ایک دفعہ چین کے سابق صدر سے ایک صحافی نے انگریزی زبان میں خطاب نہ کر نے کے حوالے سے سوال کیا تو چائنا کے صدر نے خوب صورت جواب دیا تھا کہ چین گونگا نہیں ہے۔ بیش تر مما لک کے سربراہان کسی بین الاقوامی سیشن یا دیگر ممالک کے دورے پر اپنی قومی زبان ہی میں تقریر کرتے ہیں اور اگر کو ئی اپنی زبان کے علاوہ مثلاً انگریزی زبان میں تقریر کرے تو اس ملک کے عوام میں اس عمل کو بُرا مانا جاتا ہے۔ کچھ اسی طرح گز شتہ دنوں فرانسیسی صدارتی امیداور ایمانوئل میکرون نے برلن میں انگریزی زبان میں تقریر کی تو صدارتی امیداور اُس وقت سے تنقید کی زد میں ہیں اور کہا جارہا ہے کہ ایمانوئل نے فرانسیسی زبان کی تو ہین کی ہے اور وہ اپنی قومی زبان پر یقین نہیں رکھتے بلکہ اپنی زبان کی عزّت نہیں کر تے، اسی لیے ان کے مخالفین کہہ رہے ہیں کہ جو اپنی زبان سے محبت نہیں رکھتا، وہ فرد کیسے اپنے ملک اور قوم سے محبت کرے گا، ایسا فرد کسی طور بھی منصب صدارت کا اہل نہیں ہو سکتا۔
ایک طرف تو انگریزی زبان میں تقریر کرنے پر زبان ملک اور قوم کی توہین کی بات کی جا رہی ہے تو دوسری طرف ہمارا ملک ہے، جہاں انگریزی زبان میں بات کرنا فخر کی علامت سمجھا جاتا ہے بلکہ سرکاری زبان بھی انگریزی ہے اور تمام خط و کتابت اور دفتری معاملات انگریزی زبان ہی میں انجام پاتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ غیر ملکی زبان بو لنے میں نہ صرف فخر محسوس کرتی ہے بلکہ اُردو زبان کے نفاذ میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی انگریز کی غلام اسٹیبلیشمنٹ ہے۔ عدا لت عظمیٰ نے سر کاری دفاتر میں اُردو کو نا فذ کر نے کا حکم تو دے دیا ہے، لیکن اردو کو جن لو گوں نے نا فذ کرنا ہے، وہی لوگ اردو کے نفاذ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں، اسی لیے پاکستان میں کہا جاتا ہے کہ ہم نے ’’گورے انگریز‘‘ سے تو آزادی حاصل کرلی، لیکن یہ قوم اب تک ’’کالے انگریز‘‘ سے آزادی حا صل نہیں کر سکی ہے۔ دوسروں کی زبان کو سینے سے لگائے رکھنے ہی کی وجہ سے پاکستان اب تک ترقی پذیر ممالک میں شامل ہے، جب کہ ہمارے بعد آزاد ہو نے والے ممالک ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان ممالک نے اپنی زبان کو اہمیت دی اور ملک کے تعلیمی نظام سے لے کر سرکاری سطح تک تمام امور قومی زبان ہی میں انجام دیے، جس کی وجہ سے جہاں طبقاتی نظام تعلیم کا خا تمہ ہوا، وہیں پر تعلیم کا حصول بھی آسان ہوا، البتہ ہائر ایجو کیشن کے بعد جو بھی غیر ملکی زبان سیکھنا چاہے، سیکھ سکتا ہے، لیکن زبان نصاب کا حصہ نہیں ہوتی، لیکن پاکستان میں پہلی کلاس ہی سے انگریزی زبان نصاب کا حصہ ہوتی ہے اور یہ انگریزی زبان آخر وقت تک ہمارے طلبا کا پیچھا نہیں چھوڑتی، کیو ں کہ انگریزی زبان ہمارے پاس ترقی کا زینہ سمجھی جاتی ہے اور جسے انگریزی نہیں آتی، پڑھا لکھا مانا نہیں جاتا بلکہ انگریزی زبان کو کام یابی کی سیڑھی تصور کیا جاتا ہے۔ گزشتہ ہفتے سندھ یو نیورسٹی کے وائس چا نسلر نے ایک کتاب کی تقریب رونمائی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انگریزی زبان میں مہارت کے بغیر علمی و عملی کام یابی کا تصور بھی ناممکن ہے۔ اب پروفیسر صاحب سے کون پوچھے کہ جہاں انگریزی نہیں بولی جاتی، ان ممالک نے علمی اور عملی میدان میں کیسے ترقی کرلی۔ اصل میں ہمارے دل ودماغ میں ترقی کا تصور انگریزی زبان ہی کا بیٹھ گیا ہے۔ فرنگی زبان ہمارے ذہنوں میں اس قدر نقش ہوگئی ہے کہ اس زبان میں بات کیے بغیر کوئی میٹنگ کام یاب نہیں مانی جاتی۔ کئی بار یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ملکی اہم مسائل اور موضوعات پر مختلف سیمینار میں جانا ہو تو جتنے بھی اسپیکرز بلائے جاتے ہیں، ان کی اکثریت انگریزی زبان ہی میں گفتگو کرتی ہے، جب کہ حاضرین مجلس کی اکثریت ان کی گفتگو کو سمجھ ہی نہیں پاتی کہ موصوف نے کیا کہا، جب کہ ایک سروے کے مطابق پاکستان میں 11 فی صد لوگ انگریزی زبان بول اور لکھ سکتے ہیں۔
انگریزی زبان بولنے کا نشہ ایسا ہے کہ جو لوگ اُردو کو سرکاری زبان بنانے کا قانون پاس کرسکتے ہیں، وہ بھی اُردو سے نالاں نظر آتے ہیں۔ سینٹ اور قومی اسمبلی میں کچھ ارکان انگریزی میں تقریر کرتے ہیں، جو کہ ملک اور قوم کے فائدے کے لیے زیر بحث کسی مسئلہ یا بل پر بات کر رہے ہو تے ہیں۔ اسمبلی کے اندر جہاں سارے پاکستانی ہو تے ہیں، وہاں غیر ملکی زبان استعمال کر کے یہ ارکان اسمبلی عوام کو نہیں بلکہ اپنے آقاؤں کو بتا رہے ہو تے ہیں کہ ہم تمہارے غلام ابن غلام ہیں اور ہماری وجہ سے ہی تمہارا قانون اس ملک میں اب تک رائج ہے بلکہ بعض سیاست دان تو سیاست سے ریٹائر منٹ کے بعد بھی اپنے تجربات اور سیاسی زندگی کے حوالے سے کوئی کتاب لکھتے ہیں تو وہ بھی انگریزی میں اور اکثر سیاست دان اپنی کتابوں کی تقریب رونمائی لندن یا کسی اور بیرونِ ملک کراتے ہیں کہ ان کی کتاب بھی اسی ملک کے کسی پریس سے شائع ہوئی ہوتی ہے۔ ان سیاست دانوں کو علم ہوتا ہے کہ پاکستان میں شرح خواندگی ( لٹریسی ریٹ ) قریباً 56 فی صد ہے، اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں، جو اپنا نام لکھ اور پڑھ سکتے ہیں۔ یقیناًیہ کتاب دو فی صد اشرافیہ ہی کے لیے لکھی جاتی ہے پھر بعد میں یہی کتاب اُردوتر جمہ کرکے شائع کی جاتی ہے۔
انگریزی بو لنے میں فخر محسوس کرنے والے ہی اصل میں احساس کم تری کے مارے ہوئے ہیں، کیو ں کہ وہ اُردو بو لنے والے کو کم تر اور انگریزی بو لنے والے کو با صلاحیت فردسمجھتے ہیں، اسی لیے ہمارے ملک میں صلاحیت اور مقا بلے کا امتحان بھی انگریزی زبان ہی میں لیاجاتا ہے، شاید اسی لیے کہ افسر شاہی کے لوگ انگریزی ہی میں بات کرتے ہیں اور جس کو انگریزی نہیں آتی، اُسے رعب میں لینے کی کوشش کرتے ہیں۔
مارشل لا کے دور میں ایک دفعہ کسی کام کے سلسلے میں سیّد ذاکر علی مرحوم، جن کی جسارت اخبار کے لیے بڑی خدمات ہیں، کسی سرکاری افسر کے پاس گئے جو فوج سے ریٹائرڈ تھے۔ افسرصاحب نے پہلے تو ملنے سے انکار کیا پھر نہ جا نے کیوں بلالیا، شاید یہ دیکھ کر کہ چند مولوی قسم کے لوگ ملنے آئے ہیں، انہیں انگریزی زبان کی مار سے زیر کرلوں گا اور یہ مجھ سے گفتگو نہیں کر سکیں گے۔ بہرحال، ذاکر صاحب کی قیادت میں جا نے والے وفد نے افسر کے سا منے اُردو میں بات کرتے ہوئے مسئلہ رکھا، جس پر افسر مستقل انگریزی میں بات کرتے رہے اور ذاکر صاحب اُردو میں جواب دیتے رہے، لیکن ایک تو سرکاری افسر اور وہ بھی فوجی، جن کی اکڑ ہی نہیں جارہی تھی، مستقل انگریزی میں بات کرتے رہے تو ذاکر علی مرحوم نے جب انگریزی بو لنا شروع کی تو بتا نے والے بتاتے ہیں کہ افسر صاحب پھر اُردو بول رہے تھے اور ذاکر علی مرحوم کمرے سے نکلنے اور رخصت ہو نے تک افسر کے ساتھ مسلسل انگریزی میں بات کررہے تھے۔
کسی کو اپنے سے کم تر سمجھنا ہمارے ہی ملک میں رائج ہے، لیکن دیگر ممالک اپنی زبان اور ثقافت سے پیار ہی کے نتیجے میں ترقی کر رہے ہیں اور انگریزی زبان کو وقت ضرورت رابطے کے لیے ہی استعمال کرتے ہیں۔ مستنصر حسین تارڑ اپنے ایک سفرنامے میں لکھتے ہیں کہ جب وہ فرانس گئے تو ایفل ٹاور کا پتا پو چھنے کے لیے سڑک کے کنارے کھڑے ایک فرانسیسی سے انگریزی میں ’’ایفل ٹاور کہاں ہے؟‘‘ پوچھا تو اس فرد نے کو ئی جواب نہیں دیا۔ تارڑ صاحب لکھتے ہیں کہ میں نے خیال کیا کہ شاید اسے انگریزی نہیں آتی اور آگے بڑھنے لگا تو پیچھے سے اُسی فرد نے انگریزی میں مجھے پتا سمجھایا تو میں نے کہا پہلے آپ نے کیوں نہیں بتایا؟ اُس پر فرانسیسی کا کہنا ہے تھا کہ’’تم جانتے ہو، ہمارے ملک میں فرانسیسی بولی جاتی ہے، ہم انگریزی زبان نہیں بولتے، تم غیرملکی ہو، اس لیے پتا بتادیا، جب تم انگریزی سیکھ سکتے ہو تو فرانسیسی بھی سیکھ سکتے ہو۔‘‘
مشہور ہے کہ فرانسیسی انگریزی زبان سے اس قدر نفرت کرتے ہیں کہ تھوڑی سی بھی انگریزی بولنے اور ایک جملہ لکھنے پر بھی وہاں کے لوگ ناراض ہو جاتے ہیں، خاص طور پر اپنے حکمرانوں کے انگریزی بولنے اور لکھنے پر۔ امریکی صدر اوباما جب دوسری بار صدر منتخب ہو ئے تو فرانس کے صدر فرانسوا اولاند نے مبارک باد کا خط لکھا اور خط کے آخر میں فرینڈلی لکھ کر اپنا نام لکھا تو اس ایک جملے پر بھی فرانس کے صدر کوہدف تنقید بنایا گیا اور مذاق اُڑایا گیا۔ کہاں ایک جملے پر اپنے صدر کا مذاق بنانا کہ دوسروں کی زبان کیوں استعمال کی اور کہاں ہمارے ملک میں پورا نصاب تعلیم ہی انگریزی زبان میں ہوتا ہے اور غیر ملکی دوروں پر صدر اور وزیر اعظم انگریزی زبان میں تقریر کر نے پر فخر کرتے ہیں۔ اگر کسی رکن اسمبلی کو انگریزی نہیں آتی توہمارے ملک میں اس فرد کا مذاق اُڑایا جاتا ہے، جیسے سندھ اسمبلی میں ایک رکن وزیر نے انگریزی میں کچھ پڑھنے کی کو شش کی تو موصوف اٹکنے لگے، جس پر ایک خاتون ممبراسمبلی نے وزیر کا مذاق بنا ڈالا تو جوابی حملے میں اسمبلی میں ہنگا مہ کھڑا ہوگیا۔ بعد میں وزیر موصوف نے خاتون ممبر اسمبلی کو چادر اُڑھا کر بہن بنالیا۔ یہ واقعہ اس بات کی علامت ہے کہ انگریزی آئے یا نہ آئے، لیکن اپنا رعب ڈا لنے کے لئے ٹوٹی پھوٹی ہی کیوں نہ ہو انگریزی بولنا فخر سمجھا جاتا ہے۔ اگر ہماری اسمبلی کے ممبران یہ طے کرلیں کہ ایوان کی کارروائی صرف اور صرف اُردو زبان ہی میں کی جائے گی تو یہ ہمارے لیے فخر کی بات ہوگی، جیسا کہ دنیا کے تمام رہنما کرتے ہیں، حالاں کہ ان سب رہنماؤں کو انگریزی آتی ہے۔
اپنے ملک اور زبان کی حفاظت بھی سرحدوں کی حفاظت کی طرح ہے اور ایسے سربراہان مملکت اپنے ملک کی نمائندگی کے ساتھ اپنی ثقافت اور زبان کا استعمال کرکے یہ پیغام دیتے ہیں کہ وہ اپنا ملک، اپنی زبان اور اپنی ثقافت رکھتے ہیں۔۔۔لیکن کیا کریں ہمارے ملک میں انگریزی کا استعمال اس قدر بڑھ گیا ہے کہ اب تو جن کو انگریزی بھی نہیں آتی، وہ اپنے شادی کارڈ بھی انگریزی میں چھپواتے ہیں اور اگر کسی کے پاس سے اُردو میں شادی کارڈ آجائے تو مذاق بن جاتا ہے۔ ہمارے ایک دوست بلاول زردای کے انگریزی لب و لہجے میں اُردوزبان میں تقریر کرنے پر بلاول زرداری کا مذاق اُڑا رہے تھے تو ہم نے کہا کہ یہ بات دُرست ہے کہ بلاول کو اردو ٹھیک طرح نہیں آتی، لیکن یہ خوش آئند بات ہے کہ قومی بو لنے کی کو شش تو کرتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ بلاول اُردو پڑھ اور لکھ نہیں سکتے، کیوں یہ اس ملک کا المیہ ہے کہ ایسے ہزاروں گھرانے ہیں، جہاں صرف انگریزی بولی جاتی ہے اور بعض اسکولوں میں بھی انگریزی ہی میں بات چیت کی جاتی ہے اور اردو بو لنے پر جر مانہ کیا جاتا ہے، ان کے ذہنوں میں یہ بیٹھ گیا ہے یا بٹھایا گیا ہے کہ انگریزی زبان ہی ترقی کی ضامن ہے، لیکن یہ لوگ جو انگریزی سے پیار کرتے ہیں کیا نہیں جانتے کہ اس دنیا میں بے شمار ممالک ایسے ہیں، جنہوں نے انگریزی نہیں بلکہ اپنی زبان ہی میں ترقی کی منازل طے کی ہیں۔ جاپان، چین ، جر منی، فران، ایشیا اور یورپ کے بے شمار ممالک نے اپنی زبان ہی کو فوقیت دی اور آج وہ اقوام عالم کے اندر معاشی، تعلیمی و تمدنی بلکہ ہر لحاظ سے سب سے اگلی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں۔
پاکستان میں ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ اپنی قومی زبان کا استحصال ہے۔ کینیڈامیں مقیم ہمارے ایک دوست نے بتا یا کہ وہاں تیسرے نمبر بولی جانے والی زبان اُردو ہے، حالانکہ اردو بو لنے والے تمام لوگوں کو انگریزی آتی ہے، مگر اپنی زبان کو زندہ رکھا ہوا ہے اور دیارِ غیر میں اردو ایک منفرد مقام اور درجہ رکھتی ہے۔ اگر ہمیں اقوام عالم میں اپنا منفرد مقام بنانا ہے تو قومی زبان اُردو کو ہر سطح پر نافذ کرنا ہوگا۔ اس حوالے سے چین ہی سے سبق حاصل کریں، جِسے ہم اپنا بہترین دوست بھی کہتے ہیں اور اس کی دوستی کی مثالیں بھی دیتے ہیں‘ چین کی تیز رفتار ترقی کا راز اس کی اپنی زبان ہی میں ہے۔ اُمید ہے کہ پاکستان بھی آئندہ اپنی قومی زبان کو اپناکر ترقی کی طرف بڑھے گا۔ اگر ایسا ہوگیا تو میرا یقین ہے کہ پاکستان تیزی سے ترقی کرے گا۔ اگر انگریز اور انگریزی زبان کی غلامی سے چھٹکارا حاصل نہیں کیا تو 70 برس میں بھی ہم جہاں پہنچے ہیں شاید آئندہ بھی اتنے ہی برسوں میں اسی مقام پر کھڑے ہوں گے کہ غلاموں کی دنیا میں کو ئی عزت نہیں ہوتی۔ غلام‘ غلام ہی ہوتا ہے، چاہے کتنے ہی خوش و خرم زندگی گزار رہا ہو۔۔۔ اسی لیے شاعر نے کہا تھا:
ہم لوگ ابھی آزاد نہیں، ذہنوں کی غلامی باقی ہے
چہروں کی چمک اک دھوکا ہے کو ئی بھی جوانی شاد نہیں
ہم لوگ ابھی آزاد نہیں، ہم لوگ ابھی آزاد نہیں۔۔۔