’’جس طرح جنگیں غرور اور تکبر کی طاقت سے نہیں لڑی جاتیں اسی طرح سے سیاسی کامیابیاں بھی تحمل اور تدبر کی طاقت سے ہی حاصل ہوتی ہیں۔ یہ ملک جہاں طاقت کا توازن سیاسی طاقتیں برقرار نہیں رکھ پائیں، جس کے نتیجے میں انتشار پر مبنی صورت حال نے جنم لیا ہے۔ جب عوامی تقدیروں کی تاریخ جاگیردار راج کے پنڈت لکھنا شروع کردیں اور سیاسی حوالے سے عوام جاگیرداروں کے پاؤں کی جوتی بن کر رہ جائیں، تب یہ ممکن ہی نہیں ہوا کرتا کہ عوامی طاقت کو کوئی سیاسی حیثیت حاصل ہوسکے اور عوام اپنی تقدیر کی تاریخ ازخود لکھ سکیں۔ اگر مستقبل کے سندھ کا سیاسی منظرنامہ دیکھا جائے تب بھی کوئی تبدیل شدہ صورتِ حال دکھائی نہیں دیتی۔ کیونکہ پیپلزپارٹی جس طرح سے سندھ کی سیاسی نقشہ گری) Mapping (کررہی ہے اس سے مستقبل قریب میں تو سندھ کی سیاسی صورتِ حال تبدیل ہوتی نظر نہیں آرہی۔ ایک طرف سندھ کے لوگ اس بات کو بار بار تسلیم کررہے ہیں کہ ’’پیپلزپارٹی اپنے مزاج اور افتادِ طبع میں عوامی پارٹی نہیں رہی ہے، اور نہ ہی اس سے اب پرانا لبادہ اتار کر نیا جامہ پہننے یا کسی نوجوان قیادت کے آگے آنے سے کسی بڑی تبدیلی کے کوئی امکانات موجود ہیں، پھر بھی سندھ کے لوگ پیپلز پارٹی کے پیچھے چلنے کو آخر ترجیح کیوں دے رہے ہیں؟ وہ کون سے اسباب یا محرکات ہیں جو اہلِ سندھ کو پیپلزپارٹی کے بجائے کسی متبادل سیاسی قوت کو سندھ میں جگہ دینے کے لیے تیار نہیں کرپا رہے ہیں؟ کیا سندھ میں شعوری طور پر کسی متبادل سیاسی قوت (یا پارٹی) کو ابھرنے سے روکا جارہا ہے؟ یہ ایسے سوالات ہیں جو بہت عرصے سے سندھ کے سیاسی ماحول میں گردش کررہے ہیں، جس پر بحث کی گنجائش موجود ہے۔
سندھ کے افراد نے مختلف مراحل پر متبادل سیاسی قوت کے لیے ماحول بنانے کی خاطر شعوری کوششیں ضرورکی ہیں، پھر وہ ساری کوششیں کامیابی کا زینہ چھوتے چھوتے ناکام ہوگئی ہیں یا پھر آگے چل کر ان کے دوبارہ ابھرنے کا موقع ہی ختم کردیا گیا ہے، لیکن ابھرنے والی متبادل سیاسی قیادت کی معمولی غلطیوں اور کوتاہیوں نے سندھی عوام کو مایوسی کی ایک ایسی دلدل میں دھکیل دیا ہے کہ اہلِ سندھ نے دوبارہ اس حوالے سے کوششیں شعوری طور پر کرنے سے ہی دست برداری اختیار کرلی ہے۔ میں اس بارے میں ماضئ قریب کے دو واقعا ت کو بطور مثال پیش کروں گا۔ اگرچہ ان واقعات یا حادثات کے باعث سندھ میں کوئی بڑی سیاسی تبدیلی رونما نہ ہوتی لیکن کم سے کم پیپلزپارٹی کے سوا بھی سندھی عوام کو سیاسی آپشن یا چوائس میسر آجاتی۔ مثلاً 1980ء کی دہائی میں سندھ نیشنل الائنس (سندھی۔ مہاجر تضاد کی صورت میں ہی سہی) جب معرضِ وجود میں آیا تو سندھی عوام کی طرف سے بھرپور پذیرائی کو دیکھ کر قوم پرست تحریک جو اپنی ابتدا ہی سے پارلیمنٹ سے دور رہتی آئی تھی، کے اندر مختلف النوع سوالات نے جنم لینا شروع کیا کہ آخر سندھیوں کو اکیلا اور بے بس کرکے مروانے اور انہیں ایسی سیاسی جماعتوں کے سپرد کرنے۔۔۔ جن کے اکثر رہنما اسمبلی کے اجلاسوں میں سندھ کی سیاسی تنہائی پر بات کرنے کے بجائے روایتی خاموشی کا مظاہرہ کرتے رہے۔۔۔ کے بجائے کیوں ناں اب کچھ ایسا کیا جائے کہ اسمبلی میں وطن دوست سیاسی رہنما موجود ہوں جو پارلیمنٹ کے مورچہ پر اسمبلی میں بیٹھ کر سندھ کے سیاسی مسائل کے متعلق اپنا کردار ادا کریں۔ اُس دور کے اخبارات اور سیاسی جذبہ گواہ ہے کہ سندھ قومی اتحاد کوسندھ میں حد درجہ پذیرائی نصیب ہوئی تھی۔ لیکن سندھیوں کے اس بڑے اتحاد نے خود اپنے سیاسی اعمال کے باعث خود کو سندھی عوام کے سامنے اتنا متنازع بنا ڈالاکہ سندھی اس اتحاد پر یہ الزام لگاتے رہے کہ یہ اتحاد اب سندھی عوام کی نمائندگی کرنے کے بجائے اسٹیبلشمنٹ کی نمائندگی کررہا ہے۔ جس کے بعد بے شمار سندھ دوست افراد مایوسی کا شکار ہوئے اور بعض نے تو اس سیاسی اتحاد کو سندھ دشمن اتحاد کا لقب بھی دیا۔ اگر تمام تر کوتاہیوں اور کمزوریوں کے باوصف خود احتسابی کا عمل اس اتحاد کے اندر موجود ہوتا تو آج صورت حال بہت زیادہ تبدیل شدہ دکھائی دیتی۔ کیونکہ اس اتحاد میں زیادہ تر سندھ کے متوسط اور نچلے طبقے کی نمائندگی تھی۔ اس کے بعد دوسری بڑی پذیرائی سندھ کے قوم پرستوں اور پارلیمانی پارٹیوں کو سندھی عوام نے سندھ میں دہرے نظام کے خلاف چلنے والی جدوجہد کے دوران دی۔ یہ جدوجہد 2013ء کے منعقدہ الیکشن میں اچھے طریقے سے اثرانداز ہوسکتی تھی، لیکن سیاسی طاقت کے زبردست مظاہرے کی مثال پیش کرنے کے لیے مسلم لیگ فنکشنل کے بلاوے پر دہرے نظام کے خلاف تمام قوم پرستوں اور پارلیمنٹ کی جماعتوں نے حیدرآباد میں مشترکہ طور پر ایک تاریخی جلسہ عام منعقد کیا اور سندھی عوام نے انہیں بے حد پذیرائی سے نوازا۔ سندھیوں کے اس بڑے مینڈیٹ کو مسلم لیگ فنکشنل سمیت سندھ کی ساری قوم پرست پارلیمانی جماعتوں نے کسی منظم جدوجہد یا طاقت میں تبدیل کرنے کے بجائے۔۔۔ خصوصاً ایسی سیاسی طاقت جو 2013ء کے انتخابات پر اثرانداز ہوسکتی۔۔۔ اپنی اپنی سیاسی پارٹیوں کی طاقت کی نمائش مسلم لیگ(ن) کے سامنے کروائی، اور محض اپنے سیاسی گروہی مفادات کی خاطر مسلم لیگ(ن) کے سامنے گھٹنے ٹیکتے ہوئے سارے سندھی سماج کو مایوسی سے دوچار کر ڈالا۔
اگر پیپلزپارٹی کے مقابلے میں دہرے نظام کے خلاف جدوجہد کرنے والی جماعتیں مسلم لیگ(ن) سے انتخابی اتحاد کرنے کے بجائے خود منظم انداز سے اور کسی حکمت عملی کے تحت الیکشن میں حصہ لیتیں تو اس کے نتائج بالکل مختلف ہوتے۔ لیکن ایسا ممکن نہیں ہوسکا۔ جب کہ میاں صاحب نے سندھ میں اپنی پارٹی کے لیے انتخابی حکمت عملی کے طور پر سندھ کی قوم پرست پارلیمانی سیاسی جماعتوں کے ذریعے سندھ سے ووٹ حاصل کرنا چاہے، کیونکہ سندھ میں منعقدہ بڑے جلسوں اور جلوسوں سے انہوں نے یہ محسوس کیا کہ سندھ میں مجموعی طور پر پیپلزپارٹی کمزور ہوچکی ہے، جبکہ قوم پرست سیاسی جماعتیں اپنے مشترکہ سیاسی پلیٹ فارم کو مضبوط بنانے اور اہلِ سندھ میں مزید کام کرنے اور چھوٹے چھوٹے ورکنگ گروپس تشکیل دے کر انتخابی حکمت عملی بنانے کے بجائے ایک دوسرے کے سامنے امیدوار کھڑے کرکے ووٹ کو صحیح طور سے یکجا نہ کرسکیں اور مناسب امیدوار کو سامنے لانے جیسی حکمت عملیوں میں بھی مات کھا گئیں۔ جن سیاسی پارٹیوں نے دہرے نظام کے خلاف سیاسی جدوجہد کے ذریعے بھرپور طاقت کا مظاہرہ کیا تھا، اس وقت کُل جماعتی اتحاد کے ذریعے 2013ء کے انتخابات میں مشترکہ حکمت عملی کے توسط سے اثرانداز ہونے کے بجائے ایک دوسرے کے سامنے امیدوار کھڑے کرکے ووٹوں کو تقسیم کرنے کے بعد اپنے ہی ہاتھوں پیپلزپارٹی کے امیدواران کو جتوانے کا باعث بن گئیں، جس کی وجہ سے قوم پرست پارلیمانی جماعتوں کو سندھی عوام کی جانب سے جو پذیرائی ملنی تھی، وہ نہیں مل سکی، جس کی بڑی وجہ یہی تھی کہ سندھ کے لوگ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کو ایک ہی سکے کے دو رخ تصور کررہے تھے۔ اگر 2013ء کے انتخابات میں قوم پرستوں کا کوئی مضبوط پارلیمانی اتحاد تشکیل پاجاتا جس میں فنکشنل لیگ بھی موجود ہوتی، تو مذکورہ اتحاد بے شک کوئی بڑا مطلوبہ تاریخی نتیجہ نہ دے سکتا لیکن پھر بھی کم از کم قوم پرست پارلیمانی پارٹیوں کے اس انداز سے ایک دوسرے کے سامنے ووٹ تقسیم نہ ہوتے، اور جس سطح کے وہ نتائج حاصل کرنا چاہتے تھے لگ بھگ انہیں اسی نوعیت کے مطلوبہ نتائج ضرور حاصل ہوجاتے۔
اس وقت جب کہ پنجاب میں میاں صاحب کے لیے تحریک انصاف نے سیاسی الاؤ دہکانے کی تیاریاں کر رکھی ہیں اور پاناما لیکس جسے سیاسی مبصرین نئے سال میں پرانی بحث قرار دے رہے ہیں، تاہم آئندہ انتخابات میں تختِ لاہور کے شریف بھائی بھی اب کسی کی ضمانتیں ضبط کرانے کی سیاسی پوزیشن میں نہیں رہے ہیں، جس کے متعلق ایاز میر نے بھی لکھا ہے کہ ’’عدالتوں میں چلنے والے کیس کا خواہ اب جو بھی نتیجہ نکلے لیکن شریف خاندان کے دامن پر لگنے والا داغ ہمیشہ رہے گا‘‘۔ اسی طرح سے جب بھی سندھ کے مؤرخ مستقبل میں سندھ کی تاریخ لکھیں گے، تب اس دور کی اس حکمرانی کے سائے تلے سانس لینے والے سندھ کے بارے میں بھی ضرور لکھیں گے کہ ان کے دور میں اہلِ سندھ کی حالت کیا تھی؟ اور یہ بھی لکھیں گے کہ پیپلزپارٹی کے سامنے سندھ کے لوگوں کو آخر ایسی کون سی مجبوری لاحق ہوگئی تھی؟ لیکن کیا آج بھی یہ ایک حقیقت نہیں ہے کہ پیپلز پارٹی بھلے سندھ میں اپنی مرضی کی سیاسی نقشہ گری کرتی رہے، لیکن یہ بھی ایک امر واقع ہے کہ اب سندھ کی سیاسی نفسیات بدل رہی ہے۔ حیدرآباد لٹریچر فیسٹیول میں علی قاضی نے بے حد کارآمد بات کہی تھی کہ ’’جب سندھی عوام چاہیں گے تبدیلی آجائے گی، لیکن اگر وہ ایسا نہیں چاہتے تو آپ ان کے لیے کچھ بھی نہیں کرسکتے‘‘۔ 2013ء میں یہ بات تو ثابت ہوچکی تھی کہ اہلِ سندھ تبدیلی چاہتے ہیں۔ وہ صحرا میں بھٹکتے ہوئے مرنے کو ترجیح دینا نہیں چاہتے۔ لیکن قرنوں سے جاگیردارانہ سماج کے اثرات کے زیراثر رہنے کی وجہ سے لوگ جس سیاسی بیگانگی کا شکار ہوجایا کرتے ہیں آج کا سندھی سماج بھی اسی سیاسی بیگانگی میں مبتلا ہوچکا ہے۔ یہ بھی ایک خوش فہمی نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے کہ اب اگر پیپلز پارٹی کے مقابلے میں کوئی بھی جماعت منظم انداز اور مضبوط منصوبہ بندی کے ساتھ کام کرے گی اور انتخابات میں شفافیت کو یقینی بنایا جائے گا تو آئندہ انتخابی نتائج پیپلزپارٹی کے حق میں نہیں ہوں گے۔ کیونکہ برس ہا برس سے یہ سماج جس سیاسی پامالی کا شکار رہا ہے وہ بہرصورت اب اس پامالی سے نجات حاصل کرنے کا خواہاں ہے۔ حالات تبدیل ہورہے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے سیاسی گروپ اور جماعتیں بھی اپنی حکمت عملی کو تبدیل کریں اور ہر حالت میں ایک دوسرے کے ساتھ برداشت اور رواداری کا رویہ اپنائیں۔ اپنی سیاسی طاقت کو مضبوط بنائیں۔ خود احتسابی کی روایات پر عمل پیرا ہوکر اپنی سیاسی طاقت کو مضبوط کرتے ہوئے سماج کے لیے ذمہ دارانہ کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم نے اپنے حصے کا ذمہ دارانہ سیاسی کردار ادا کیا تو اہلِ سندھ اور ذمہ دار سیاسی جماعتیں بھی کبھی مایوس نہیں کریں گی۔ اور اس طرح سے مایوس کن سیاسی صورت حال سے نجات ممکن ہوسکے گی۔‘‘
nn