جاسوس انتہائی مسرت کے ساتھ موٹر سائیکل یونیورسل اسکیچ کی طرف دوڑا رہا تھا۔ اس کی رفتار انتہائی تیز تھی۔ ساتھ ساتھ جاسوس کی نظریں پیکٹ پر بھی پڑرہی تھیں، اسے شک تھا کہ یہ کہیں گر نہ جائے۔ چند ہی گھنٹوں میں وہ اپنی موٹر سائیکل دوڑاتا ہوا یونیورسل اسکیچ پہنچ گیا۔
جوں ہی رشید کو اطلاع ملی کہ جاسوس اپنے مشن میں کامیاب ہوگیا ہے اور چابیاں مل گئی ہیں، تو وہ خوشی سے جھوم اُٹھا۔
اس نے فوراً سے پیش تر پروفیسر خورشید کو یہ اطلاع دی۔ محافظ بھی اطلاع ملتے ہی ایک جگہ اکٹھے ہوگئے۔ سعید بھی وہیں آگیا۔
رشید بولا: ’’اب ہمیں جلد از جلد وہ فائل لاکر سے نکال کر کسی محفوظ مقام پر رکھ دینی چاہیے‘‘۔
پروفیسر خورشید نے کہا: ’’میرے خیال میں ایسا نہیں کرنا چاہیے‘‘۔
’’وہ کیوں؟‘‘ رشید نے ماتھے پر بل ڈال کر پوچھا۔
پروفیسر خورشید بولے: ’’ہوسکتا ہے کہ بلیکس یہیں کہیں چھپے ہوں اور عین اُس وقت جب لاکر کھل چکا ہو، وہ لوگ حملہ کردیں اور فائل اُن کے ہاتھ لگ جائے‘‘۔
جیسے ہی پروفیسر خورشید کہتے کہتے رُکے، سیکورٹی آفیسر نے کہا:
’’رسک تو لینا پڑے گا۔ ویسے بھی ہم لوگ کسی بھی خطرے سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں‘‘۔
رشید نے کہا: ’’لیکن صرف اتنا اطمینان کرلینا کافی نہیں‘‘۔
’’وہ کیوں؟‘‘ محافظوں کے کیپٹن نے پوچھا، جو خاصی دیر سے خاموش کھڑا تھا۔
سیکورٹی آفیسر نے بھی پوچھا: ’’کیا آپ کو ہماری کارکردگی پر بھروسا نہیں؟‘‘
اس سے پہلے کہ رشید کوئی جواب دیتا، پروفیسر خورشید سمجھانے والے انداز میں کہنے لگے: ’’بھئی، بلیک 10 بہت چالاک ہیں، ہوشیار ہیں۔ ابھی وہ لوگ آپ کی قید سے بھاگ گئے ہیں اور کچھ پتا نہیں کہ وہ کیا کر بیٹھیں‘‘۔
رشید نے کہا: ’’پھر تو یہ مسئلہ یوں ہی اٹکا رہے گا، کہیں یہ نہ ہو کہ بلیکس اپنا کام دکھاکر چلے جائیں اور ہم ہاتھ ہی مَلتے رہ جائیں‘‘۔
’’پھر آپ ہی بتائیں کہ ایسی صورت میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟‘‘ سیکورٹی آفیسر نے پوچھا۔
رشید نے کہا: ’’وہ فائل سخت نگرانی میں لاکر سے نکال کر محفوظ مقام پر رکھنی ہوگی‘‘۔
محافظوں کا کیپٹن بولا: ’’اللہ کا نام لیجیے اور کام شروع کردیجیے‘‘۔
پھر وہ سب چلتے چلتے اُس کمرے کے قریب پہنچ گئے، جہاں لاکر رکھا تھا۔ کمرے کا دروازہ اسی طرح مقفل تھا، جیسے رشید نے کیا تھا۔
جیسے ہی وہ لوگ وہاں پہنچے، مخالف سمت سے قمرو آتا دکھائی دیا اور اس کے پیچھے پیچھے بلیکس تھے۔
’’رُک جاؤ‘‘۔
’’رُک جاؤ‘‘۔ دونوں طرف سے کہا گیا۔
بلیکس نے بات چیت شروع کی: ’’فائل کہاں ہے؟ ہمیں ہر قیمت پر فائل چاہیے ورنہ۔۔۔‘‘
سیکورٹی آفیسر للکارا: ’’ورنہ کیا؟‘‘
’’ورنہ ہم ہنگامہ کھڑا کردیں گے‘‘۔ بلیکس نے گویا خبردار کرنے والے لہجے میں کہا۔
’’تو ابھی ہنگامہ کم کھڑا ہے کیا؟‘‘ کیپٹن بولا۔
بلیکس نے کہا: ’’تم جانتے نہیں کہ ہنگامہ کیا ہوتا ہے؟‘‘ یہ کہہ کر وہ محافظوں پر پل پڑے اور دونوں ٹیمیں گتھم گتھا ہوگئیں۔ ابھی یہ لڑائی جاری ہی تھی کہ ایک سلنڈر پھٹ گیا اور اس سے کلورین گیس بڑی تیزی کے ساتھ خارج ہونے لگی!!
(باقی آئندہ)