شاہدہ: ’’رضوانہ آؤ بھئی، تم بھی ٹھنڈے پانی میں بیٹھ جاؤ، بڑا مزا آرہا ہے۔’’
رضوانہ: ’’واؤ۔۔۔ واقعی، گرمی میں مزا آگیا۔ ویسے کراچی والوں کے لیے یہ واٹر پارک بڑا خوبصورت بنایا گیا ہے۔ پکنک اور تفریح کے لیے ایسے مقامات ضروری ہیں۔‘‘
’’امی۔۔۔ امی مجھے چھُو چھُو آرہی ہے‘‘۔ شاہدہ نے غصے سے 5 سالہ بیٹے کو دیکھا (اور کچھ سوچ کر کہا) ’’اب یہاں میں تمہارے لیے باتھ روم کہاں سے لاؤں۔۔۔! اچھا چلو آؤ، اس پانی میں بیٹھ جاؤ اور یہیں کرلو۔‘‘
رضوانہ نے بڑے تعجب اور حیرانی سے شاہدہ کو دیکھ کر کہا ’’ارے یہ کیا کہہ رہی ہو! یہ ٹھیرا ہوا پانی (تالاب) ہے، اس طرح تو ہم سب ناپاک ہوجائیں گے۔ مہربانی کرکے ایسا نہ کرنا۔‘‘
شاہدہ نے ہنستے ہوئے کہا: ’’وہ سامنے ذرا دیکھو اس خاتون کی گود میں تقریباً سال سوا سال کا بچہ ہے۔‘‘
رضوانہ نے اس طرف دیکھ کر کہا: ’’تو پھر؟‘‘
شاہدہ: ’’ابھی چند منٹ پہلے۔۔۔ اس محترمہ نے بچے کا پوٹی والا ڈائپر اتارکر سامنے پھینکا ہے، اور اسی تالاب میں بچے کو ڈبکی لگاکر اس کے جسم سے گندگی صاف کی ہے جناب۔۔۔‘‘
شاہدہ کی بات پر رضوانہ کی تو حالت ہی بگڑ گئی، فوراً چھلانگ لگاکر پانی سے باہر آگئی۔ ’’تم نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا؟ پورا جسم ناپاک ہوگیا، مجھے تو اپنے آپ سے کراہت محسوس ہورہی ہے، چلو بہت ہوگیا، گھر چلو۔۔۔ جب تک نہاؤں گی نہیں، مجھے آرام نہیں آئے گا۔ اُف خدایا۔۔۔ نہ اپنا خیال اور نہ دوسروں کا!‘‘
***
ثانیہ: ’’خیریت عائلہ، تم تو باتھ روم گئی تھیں، اتنی جلدی۔۔۔!‘‘
عائلہ: ’’ارے یار چھوڑو، یہ پوش علاقے کا بڑا مال ہے، کیا بدتہذیبی ہے۔‘‘
ثانیہ: ’’آخر ہو کیا گیا؟‘‘
عائلہ: ’’یہ قوم نہیں سدھرے گی۔‘‘
ثانیہ: ’’کیا باتھ روم بہت گندا تھا، صفائی والی خاتون تو موجود ہوتی ہیں۔‘‘
عائلہ: ’’نہیں یار۔۔۔ باتھ روم تو غنیمت تھا لیکن مسلم شاور زمین پر گندگی میں رینگ رہا تھا (پانی کا نلکا بھی کھلا تھا)
اسے گندگی سے اٹھانا اور استعمال کرنا۔۔۔ نہ بابا، میں تو واپس آگئی۔‘‘
ثانیہ: ’’تو صفائی والی خاتون سے کہتیں، وہ اٹھا کر صاف کرتی۔‘‘
عائلہ: ’’جی جناب، اس نے تو مجھے شرمندہ کردیا، کہنے لگی بڑی بڑی بیگم صاحبیں بڑا بن ٹھن کر ہزاروں کی شاپنگ کرنے آتی ہیں، لیکن باتھ استعمال کرنا نہیں آتا، اتنا گندا باتھ روم کرکے جاتی ہیں کہ ان کے نکلتے ہی اگر ہم صفائی نہ کریں تو دوسرا بندہ جاہی نہ سکے۔‘‘
یہ حقیقت ہے کہ ہمارے یہاں چاہے بڑے بڑے مال کے باتھ روم ہوں، چاہے ہسپتالوں اور ہوٹلوں، تفریحی مقامات کے باتھ روم۔۔۔ سب جگہ یہ شکایت نظر آتی ہے۔ ہر ایک، دوسرے کو مورد الزام ٹھیراتا ہے، بلکہ ائیرپورٹ کے باتھ روم میں ایک مرتبہ جانے کا اتفاق ہوا تو پان کی پیک سے دیواروں پر نقش و نگار سجے ہوئے تھے، بلکہ ہمارے پاکستانی پان کھانے والے جہاں جاتے ہیں اپنی یہ نشانی چھوڑنا فرض سمجھتے ہیں۔ اپارٹمنٹ کی سیڑھیاں، تفریح گاہوں کے فرش، ہوٹلوں اور ہسپتالوں کے باتھ روم۔۔۔ ہر جگہ پان کی پیک کے نقش و نگار چھوڑنا اپنا فرض سمجھا جاتا ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ جہاں راستوں میں دیواروں پر لکھا ہوتا ہے کہ یہاں پیشاب کرنا اور پان تھوکنا منع ہے، وہاں یہ دونوں گندگیاں زیادہ نظر آتی ہیں، بلکہ مجھے سعودی عرب میں کچھ مقامات جہاں پاکستانی اور انڈین کی زیادہ تعداد رہائش پذیر ہے، پان کی پیکوں کے نقش و نگار سے پتا چلا کہ یہاں ’’ہمارے پاکستانی‘‘ مقیم ہیں۔
سفید یونیفارم پہنے ایک بچی بڑی تیزی سے پبلک وین سے اتر کر فٹ پاتھ پر آئی (شاید کالج پہنچنے کی اسے جلدی تھی) لیکن ایک مہربان بھائی نے گاڑی کی کھڑی سے اس زور سے تھوکا کہ اس بچی کے سفید یونیفارم کو داغ دار کردیا اور صاحب بہادر بڑی تیزی سے گاڑی کو بھگاتے یہ جا وہ جا ہوگئے۔ اس بچی کی بے بسی اور اس کی آنکھوں میں آئے ہوئے آنسو دیکھ کر احساس ہورہا تھا کہ وہ بے چاری اُس وقت کس کرب سے گزر رہی تھی۔
اس قسم کے واقعات اکثر ہماری آنکھوں کے سامنے سے گزرتے رہتے ہیں اور ہم اس کے عادی ہوگئے ہیں۔ لیکن جو اس کا شکار ہوجائے اسے ہی اس بداخلاقی کا احساس ہوتا ہے۔
***
یہ واقعہ تو مجھے بھولتا ہی نہیں جس کا شکار کوئی ایک بندہ نہیں بلکہ کئی ہوئے۔
میں اسکول وین کا انتظار کررہی تھی، دیر ہوگئی تو موبائل پر وین ڈرائیور سے رابطہ کیا، اُس نے معذرت کی کہ میڈم وین خراب ہوگئی ہے، ابھی تو آپ اسکول پہنچ جائیں واپسی میں آپ کو لے لوں گا۔ لہٰذا چاروں طرف نظر دوڑائی، رکشہ نظر نہ آیا تو میں روڈ کی طرف پیدل چل پڑی۔ ابھی اپنے اپارٹمنٹ کے احاطے سے نکل کر دوسرے اپارٹمنٹ کے پاس سے گزر رہی تھی کہ اوپر بالکونی سے ایک ڈائپر گندگی سے بھرا ہوا بیچ سڑک پر آکر گرا، اور گرتے ہی کھل گیا، اور اس کی گندگی چاروں طرف پھیل گئی۔ آس پاس گزرنے والے ساتھ آٹھ بندے جن میں کچھ اسکول کے طالب علم اور آفس جانے والے بندے بھی تھے، سب شکار ہوگئے، یعنی ان کے کپڑوں پر گندگی کی چھینٹیں پڑیں۔ میں زیادہ قریب نہ تھی اس کے باوجود میرے جوتے اور ٹاوزر گندے ہوگئے۔ باقی لوگ تو زور زور سے چیخنے چلاّنے لگے، میں شرمندگی کے مارے اپنے جوتوں اور کپڑوں کو دیکھتی پلٹی گھر کی طرف، فوراً باتھ لے کر کپڑے بدلے اور بیٹے سے کہا کہ جلدی گاڑی نکالیں۔ کیونکہ بچوں کا پیپر (امتحان) تھا، میرا جانا بھی ضروری تھا۔ باقی متاثرہ لوگوں کے ساتھ کیا ہوا، مجھے نہیں معلوم، لیکن اتنا ضرور جانتی ہوں کہ اس ایک کی غلط حرکت سے کتنے لوگ متاثر ہوئے اور انہیں پریشانی اور تکلیف کا سامنا کرنا پڑا ہوگا۔
ہماری یہ چھوٹی چھوٹی بداخلاق عادات دوسروں کے لیے اذیت کا باعث بنتی ہیں۔ عوامی مراکز پر گندگی کے ڈھیر کے ساتھ ساتھ ایک اور چیز جس سے سب کا ہی واسطہ پڑا ہوگا، غلط پارکنگ کرنا ہے۔ میں ایسے موقعوں پر بچوں کا سر کھا جاتی ہوں کہ گاڑی کو صحیح جگہ اور صحیح طریقے سے پارک کریں تاکہ دوسروں کو تکلیف کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ لیکن اکثر لوگ اس چیز کو اہمیت نہیں دیتے۔ یہاں میں ایک بچی کا بتایا ہوا واقعہ شیئر کروں گی، گرچہ پڑھنے میں آپ لوگوں کو معمولی نوعیت کا لگے گا لیکن اس بچی اور اس کے شوہر کو کس اذیت سے گزرنا پڑا، اُسی کی زبانی سنیے۔ واقعہ کچھ اس طرح ہے:
’’امی کے یہاں دعوت تھی، شوہر کی ایمرجنسی ڈیوٹی لگ گئی، اسے ہر صورت میں ایئرپورٹ رات کو 12 بجے پہنچنا تھا۔ ہم نے یہی طے کیا کہ ڈنر کے فوراً بعد نکل آئیں گے تاکہ شوہر وقت پر اپنی ڈیوٹی کے لیے پہنچے۔ لہٰذا والدہ کے اپارٹمنٹ سے باہر ایک مناسب جگہ دیکھ کر گاڑی پارک کی۔ دعوت میں ابھی مہمان بیٹھے ہی تھے کہ ہم دونوں نے معذرت چاہی اور اجازت لے کر باہر نکلے۔ ہماری گاڑی کے آگے ایک صاحب نے اس طرح گاڑی کھڑی کی تھی کہ کسی صورت بھی گاڑی کا نکالنا ناممکن تھا۔ آس پاس سب سے پوچھا کہ کس نے یہ غلط پارکنگ کی ہے، آکر گاڑی ہٹائیں، لیکن گاڑی کا مالک نہ ملا۔ میرے بچے کے دودھ پینے کا ٹائم ہوگیا، وہ بھی رونے لگا۔ آخر مجبور ہوکر میں امی کے گھر واپس آئی اور تمام ماجرا بتایا۔ والد اور بھائی بھی میرے شوہر کی مدد کے لیے آگئے۔ آدھے گھنٹے کے بعد مسئلہ حل ہوا کہ کسی نے کہا کہ ہوسکتا ہے سامنے شادی ہال میں آئے ہوئے کسی مہمان کی گاڑی ہو۔ لہٰذا بھائی گئے، شادی ہال میں اعلان کروایا تب وہ صاحب بڑی لاپروائی سے آئے اور گاڑی کو وہاں سے ہٹایا، اور راستہ صاف ہوا۔ تقریباً 45/40 منٹ اس ساری کوشش میں صرف ہوگئے اور اس کے بعد ہم نے تیزی سے گاڑی گھر کی طرف بھگائی۔ میں شوہر کو بار بار کہتی کہ گاڑی آہستہ چلائیں۔ خیر گھر پہنچے، انہوں نے جلدی سے اپنا اٹیچی کیس پکڑا اور ایئرپورٹ روانہ ہوگئے۔‘‘
***
ابھی کل ہی کی بات ہے کہ شاپنگ مال میں باہر والی ہی دکان سے مجھے کوئی ضروری شے خریدنی پڑی۔ بچے سے کہا کہ آپ کہیں مناسب جگہ دیکھ کر گاڑی روکیں میں دس پندرہ منٹ میں آرہی ہوں۔ واپس آئی تو سروس روڈ بلاک تھا۔ بیٹے نے بتایا کہ کسی نے ترچھی کرکے گاڑی کھڑی کی ہے اس لیے سارا راستہ بند ہوگیا ہے، پندرہ منٹ سے لوگ پریشان اور چیخ چلاّ رہے ہیں۔ سروس روڈ ویسے ہی کم چوڑا ہوتا ہے، ایک گاڑی کا نکلنا بھی مشکل ہوتا ہے۔ خیر جی 20/15 منٹ کے بعد موصوف وارد ہوئے اور گاڑی کو نکالا اور راستہ کھل گیا۔ یہ چیز تو مجھے ہر جگہ نظر آتی ہے۔
مجھے اکثر بچوں کے پاس قطر جانا ہوتا ہے۔ وہاں ٹریفک کے قوانین کی پاسداری میں ہر بندہ شامل ہوتا ہے۔ بے جا ہارن بجانا، غلط پارکنگ کرنا یا گاڑی کی اسپیڈ بڑھانا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح صفائی ستھرائی کے لیے بھی ہر بندہ اپنے فرائض سے واقف ہے اور عمل بھی کرتا نظر آتا ہے۔ ایک مرتبہ اس منظر کو دیکھ کر حیرانی کے ساتھ خوشی بھی محسوس ہوئی۔ تیز بارش کے دوران ساحلِ سمندر (کارنش) پر عملے کے کارکن وائپر سے پانی صاف کررہے تھے، میں نے بیٹے سے کہا: کیا فائدہ، بارش کا پانی تو مسلسل گر رہا (برس رہا ہے) ہے۔ بیٹے نے کہا: امی یہاں یہی کوشش ہوتی ہے کہ پانی نہ ٹھیرے تاکہ تفریح کرنے والوں کے لطف میں خلل نہ پڑے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ عملہ ڈیوٹی پر ہے، کام کرنے کے لیے انہیں کوئی بہانہ اور عذر نہیں چاہے، وہ ہر حالت میں اپنی ڈیوٹی انجام دیتے رہتے ہیں۔
ایک اور چیز جو میں نے دیکھی، ہر بندہ صبح اپارٹمنٹ سے نکلتے ہوئے گھر کے کچرے دان میں سے کچرا بھرا تھیلا لے کر نکلتا اور گھر کے باہر بڑے ٹرنک (سرکاری) میں ڈالتا، چاہے وہ ایک مزدور ہو یا کسی بڑے عہدے پر فائز بندہ۔ فرحت (بیٹا) بھی یاد سے کچرے کے دو شاپر لے کر گھر سے نکلتا۔ شاید پاکستان میں وہ بھی اس بات کو معیوب سمجھتا، لیکن وہاں پر بندہ اپنے فرض سے نہ صرف واقف ہے بلکہ اسے ادا کرنے میں کوئی عار بھی محسوس نہیں کرتا۔ مذہب اسلام ضابطۂ حیات ہے، معاشرتی زندگی کے ہر پہلو کو واضح کرتا ہے اور ایسی اخلاقی ذمہ داریوں کی تعلیم دیتا ہے جہاں اپنے سے زیادہ دوسروں کی بھلائی اور فائدے کو ترجیح دی گئی ہے۔
اسلام میں طہارت، نظافت، صفائی ستھرائی اور پاکیزگی کو اہمیت دی گئی۔ رب العزت اپنے صاف اور پاک بندوں کو دوست رکھتا ہے۔
حدیث مبارکہ ہے کہ ’’صفائی نصف ایمان ہے‘‘۔ اس سے پاکیزگی اور طہارت کی اہمیت واضح ہے۔ نہ صرف اپنے جسم و لباس کی پاکیزگی، بلکہ اپنے آس پاس کی پاکیزگی اور صفائی کی بھی تاکید فرمائی گئی ہے۔
طبرانی کی حدیث مبارکہ ہے کہ مسلمانوں کے راستوں پر غلاظت ڈالنے والے پر خدا کی، فرشتوں کی ، اور سب مسلمانوں کی لعنت ہے۔ راستوں میں گندگی ڈالنے سے آپؐ نے منع فرمایا ہے۔ صفائی اور ماحول کو صاف ستھرا رکھنے کی تعلیم ہمارے دین نے ہمیں دی ہے اور اس کا مظاہرہ ہم یورپ کے ممالک میں دیکھتے ہیں۔ صاف ستھری سڑکیں، منظم ٹریفک، کہیں کوئی کچرا پھیلاتے یا تھوکتے ہوئے نظر نہیں آتا۔ لیکن ہمارے یہاں افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ مسجد میں آنے والے نمازیوں میں سے بعض میں بدبو آتی ہے۔ جبکہ آپؐ کا فرمان ہے: جو لہسن اور پیاز کھائے وہ ہماری مسجد میں نہ آئے تاکہ فرشتوں اور دوسرے نمازیوں کو تکلیف نہ ہو۔ (طبرانی)
دینِ اسلام نے راستوں سے تکلیف دہ چیزوں کو ہٹانے پر بھی اجر و انعام سے نوازا ہے تاکہ دوسروں کو تکلیف نہ پہنچے۔ درخت لگانے کو صدقۂ جاریہ کہا ہے تاکہ آنے والے وقت میں لوگ اس سے استفادہ کریں۔ آپؐ کے اسوۂ حسنہ سے ہر قسم کی اخلاقی خوبی، صفائی ستھرائی، رحم دلی، حقوق العباد کی پیروی، عبادت واضح ہے۔ آپؐ نے نہ صرف امتِ مسلمہ کو اس کی تعلیم دی بلکہ ہر چیز پر عمل کرکے ہم پر اس کے فوائد اور مقاصد واضح کیے، فلاح و بہبود کے راز بھی آشکارا کیے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم خود بھی اس پر عمل کریں اور دوسروں کو بھی تاکید کریں۔ اس سلسلے میں والدین اور اساتذہ کرام کی بڑی ذمہ داری ہے کہ نئی نسل کی تربیت اس نظریے پر استوار کریں کہ دوسروں کی بھلائی کو مقدم رکھا جائے۔ یہ عوامی مقامات اور مراکز کسی ایک کی میراث نہیں، ہم سب کی آسائش، آرام، فلاح کے لیے ہیں۔ اس لیے ہم سب کی اجتماعی کاوش ہونی چاہیے کہ ان مراکز و مقامات کو دوسروں کے لیے تکلیف دہ نہیں بلکہ آرام دہ رکھنے کے لیے اپنی اپنی ذمہ داریاں انجام دیں۔
nn