(مہرو کا غرور محمد(عمر احمد خان

364

شہر کے شمال میں ایک بہت خوب صورت باغ تھا، جو رنگا رنگ، دیدہ زیب پھولوں اور طرح طرح کے شوخ رنگوں والی تتلیوں کے حوالے سے مشہور تھا۔ اس باغ میں تتلیوں کے ساتھ ساتھ عجوبۂ روزگار بلّیاں، بُھوری گلہریاں، طرح طرح کی دل کش نقش نگار سے مزین چڑیاں، بہت سارے نرم وملائم خرگوش اور دیگر چھوٹے جانور بھی رہا کرتے۔ ان سارے جانوروں میں بڑا اتحاد تھا اورسب پیار ومحبت سے رہا کرتے۔ اسی باغ کی سب حسین وجمیل تتلی کا نام تھا مہرو۔ اس کے نرم و ملائم نازک پروں پر نہایت دل کش رنگین نقش و نگار بنے ہوئے تھے، جن پر مہرو بہت ناز کرتی تھی، کیوں کہ ایسے خوب صورت نقش ونگار کسی تتلی کے پاس نہ تھے۔ جب مہرو باغ میں داخل ہوتی تو ساری تتلیاں اسے اپنے گھیرے میں لے لیتیں اور باغ کا ہر چرند، پرند اس کے حسن کی مدح سرائی کرنے لگتا۔ اپنی تعریفیں سُن سُن کر وہ خوشی سے نہال ہوجاتی۔ اسے پھولوں کا رس پینا اچھا لگتا تھا۔ جب وہ آتی تو ہر پھول اسے اپنے پاس بلاتا۔ وہ کبھی ایک پھول پر بیٹھتی تو کبھی دوسرے پر، تھوڑا سا رس پیتی، پھر تیسرے چوتھے کی طرف لپک جاتی۔ کسی کو منع نہ کرتی کہ کہیں منع کرنے پر اس کا دل نہ ٹوٹ جائے، لیکن ایک روز جب گیندے کے پھول نے اس کے حسن کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملادیے تو وہ مغرور ہوگئی۔
اب وہ باغ میں آتی تو صرف خوب صورت پھولوں کا رس پیتی۔ کالا گلاب اور سورج مکھی کے پھول نے ایک دن اس سے کہا کہ وہ ان پر توجہ نہیں دے رہی ہے، تو اس نے برا سا منہ بنا کر کہا:
’’ہونہہ، تم لوگوں نے کبھی اپنی شکل دیکھی ہے۔ ایک کالا ہے تو دوسرا سورج جیسا گرم‘‘۔ مہرو کے اس طرح مذاق اُڑانے پر دونوں افسردہ ہوگئے۔ کالا گلاب بولا:
’’مہرو مغرور ہوگئی ہے، کسی دن بہت نقصان اٹھائے گی۔‘‘
اور پھر وہی ہوا، کالے گلاب کی بات دُرست ثابت ہوئی۔ ایک روز مہرو گیندے کی خوشامدانہ باتوں میں ڈوبی ہوئی تھی کہ اسی وقت ایک شریر لڑکی باغ میں داخل ہوئی۔ وہ پہلے تو ایک خوف زدہ گلہری کو پکڑنے درخت پر چڑھی، جب گلہری کو پکڑ نہ پائی تو اچانک اس کی نگاہ خوب صورت مہرو پر پڑی، جو آنکھیں موندے گیندے کی خوشامد بھری باتوں میں محو تھی۔ لڑکی چپکے چپکے آگے بڑھی اور جھٹ سے مہرو کو دبوچ لیا۔ مہرو اس کی بند مٹھی میں بڑی مچلی، بڑی تڑپی، لیکن آزاد نہ ہوسکی۔
’’کتنی پیاری تتلی ہے، میں اسے اپنی ڈرائنگ بک میں چپکا کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے قید کرلوں گی‘‘۔ شریر لڑکی کی یہ بات سن کر مہرو خوف زدہ ہوگئی۔ اسے اپنی موت قریب نظر آنے لگی۔ لڑکی اس سے پہلے کہ اسے باغ سے باہر لے جاتی، پیچھے سے اس کی ممی کی آواز آئی:
’’چھوڑو اسے، کیا جان لوگی اس کی؟‘‘
یہ کہتے ہوئے ممی نے لڑکی کی بند مٹھی اپنے ہاتھوں سے کھول دی۔ مٹھی کھلتے ہوئے مہرو نے اُڑان بھری، مگر کچھ دور اُڑ کر پھولوں پر گرگئی اور لمبے لمبے سانس کھینچنے لگی۔ اس کی جان بچ گئی تھی، مگر اس کا دم گھٹ رہا تھا۔ جن رنگوں اور خوب صورت نقش و نگار پر اسے ناز تھا، وہ سب دل فریب رنگ شریر لڑکی کی مٹھی میں رہ گئے تھے اور اب رنگ برنگ پھولوں کے درمیان بغیر رنگوں کے مہرو بالکل روکھی پھیکی لگ رہی تھی!!
nn

حصہ