آئے تو ہاتھ میں کتاب تھی۔ اندرونی سرورق پر میرا نام لکھ کر With Regards اور پھر اپنے دستخط کرکے میری طرف کتاب بڑھا دی۔ میں نے شکریے کے ساتھ کتاب لے کر اپنا خریدا ہو نسخہ ان کے آگے کیا، انہوں نے تعجب سے میری طرف دیکھا تو وضاحت کی:
’’سر! آپ کے پاس آخری نسخہ تھا۔ اب آپ یہ رکھ لیجیے۔‘‘
مجھے ان کی سخت گیر اصول پسندی کا ذاتی تجربہ کب تھا۔ میری بڑھائی ہوئی کتاب کو لینے کے بجائے طنز سے ہنسے، کہا:
’’ماشاء اللہ، آپ تو خاصے ذہین ہوگئے ہیں!‘‘
’’سر! آپ نے اپنی کتاب عنایت کردی ہے۔ دوسرا نسخہ میں کیا کروں گا۔ آپ قبول فرمالیجیے۔‘‘
بے نیازی سے کہنے لگے: ’’یہ آپ کا مسئلہ ہے۔ آپ یہ بھی کرسکتے ہیں کہ دکاندار کو اپنی کتاب واپس کرکے کوئی دوسری کتاب لے لیجیے۔‘‘
ان کا لہجہ فیصلہ کن اور حتمی تھا، اصرار کی ہمت نہ پڑی۔ اور وہی کیا جس کا انہوں نے مشورہ دیا تھا۔ اب کوئی بتائے کہ ایسی اصول پسندی جس میں اپنے چھوٹوں کے لیے شفقت اور ایک طرح کی نصیحت بھی پنہاں ہے، ایسی اور کوئی مثال ملتی ہے اس معاشرے میں جہاں مصنف سے مفت کتاب مانگنے کا رواج عام ہے! طرفہ تماشا یہ کہ کتاب عاریتاً لے کر واپس کردینے والے کو احمق گردانا جاتا ہے۔
وہ دوپہر آج بھی یاد ہے جب لیکچرار بننے کے بعد ایک دن میں ان کی دعائیں لینے حاضرِ خدمت ہوا تھا اور پھر عرض کیا تھا:
’’سر! ایک نئے اور ناتجربہ کار استاد کو آپ کوئی نصیحت کرنا چاہیں گے؟‘‘
یہ سن کے کچھ دیر خاموش رہے، پھر فرمایا:
’’کلاس روم میں بغیر تیاری کے کبھی نہ جانا۔ لیکچر تیار نہ ہو تو بے شک کلاس چھوڑ دو۔‘‘
یہ کہہ کر اپنی مثال دی: ’’مجھے نہیں یاد کہ کبھی تیاری کے بغیر کلاس روم میں جانے کی ہمت پڑی ہو۔ اورایسا بھی کبھی نہیں ہوا کہ کلاس روم میں لیکچر کے لیے جاتے ہوئے دل نہ دھڑکا ہو۔‘‘
کچھ دیر توقف کے بعد بولے:’’لیکچر کے دوران اس بات کا خاص خیال رکھنا کہ اپنی توجہ کو ایک موضوع پر مرکوز رکھو۔ ایک ہی موضوع میں کئی موضوعات کو سمیٹنا طلبہ کے لیے مفید نہیں رہتا۔‘‘
استادِ محترم کی پہلی نصیحت تو فوراً سمجھ میں آگئی۔ البتہ دوسری بات کو سمجھنے میں خاصا عرصہ لگا۔ تجربے سے معلوم ہوا کہ استاد کو طالب علموں کے سامنے اپنے علم کا مظاہرہ نہ کرنا چاہیے بلکہ طلبہ کی ذہنی استعداد کے مطابق اتنی ہی علمی غذا دینی چاہیے جنہیں ان کا ذہن ہضم اور حافظہ جذب کرسکے۔
کتاب پر دستخط والے واقعے سے انعام صاحب کی محبت نے دل میں ایسا گھر کرلیا کہ گاہے بہ گاہے ان کی خدمت میں حاضری دینے لگا۔ ان ملاقاتوں سے قربت بڑھی تو وہ رفتہ رفتہ کھلنے لگے۔ اپنے گھریلو حالات، اپنی ازدواجی زندگی سبھی طرح کی باتیں بے تکلفی سے بتانے لگے۔
ان کی اہلیہ کینسر کے مہلک مرض میں مبتلا ہوکر اللہ کو پیاری ہوئیں، اس سانحے نے انہیں اتنا آزردہ اور دل گرفتہ کیا کہ ان کا جی ہر چیز سے اچاٹ ہوگیا۔ وہ ریڈیو کے ’حالاتِ حاضرہ‘ کے پروگرام کے لیے عالمی واقعات پر اتوار کے اتوار تجزیہ کیا کرتے تھے۔ اس کا واقعہ ان کے عزیز شاگرد پروفیسر انعام باری جو خود بھی ریڈیو کے اسی شعبے میں تھے، بتاتے ہیں کہ انعام صاحب آتے تھے، پوچھتے تھے: ہاں بھئی آج کا موضوع کیا ہے؟ موضوع سن کر وہ ٹائپ رائٹر پر بیٹھ جاتے اور کھٹا کھٹ انگلیاں چلنے لگتیں، اور تھوڑی دیر بعد ٹائپ رائٹر سے نکلے ہوئے ٹائپ شدہ کاغذات باری صاحب کو تھما کر رخصت ہوجاتے تھے۔ ٹائپ کرتے ہوئے لگتا تھا ان پر الفاظ کی بارش ہورہی ہے اور جو کچھ ٹائپ کردیتے تھے، اتنا مکمل اور حتمی ہوتا تھا کہ لفظ تو ایک طرف، فل اسٹاپ اور کوما تک میں تبدیلی کی گنجائش نہ ہوتی تھی۔ انگریزی زبان پر ایسا عبور اور عالمی واقعات پر ایسی نظر تھی۔ فیکلٹی میں بھی ان کے مراسم کا حلقہ نہایت محدود، صرف اہلِ علم اساتذہ سے تعلقات تھے۔
اہلیہ دنیا سے رخصت ہوئیں تو انعام صاحب نے بھی دنیا چھوڑ دی۔ محدود دوستوں سے بھی ملنا جلنا چھوڑ دیا۔ علمی، تدریسی اور صحافتی ہر سرگرمی سے کنارہ کرلیا۔ شعبے اور ریڈیو ہی سے ناتا نہ توڑا، ماہنامہ ’’اسٹیٹسمین‘‘ جس کے لیے وہ پابندی سے لکھا کرتے تھے، وہاں بھی لکھنا ترک کرکے گھر کے ہورہے۔ باتوں باتوں میں انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ اکثر رات کو اپنی اہلیہ مرحومہ کی قبر کے سرہانے بیٹھے رہتے ہیں جو پی ای سی ایچ ایس قبرستان میں مدفون تھیں۔ یہ سن کے لگا کسی نے سینے پر گھونسہ مار دیا ہو۔ کب سوچ سکتا تھا کہ ان کے اندر کسی فراق،کسی جدائی کا ایسا زخم ہے جو سالہا سال سے رس رہا ہے کہ بھرنے میں نہیں آتا۔
میں نے مضطرب ہوکر پوچھا:
’’سر! کیا آپ کو اپنی بیگم سے بہت پیار تھا؟‘‘
یہ پوچھ کر جو اُن کی طرف دیکھا تو چہرہ متغیر، آنکھیں بجھی ہوئی، اور جو آواز گلے سے ان کے نکلی تو نہیں کہہ سکتا کہ وہ رندھی ہوئی تھی یا مجھے ایسی لگی۔
فرمایا: ’’شادی کے بعد ایک دن ایسا نہیں گزرا جب ہماری لڑائی نہ ہوئی ہو۔‘‘
یہ سن کے تو جیسے سکتہ سا لگ گیا۔ اب سوچتا ہوں تو سمجھ میں آتا ہے کہ محبت، عشق جو بھی نام دیں، اُس کی پراسرار حقیقت کے کیسے گہرے بھید کو انہوں نے بے نقاب کردیا تھا۔ وہ جو میاں بیوی میں جھگڑے، لڑائیاں، چھوٹی بڑی باتوں پر مناقشے اور تنازعے چھڑے رہتے ہیں ان کے پیچھے بھی محبت، اُنس اور کوئی چھپا ہوا تعلق ہی ہوتا ہے جو پہچانا نہیں جاتا۔
اسی وارفتگی اور دیوانگی میں ان کی حالت خستہ سے خستہ تر ہوتی گئی۔ ایک دن مل کر آیا تو کیفیت معمول سے ہٹی ہوئی تھی۔ دو ایک روز بعد ڈاک سے ان کا لفافہ ملا۔ کھولا تو مخاطب کرکے عجیب سی تنبیہ درج کر رکھی تھی۔ سمجھ گیا کہ شعور و ہوش مندی سے رشتہ برائے نام سا ہی رہ گیا ہے۔
کچھ عرصہ بعد بیٹے کا تبادلہ اسلام آباد ہوا تو اس کے ساتھ ایسے رخصت ہوئے کہ مدتوں کوئی اطلاع نہ ملی۔ ایک دن دارالحکومت سے آئے ہوئے دوست، کہ انعام صاحب کے شاگرد بھی تھے، سے پوچھا: ’’بھئی اپنے انعام صاحب کی کچھ خبر ہے؟‘‘ اس نے تعجب کا اظہارکیا:
’’تمہیں نہیں پتا! انہیں تو وفات پائے بھی کئی سال ہوچکے ہیں۔‘‘
میں چپ سا ہوگیا۔
رات بستر پر دراز ہوا تو بار بار ان کا چہرہ نگاہوں کے سامنے آجاتا تھا۔ بے چینی سے اٹھ بیٹھا۔ شیلف سے یوں ہی بے دھیانی میں دل بہلانے کو کوئی کتاب اٹھائی۔ ’’دیوانِ میر‘‘ تھا،جو صفحہ کھلا تو نگاہ اس شعر پر پڑی:
آگ تھے ابتدائے عشق میں ہم
اب جو ہیں خاک انتہا یہ ہے
میں نے کتاب بندکی اور آنکھیں موند لیں۔
nn