کراچی ملک کا سب سے بڑا شہر ہونے کے ساتھ سب سے زیادہ مسائل والا شہر بھی بنتا جارہا ہے۔ یہاں کے مسائل میں ٹریفک جام ایسا مسئلہ ہے جو لوگوں کو سڑکوں پر رلا دیتا ہے۔ ٹریفک جام رہنے کی بہت سی وجوہات میں ایک وجہ شہر میں وی وی آئی پیز موومنٹ بھی ہے، جس کی وجہ سے عام گاڑیوں کو خاص گاڑیوں کے لیے سڑک پر روک دیا جاتا ہے۔ تقریباً تین کروڑ آبادی والے اس شہرکی دس ہزار کلومیٹر طویل سڑکوں پر مختلف اقسام کی لگ بھگ 40 لاکھ گاڑیاں دوڑ تی ہیں۔ ان گاڑیوں میں بسیں، منی بسیں، ٹرک، ٹینکر، رکشے، کاریں اور موٹرسائیکلیں شامل ہیں۔ لیکن سڑکوں پر دوڑنے والی ان لاکھوں گاڑیوں کو کنٹرول کرنے یا انہیں قوانین کے مطابق سڑک پر چلانے کے لیے صرف 4 ہزار 232 ٹریفک پولیس اہلکار ہیں۔
محکمہ ایکسائز و ٹیکسیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق شہر کی سڑکوں پر چلنے والی کُل رجسٹرڈ گاڑیوں کی تعداد 40 لاکھ ہے۔ ان میں نصف تعداد یعنی 20 لاکھ موٹر سائیکلیں ہیں، جبکہ 14 لاکھ 50 ہزار کاریں، جیپ وغیرہ ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق کُل گاڑیوں میں 6 لاکھ پچاس ہزار کمرشل وہیکل ہیں جن میں بسیں، منی بسیں، رکشے، ٹیکسیاں اور مال بردار گاڑیاں شامل ہیں۔
ادھر ٹریفک پولیس کراچی کے ڈی آئی جی آصف اعجاز شیخ کی جانب سے حال ہی میں اعلیٰ حکام کو پیش کی گئی ایک رپورٹ میں اس بات کا انکشاف کیا گیا ہے کہ کراچی میں یومیہ 1186 گاڑیوں کا اضافہ ہورہا ہے جبکہ گاڑیوں کی کُل تعداد چالیس لاکھ ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سڑکوں پر تجاوزات کی موجودگی،کے ایم سی اور ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کی حدود میں سڑکوں کی حالتِ زار، کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے ادارے ٹریفک انجینئرنگ بیورو کے غیرمعیاری کام، عمارتوں اور مختلف مقامات پر پارکنگ کا انتظام نہ ہونا (جس کے ذمے دار کے ایم سی، سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور کنٹونمنٹ بورڈز ہیں)، بلدیہ کراچی کی طرف سے سڑکوں سے تجاوزات کا خاتمہ نہ کیا جانا، روٹ پرمٹ اور وہیکل فٹنس سرٹیفکیٹ سے متعلق امور، بس ٹرمینل اور بس بے کی عدم موجودگی، شہر کے مختلف علاقوں میں ٹرک ٹرمینلز کی موجودگی، مختلف تنظیموں کی جانب سے احتجاجی دھرنے وغیرہ، کے ایم سی کی جانب سے بغیر اطلاع سڑکوں کی کھدائی، سڑکوں پر پائپ لائنوں اور گٹر کے پانی کا کا بہاؤ، اور شہر کے مختلف علاقوں میں مختلف نوعیت کے بیس جاری ترقیاتی منصوبے ٹریفک جام کا باعث ہیں۔ ٹریفک پولیس نے اپنی رپورٹ میں اُن مقامات کی نشاندہی بھی کی ہے جہاں مختلف وجوہات کی بنا پر گاڑیوں کی آمد ورفت متاثر رہتی ہے۔ رپورٹ میں ٹریفک جام رہنے کی وجوہات کی بھی وضاحت کی گئی ہے۔
ڈی آئی جی ٹریفک آصف اعجاز شیخ کا کہنا ہے کہ وہ شہر میں ترقیاتی اور مینٹی نینس کے کام کے مخالف نہیں ہیں، لیکن ان کاموں کو شروع کرنے سے قبل ٹریفک پولیس سے مشاورت کرلی جائے تو شہریوں کو آمد و رفت کے مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ ان کا کہنا تھاکہ شہر میں سڑکوں کی مرمت و تعمیر کے جاری منصوبے، فٹ پاتھ و گرین بیلٹ پر تجاوزات کی موجودگی روڈ ٹریفک کے نظام کی خرابی کا باعث ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ حال ہی میں یونیورسٹی روڈ کی ازسرنو تعمیر کے آغاز سے قبل ٹریفک پولیس کی تجاویز کے تحت متبادل راستوں کا انتظام نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے گلشن اقبال و قرب جوار میں ٹریفک جام ہونے کی شکایات میں اضافہ ہوا ہے۔ ڈی آئی جی ٹریفک کی جانب سے حکام کو پیش کی گئی رپورٹ میں تصاویر کی مدد سے سڑکوں کے اُن مقامات کی بھی نشاندہی کی گئی ہے جہاں اکثر تجاوزات موجود رہتی ہیں۔ ڈی آئی جی ٹریفک پولیس کا کہنا تھا کہ یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ صرف ٹریفک پولیس ہی کی نااہلی کی وجہ سے سڑکیں بلاک رہتی ہیں۔ انہوں نے اس الزام کو بھی مسترد کیا ہے کہ ٹریفک پولیس سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر تجاوزات مافیا کی پشت پناہی کرتی ہے۔ ڈی آئی جی نے کہا کہ اگر ٹریفک پولیس کے کسی اہلکار کے حوالے سے کوئی شکایت ہو تو متعلقہ ایس پی کو آگاہ کیا جائے، ایسے اہلکاروں یا اہلکار کے خلاف کارروائی یقینی ہوگی۔
ٹریفک جام ہونے کی وجہ تجاوزات اور سینئر ڈائریکٹر اینٹی انکروچمنٹ کا مؤقف
سڑکوں پر تجاوزات کے حوالے سے جب جسارت سنڈے میگزین نے بلدیہ کراچی کے سینئر ڈائریکٹر انسداد تجاوزات نذیر لاکھانی سے رابطہ کیا تو اُن کا کہنا تھا کہ سڑکوں پر ٹریفک کو رواں رکھنا ٹریفک پولیس کا کام ہے۔ لیکن وہاں اچانک ٹھیلے اور پتھارے لگا دیے جاتے ہیں تو اس وقت ٹریفک پولیس آنکھیں بند کرکے کیوں کھڑی ہوجاتی ہے؟ وہ ان تجاوزات کو ہٹانے کے حوالے سے فوری شکایت کیوں نہیں کرتی؟ نذیر لاکھانی کا کہنا ہے کہ ایم اے جناح روڈ پر کے ایم سی نے متعدد مرتبہ حالیہ دنوں میں کارروائی کی، لیکن اس کارروائی کے بعد تجاوزات مافیا کے کارندے پہلے گاڑیاں پارک کردیتے ہیں، بعدازاں یہاں ٹھیلے، پتھارے وغیرہ لاکر کھڑے کردیتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سڑکوں پر تجاوزات کا خاتمہ وہ پولیس کی مدد کے بغیر کرہی نہیں سکتے۔ انہوں نے بتایا کہ گزشتہ چند سالوں سے غیر قانونی چارجڈ پارکنگ مافیا بھی سرگرم ہوچکی ہے۔ غیر قانونی چارجڈ پارکنگ کرنے والوں کو مقامی پولیس کے ساتھ ٹریفک پولیس کی بھرپور حمایت حاصل ہوتی ہے۔
سڑکوں پر تجاوزات کے حوالے سے جسارت سنڈے میگزین کی تحقیقات
شہر میں ٹریفک جام رہنے کی شکایات میں اضافے کے حوالے سے جسارت سنڈے میگزین کی تحقیقات کے مطابق کراچی میں ان دنوں ترقیاتی کاموں کے نتیجے میں ٹریفک جام ہونے کی شکایات عام ہوگئی ہے۔ شارع فیصل پر ایف ٹی سی، نرسری، کارساز، اسٹار گیٹ، ملیر اور قائدآباد پر۔۔۔ شاہراہ قائدین پر طارق روڈ کے قریب۔۔۔ راشد منہاس روڈ پر نیپا چورنگی، جوہر موڑ، سہراب گوٹھ، اور ناگن چورنگی پر۔۔۔ کورنگی کراسنگ۔۔۔ شاہراہ پاکستان پر واٹر پمپ، لیاقت آباد ڈاک خانہ، دس نمبر، اور کریم آباد پر۔۔۔ سرشاہ سلمان روڈ پر حسن اسکوائر، غریب آباد کے قریب، پیٹرول پمپ ناظم آباد۔۔۔ ایم اے جناح روڈ پر گرومندر، بولٹن مارکیٹ، سٹی کورٹ کے قریب۔۔۔ آئی آئی چند ریگرروڈ پر شاہین کمپلیکس، حبیب بینک پلازہ اور آرٹس کونسل کے قریب۔۔۔ پریڈی اسٹریٹ پر ایمپریس مارکیٹ۔۔۔ اور کلفٹن میں تین تلوار، پنجاب کالونی، گزری چوک زمزمہ پر۔۔۔ اور ماری پور روڈ پر مختلف مقامات پر ٹریفک جام رہنے کی شکایات بڑھتی جارہی ہیں۔ مختلف مقامات پر سڑکوں کی مرمت اور فلائی اوورز وٖغیرہ کی تعمیرکی وجہ سے ٹریفک جام رہنے کی شکایات میں شدت آئی ہے۔ لیکن یہ بات درست ہے کہ سڑکوں، فٹ پاتھوں اور سروس روڈز پر تجاوزات، مختلف اسنیک بار اور ہوٹلوں کی طرف سے میزین اور کرسیاں لگانے کے باعث بھی ٹریفک میں خلل پڑتا ہے۔ رہی یہ بات کہ اس کے ذمے دارکون کون سے ادارے ہیں، تو یہ شواہد موجود ہیں کہ ٹریفک پولیس، مقامی پولیس، کے ایم سی اور کنٹونمنٹ بورڈز اور دیگر متعلقہ اداروں کو بھتہ دیے بغیر تجاوزات قائم نہیں کی جاسکتیں۔ صرف سڑکوں، سروس روڈ اور فٹ پاتھوں کی تجاوزات سے متعلقہ ادارے ماہانہ مجموعی طور پر کم و بیش ایک ارب روپے رشوت حاصل کرتے ہیں۔ اس ایک ارب روپے میں سے تمام متعلقہ اداروں کے تمام افسران تک حصہ پہنچتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ برسوں سے تجاوزات ہٹانے اور پھر لگانے کا سلسلہ جاری ہے۔ صدر شہر کا وہ علاقہ ہے جہاں کی سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر تجاوزات ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں سے ہر ادارے کے بدعنوان افسران و اہلکار مجموعی طور پر یومیہ لاکھوں روپے رشوت حاصل کرتے ہیں۔ جب بھی تجاوزات ہٹائی جاتی ہیں، چند روز بعد اضافی رشوت سے یہ دوبارہ قائم ہوجاتی ہیں۔ اس لیے کہ مافیا کی نظر میں کراچی کا ایک ایک انچ قیمتی ہے۔