اگر ہم قیام پاکستان کے بعد کی علمی و ادبی تاریخ کا مطالعہ کریں تو اس میں ہمیں مختلف اقسام کے اہل قلم نظر آئیں گے۔ان میں بعض اہل قلم ایسے تھے کہ جنھیں ان کی زندگی ہی میں پذیرائی ملی۔ان پر رسائل کے خاص نمبر اور گوشے ان کی زندگی ہی میں شائع ہوئے اور تحقیقی مقالے بھی ان کی حیات و خدمات پر لکھے گئے۔ مزید یہ کہ ملک اور بیرون ملک ان کی علمی و ادبی خدمات کا اعتراف بھی کیا گیا۔ اہل قلم کی دوسری قسم وہ ہے کہ جنھیں زندگی میں بقول احمد ندیم قاسمی یہی شکوہ رہا :
عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہل وطن
یہ الگ بات کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ
لیکن ان کے انتقال کے بعد ان پربھی رسائل کے خاص نمبر اور گوشے شائع ہوئے اور ان کو نہ کسی حوالے سے یاد کیا گیا اور ان کی علمی و ادبی خدمات کا اعتراف بھی کیا گیا۔
مرحوم پا کستانی اہل قلم اور ادیبوں کی ایک تیسر ی قسم بھی ہے۔ یہ وہ حضرات تھے جنھوں نے زندگی بھر قلم و قرطاس سے سنجیدہ تعلق رکھا لیکن نہ تو ان کی زندگی میں انھیں خاطر خواہ پذیرائی ملی اور ان کے انتقال کے بعد کچھ اس طرح سے انھیں بھلا دیا گیا کہ جب بھی ان کی یاد آتی ہے،بے اختیار داغؔ کا یہ شعر یاد آ جاتا ہے :
داغؔ کو تم نے بھلایا ہے کچھ ایسا دل سے
وہ تو کیا شعر بھی اس کا نہ کبھی یاد آیا
اگر ہم ایسے اہل قلم اور ادیبوں کی فہرست تیار کریں جنھیں ان کے انتقال کے بعد اس طرح بھلادیا گیا تو ایک طویل فہرست تیار ہو جائے گی۔ یہاں بطور مثال ایسے دو اہل قلم کا ذکر کرتا ہوں،جناب صلاح الدین محمود (وفات ۲۲،اگست ۱۹۹۸ء،لاہور) کے نام سے اہل علم اور اہل قلم بخوبی واقف ہیں۔راقم نے آج سے تقریباً پندرہ برس قبل ان کے زیر تکمیل سفر نامے ’’نقش اول کی تلاش ‘‘ کا ایک باب بہ عنوان ’’خاک حجاز کے نگہبان ‘ پڑھا تھا جس میں انھوں نے حرمین شریفین کی کے لیے ترکوں کی خدمات کی تفصیلات بڑے متاثر کن اندازمیں تحریر کی تھی۔ اس کے بعد سے مسلسل ان کے مذکورہ بالا سفر نامے کی تلاش جاری رہی لیکن معلوم ہو اکہ یہ شائع نہیں ہوا۔یہاں تک کہ ان کا انتقال ہو گیا۔ان کے انتقال کے بعد سے اب تک لاہور اور کراچی کے کئی اہل قلم حضرات سے رابطہ کیا لیکن یہ جان کر افسوس ہوا کہ اب تک ان کی حیات او ر علمی و ادبی خدمات پر کوئی جامع مضمون شائع نہیں ہوا۔ ابھی ان کے انتقال کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔کیا ہی اچھا ہو اگر لاہور ہی کا کوئی اہل قلم اس موضوع پر قلم اٹھائے اورتاریخ کا یہ قرض چکائے۔
صلاح الدین محمود صاحب سے تو راقم خواہش کے باوجود ملاقات سے محروم رہا لیکن ایک اور ادیب اور اہل قلم عبدالمجید قریشی صاحب سے نہ صرف راقم کی طویل ملاقات ہوئی بلکہ خط کتابت کا تعلق بھی قائم رہا۔ پیش نظر مضمون میں ہم عبدالمجید قریشی مرحوم کی حیات اور علمی و ادبی خدمات پر روشنی ڈالیں گے۔
عبدالمجید قریشی ۱۹۲۱ء میں بھوانی (مشرقی پنجاب )میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم بھوانی ہی میں حاصل کی اور ایف اے دہلی کے معروف تعلیمی ادارے سینٹ اسٹیفنز کالج سے میں کیا۔ ۱۹۴۷ء میں آپ کا قیام دہلی کے علاقے پہاڑ گنج میں تھا۔اس وقت دہلی کی سرزمین مسلمانوں پر تنگ ہو چکی تھی اور قتل و غارت گری کا بازار گرم تھا۔انھی دنوں عبدالمجید قریشی کو زندگی کے ایک بہت بڑے حادثے سے گزرنا پڑااور وہ یہ کہ ظالم بلوائیوں نے ان کی پہلی اہلیہ اور شیر خوار بچے کو شہید کر دیا تھا۔ ۱۹۴۷ء میں عبدالمجید قریشی پاکستان منتقل ہو گئے اور جہانیاں منڈی میں اقامت گزیں ہو گئے۔ یہیں ان کا قریبی تعلق معروف طبیب حکیم محمد عبداللہ صاحب (بانی ادارۂ مطبوعات سلیمانی، وفات ۱۹۷۴ء) سے قائم ہو ا۔ حکیم محمد عبداللہ ایک حاذق طبیب ہونے کے باوصف علم و ادب کا نہایت اعلیٰ ذوق رکھتے تھے اور کئی کتابوں کے مصنف بھی تھے۔ان کے بارے میں عبدالمجید قریشی صاحب نے اپنے مضمون’’کتابوں کے دودیوانے ‘‘ مشمولہ کتاب ’’کتابیں ہیں چمن اپنا’’ میں لکھا :
’’ مطالعے کا رسیا تو میں پہلے ہی سے تھا لیکن حکیم محمد عبداللہ صاحب کی ہم نشینی اور ہم جلیسی نے میرے سمند شوق پر سراسر تازیانے کا کام کیا۔ان کی صحبت میں مجھے کتابیں خرید کر پڑھنے اور انھیں کتب خانے کی صورت میں مرتب کرنے کا شوق پیداہوا۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ میرے پاس آہستہ آہستہ کتابوں کا ایک ایسا ذخیرہ جمع ہو گیا جس کا مجھ ایسے محدودذریعہء آمدنی رکھنے والے آدمی کے پاس جمع ہونے کا بادی النظر میں تصور ہی نہی کیا جا سکتا۔‘‘
حکیم محمد عبداللہ صاحب کی صحبت کا یہ نتیجہ نکلا کہ عبدالمجید قریشی کو بھی اعلیٰ درجے کی علمی و ادبی کتابوں کے حصول اور ان کے مطالعے کا شوق پیدا ہوا اور وہ اپنی دلچسپی کے موضوعات پر کتب حاصل کرتے رہے اور ایک عمدہ کتب خانہ بنا لیا۔ ان کی ملازمت محکمہ ڈاک میں تھی۔ اسی وجہ سے ان کا وقتاً فوقتاً تبادلہ ہوتا رہا۔ وہ ملازمت کے سلسلے میں جہانیاں کے علاوہ قطب پور، بہاول نگر، چشتیاں، وہاڑی اور دیگر علاقوں میں رہے لیکن انھوں نے کبھی اپنے ذوق کتب اندوزی میں کمی نہ آنے دی اور قلم وقرطاس سے تعلق برقرار رکھا۔ زندگی کا آخری دور انھوں نے ملازمت سے سبکدوشی کے بعد ملتان میں گزارا اور وہیں مورخہ یکم نومبر۲۰۱۰ء کو بعمر ۹۰ سال ان کا انتقال ہوا۔
حکیم محمد عبداللہ کے علاوہ ماضی کے کئی مشاہیر علم و ادب سے عبدالمجید قریشی کے قریبی تعلقات تھے اور ووہ برابر مشاہیر علم و ادب سے خط کتابت کا تعلق استوار رکھتے تھے۔اس حوالے سے انھوں نے اپنے مضمون ’’میری ادبی ڈائری ‘‘(مشمولہ سہ ماہی الزبیربہاولپور،شمارہ نمبر۱بابت۱۹۷۲ء)میں۱۸؍جنوری ۱۹۷۲ء کی ڈائری میں لکھا تھا:
’’خیبر میل ابھی ابھی کراچی چھاؤنی کے ریلوے اسٹیشن پر آکر رکی ہے اور میں بیس برس کی مدت کے بعد اس اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر قدم رکھ رہاہوں۔اس طویل عرصے میں میرے حالات اس قدر نا مساعد رہے کہ شدید خواہش کے باوجود کراچی نہ جا سکاچنانچہ اسی دور میں مشفق محترم شاہد احمد دہلوی،ضیاء الدین احمد برنی،خان بہادرنقی محمد خان خورجوی جن سے میری سال ہا سال ادبی مراسلت رہی او ر جن سے ملاقات کی ایک بڑے عرصے سے میر ی تمنا تھی یکے بعد دیگرے راہی ملک بقا ہو گئے اور میں ان بزرگانہ عنایات سے محروم ہو گیا جس کا مجھے قلق رہے گا۔‘‘
اسی مضمون میں عبدالمجید قریشی لکھتے ہیں کہ کراچی میں قیام کے دوران ان کی جن مشاہیر علم و ادب سے ملاقاتیں ہوئیں ان میں الحاج محمد زبیر،پروفیسر عبدالمجید قریشی،علاء الدین خالد،مشفق خواجہ،عباس احمد عباسی،عیش ٹونکی،سیّد یوسف بخاری دہلوی،جلیل قدوائی،ماہر القادری، سیّد الطاف علی بریلوی، مسعود احمد برکاتی و دیگر حضرات شامل ہیں۔عبدالمجید قریشی نے ان مشاہیر سے دوران ملاقات جو جو علمی و ادبی گفتگوئیں ہوئیں ان کی دلچسپ تفصیلات بھی پیش کی ہیں۔
عبدالمجید قریشی کی دلچسپی کے موضوعات میں آپ بیتیاں، یادداشتیں، سیرت و سوانح، مکاتیب، سفرنامے،سیر و شکار،تقسیم کے دوران فسادات،شہروں خصوصاً دلی، علی گڑھ،لاہور، حیدرآباد دکن سے متعلق کتب شامل تھے۔ ان میں سے کئی موضوعات پر انھوں نے برس ہا برس لکھا او رقارئین کے وسیع حلقے کو اپنی پر اثر تحریروں سے متاثر کیا۔ وہ خود بڑے نفاست پسند بزرگ تھے اور ادب میں اعلیٰ اخلاقی اقدار کی پابندی کرتے تھے۔ان کی کسی تحریر سے فحاشی، عریانی اور بے حیائی کا تاثر نہیں ملتا جبکہ ادبی چاشنی اور قارئین کی دلچسپی ہر تحریر سے ظاہر ہوتی۔راقم الحروف کی ان سے کئی گھنٹوں پر مشتمل طویل ملاقات اپریل ۲۰۰۰ء میں ملتان میں ہوئی تھی۔اس ملاقات کے بعد ان کی نفاست پسندی،حاضر جوابی اورقوی یاد داشت کا گہرا تاثر لے کر لوٹا۔
عبدالمجید قریشی کے مضامین طویل عرصے تک جن رسائل و جرائد میں شائع ہوئے ان میں اردو ڈائجسٹ، قومی ڈائجسٹ، سیارہ ڈائجسٹ، سیارہ، قندیل، تہذیب، کتابی دنیا، ہلال، جامعہ، الزبیر وغیرہ شامل ہیں۔عبدالمجید قریشی کی تین کتابیں ان کی زندگی ہی میں شائع ہوئیں جبکہ چار کتب ان کے ورثا کے پاس(ملتان میں) منتظر اشاعت ہیں۔ ان کی مطبوعہ کتب میں ذکر علی گڑھ، کتابیں ہیں چمن اپنااور گزرا ہوا زمانہ (۱۹۴۷ء تک کی خودنوشت ) شامل ہے۔
عبدالمجید قریشی کو آپ بیتیاں یا خودنوشتیں حاصل کرنے،پڑھنے اور ان کی تلخیص کرنے کا خاص ذوق تھا۔ اس بارے میں وہ اپنی آپ بیتی ’’گزرا ہوا زمانہ‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’اردو اصناف ادب میں مجھے جس صنف نے خاص طور پر متاثر کیا اور جس سے مجھے ہمیشہ گہرے دلچسپی رہی وہ خودنوشت سوانح حیات یا دوسرے الفاظ میں آپ بیتیاں ہیں۔آپ بیتیوں کا تمام تر تعلق ماضی بعید یاقریب سے ہوتا ہے اور وہ ان ادوار کی صحیح عکاسی اور بہترین ترجمانی ہوتی ہیں۔مجھے چونکہ ماضی سے پیار اور محبت ہی نہیں بلکہ عشق اور عقیدت بھی ہے اس لیے اس جذبہ صادق نے مجھے مجبور کیا کہ میں جتنی کہ مجھے اپنے قلم پر قدرت حاصل ہے اس دور کے متعلق اپنے احساسات و مشاہدات کا اظہار اپنی زیر نظر آپ بیتی ’’گزرا ہوا زمانہ‘‘ کے توسط سے کر سکوں اور یہ بتا سکوں کہ اس با برکت دور میں حال کی بے حالی کے برعکس امن و امان کی کیا صورت تھی۔ تعلیم و تدریس کی کیا حالت تھی۔علم و ادب کی کیا کیفیت تھی،معیشت و معاشرت کا کیا حال تھا۔ تہذیب و تمدن کن مراحل پر تھے۔ شرم و حیا اور غیرت و حمیت کس درجے پر تھی۔ سادگی و دیانت کا کیا عالم تھا۔ ‘‘
عبدالمجید قریشی کی مطبوعہ کتب درج ذیل ہیں:
۱۔ذکر علی گڑھ:علی گڑھ کی یادوں پر مشتمل تحریروں کا عمدہ انتخاب۔
۲۔کتابیں ہیں چمن اپنا:یہ کتاب مختلف کتابوں اور ان کے مصنفین کے بارے میں دلچسپ معلومات کا خزینہ ہے۔اس میں قریشی صاحب نے کتابوں سے محبت اور تعلق کی داستان بھی بیان کی ہے اور مختلف کتب کے حصول کے لیے انھوں نے جو جو کاوشیں کیں ان کا بھی ذکر کیا ہے۔ اس کے علاوہ ان اہم کتب کا بھی ذکر کیا ہے جو شائع نہ ہو سکیں اور ان کا بھی جو رسائل میں قسط وار شائع ہوئیں لیکن کتابی شکل میں نہیں۔ پھر کتابیں اور قید خانے، اردو ادب میں سفرنامے،ذکر علی گڑھ اردوادب میں، کتب خانوں کی سیر اور تحریک پاکستان پر اردو کتب جیسے موضوعات پر معلومات افزا مضامین لکھے۔
۳۔گزر اہوا زمانہ :خودنوشت از ابتدا ۱۹۴۷ء
عبدالمجید کی غیر مطبوعہ کتب:
۱۔یہ کس کی خاطر خون بہا (فسادات ۱۹۴۷ء سے متعلق مضامین کا مجموعہ )
۲۔تحریک علی گڑھ (شخصیات و واقعات )
۳۔عہد گم گشتہ (مشاہیر پاک و ہند کی ۲۰ اہم اپ بیتیوں کی تلخیصات)
۴۔شکار ہی شکار (شکاریاتی کہانیاں )
عبدالمجید قریشی کے انتقال کو ساڑھے پانچ برس سے زائد ہو چکے ہیں۔کس قدر افسوس کی بات ہے کہ جس شخص نے نصف صدی سے زائد عرصے تک علم و ادب کی خدمت کی اس کے بارے میں اب تک کو ئی مختصر مضمون بھی شایع نہ ہو سکا۔پیش نظر مضمون لکھنے کا مقصد یہی ہے کہ کہیں تو ان کی یاد محفوظ رہ جائے۔کیا عجب کہ اس مضمون کی اشاعت کے بعد ان پر مزید تحقیقی کام ہو اور ان کی غیر مطبوعہ کتب کی اشاعت کی راہ وا ہو اور ان کے غیر مدون مضامین کی کتابی شکل میں تحفظ کاانتظا م ہو۔
آخر میں ہم عبدالمجید قریشی کے چارخطوط بنام راقم الحرو ف پیش کرتے ہیں جن سے اندازہ ہو گا کہ مختلف کتب کے بارے میں وہ کس فراخ دلی سے معلومات فراہم کرتے تھے:
( ۱ )
بسم اللہ
’’القریش‘‘
48/W،نیو ملتان نمبر 60650
1-6-2002
گرامی قدرشیخ صاحب۔ سلام مسنون
مزاج شریف
زہے نصیب کہ مدت مدید(صرف آٹھ ماہ)کے بعد نامہء نامی نے شبیہ مبارک دکھائی۔حالات سے آگاہ ہو اورنہ اس عرصے میں طرح طرح کے خیالات ذہن میں آتے رہے کہ ہم سے کیا خطا ہوئی کہ شیخ صاحب اس درجے ناراض ہوئے کہ بس ہمیں بھول ہی گئے۔آپ کے کراچی تشریف لے جانے کے بعد میں خیریت جاننے کے لیے منتظر رہا لیکن دو تین ماہ گزر گئے آپ کی خیریت ہی معلوم نہ ہوسکی۔پھر ایک عریضہ آپ کی خدمت میں ارسال کیا کہ جناب آپ تو ایسے گئے کہ خط بھی نہ بھیجا رسید کا،اس کا بھی کوئی جواب نہ ملا۔آخر خاموشی ہی کو بہتر سمجھا۔اس طویل عرصے میںیقین فرمائیے کہ مجھے آپ کا کوئی گرامی نامہ نہیں ملا۔
’’گزرا ہوا زمانہ ‘‘کو آپ نے اور دوسرے حضرا ت نے پسند فرمایا،یہ آپ کی ذرہ نوازی ہے ورنہ ’’من آنم کہ من دانم‘‘۔ویسے کتاب کواچھی پذیرائی ملی او ر بیس بائیس ہزار خرچ کے بعد چودہ پندرہ ہزار نقد وصو ل ہوئے۔ساتھ ہی کچھ نہ کچھ تجربہ بھی اس لائن کا حاصل ہو گیا۔ابھی سوا سو کے قریب کتابیں موجود ہیں۔کتاب ساڑھے تین سو چھپی تھی۔
’’مشاہدات ‘‘ایک زمانے میں میں نے حیدرآباد سے منگا ڈالی تھی،بعد ازاں حکیم محمد سعیدمرحوم و مغفورکو دینا پڑ گئی۔راجوں،مہاراجوں او ر نوابوں کے متعلق جو کچھ اس میں تھا وہ میں نے شایع کرا دیا تھاباقی ہندو ستانی سیاست کے متعلق انھوں نے جو کچھ ’’مشاہدات ‘‘ میں لکھا وہ مجھے بالکل پسند نہیں آیا۔
آپ کو زحمت تو ضرور ہوگی لیکن آپ جناب ادیب سہیل صاحب مدیر قومی زبان کراچی کو میری جانب سے فون 48811406-4973296کیجیے کہ میں نے ’ گزرا ہو ا زمانہ ‘ کی دو جلدیں برائے تبصرہ 21.11.01کو ان کی خدمت میں ارسال کی تھیں لیکن چھے سات ماہ گزر جانے کے بعد تبصرہ ابھی تک نہیں ہوااس کے باوجود 20-25کتابیں کراچی میں نکل گئیں۔
مخلص
عبدالمجیدقریشی
بخدمت جناب محمد راشد شیخ
ملیر ہالٹ،کراچی
( ۲ )
بسم اللہ
’’القریش‘‘
48/W،نیو ملتان نمبر 60650
18-10-2005
گرامی قدر سلام مسنون
مزاج شریف
گرامی نامہ موصول ہوا۔یاد فرمائی کے لیے شکر گزار ہوں۔آپ کے سوالا ت کے جوابات حسب ذیل پیش کر رہا ہوں:
۱۔’’ذکر علی گڑھ‘‘ نایاب ہے۔ناشر کے ہاں بھی نہیں ملے گی۔کا ش وہ اس کا دوسرا ایڈیشن شایع کر دیتے۔
۲۔حکیم محمد عبداللہ مرحوم کی کتا ب’’مراحل حیات ‘‘ کا مسودہ ایک صاحب خالد اشرف ان سے لے گئے تھے،پھر انھوں نے نہ کتا ب شایع کی اور نہ مسودہ واپس۔ان کے والد مرحوم حکیم عبدالرحیم اشرف تھے جو ایک ہفت روزہ ’’المنبر‘‘ فیصل آباد سے نکالتے تھے۔معلوم نہیں اب وہ پرچہ نکلتاہے یا نہیں۔مولانا (حکیم صاحب )مرحوم کے صاحب زادے عبدالوحید سلیمانی نے بڑی کوششیں کیں کہ مسودہ مل جائے مگر اس ظالم کے سامنے کچھ پیش نہ گئی۔معلوم نہیں اب صورت حال کیا ہے۔اس کتا ب کی کچھ قسطیں ایک زمانے میں ہفت روزہ ’’آئین‘‘میں بھی شایع ہوئی تھیں۔کتاب بہت دلچسپ تھی۔
۳۔میر ولایت حسین مرحوم کی کتاب ’’میرے پچاس سال علی گڑھ میں‘‘ان کے صاحب زادے سیّد مسعود زیدی نے خودہی لاہو ر سے شایع کی تھی۔اب وہ بھی وفات پا چکے ہیں۔
میرے ساتھ اداۂ اردو ڈائجسٹ نے بڑا ظلم کیا۔میں نے فسادات ۱۹۴۷ء کے موضوع پر ان کی فرمائش پر 30-32مضامین کا ایک مجموعہ ترتیب دیا تھا۔د س سال گزر گئے ہیں،نہ شایع کرتے ہیں اور نہ مسودہ واپس۔ خادم
عبدالمجید قریشی
( ۳ )
بسم اللہ
’’القریش‘‘
48/W،نیو ملتان نمبر 60650
7-4-2006
گرامی قدر سلام مسنون
مزاج شریف
’قومی زبان‘ کا ’مشفق خواجہ نمبر ‘ مجھے بھی موصول ہوا۔مجھے یہ دیکھ کر بے حد مسرت ہوئی کہ آپ بھی بڑی شان کے ساتھ اس میں تشریف فرما ہیں۔ میں نے بھی اس میں شمولیت کے لیے مضمون ارسال کیا تھا وہ نہ جانے کیوں شریک اشاعت نہ ہوا۔ ویسے میرا مضمون ’الزبیر‘ بہاول پور اور ’تہذیب،کراچی میں شائع ہو چکا ہے۔ آپ نے اپنے مضمون میں ’مشفق خواجہ اور ان کا کتب خانہ ‘ نامی مضمون کا ذکر کیا ہے۔میں نے ابھی تک وہ مضمون نہیں دیکھا،اگر اس کی ایک فوٹو کاپی مجھے عنایت فرما دیں تو کرم خاص ہوگا۔
مشفق خواجہ صاحب مرحوم و مغفور کے متعلق ایک کتاب ’’مشفق من،خواجہ من‘ ‘ حال ہی میں لاہور سے شائع ہو ئی ہے۔ ’نوائے وقت‘ کے تبصرے میں جن حضرات کے نام درج کیے گئے ہیں انھیں دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے گویا یہ ’خواجہ نمبر‘ کا چربہ ہے۔
آپ مولانا عبدالعزیز میمن صاحب کے متعلق جو کتاب ترتیب دے رہے تھے اس کا کیا بنا ؟ کوئی نئی کتاب ؟
خادم
عبدالمجید قریشی
بخدمت جناب محمد راشد شیخ
ملیر ہالٹ،کراچی
( ۴ )
بسم اللہ
’’القریش‘‘
48/W،نیو ملتان نمبر 60650
8-10-2006
گرامی قد شیخ صاحب۔سلام مسنون
تاخیر کے لیے معذرت خواہ ہوں کہ چند مجبوریاں اس راہ میں حائل تھیں۔
آپ نے ’ذکر علی گڑھ‘ کی فوٹو کاپی کے لیے تحریرفرمایا ہے۔میرے پاس صرف ایک کاپی پڑی ہوئی ہے۔اگر اس کی کاپی کرائی گئی تو اس کا بیڑا غرق ہو جائے گا۔تاہم اللہ کریم کا لاکھ لاکھ شکریہ کہ اس نے ایک نہایت عمدہ راستہ کھول دیا ہے۔
علی گڑھ والوں کا پرچہ ’تہذیب‘ ضرور آپ کے ہاں آتا ہوگا۔ اس کا شمارہ اگست کھولیے اور صفحہ نمبر 43ملاحظہ فرمائیے۔ اس سے معلوم ہو گا کہ کسی صاحب نے ’ذکر علی گڑھ ‘ کی فوٹو اسٹیٹ کاپی جاری کرائی ہے جو ’’اردو ڈائجسٹ ‘ کے ہاں سے مل جائے گا۔ آپ ان کو لکھیے گا ان شااللہ قیمتاًیا ہدیۃ وہاں سے مل جائے گی۔
علامہ عبدالعزیز میمن ؒ صاحب پر کتاب کب تک آ رہی ہے۔شائع ہو جائے تو وی پی کر دیں۔
مخلص
عبدالمجید قریشی
nn