138الق کائنات کی طرف سے اپنے آخری نبی حضرت محمد ؐ پر نازل کی گئی آخری الہامی کتاب قرآن حکیم، فرقان حمید کا مطالعہ کریں تو اس میں بتکرار اقوام سابق کے قصے بیان کئے گئے ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ ان میں سے ہر قوم کسی نہ کسی معاشرتی برائی میں مبتلا تھی جس کی اصلاح کے لیے اس قوم میں نبی بھیجے گئے جنہوں نے انہیں سمجھانے، بجھانے اور برائی سے باز رکھنے کی پوری کوشش کی مگر جب یہ قوم باز نہ آئی تو ان پر اللہ تعالیٰ کا عذاب آیا جس نے اس قوم کو صفحۂ ہستی سے حرف غلط کی طرح مٹا دیا اور ان کے آثار و قصص بعد میں آنے والوں کے لیے نشان عبرت بنا دیئے گئے۔۔۔ قرآن کا مطالعہ ہمیں بتایا ہے کہ ان میں سے ہر قوم میں عموماً شرک اور کوئی ایک معاشرتی برائی پائی جاتی تھی جس کو ترک نہ کرنے کے جرم میں انہیں عبرتناک انجام سے دو چار ہونا پڑا۔۔۔ لیکن آج ہم اگر امت مسلمہ خصوصاً پاکستانی قوم کا جائزہ لیں تو اس نتیجے تک پہنچنے میں دیر نہیں لگتی کہ جو معاشرتی برائیاں ماضی کی اقوام میں ایک ایک کر کے پائی جاتی تھیں، ہماری قوم میں وہ سب کی سب مجموعی طور پر موجود ہیں،رشوت، سفارش، اخلاقی گراوٹ، ملاوٹ، کم تولنا، جھوٹ بولنا، نقالی اور جعلسازی وغیرہ وغیرہ کون سی خرابی ہے جو ہمارے معاشرے کے رگ و پے میں سرایت نہیں کر چکی ہے۔۔۔ اصلاح کی کوششیں بھی جاری ہیں اور رب کائنات بھی کائنات میں مختلف نوعیت کی زمینی و آسمانی آفات کے نزول کے ذایقے میں جھنجھوڑتا رہتا ہے مگر ہم ہیں کہ ٹس سے مس ہونے پر تیار نہیں، ہر کوئی جلال و حرام کی تمیز کئے بغیر جائز و ناجائز طریقوں سے دولت جمع کرنے میں مگن ہے۔۔۔ اسلام کے نام پر وجود میں آنے والی اس مملکت خداداد میں کھلے بندوں اسلامی احکام کی خلاف ورزی کی جاتی ہے کسی کو آخرت میں جوابدہی کا احساس ہے نہ ہی ملکی قانون کا خوف۔۔۔ بقول شاعر
وائے ناکامی متاع کاررواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
کسے نہیں معلوم کہ مخیر صادق، ہادئ برحق نے رشوت لینے اور دینے والے دونوں کے لیے جہنم کی وعید سنائی ہے اور ’’جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں‘‘ فرما کر ملاوٹ کرنے والے سے قطع تعلقی کا اعلان فرمایا ہے، اس طرح ذخیرہ اندوزی، ناجائز منافع خوری، بددیانتی، امانت میں خیانت، جھوٹ اور دیگر معاشرتی برائیوں کے بارے میں آقائے دو جہاں کی تعلیمات کسی سے پوشیدہ نہیں مگر اس کے باوجود یہ تمام خرابیاں بدرجۂ اتم ہمارے مسلمان معاشرے میں موجود ہیں اور تمام تر اصلاحی کوششوں کے باوجود ہم بحیثیت قوم ان سے چھٹکارا پانا تو دور کی بات ہے، اس بارے میں فکر مند بھی نہیں درد دل رکھنے والے بزرگ شاعر، عنایت علی خاں صاحب نے بالکل بجا کیا ہے
حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر
غیر معیاری اور دو، تین سے نجانے کس نمبر تک کی اشیائے ضروریہ سے وطن عزیز کی منڈیاں بھری پڑی ہیں جن کی خرید و فروخت ڈھکے چھپے نہیں کھلے بندوں ہوتی ہے۔۔۔ ایک جانب مہنگائی اور بے روز گاری کے باعث غریب عوام کا جینا دو بھر ہو رہا ہے تو دوسری جانب ناقص، گھٹیا اور زائد المیعاد اشیاء کی فروخت کے ذریعے غریبوں کی جیبوں پر ڈالا جاتا ہے۔۔۔ دودھ اور پانی تک خالص دستیاب نہیں اور ان کے نام پر لوگوں کو زہر پلایا جا رہا ہے۔۔۔ ملاوٹ شدہ اور جعلی اشیائے خورد و نوش کے استعمال سے عوام کی صحت بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔۔۔ نت نئے موذی امراض نہایت تیزی سے شہریوں کو لاحق ہو رہے ہیں اور ہسپتال مریضوں سے بھرے ہوتے ہیں جہاں انہیں مناسب اور سستے علاج کی سہولتیں بھی میسر نہیں اور ظلم کی انتہا یہ ہے کہ انتہائی مہنگے داموں بیچی جانے والی ادویہ بھی نقلی اور جعلی ہوتی ہیں جن سے مریض صحت یاب ہونے کی بجائے کئی دوسرے امراض اور پیچیدگیوں کا شکار ہو جاتے ہیں ابھی گزشتہ دنوں لاہور کے معروف اور قدیم ترین ’میوہسپتال‘ میں امراض قلب وارڈ کے باہر ناقص اور غیر معیاری سٹنٹ سر عام اصل سے کئی گنا قیمت پر ضرورت ہوتے ہوئے پکڑے گئے اور دکھ کی بات یہ بھی ہے کہ دل جیسے نازک عضو کے ساتھ اس کھلواڑ میں ڈاکٹر حضرات بھی ملوث ہائے گئے۔۔۔ جب مسیحا ہی مریض کے قتل کے درپے ہو تو پھر انسان آخر کس پہ بھروسہ کرے۔۔۔!!!
ملک کے سب سے بڑے صوبے کی نمائندہ اسمبلی کے 27 جنوری کے اجلاس کے دوران صرف ایک دن میں چار ارکان اسمبلی کی جانب سے چار تحاریک التوائے کار پیش کی گئیں اور مقام افسوس یہ ہے کہ یہ چاروں تحاریک ملاوٹ، غیر معیاری اور مصر صحت اشیاء کی فروخت سے متعلق تھیں۔ اس سے صورت حال کی سنگینی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے خاتون رکن اسمبلی محترمہ سعدیہ سہیل رانا کی تحریک میں کہا گیا تھا کہ مٹھائی، گولیوں، ٹافیوں، چاکلیٹ میں استعمال ہونے والی اشیاء انسانی صحت کے لیے مضر ترین ہیں۔ مختلف مٹھائیوں، گولیوں، ٹافیوں اور چاکلیٹس کی چیکنگ کرائی گئی تو لیبارٹری رپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ان میں استعمال ہونے والے رنگ فوڈ کلرز کی بجائے کیمیکل کلرز ہیں جو انسانی صحت کے لیے انتہائی مضر ہیں جب کہ اکثر مٹھائیوں میں استعمال ہونے والا کھویا اور دودھ بھی ایسے ہی کیمیکل سے تیار ہوتا ہے اور ان میں جو گھی استعمال ہوتا ہے وہ بھی صحت کے لیے انتہائی مضر ہوتا ہے۔ کیمیکل کلرز کے کھانے سے شہری کینسر، گردے، جگر اور معدہ کے امراض میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کئی اشیاء میں تو شیمپو کیمیکل تک کا استعمال ہو رہا ہے۔ پنجاب کے اندر 65 فیصد یہی سامان استعمال اور فروخت ہو رہا ہے۔ لہٰذا استدعا ہے کہ میری تحریک کو باضابطہ قرار دے کر اس پر ایوان میں بحث کرنے کی اجازت دی جائے۔
قائد حزب اختلاف میاں محمود الرشید نے اپنی تحریک میں اس جانب متوجہ کیا تھا کہ صوبائی دارالحکومت کے پوش علاقے میں موجود نجی یونیورسٹیوں میں ہاسٹل کے ملازمین منشیات ہاسٹلز تک پہنچاتے ہیں جب کہ طالب علم لڑکیاں اپنے ہینڈ بیگ میں منشیات ہاسٹلز میں لاتی ہیں۔ ہاسٹلز میں کچھ لڑکوں کے گروپ بھی منشیات خرید کر آگے فروخت کرتے ہیں۔ یونیورسٹیوں میں جو نشہ ہو رہا ہے ان میں ہیروئن ، چرس، کوکین، کرسٹل ، پاؤڈر اور شیشہ شامل ہے۔ بہت سی نجی یونیورسٹیوں کی انتظامیہ طلبہ کے منشیات استعمال کرنے سے آگاہ ہے لیکن کوئی کارروائی نہیں کرتے۔ عوامی و سماجی حلقوں نے حکومت پنجاب سے مطالبہ کیا ہے کہ جو افراد اس گھناؤنے دھندے میں ملوث ہیں ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ لہٰذا استدعا ہے کہ میری تحریک کو باضابطہ قرار دے کر اس پر ایوان میں بحث کرنے کی اجازت دی جائے۔
احمد خاں بھچر نے اپنی تحریک التوائے کار میں موقف اختیار کیا تھا کہ پنجاب حکومت بھینسوں کو لگائے جانے والے مضر صحت ٹیکے کی روک تھام میں ناکام ہو گئی ہے۔ حکومتی پابندی کے باوجود دودھ کی پیداوار بڑھانے کے لیے گائے اور بھینسوں کو لگائے جانے والے خطرناک انجکشن بوسٹ ان 250 کا استعمال جاری ہے۔ جدید ٹیکنالوجی اور تحقیق کے فقدان سے دودھ کے لیبارٹری ٹیسٹ میں انسانوں اور جانوروں کے لیے انتہائی مضر صحت مذکورہ بالا بار مون کی نشاندہی نہ ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ گزشتہ سال ستمبر میں عدالتی احکامات پر بوسٹ ان 250 بیچنے والوں کے خلاف 350 مقدمات کا اندراج تو ہوا لیکن یہ تعداد انجکشن کے استعمال کی نسبت انتہائی کم ہے۔ حکومتی عدم دلچسپی پر مضر صحت ہارمون کے اس انجکشن کے خلاف کوئی موثر مہم نہیں چلائی جا رہی۔ لہٰذا استدعا ہے کہ میری تحریک کو باضابطہ قرار دے کر اس پر ایوان میں بحث کرنے کی اجازت دی جائے۔
چوتھی تحریک التوائے کار چودھری اشرف علی انصاری کی جانب سے پیش کی گئی تھی جس میں انہوں نے ایوان کو متوجہ کیا تھا کہ محکمہ خوراک پنجاب اور فلور ملز کی ملی بھگت سے صارفین کو غیر معیاری آٹا ملنے لگائے محکمہ خوراک کے افسران غیر معیاری آٹا بنانے والی ملز کے خلاف کارروائی پر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ جب کہ فیصل آباد، لاہور، گوجرانوالہ، شیخوپورہ، ملتان میں محکمہ خوراک کے افسروں کے خلاف انکوائریاں گزشتہ 4 برسوں میں مکمل نہ ہو سکیں۔ پنجاب میں گندم کی ملاوٹ اور اس کی فروخت رک نہ سکی۔ محکمہ خوراک پنجاب کے افسران 100 کلو گندم کی بوری میں 5 سے 7 کلو چھوٹا پتھر، مٹی اور دیگر اشیاء مکس کر کے فلور ملز کو دینے لگے جب کہ فلور ملز نے اس کا بدلہ صارفین سے لینا شروع کر دیا۔ تمام فلور ملز میں اس وقت نکو ٹوٹا چاول مکس کر کے آٹا بنانے ہیں۔ پنجاب میں تقریباً 1045 فلور ملز ہیں جن میں سے 975 کے قریب فلور ملز رجسٹرڈ ہیں۔ پنجاب کے تمام شہروں کو 32 سے 35 لاکھ ٹن گندم کی فروخت ہوتی ہے۔ محکمہ خوراک کے پاس اس وقت 48 لاکھ ٹن گندم موجود ہے۔ 35 لاکھ ٹن گندم کی فروخت ہوتی ہے۔ محکمہ خوراک کے پاس اس وقت 48 لاکھ ٹن گندم موجود ہے۔ 35 لاکھ ٹن گندم صارفین استعمال کرتے ہیں جب کہ 10 لاکھ ٹن سٹریٹجک ریزرو رکھی جاتی ہے۔ محکمہ خوراک پنجاب کی طرف سے اس حوالے سے باقاعدہ سزائیں بھی طے ہیں جس میں ایک لاکھ روپے جرمانہ ایک مہینہ قید کی سزا اور کوٹہ میں کمی ہے۔ فیصل آباد، لاہور، گوجرانوالہ، ملتان میں اس وقت متعدد انکوائریاں زیر التواء ہیں جن کا فیصلہ 4 برسوں سے نہیں ہو گا۔ فلور ملز ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ ہمیں جو گندم ملتی ہے ہم اسی کو ہی آٹے میں تبدیل کرتے ہیں جب کہ شہریوں کی صحت کے حوالے سے ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ پیٹ کی بیماری میں مبتلا جو شہری علاج کے لیے آتے ہیں ان میں زیادہ چیز جو نوٹ کی گئی ہے وہ غیر معیاری آٹا ہی بڑی وجہ ہے۔ محکمہ خوراک پنجاب کے متعلقہ ذمہ دار افسران کی طرف سے سال ہا سال تک جان بوجھ کر انکوائریوں کو التواء میں رکھ کر اور ملاوٹ مافیا کے خلاف کارروائی نہ کر کے نہ صرف ملاوٹ مافیا کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے بلکہ انہیں تحفظ بھی فراہم کیا جا رہا ہے۔ جو ان افسران کی ملاوٹ مافیا کے ساتھ ملی بھگت کا مظہر ہے۔ متعلقہ ذمہ دار افسران نے اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی میں غفلت کا ارتکاب کر کے شہریوں کے جان و مال اور صحت کو بھی داؤ پر لگا دیا ہے۔ جس بنا پر شہریوں میں شدید بے چینی اور اضطراب پایا جاتا ہے۔ لہٰذا استدعا ہے کہ میری تحریک کو باضابطہ قرار دے کر اس پر ایوان میں بحث کرنے کی اجازت دی جائے۔
چاروں تحاریک التوائے کار میں بیان کردہ مسئلہ کی سنگینی کے پیش اسمبلی کی معمول کی کارروائی کر روک کر اسے زیر بحث لانے کی استدعا کی گئی ہے مگر عملاً کیا ہوا کہ تقریباً دو گھنٹے کی تاخیر اجلاس شروع ہوا تو تلاوت کلام حکیم اور نعت رسول مقبولؐ کے بعد کورم کی نشاندہی کر دی گئی ایوان میں موجود ارکان کی گنتی کی گئی تو تعداد مطلوبہ کورم سے کم تھی جس پر گھنٹیاں بجائی گئیں اور دوبارہ گنتی کی گئی مگر کورم پھر بھی پورا نہ ہوا جس پر اجلاس پیر سہ پہر تین بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عوام کے منتخب نمائندوں اور حکومت کو عوام کو درپیش سنگین نوعیت کے مسائل کے بارے میں کس قدر سنجیدہ اور مخلص ہیں۔۔۔!!!
مقام شکر ہے کہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے اشیائے خورد و نوش میں ملاوٹ اور غیر معیاری اشیاء کی فروخت کے اس معاملہ کا از خود نوٹس لیا ہے اور عدالت عظمیٰ کا ایک تین رکنی بنج اس کی سماعت کر رہا ہے۔ 24 جنوری کی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان نے یوٹیلٹی اسٹورز پر گھی اور کوکنگ آئل کی فروخت پر عدالت کی تسلی ہونے تک پابندی عائد کر دی اور تمام برانڈز کے گھی اور تیل کی کوالٹی پر رپورٹ دس دن میں جمع کرانے کا حکم دیا۔ ریمارکس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹیٹرا پیک، پلاسٹک پاؤچ اور پلاسٹک کی پانی کی بوتلوں پر بھی نوٹس لیا جائے گا۔ نمک کی ایک مخصوص قسم کے بارے میں رپورٹ جمع کرانے کی بھی ہدایت کی گئی جس کے استعمال سے دل کے امراض، بلڈ پریشر اور الرجی میں اضافے کی شکایات ہیں۔ فاضل چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پلاسٹک کی بوتلیں دھوپ میں پڑی رہتی ہیں تو مضر صحت ہو جاتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ غیر معیاری گھی کے استعمال کی وجہ سے بچوں میں دل کے امراض بڑھ رہے ہیں اور یہ بات ان کو ڈاکٹروں کے ایک وفد نے بتائی تھی۔
یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن حکومت پاکستان کی نگرانی اور سرپرستی میں چلنے والا ادارہ ہے جسے عوام کو سستے داموں اشیائے ضروریہ کی فراہمی کے لیے اربوں روپے کے فنڈز بھی قومی خزانے سے فراہم کئے جاتے ہیں جب اس سرکاری ادارے سے دستیاب اشیاء کے معیار کا عالم یہ ہو کہ عدالت عظمیٰ ان کی فروخت پر پابندی عائد کرنے پر مجبور ہو جائے تو اندازہ کیا جا سکتا ہے نجی شعبہ میں چلنے والے چھوٹے بڑے ذاتی کاروباری اداروں کی صورت حال کیا ہو گی۔۔۔ چوں کفر از کعبہ برخیزد، کجا مانند مسلمانی۔
عدالت عظمیٰ نے اپنے تاثرات میں پینے کے پانی کے معیار پر بھی عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے اور پانی کے نمونوں کا معائنہ کرانے کا بھی عندیہ دیا ہے۔ اس ضمن میں یہ ذکر نامناسب نہیں ہو گا کہ لاہور سمیت ملک بھر میں فروخت ہونے بوتلوں کے پانی کا 2016ء میں جو تجزیہ کیا گیا اس میں 42 کمپنیوں کے برانڈ کا پانی غیر محفوظ اور آلودہ قرار دیا گیا۔ اور ان میں سے زیادہ تر کمپنیوں کے بوتل کے پانی میں آرمینیک کی مقدار حد سے زیادہ ریکارڈ ہوئی جب کہ بعض کمپنیوں کے پانی میں مائیکرو بیالوجیکل بیکٹڑریا پایا گیا ہے۔ جس کی تصدیق پی سی آر ڈبلیو آر کی رپورٹ میں کی گئی ہے۔ 2013ء کے مقابلے میں 2016 ء میں قرار دیئے گئے غیر محفوظ پانی والی کمپنیوں میں 105 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ان کمپنیوں میں سے 16 برانڈ کے پانی میں آرسینک کی مقدار دس پی پی بی کی بجائے 12 سے 85 پی پی بی تک پائی گئی ہے جو کہ انسانی صحت کے لیے انتہائی مضر قرار دی گئی ہے۔ ایسا پانی استعمال کرنے والوں میں گردے کے امراض، یرقان،جلدی امراض، بلڈ پریشر کی بیماریاں، دل کے امراض، خواتین میں زچگی کے مسائل اور بلیک فٹ جیسی بیماریاں پھیلنے کا قوی امکان ہوتا ہے۔ پانی پر تحقیق کرنے والے سرکاری ادارے پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے بڑے شہروں جن میں لاہور، پشاور، کراچی، اسلام آباد، کوئٹہ وغیرہ شامل ہیں سے مختلف کمپنیوں کے برانڈکی بوتلوں میں بند پانی کے 124 نمونہ جات حاصل کئے گئے اور ان کا تجزیہ کیا گیا جس میں 42 برانڈ کا پانی غیر محفوظ قرار دیا گیا۔ 3 قسم کے ٹیسٹ کئے گئے جس میں سے زیادہ تر بوتلوں کے پانی میں آرسینک یعنی ’’سینکیاں‘‘ پایا گیا ہے۔ دوسرے ٹیسٹ میں بوتل کے پانی کے مائیکرو بیالوجیکل ٹیسٹ ہوئے ان میں بیکٹریا سامنے آیا اور پانی کو آلودہ قرار دیا گیا۔ تیسرے ٹیسٹ میں سوڈیم اور پوٹاشیم کی مقدار ضرورت سے زیادہ پائی گئی۔ جن کمپنیوں کے پانی کو غیر محفوظ قرار دیا گیا ان کے بارے میں کونسل نے رپورٹ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ارسات کر دی ہے۔ اس حوالے سے کونسل نے مزکورہ برانڈز کے پانی کو انسانی صحت کے لیے غیر محفوظ قرار دیا ہے۔ مگر تاحال وفاقی یا کسی بھی صوبائی حکومت کی جانب سے اس سلسلے میں کوئی کارروائی نہیں کی گئی ۔۔۔ !!!
بات یہیں پر ختم نہیں ہو جاتی بلکہ اس سے بھی زیادہ خوفناک اور تشویشناک اطلاع یہ ہے کہ برطانیہ کے سرکاری ادارے ’’فوڈ اسٹینڈرڈ ایجنسی‘‘ کی جانب سے کی گئی تحقیق نے بتایا ہے کہ بچوں کے 25 برانڈڈ کھانے کی اشیا میں شامل کیمیکل کینسر کا سبب بن رہا ہے، کینسر کے خطرے کی فہرست میں کیٹل چپس، برٹس کرسپس، ہوس، فوکس بسکٹس، کینکو کافی، مک وائٹی اور کاؤاینڈ گیٹ کی مصنوعات شامل ہیں۔ اشیائے خورد و نوش کی صحت کے لیے اس ناقابل یقین مضرت رسانی کی صورت سامنے آنے کے بعد ہونا تو یہ چاہئے کہ ملک بھر میں ایمرجنسی نافذ کر کے اس ابتر صورت حال کی اصلاح کے لیے فوری اور ہنگامی اقدامات کئے جائیں تاکہ ہم بحیثیت مجموعی ایک ’’بیمار قوم‘‘ کی کیفیت سے چھٹکارا پا سکیں۔۔۔ مضر صحت اشیاء کی فراہمی روک کر ہم بلاوجہ کے اخراجات کے ساتھ ساتھ ہسپتالوں پر بوجھ سے نجات بھی پا سکیں گے اور جب قوم صحت مند ہو گی تو اس کی کارکردگی میں بھی بہتری آئے گی جس سے ہمارے بے شمار روز مرہ مسائل از خود ختم ہو جائیں گے مگر اس کے لیے جس سنجیدگی، اخلاص اور قوت کار کی ضرورت ہے بدقسمتی سے ہمارے حکمرانوں میں اس کا شدید فقدان ہے اور نا اہلی اور بے حسی کی دیمک نے ہمارے اداروں کو بری طرح کھوکھلا کر دیا ہے۔۔۔ اے کاش کوئی انقلابی، مخلص اور ملک و قوم سے سنجیدہ قیادت ہمیں دستیاب ہو جائے تو پاکستانی قوم کی تقدیر بدل جائے۔۔۔!!!