پاکستان خصوصاً سندھ کی بیشتر آبادی کی روٹی روزی کا دارو مدار زراعت پر ہے، تاہم محکمہ آب پاشی اور محکمہ زراعت کی سُستی اور نااہلی نے کاشت کاروں کو نانِ شبینہ سے محروم کردیا ہے۔ ان سطور کو ضبطِ تحریر میں لانے تک نہروں کی بھل صفائی کے لیے بند کی جانے والی کنالوں میں پانی کی بندش کے باعث سندھ کی لاکھوں ایکڑ رقبے پر کھڑی گندم، سرسوں، گنا اور سبزیوں سمیت دیگر فصلیں سوکھ رہی ہیں، جبکہ محکمہ آب پاشی کی جانب سے 6 جنوری سے 20 جنوری کے دوران نہروں میں بھل صفائی کے لیے سکھر بیراج سے نکلنے والی پانچ کنالوں کو بند کیا گیا تھا۔ تاہم بھل صفائی کا عمل سست رفتار سے جاری ہے اور تاحال نہروں میں پانی نہیں چھوڑا گیا ہے۔
کاشت کاروں نے فرائیڈے اسپیشل کے سروے کے دوران بتایا کہ نہروں سے ریت نکالنے کے لیے بھل صفائی سالانہ معمول کا عمل ہے، تاہم ہر سال چیف انجینئر سکھر بیراج کی جانب سے جو شیڈول جاری کیا جاتا ہے اُس پر کبھی بھی عمل نہیں ہوتا، اور شیڈول سے کبھی ایک ماہ اور کبھی پندرہ یوم بعد نہریں کھولی جاتی ہیں اور امسال بھی ایسا ہی ہورہا ہے۔ بھل صفائی کے باعث جہاں لاکھوں ایکڑ رقبے پر کھڑی فصلیں سوکھ رہی ہیں وہیں غریب کاشت کار جو کہ گندم کی فصل کو سال بھر اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے ذخیرہ کرتا ہے، اندیشوں کا شکار ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ گندم کی فصل مقدار سے کم اترنے کی وجہ سے اس پر آنے والے اخراجات نکال کر اتنی رقم نہیں بچے گی کہ وہ سال بھر گزارا کرسکے۔ تاہم ایک اچھی بات یہ ہوئی کہ غریب کاشت کاروں کی اللہ تعالیٰ نے دعا قبول کی اور حالیہ دو تین بارشوں اور سخت سردی نے پانی کی بوند بوند کو ترسی ہوئی گندم، سرسوں سمیت دیگر فصلوں میں زندگی کی روح پھونک دی، اور بھل صفائی کے دوران زیادہ عرصہ پانی بند رہنے کا جو نقصان فصلوں کو پہنچ رہا تھا وہ قدرے کم ہوگیا ہے۔ یہاں آپ کو بتاتے چلیں کہ گندم کی فصل کو ٹھیٹھ سندھی زبان میں ’’چیڑر‘‘ کہا جاتا ہے اور یہ مثل مشہور ہے کہ ’’چیڑر ہے پیٹ‘‘ اور باقی فصلیں دیگر ضروری سامان کے لیے ہیں۔ تاہم اگر پیٹ ہی خالی ہو تو پھر باقی کچھ بھی نہیں ہوتا۔ اس سلسلے میں چیف انجینئر سکھر بیراج ولی محمد نائچ کی جانب سے فرائیڈے اسپیشل کو بتایا گیا کہ سکھر بیراج کے رائٹ پاکٹ سے ریت نکالنے کا کام تیزی سے جاری ہے جس کے لیے بھاری مشینری بھی استعمال کی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سکھر بیراج کے گیٹوں کی مرمت کے لیے سالانہ چار کروڑ روپے فراہم کیے جاتے ہیں، تاہم انہوں نے کہا کہ کبھی دو کروڑ اور کبھی تین کروڑ روپے فراہم کیے جاتے ہیں، جبکہ اِس مرتبہ بھی صرف دو کروڑ روپے دیے گئے ہیں، جبکہ اس بارے میں حکومتِ سندھ کو توجہ دلائی گئی ہے۔ دوسری جانب سکھر بیراج کے رائٹ پاکٹ سے ریت نکالنے کے لیے منظور کردہ سات کروڑ روپے میں سے صرف دو کروڑ روپے فراہم ہوئے ہیں۔
ادھر پیپلزپارٹی کے قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف سید خورشید شاہ نے سکھر بیراج کے دورے کے موقع پر افسران پر سخت برہم ہوتے ہوئے کہا کہ کروڑوں روپے کے فنڈز کی وصولی کے باوجود سکھر بیراج کے گیٹوں پر کئی سال سے رنگ نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ پورا سال پانی میں ڈوبے رہنے کی وجہ سے بیراج کے دروازوں پر رنگ کیے جانے سے ان کی عمر بڑھتی ہے۔ انہوں نے اس موقع پر بھل صفائی بھی شیڈول کے مطابق مکمل نہ کیے جانے پر افسران کی سرزنش کی۔ انہوں نے اس موقع پر میڈیا سے گفتگو میں اعتراف کیا کہ کروڑوں روپے کے فنڈز کی فراہمی کے باوجود سکھر بیراج کی حالت خراب سے خراب تر ہوتی جارہی ہے۔ تاہم جہاں اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کے ریمارکس قابلِ توجہ ہیں، وہیں یہ بات بھی اظہر من الشمس ہے کہ محکمہ آب پاشی کرپشن میں گلے تک ڈوب چکا ہے اور اصلاحِ احوال کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ سکھر بیراج جو کہ سندھ کے علاوہ بلوچستان کے لاکھوں ایکڑ رقبے کو سیراب کرنے والے کنالوں کی واحد گزرگاہ ہے، اس کی مرمت اور وقت پر بھل صفائی نہ ہونے کے باعث جہاں ایک جانب لاکھوں ایکڑ رقبے پر کھڑی فصلیں سوکھ رہی ہیں اور کھیتوں میں دھول اڑ رہی ہے، وہیں سندھ کے تمام اضلاع کے کروڑوں مکین پینے کے پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں اور زیر زمین کھارے پانی کے استعمال سے پیٹ کے امراض کے علاوہ ٹائیفائیڈ، ہیپاٹائٹس اور دیگر موذی امراض بڑھ رہے ہیں۔ سندھ کے عوام کے دکھوں کا مداوا اور ان کے مسائل کون حل کرے گا، اس بارے میں اب اربابِ اختیار کو مزید سوچنا چاہیے جو کہ سندھ کے وارث بنے ہوئے ہیں۔ تاہم اگر سندھ خوش حال ہوگا تو حکمران بھی خوش حال ہوں گے۔ صرف وڈیروں کی حمایت لینے سے مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کو بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا، کیونکہ تحریکیں غریب چلایا کرتے ہیں اور وڈیرہ کلاس مشکلات دیکھ کر یورپ تفریح کے لیے چلی جاتی ہے۔
nn