(سنا ہے اس جہاں میں زندگی کی قحط سالی ہے ۔۔۔(سائرہ عبدالواحد جامعۃ المحصنات کراچی

445

130روز پیر وقت: 8:55
مجھے فوج سے آئے تقریباً 2 ماہ ہونے کو ہیں۔ ٹریننگ کے دوران میری ٹانگ میں فریکچر ہوگیا تھا جس کی وجہ سے مجھے میڈیکل ان فٹ قرار دیا گیا۔ مجبوراً گھر کی راہ دیکھنی پڑی۔ ویسے بھی امی اور عیشہ یاد آرہے تھے۔ اللہ نے یہی سبیل نکالی اور میرے عزیز دوست نے ہمارا فیملی ویزا لگوا دیا اور آج ہم دیارِ غیر جارہے ہیں۔ دل عجیب سے وسوسوں میں گھرا ہوا ہے۔ امی اور عیشہ کو بہت ساری شاپنگ کرائی، اگرچہ کہ عیشہ ناں ناں کرتی رہی کہ ابھی تو سب کچھ نیا پڑا ہے، چھ ماہ ہی تو شادی کو ہوئے ہیں، ویسے ہی پڑے رہیں گے۔ لیکن پتا نہیں کیوں میرا دل بہت چاہ رہا تھا اور اس کے انکار کے باوجود بہت ساری چیزوں سمیت ہم آج روانہ ہوئے، اور ابھی میں اپنا پسندیدہ مشغلہ یعنی ڈائری لکھ رہا ہوں، پتا نہیں کیوں مجھے تاریخ ڈالنا اچھا نہیں لگتا، بس وقت اور دن ہی نوٹ کرنا کافی لگتا ہے۔
بروز جمعرات وقت: 8:55
اللہ کا شکر ہے کہ ہم یہاں اچھی طرح سیٹل ہوگئے ہیں۔ شروع میں تو مجھے جاب کی تلاش میں دشواری ہوئی، مگر پھر بالآخر یہاں کی ایک فلاحی تنظیم والوں نے آفر کی تھی جس کی میں نے ہامی بھرلی اور آج تقریباً چوتھا دن ہے مجھے جاتے ہوئے۔ مجھے اس تنظیم کے بارے میں بس اتنی معلومات ہیں کہ 1997ء میں اس کا آغاز ہوا، دو افراد ہیں جنہوں نے اس کا نظام سنبھالا ہوا ہے ’’پرنس‘‘ اور ’’الکلارک‘‘۔ ان سے میری ملاقات ہوچکی ہے۔ بظاہر تو بہت اچھے لوگ ہیں۔ ہمارے ہم مذہب تو نہیں لیکن بہرحال انسانیت کی فلاح کا کام ہے، اور دوسرا یہ کہ فوج میں کچھ عرصہ گزارنے کی وجہ سے مجھے اس تنظیم میں شامل کرلیا گیا، اس لیے کہ اس تنظیم میں فوج اور ایجنسیوں کے افراد کو ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے۔ حیرت مجھے اس بات پر ہورہی ہے کہ اس کے مزدور ایک دن کے 1000ڈالر لیتے ہیں، حالانکہ مجھے کوئی اتنا خاص مشکل کام نہیں لگا، چند علاقوں کے دورے کرنا اور وہاں کے لوگوں کے بایوڈیٹا کی لسٹ لانا۔ اگرچہ کہ اس میں خاصا وقت لگ جاتا ہے اور امی اور عیشہ کل بھی ناراض ہورہی تھیں کہ تم اتنی رات گئے تک آتے ہو۔ خیر ابھی تو صرف 4 دن ہوئے ہیں مجھے آئے ہوئے، آہستہ آہستہ عادی ہوجائیں گے۔
وقت: 8:55
سمجھ میں نہیں آرہا کیا کروں۔۔۔؟ بہت بڑی مشکل میں گرفتار ہوچکا ہوں۔ اللہ تُو ہی میری نیت کو جانتا ہے کہ کس مقصد کے لیے اس تنظیم میں شامل ہوا تھا۔۔۔ لیکن یہ تو کچھ اور ہی گورکھ دھندا ہے۔۔۔!! آج دس دن بعد مجھے آنے کی اجازت ملی ہے۔ عیشہ کی حالت دیکھی نہیں جا رہی اور امی تو اس سے بھی زیادہ پریشان ہیں۔ اب تو میں اس تنظیم کو چھوڑ نہیں سکتا، میرے لیے اب دو ہی راستے ہیں: موت یا پھر ان کا ساتھ۔۔۔ ان کے مقاصد تو بہت ہی خطرناک ہیں۔ بظاہر تو سیکورٹی کمپنی کے نام سے رجسٹرڈ ہوئی تھی لیکن ان کے عزائم بالکل ہی مختلف ہیں۔ ان کی تقریباً نو تنظیمیں ہیں جو فلاح وبہبود کے نام پر مختلف مسلم ممالک میں کام کررہی ہیں۔۔۔ لیکن درحقیقت تو یہ مسلم ممالک میں انارکی پھیلانا چاہتے ہیں۔
اُف میرے خدایا۔۔۔ اتنا گھناؤنا کام۔۔۔! بظاہر تو میں ان کے ساتھ نارمل ہی ہوں لیکن میرا پورا وجود جل کر خاک ہورہا ہے۔ میرے اندر سے تپش نکل رہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔***۔۔۔۔۔۔
وقت 8.55
میرے مولا بس اب وہ وقت آگیا ہے کہ میں کسی ایک راستے کا انتخاب کرلوں۔ ان لوگوں کے مقاصد بہت مذموم ہیں۔ یہ مسلم ممالک کو راکھ کا ڈھیر بنانا چاہتے ہیں۔ ان کی پلاننگ سوائے بدامنی پھیلانے کے اور کچھ نہیں ہے۔ ایک دن میں تین تین مقامات پر بم دھماکے چاہئیں مساجد ہوں، مارکیٹ ہو، چاہے عام راستہ۔۔۔ انہیں کیا مساجد کی قدر ہوگی۔۔۔! بلکہ یہ ان مساجد ہی سے خوفزدہ ہیں، اسی لیے انہیں ختم کرنا چاہتے ہیں۔ اور ان کا اصل ہدف ہمارا ہی ملک ہے۔ یہ مادرِ وطن کو ملیامیٹ کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستانی عوام بیچارے ان کی نام نہاد خیر خواہی سے دھوکا کھاتے ہوئے ان پر ٹوٹے پڑرہے ہیں۔ مگر انسانیت کی فلاح کی آڑ میں یہ اپنے خطرناک عزائم پورے کریں گے۔ نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔ اب مزید نہیں۔ قتل و غارت گری کی مزید پلاننگ کی فائل اگر میرے ہاتھ لگ گئی ہے تو اسے مضبوط ہاتھوں ہی میں پہنچا کر دم لوں گا۔
اگر زندگی رہی تو!!! خیر اللہ بھی مدد کرے گا، میں چاہتا ہوں کہ میں بھی اس ملک کو دیکھوں پھلتا پھولتا، جس کے لیے میں ادنیٰ سی قربانی دے رہا ہوں۔ لیکن اُس وقت شاید میں نہ ہوں لیکن میرے لیے یہی تسکین کا باعث ہوگا۔ اور عیشہ۔۔۔ پتا نہیں کس طرح ماہم کی تربیت کرے۔ بس میں تو اللہ ہی کے رحم و کرم پر چھوڑ کر جارہا ہوں۔ آج میں نے امی اور عیشہ سے ڈھیر ساری باتیں کی ہیں، یہاں تک کہ نیند سے ان کی آنکھیں بالکل بند ہورہی تھیں، پھر بھی میں ان سے باتیں کرتا رہا اور ماہم کو تو خود سے الگ ہی نہیں کیا، معلوم نہیں پھر دیکھنا نصیب ہو یا نہیں۔ لگتا ہے ماہم کو تو میرے جانے کا علم ہوگیا ہے، سوتے میں بھی خود سے الگ کرلوں تو ہڑبڑا کر اٹھ جاتی ہے۔ خیر کوئی بات نہیں۔۔۔ اِس جہان میں نہ سہی تو اُس جہان میں ان کا ساتھ نصیب ہوگا۔
سنا ہے اس جہاں میں زندگی کی قحط سالی ہے
یہاں دو چار دن جینے کا اکثر ذکر ہوتا ہے
یہاں ہر چیز فانی ہے
سب ہی کو موت آنی ہے
یہاں اظہار کیا کرنا،یہاں پر پیار کیا کرنا
مگر کچھ یوں بھی سنتا ہوں
کہ ایسا اک جہاں ہوگا
کہ جس میں موت آنے کا کوئی دھڑکا نہیں ہوگا
حیاتِ جاوداں کے سب یہاں اسباب رکھے ہیں
یہ میرا تم سے وعدہ ہے
وہاں پر ساتھ رہنے کا
وہیں اقرار کرلیں گے
وہیں اظہار کر لیں گے
وہیں پھر پیار کرلیں گے۔۔۔
ہمیشہ کی طرح ماہم کی آنکھیں یہ ڈائری پڑھتے ہی بھیگ گئیں۔ یہ اس کا روز کا معمول ہے۔ اسے تو بس یہی پتا چلا تھا کہ اس کے بابا بہت پہلے۔۔۔ جب وہ بہت چھوٹی سی، بالکل چھوٹی سی تھی۔۔۔ چلے گئے تھے۔ ملک دشمن عناصر کی کوئی فائل انہوں نے پاکستان کے اعلیٰ عہدیداروں تک خفیہ طریقے سے پہنچائی تھی کیونکہ وہ غداری نہیں کرنا چاہتے تھے مسلمانوں کے ساتھ۔ لیکن کیا ہوا۔۔۔؟اس کی پاداش میں بابا کو ہمیشہ کی نیند سلا دیا گیا، لیکن ان کا مقصد بہت عظیم تھا جس کے لیے انہوں نے لہو بہایا!
لہو کی بوندیں جہاں گریں گی
وہیں سے سورج طلوع ہوگا
nn

حصہ