(جدید ٹیکنالوجی(ثنا واجد

406

اس دور کو گزرے کوئی زیادہ عرصہ نہیں ہوا ہے، جب زندگی سادہ ضرور ہوا کرتی تھی، لیکن مشکلات سے بھری پڑی تھی، جب سفر مختلف صعوبتوں سے گزر کر کئی دنوں پر محیط ہوا کرتا تھا۔ اس وقت کو گزرے بھی زیادہ وقت نہیں ہوا، جب ہم دنیا و مافیہا سے بے خبر رہا کرتے تھے اور یہ بات بھی کل کی ہی لگتی ہے، جب بہت عرصے تک دور بیٹھے اپنے پیاروں کی آواز سُننے کے لیے کان اور شکل دیکھنے کے لیے آنکھیں ترس جایا کرتی تھیں۔
انسان نے اپنی سوجھ بوجھ اور سوچ بچار سے ان مسائل سے نکلنے کے لیے ان کا حل نکالا اور سائنس کے ذریعے ایسی ایسی ایجادات کیں کہ عقل دنگ رہ جائے، جس کو ٹیکنالوجی کا نام دیا گیا، جس نے ہماری اس دنیا کو گلوبل ولیج میں بدل کر رکھ دیا۔اسی جدید ٹیکنالوجی کی بدولت دنوں کا سفر چند گھنٹوں پرمحیط ہوچکا ہے اور اپنے پیاروں کو دیکھنے اور سُننے کی آرزو ویڈیو کال اور آڈیو کال کی بدولت صرف ایک بٹن دبانے کے فاصلے پر رہ چکی ہے۔ دنیا و مافیا سے بے خبر رہنے والے اب دنیا بھر کی تمام خبریں اور معلومات انٹر نیٹ کی بدولت کسی بھی وقت حاصل کرلیتے ہیں، جوکہ محض ایک بٹن دبانے پر منحصر ہے۔
حتی کہ اب تواپنی علم کی پیاس بجھانے کے لیے در بدر پھرنے کے بجائے آن لائن ایجوکیشن کے نام سے درس و تدریس کا اہتمام بھی بخوبی موجود ہے، جوکہ ایک بٹن ہی کے فاصلے پر ہی موجود ہے اور اب تو خیر سے انٹرنیٹ کی چھوٹی سی دنیا ایک ضرورت بھی بن چکی ہے اور اگر آج کل کے دور کے حساب سے اگر اس کو انفارمیش ٹیکنالوجی کا نام دیا جائے تو غلط نہ ہوگا، چاہے مختلف عمارات کی تعمیر و مرمت کا کام کرنا ہو اس کے لیے بھی جدید ٹیکنالوجی کا ہی سہارا لیا جاتا ہے، یہاں تک کہ کاغذی کاموں کی جگہ بھی پرنٹر اور فیکس مشین نے لے لی ہے۔
غرض زندگی کے ہر شعبہ میں ٹیکنالوجی کا بڑا اہم کردار ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ آج کے دور میں ٹیکنالوجی صرف سہولت ہی نہیں بلکہ ضرورت بھی بن گئی ہے، تو بہت حد تک یہ درست بات ہے، کیوں کہ جہاں وقت کی کمی کے باعث ہمارے روز مرّہ معمولات میں تبدیلی آگئی ہے، وہیں کم وقت میں ٹیکنالوجی کے ذریعے انسان کو کئی فوائد بھی میسّر آچکے ہیں، جس نے تمام دنیا کو ایک نقطے پر سمٹنے پر مجبور کردیا ہے اور وہ وقت بھی دور نہیں، جب آنے والے وقتوں میں ٹیکنالوجی ہی ہم پر راج کرے گی۔
آج جدید ٹیکنالوجی کے دور نے انسان کو آرام پسند بنادیا ہے اور انسان کو اپنے چلنے پھرنے اور کھانے پینے کے لیے بھی مشینری اور ربوٹس کا محتاج بنا ہوا ہے۔ وہ وقت بھی دور نہیں، جب فیکٹریوں کارخانوں میں انسانوں کے بجائے روبوٹس اور مشینری ہی ہوا کرے گی، جوکہ انسان کے روز گار کو متاثر بھی کرسکتی ہے۔ اگرچہ، ترقی یافتہ ممالک میں اس کا کوئی اثر نہ ہونے کے برابر ہی ہوگا، لیکن ترقی پذیر ممالک کے لیے،جہاں پہلے ہی بھوک، افلاس اور بے روز گاری کا دور دورہ ہے، وہاں یہ رجحان خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔
اس سے انکار نہیں کہ ٹیکنالوجی سے ہمیں بے بہا فائدے حاصل ہوئے ہیں اور اسی کی بدولت ملک و قوم کی ترقی میں مدد مل سکتی ہے، لیکن اس کے نقصانات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کی بدولت ہی اگر آپس کے میل جول کو بڑھانے کے لیے موبائل فون کی سہولت موجود ہے اور نظروں سے اوجھل دور بیٹھے اپنوں کے درمیان فاصلہ کم کرنے کی کوشش کی گئی ہے تو دوسری طرف غلط طریقے سے راہ ورسم بڑھا کر اس کا غلط فائدہ بھی اٹھانے کی کوشش کی جاتی ہے، جس کا راستہ کسی حد تک بے راہ روی کی جانب جاتاہے۔ جدید ٹیکنالوجی کی بدولت اگرچہ اپنی ملکی سرحدوں کی حفاظت کے لیے جدید ایٹمی ہتھیار دستیاب ہیں، جو ملک کی بقا و حفاظت کے لیے بہت مؤثر ہیں، لیکن دوسری طرف اس کا غلط استعمال کرکے انسان دوست کا دشمن ثابت ہورہا ہے اور ملک و معاشرے میں فسادات برپا کرکے ان ہی ایٹمی ہتھیار کے ذریعے انسان کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جارہاہے۔
اگرچہ جدید ٹیکنالوجی کی بدولت ہمیں بے شمار فوائد مل رہے ہیں اور ان ایجادات کو انسانیت کی خدمت اور مدد کے لیے ہی بنایا گیا ہے، لیکن یہ انسان کی سوچ ہی ہے جس نے اس کے صحیح اور غلط استعمال کے فرق کو بالکل مٹا کر رکھ دیا ہے۔ خاص طور پر نوجوان نسل پر جدید ٹیکنالوجی نے منفی اثرات مرتب کیے ہیں اور اس کو وقت کے زیاں کا سبب بنایا ہوا ہے۔ کسی بھی چیز کے فائدے ونقصانات ہماری اپنی سوچ پر ہی منحصر ہوتے ہیں۔ اگرچہ ہم انٹرنیٹ کی دنیا سے مستفید ہورہے ہیں تو اس کے لیے اچھے برے دونوں پہلووں کو سامنے رکھ کر فیصلہ کر نے کی ضرورت ہے اور اپنے لیے وہی چُننا چاہیے جو ہمیں فائدہ دیں نہ کہ وقت کے زیاں کا سبب بنے۔ اس کے لیے نوجوان نسل میں شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور وہ شعور تعلیم کے ذریعے ہی آسکتا ہے، کیوں کہ تعلیم سے ہی ہماری سوچ کے دروازے مثبت راہ کی جانب کھل سکتے ہیں اور ٹیکنالوجی کے مثبت فوائد بھی اسی طرح آشکار ہوسکتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ تعلیم کے شعبے میں جدید ٹیکنالوجی اور سائنس کو اہمیت دی جائے کہ کسی بھی ملک کی تعمیرو ترقی میں جدید ٹیکنالوجی کی بہرحال بڑی اہمیت ہے۔

حصہ