مسلم دنیا میں دو طرح کے مسائل غالب ہیں۔ ایک کا تعلق داخلی سیاست سے ہے جس میں ان مسلم ریاستوں اور ان کے حکمران طبقات نے اپنی ہی مسلم دنیا کو نئی سے نئی مشکلات میں ڈالا ہوا ہے۔ جبکہ دوسرا اہم مسئلہ دنیا کی سیاست ہے جس میں اِس وقت مسلم دنیا کو شعوری کوشش کے ساتھ ٹارگٹ کیا جارہا ہے۔ امریکہ سمیت کئی ممالک ہیں جو مسلم دشمنی کا ایجنڈا رکھتے ہیں۔ اگرچہ دعویٰ یہ کیا جاتا ہے کہ ہم مسلم دشمن نہیں بلکہ ہماری سیاست اور پالیسی مسلم انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف ہے۔ لیکن بظاہر ایسا لگتا ہے کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کو بنیاد بناکر مسلم دشمنی کا ایجنڈا دنیا میں پھیلایا جارہا ہے۔ امریکہ میں ہونے والے گزشتہ صدارتی انتخاب میں ہیلری کلنٹن اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان جو انتخابی ماحول سجایا گیا اس میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جارحانہ حکمت عملی اور روایتی سیاست سے بالاتر ہوکر ووٹروں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے عمل نے اُن کو حیران کن طور پر بڑی کامیابی دلائی۔ اس انتخابی مہم کی بنیاد پر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کی سیاست میں ایک نئی تقسیم پیدا کی ہے۔ یہی وہ تقسیم تھی جو بنیادی طور پر ان کی انتخابی مہم کا مرکزی نکتہ تھا اور اسی کی بنیاد پر ان کو غیر متوقع طور پرکامیابی بھی ملی۔ بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے جو سیاسی نعرے انتخابی مہم میں لگائے تھے وہان کے اقتئدار میں آنے کے بعدپس پشت چلے جائیں گے۔ لیکن ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے قریبی ساتھی اپنے اسی سیاسی ایجنڈے کی بنیاد پر آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ عمومی طور پر کسی بھی سیاسی قیادت کے لیے یہ بڑا مشکل کام ہوتا ہے کہ وہ انتخابی مہم اور اقتدار کی سیاست کے درمیان ایک توازن قائم کرسکے۔ کیونکہ اقتدار کی سیاست کے جو داؤ پیچ ہوتے ہیں وہ انتخابی سیاست یا حزب اختلاف کی سیاست سے بالکل مختلف ہوتے ہیں۔ اگرچہ ڈونلڈ ٹرمپ سرمایہ دار ہیں اور کاروباری معاملات میں ملک اور خود اپنے آپ کو بھی آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔ لیکن اس معاشی ایجنڈے میں اُن کے سامنے ایک بڑا چیلنج امریکہ کی طرف سے بچھایا ہوا انتہا پسندی اور دہشت گردی کا بڑا ایجنڈا بھی ہے۔ لوگوں کو یاد ہوگا کہ بھارت میں آخری انتخاب میں نریندر مودی کی کامیابی کو معاشی ایجنڈے کے ساتھ جوڑ کر وہاں کے بڑے سرمایہ کاروں نے ان کی انتخابی مہم میں بڑا پیسہ خرچ کیا تھا۔ لیکن نریندر مودی معاشی ایجنڈے کے ساتھ ساتھ ہندوتوا کی سیاست پاکستان اور مسلم دشمنی کی بھینٹ چڑھے۔ اب جاکر مودی کسی حد تک سنبھلے ہیں، لیکن پاکستان دشمنی ابھی بھی ان کے ایجنڈے کا اہم حصہ ہے۔
جہاں تک ڈونلڈ ٹرمپ کا تعلق ہے انہوں نے ووٹروں کو یہی باور کروایا تھا کہ اوّل جو تارکین وطن ہیں وہ ان کے معاشی مفادات کو نقصان پہنچارہے ہیں، اور دوئم یہ جو مسلم انتہا پسندی ہے اس میں امریکہ میں موجود مسلمان بھی ہماری سلامتی کو نقصان پہنچانے کا ایک واضح ایجنڈا رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب جب ڈونلڈ ٹرمپ نے 20 جنوری کو بطور صدر حلف اٹھایا ہے تو سب سے پہلے ان کا نشانہ مسلم ممالک ہی بنے ہیں۔
کچھ دن قبل ڈونلڈ ٹرمپ نے سات مسلمان ممالک شام، ایران، عراق، لیبیا، صومالیہ، سوڈان اور یمن کے شہریوں کے امریکہ میں داخلے پر پابندی کے فیصلے پر دستخط کردیے ہیں۔ اُن کے بقول ان ملکوں کے شہریوں کو اب امریکہ آنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے اس فیصلے پر پانچ طرح کے ردعمل دیکھنے کو ملے ہیں۔ ایک ردعمل ان سات اسلامی ممالک کی طرف سے سامنے آیا اور انہوں نے اس کو امریکہ کا متعصبانہ فیصلہ قرار دیا۔ دوئم، کئی غیر اسلامی ممالک نے بھی ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ سوئم، امریکی اور عالمی میڈیا بھی اس فیصلے کی سیاسی توجیہہ کو کرنے کے بجائے اپنی شدید مزاحمت دکھا رہے ہیں۔ چہارم، امریکہ میں خود امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف مظاہرے شروع ہوگئے ہیں۔ پنجم، خود امریکی عدالت نے بھی امریکی صدر کے فیصلے کو معطل کردیا ہے اور کہا ہے کہ گرین کارڈ ہولڈرز اور درست ویزوں کے حامل افراد کو ملک بدر نہ کیا جائے۔ اسی طرح ایسے پناہ گزینوں کو بھی تحفظ دیا جائے جن کی درخواست منظور ہوچکی ہے۔ عدالت نے یہ فیصلہ شہری حقوق کی تنظیم کی درخواست پر دیا ہے۔ جبکہ اس کے برعکس امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلے کے مطابق یہ فیصلہ 120دن تک محدود ہوگا اور 90 روز تک ان ملکوں کو امریکی ویزے جاری نہیں کیے جائیں گے۔ نئے حکم کے تحت شامی مہاجرین کے امریکہ میں داخلے پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے عدالت کی طرف سے اس فیصلے کی معطلی پر کہا ہے کہ عدالتی فیصلے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا اور حکومتی حکم نامہ برقرار رہے گا۔ اس طرح امریکی حکومت اور عدالت بھی ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑے ہوگئے ہیں، دیکھنا ہوگا کہ اس کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ البتہ ایران نے فوری طور پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے امریکیوں کے اپنے ملک میں داخلے پر جوابی پابندی عائد کردی ہے۔ امریکہ کے اس فیصلے پر یقینی طور پر مسلم دنیا میں ایک خاص ردعمل آنا تھا اور یہ ردعمل ابھی ابتدائی شکل میں سامنے آیا ہے، اور اگر ٹرمپ کی اسی طرز کی جارحانہ پالیسیاں جاری رہتی ہیں تو اس کا ردعمل اور زیادہ سخت بھی ہوسکتا ہے۔
ابھی بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی بلکہ امریکی صدر یا انتظامیہ نے ایک قدم آگے بڑھ کر پاکستان کو بھی واضح پیغام دیا ہے کہ اگر اس نے فوری طور پر جماعت الدعوۃ اورپروفیسر حافظ سعید کی سرگرمیوں پر پابندی نہیں لگائی تو وہ بھی پابندیوں کے لیے تیار ہوجائے۔ ان کے بقول اگر پاکستان نے ہماری بات نہ مانی تو اس کو بھی دیگر اسلامی ملکوں کی طرح بلیک لسٹ کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح امریکی انتظامیہ اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی پالیسی میں واضح کردیا ہے کہ اسلامی انتہا پسندوں کو کسی بھی صورت میں امریکہ میں برداشت نہیں کیا جائے گا۔ ان کے بقول وہ چاہتے ہیں کہ گوانتاناموبے کی جیلوں کو دہشت گردوں سے بھردیں۔ ٹرمپ انتظامیہ نے اعادہ کیا ہے کہ دوسرے ایگزیکٹو حکم نامہ کے تحت دیگر ممالک پر بھی پابندی عائد کی جاسکتی ہے۔ امریکہ میں مسلم مخالف پالیسی سازوں کا سعودی عرب، افغانستان، پاکستان اور مصر کے حوالے سے بھی دباؤ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ ان کے خلاف بھی جارحانہ حکمت عملی اختیار کریں۔ پاکستان نے امریکہ میں بدلتی ہوئی صورت حال کے پیش نظر فوری طور پر امریکی خوشنودی کے لیے حافظ سعید اور ان کے کچھ ساتھیوں کو ان کے گھروں میں نظربند کردیا ہے اور ان کے مالی اثاثوں کو منجمد کردیا ہے۔ وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کے بقول ہم یہ سب کچھ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں کررہے ہیں۔ ماضی میں بھی امریکہ ڈومور کے نعروں کی بنیاد پر پاکستان پر دباؤ ڈالتا رہا ہے اور افغانستان کے تناظر میں حقانی گروپ کے خلاف کارروائی کا مطالبہ بھی کرتا رہا ہے۔ اب خاص طور پر امریکہ اور بھارت گٹھ جوڑ کے تناظر میں حافظ سعید کے حوالے سے مطالبہ ظاہر کرتا ہے کہ مسئلہ محض امریکہ کا ہی نہیں بلکہ بھارت کا بھی ہے، اور یہ دونوں قوتیں مل کر پاکستان کو دباؤ میں لاناچاہتی ہیں۔ جہاں تک حالیہ حافظ سعید پر پابندی کا تعلق ہے تو یہ بھی بنیادی طور پر پاکستان پر امریکی دباؤکا نتیجہ ہے۔ پاکستان نے فوری طور پر یہ فیصلہ کرکے امریکہ کو یہ باور کروایا ہے کہ ہم اب بھی اس کے ایجنڈے کو ہی بنیاد بناکر آگے بڑھ رہے ہیں۔ حالانکہ اس سے قبل پاکستان حافظ سعید کے معاملے میں کہہ چکا ہے کہ ہمارے پاس ایسے کوئی شواہد نہیں جو امریکی الزامات کو ثابت کرسکیں۔ پاکستان کے بقول اگر امریکہ سمیت کسی کے پاس حافظ سعید کے حوالے سے ثبوت ہیں تو وہ ہمیں مہیا کرے، ہم کارروائی کریں گے۔
ڈونلڈ ٹرمپ اسلامی انتہا پسندی یا دہشت گردی کو بنیاد بناکر جو کچھ کررہے ہیں وہ سابق امریکی صدر اوباما کی پالیسی سے مختلف نہیں۔ دونوں کی پالیسی کا بنیادی نکتہ یہی تھا کہ ہم امریکہ کو اسلامی بنیاد پرستی اور دہشت گردی سے محفوظ کرنا چاہتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے ’’سب سے پہلے امریکہ‘‘ کا نعرہ لگا کر خود کو امریکی مفادات کا محافظ قرار دیا ہے۔ جبکہ اس کے برعکس ری پبلکن پارٹی کے سینیٹر جان مک کین اور لینڈ سی گریم کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کا اقدام دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں خود کو لگائی ہوئی چوٹ بن سکتا ہے۔ اسی طرح برطانوی وزیر خارجہ بورس جانسن نے بھی صدر ٹرمپ کی جانب سے سات مسلمان ممالک کے افراد کے امریکہ میں داخلے پر پابندی کے فیصلے کو غلط اور تفریق پیدا کرنے والا قرار دیا ہے۔ جرمن چانسلر انجیلا مرکل کے بقول ٹرمپ انتظامیہ ناجائز طور پر مسلمانوں کو ٹارگٹ کررہی ہے۔ جبکہ اس کے برعکس ٹرمپ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ابتدائی طور پر جن ملکوں پر پابندی عائد کی گئی ہے ان کی کانگریس کے دونوں ایوانوں نے شناخت کررکھی تھی اور اوباما انتظامیہ نے بھی ان ملکوں کی اضافی نگرانی کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اب اس وقت اوباما کی جماعت ڈیموکریٹ خود ٹرمپ انتظامیہ کے فیصلے کی مذمت کررہی ہے اور ان کے بقول اس سے بلاوجہ امریکی معاشرے میں مذہب کی بنیاد پر تقسیم ہوگی۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ اگرچہ ٹرمپ کے بقول ہماری پالیسی کو اسلام کے خلاف نہ سمجھا جائے، لیکن جو کچھ کئی دہائیوں سے امریکہ کررہا ہے اور جو اُس کی پالیسیاں ہیں، ان کا ایک خاص ردعمل بھی اسلامی ملکوں میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ امریکہ یہ باور کروانا چاہتا ہے کہ ہم اسلام یا اسلامی ممالک کے خلاف نہیں، لیکن مسلم دنیا میں یہ سوچ طاقت پکڑ رہی ہے کہ امریکہ دہشت گردی کا خاتمہ نہیں چاہتا بلکہ اسلام مخالف ایجنڈا رکھتا ہے۔ یہ سوچ محض اُن لوگوں تک ہی محدود نہیں جو اسلحہ اٹھائے ہوئے ہیں، بلکہ مسلم دنیا میں جو اہلِ دانش ہیں یا جو دنیا میں امریکہ مخالف پالیسی پر اپنا ایک خاص نقطہ نظر رکھتے ہیں، ان کے بقول بھی امریکہ جو کچھ کررہا ہے اس کا براہ راست ردعمل ہمیں دنیا بھر میں بالعموم اور مسلم دنیا میں بالخصوص دیکھنے کو ملے گا۔ اگرچہ ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ بھی کہا ہے کہ ہمیں بلاوجہ دوسرے ملکوں کے معاملات میں براہِ راست مداخلت کرکے خود امریکہ کو غیر محفوظ نہیں بنانا۔ ٹرمپ نے بھی اعتراف کیا ہے کہ افغانستان اور عراق پر امریکی جنگ امریکی مفادات کے برعکس ہے اور ہمیں اس سے باہر نکلنا چاہیے۔ لیکن اب جو کچھ ٹرمپ انتظامیہ کررہی ہے اُس سے تو دنیا میں اسلام اور امریکہ کے درمیان تقسیم بڑھ ہورہی ہے۔ ٹرمپ کو یہ بات ضرور یاد رکھنی چاہیے کہ تسلسل کے ساتھ امریکہ میں اُن کی مخالفت بڑھ رہی ہے۔ اگر واقعی ٹرمپ حکومت امریکہ سمیت دنیا سے انتہا پسندی کا خاتمہ چاہتی ہے تو اس کا علاج محض طاقت کی بنیاد پر ممکن نہیں ہوگا۔ کیونکہ امریکہ طاقت کا استعمال عراق، افغانستان میں کرچکا ہے، لیکن نتیجہ منفی طور پر سامنے آیا ہے۔ لوگوں کو یاد ہوگا کہ طاقت کے زور پر امریکہ اور اس کی اتحادی افواج نے فوری طور پر افغانستان کو فتح کرنے کے دعوے کیے تھے، لیکن آج افغانستان امریکہ کے لیے ایک بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ امریکہ نے جو افغان حکومت قائم کی ہے اُس سے وہ کوئی بڑا مثبت نتیجہ نہیں نکال سکا۔ اب امریکہ طالبان سے مذاکرات چابتا ہے، لیکن طالبان اپنے ایجنڈے پر مذاکرات چاہتے ہیں جو امریکہ کے لیے اس انداز میں قابلِ قبول نہیں جس طرح طالبان چاہتے ہیں۔
یکطرفہ طور پر اپنے فیصلوں کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو دونوں ایوانوں میں اکثریت حاصل ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اپنے سیاسی مخالفین کو نظرانداز کرکے یا ان کو مشاورت کا حصہ بنائے بغیر اپنی سخت گیر پالیسی پر عملدرآمد کے لیے کھڑے ہوجائیں۔ دوسری طرف امریکی میڈیا کو بھی ٹرمپ انتظامیہ اپنے خلاف کررہی ہے اور یہ تاثر دے رہی ہے کہ موجودہ میڈیا ٹرمپ مخالف میڈیا ہے۔ ٹرمپ سیاسی مخالفین کا ہی نہیں، بلکہ ان کو قانونی محاذ سمیت بہت سے محاذوں پر مزاحمت کا سامنا کرنا ہوگا، کیونکہ یہ مزاحمت محض مسلم ملکوں تک محدود نہیں بلکہ پہلی بار یورپی ممالک سے بھی ٹرمپ حکومت کو سخت دباؤ کا سامنا ہے۔ اب اہم بات یہ ہے کہ اس ساری صورت حال میں پاکستان کس حد تک امریکی دباؤ کا سامنا کرسکتا ہے؟ کیونکہ اگر ہم نے بھی فوری طور پر امریکہ کی خوشنودی کے لیے وہ سب کچھ کیا جو امریکہ چاہتا ہے تو اس کا ایک ردعمل ہمیں اپنی داخلی سیاست میں بھی دیکھنے کو ملے گا۔ اس تناظر میں پاکستان پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ امریکہ میں بدلتی ہوئی صورت حال پر اپنی توجہ مرکوز رکھے، اور دیکھے کہ جو کچھ اس وقت ٹرمپ انتظامیہ کرنا چاہتی ہے اس کا براہِ راست پاکستان اور مسلم دنیا پر کیا اثر پڑے گا۔ امریکہ پاسکتان تعلقات کی بہتری ہر صورت میں پاکستان کے مفادات سے جڑی ہونی چاہیے۔ جیسے امریکہ یہ نعرہ لگا سکتا ہے کہ ’’سب سے پہلے امریکہ‘‘۔۔۔ اسی طرح ہم بھی یہ نعرہ بلند کرسکتے ہیں: ’’سب سے پہلے پاکستان اور مسلم دنیا‘‘۔ nn