ڈاکٹر نثار احمد

344

12913142دو ادب کی دنیا میں ڈاکٹر معین قریشی ایک معتبر نام ہے۔ آپ پی ایچ ڈی ڈاکٹر ہیں، محقق ہیں، ادیب ہیں، طنز و مزاح نگار ہیں، ناقد ہیں اور بہت نفیس النفس انسان بھی۔ ڈیفنس کراچی میں رہائش پذیر ڈاکٹر معین قریشی ہر سال اپنی کوٹھی پر بڑے پائے کا مشاعرہ و مذاکرہ ترتیب دیتے ہیں۔ یہ سلسلہ گزشتہ 34 برسوں سے جاری ہے۔ اس سلسلے کا 35ویں سالانہ ’’یک جہتی ظہرانہ‘‘ 22 جنوری2017 اتوار کے دن منعقد ہوا۔ پروگرام کے چھ ادوار تھے، پہلے دور میں مشاعرہ ہوا۔ راقم الحروف (ڈاکٹر نثار) اپی دوست اختر سعیدی کے ساتھ 11:45 پر جب ڈاکٹر معین الدین کی رہائش گاہ پر پہنچے تو ڈاکٹر معین قریشی نے کہا کہ آپ دونوں میں سے کسی ایک کو آج کے پروگرام کی نظامت کرنی ہے۔ اختر سعیدی نے معذرت کرلی اور مجھے نظامت کے فرائض انجام دینے پڑے حالاں کہ مجھے نظامت کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔ دوسری بات یہ کہ آپ اچانک کسی کو یہ ذمّے داری سونپ دیں جس کا یہ شعبہ نہ ہو، تب بڑی دشواری ہوتی ہے۔ تیسری بات یہ کہ اس محفل میں کراچی کے بہت اہم لوگ شریک تھے، ان کے سامنے نظامتی فریضہ انجام دینا میرے جیسے جاہل آدمی کے لیے مشکلات کا سبب بن سکتا تھا۔ بہرحال میں نے نظامت کی، میں اپنے کام میں کس حد تک کام یاب ہوا، اس کا فیصلہ سامعین کریں گے۔ اس مشاعرے کی صدارت محمود شام نے کی، جب کہ مذاکرے کی مجلس صدارت میں سردار یاسین مالک، عبدالحسیب اور میاں زاہد حسین شامل تھے۔ سب سے پہلے میں نے بحیثیت ناظم، اپنا کلام سُنایا، حالاں کہ آج کل یہ سلسلہ چل نکلا ہے کہ ناظم اپنا مقام خود تعیّن کرتا ہے، وہ جہاں چاہتا ہے، پڑھتا ہے، جب کہ مشاعرے کی روایت یہ ہے کہ ناظمِ مشاعرہ سے مشاعرے کا آغاز ہو۔ نہ جانے، ہم کیوں اپنی روایات سے روگردانی کر رہے ہیں۔ اس موقع پر ڈاکٹر معین قریشی کے نواسے انجینئر حسن ضیا نے تلاوتِ کلام مجید کی سعادت حاصل کی۔ نعت رسولؐ حسب روایت ڈاکٹر معین قریشی کے دوست شبیر احمد بھٹی نے پیش کی، جو کہ اس تقریب میں شرکت کے لیے خاص طور پر کینیڈا سے کراچی آئے ہیں۔ مشاعرعے میں صاحبِ صدر محمود شام، انور شعور، ڈاکٹر فاطمہ حسن، فراست حسین، پروفیسر عنایتر علی خان، نسیم نازش، ظفر محمد خاں، اختر سعیدی، شائستہ مفتی، عبدالحسیب خاں، صبیحہ صبا، ثبین سیف، ڈاکٹر نزہت عباسی، صغیر جعفری، نجیب عمر، قادر بخش سومرو اور ڈاکٹر محمد اعظم نے اپنا اپنا کلام نذرِ سامعین کیا۔
مشاعرے میں سامعین کی کثیر تعداد موجود تھی، جو کہ ہر اچھے شعر پر داد دے رہے تھے۔ صاحب صدر نے اپنے صدارتی خطبے میں کہا کہ ڈاکٹر معین قریشی بڑے تسلسل سے 35 سال سے محفلِ ظہرانہ کا اہتمام کررہے ہیں، یہ بڑا قابل ستائش اقدام ہے، باالفاظ دیگر ڈاکٹر معین قریشی اُردو زبان و ادب کے فروغ میں مصروف عمل ہیں۔ اس محفل میں کراچی کی منتخب ہستیاں موجود ہیں ان سے ملاقات ہوجاتی ہے اور بڑی عمدہ شاعری سُننے کو ملتی ہے، کیوں کہ ڈاکٹر معین قریشی شعرا و شاعرات کا سلیکشن نہایت عمدگی سے کرتے ہیں اور ہر برس نئے قلم کار متعارف کراتے رہتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج نسائی ادب کے حوالے سے بھی بہت اچھا کلام سامنے آیا ہے۔ ڈاکٹر معین قریشی نے خطبۂ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ میرے بیٹے فہیم قریشی نے اپنا مکان اپنی دادی کے نام پر ’’سکندر ہاؤس‘‘ رکھا ہے اور میں بھی ان کی محبت میں یہاں شفٹ ہوگیا ہوں، یہ ظہرانہ مشاعرہ میں نے ڈاکٹر فاطمہ حسن اور انور بیگ کے ساتھ مل کر شروع کیا تھا، اللہ کا شکر ہے کہ یہ سلسلہ جاری ہے۔ اس ظہرانے کا پہلا مشاعرہ 1982 میں ہوا تھا، اس تقریب کے تمام معاملات طے شدہ ہوتے ہیں اور ’’سیٹنگ اریجمنٹ‘‘ بھی پہلے سے طے کردی جاتی ہے کہ کون کہاں بیٹھے گا؟ دوسری بات یہ کہ ہم اپنا پروگرام وقتِ مقررہ پر شروع کر دیتے ہیں اور تمام لوگ وقت کی پابندی کرتے ہیں۔ میں تمام شرکائے محفل کا ممنون و مشکور ہوں کہ انہوں نے اس تقریب کو کام یاب بنایا۔ اس تقریب کے بیش تر مہمان ہر برس تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ مشاعرے ہماری روایات کا جُز ہیں، ہر زمانے میں مشاعرے ہوتے رہے ہیں، لیکن ہر زمانے کی شاعری الگ ہوتی ہے۔ ہر زمانے کے مسائل الگ ہوتے ہیں۔ اب غزل میں معاشرتی، سیاسی، سماجی مسائل کا ذکر بھی شامل ہوگیا ہے، اس لیے غزل میں روایتی مضامین کے ساتھ دوسرے عنوانات بھی آرہے ہیں، اس سے غزل کی خوب صورتی میں اضافہ ہوا ہے۔ اس بڑے پائے کی تقریب کی دوسرے دور میں مذاکرہ شروع ہوا۔ مذاکرے کا موضوع تھا ’’قومی یک جہتی‘‘ اس موضوع پر سب سے پہلے عبدالحسیب نے کہا کہ قائداعظم محمد علی جناحؒ نے فرمایا تھا کہ اگر ہم نسلی، علاقائی، مذہبی یا کسی بھی دوسرے تعصب میں مبتلا ہوگئے تو ہمارا شیرازہ بکھر جائے گا۔ پاکستان کی ترقی کے لیے لازمی ہے کہ ہم سب ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر پاکستان کی خدمت کریں۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے، جو قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ یہاں اس وقت جتنے بھی مسائل نظر آرہے ہیں، وہ سب ہمارے پیدا کردہ ہیں۔ ہماری قوم ایک ذہین قوم ہے اور اس قوم کا I.Q سب سے زیادہ ہے۔ ہمیں یہ حق حاصل ہے کہ دنیا کو لیڈ کریں، لیکن ہم تو آپس میں دست و گریباں ہیں۔ قوِمی یک جہتی کہاں ہے؟ ہر شخص نے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنائی ہوئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے ممبران کے لیے یہ شرط لگا دی جائے کہ وہ آئین کی شق 62 اور 63 پر پورے اُتریں۔ احتساب سب کا ہونا چاہیے تب کرپشن ختم ہوگی اور ہمارا ملک ترقی کرپائے گا۔ اس وقت دشمن ہماری صفوں میں آگھسے ہیں، ہمیں متحد ہوکر عہدِ حاضر کے مسائل سے نبرد آزما ہونا ہوگا۔
میاں زاہد حسین نے کہا کہ وہ چار، پانچ برس سے اس بڑے پائے کی تقریب میں آرہے ہیں۔ تقریب کے میزبان ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی بہت عظیم شخصیت ہیں اور اُردو ادب میں ان کے نام کا ڈنکا بج رہا ہے۔ یہ ان کی مہربانی ہے کہ انہوں نے مجھے اس تقریب میں شرکت کا موقع فراہم کیا۔ میاں زاہد حسین نے قومی یک جہتی کے عنوان پر سیر حاصل گفتگو کی، جس کا لب و لباب یہ ہے کہ ہم لوگوں میں مایوسیاں پھیلانے کے بجائے مثبت پیغام دیں تاکہ معاشرہ سُدھر سکے، جب تک ہم نفاق کا شکار رہیں گے، ترقی نہیں کرسکتے، ہمارا قومی تشخص روبۂ زوال ہے، دہشت گردی ہمارے ملک کو شدید نقصانات پہنچا رہی ہے۔ اب امن وامان کی صورت حال کچھ بہتر ہوئی ہے۔ امن و سلامتی کے پرچار میں شعرا کرام کا اہم کردار ہے، کیوں کہ یہ وہ طبقہ ہے، جو معاشرے پر گہری نظر رکھتا ہے اور اصلاح معاشرہ کے لیے راہیں متعیّن کرتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج کی محفل میں تمام شاعر و شاعرات نے بہت عمدہ کلام پیش کیا۔
مذاکرے میں سردار یاسین ملک نے کہا کہ قومی یک جہتی ہر زمانے کا مسئلہ رہا ہے۔ دین اسلام ہمیں ایک پلیٹ فارم پر آنے کی دعوت دیتا ہے، لیکن ہم اپنے اپنے مفادات کی خاطر بہت سی اسلامی روایات کو نظرانداز کر رہے ہیں، جس کے خطرناک نتائج نکل سکتے ہیں۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم سب ایک ہوجائیں تاکہ ہم خوش گوار زندگی گزار سکیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ بڑی تکلیف دہ بات ہے کہ ہم اُردو کی ترقی کی بات کرتے ہیں، جب کہ ہمارے بچے انگریزی اسکولوں میں پڑھتے ہیں۔ ہم اپنی مشرقی روایات کو نظر اندز کر رہے ہیں اور مغربی اثرات قبول کر رہے ہیں۔ ہم انگریزی بول کر فخر محسوس کرتے ہیں،آپ خود سوچیے کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو اُردو زبان کیسے فروغ پائے گی؟
پروگرام کے تیسرے حصے میں انور شعور کی ادبی خدمات پر انہیں نقد رقم کا لفافہ پیش کیا گیا۔ یہ لفافہ شبیر بھٹی کی طرف سے دیا گیا، جب کہ انور شعور کو سندِ توصیف بھی پیش کی گئی اور یہ اعلان بھی کیا گیا کہ ہر سال ’’کیش ایوارڈ‘‘ کسی نہ کسی اہم ادبی شخصیت کو دیا جاتا رہے گا۔ تقریب کے چوتھے حصے میں تمام شرکائے محفل کی خدمت میں ظہرانہ پیش کیا گیا، جو کہ سردی کی مناسبت سے بڑے پائے اور کھیر پر مشتمل تھا۔ اس پروگرام کا پانچواں حصہ گلوکاری پر مشتمل تھا، جب کہ چھٹے حصے میں ڈاکٹر معین قریشی کے گھر میں قائم شدہ ائیرکنڈیشن آڈیٹوریم میں ایک فلم کا تھا اور ساتویں حصے میں چائے شامل تھی لیکن میں اپنی ذاتی مصروفیات کے باعث ظہرانے سے لطف اندوز ہونے کے بعد پانچویں، چھٹے اور ساتویں پروگرام سے محروم رہا۔
۔۔۔*۔۔۔
اُردو ادب کی ترویج و اشاعت میں ادبی تنظیم تخلیق کار بہت اہمیت کی حامل ہے۔ ان خیالات کا اظہار ممتاز شاعر رفیع الدین راز نے تخلیق کار کے زیر اہتمام منعقدہ مشاعرے میں اپنے صدارتی خطاب میں کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب اُردو زبان امریکا تک جا پہنچی ہے اور وہاں بھی اس زبان و ادب کی آب یاری ہو رہی ہے۔ اُردو زبان کو دنیا کی کوئی طاقت ختم نہیں کرسکتی، کیوں کہ یہ ایک عوامی زبان ہے اور اس زبان میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ دوسری زبانوں کے الفاظ اپنے اندر جذب کرلیتی ہے، یہی وجہ ہے کہ اُردو کا ذخیرہ الفاظ بڑھتا رہتا ہے۔ اس پروگرام کی مہمان اعزازی لندن سے تشریف لائی ہوئی شاعرہ اور افسانہ نگار نجمہ عثمان نے کہا کہ انہوں نے لندن میں انجمن ترقی اُردو خواتین قائم کی ہے، جس میں صرف خواتین ممبران اور عہدے داران ہیں، اس طرح خواتین بھی اُردو کے فروغ میں شامل ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں بالخصوص لاہور و کراچی میں بہت اچھی شاعری ہو رہی ہے۔ مشاعرے کے مہمان خصوصی رونق حیات نے اپنے اشعار سنانے سے پہلے کہا کہ وہ ایک ادبی تنظیم نیاز مندان کراچی کے جنرل سیکرٹری ہیں اور انہوں نے قلم کاروں کو، ان کے حقوق سے آگاہی کے لیے ایک مشن شروع کیا ہے۔ یکم مارچ 2013 کو پاکستان کے ادیبوں سے متعلق جتنے بھی سابقہ قوانین تھے، انہیں ایک آرڈیننس کے تحت سینیٹ آف پاکستان نے ایک ایکٹ بنا دیاہے، جو کہ Act No IV of 2013 کے طور پر متعارف کرایا ہے، اس کو پاکستان آف اکیڈمی لیٹرز کا نام دیا گیا ہے۔ اس ایکٹ کے قیام کا بنیادی مقصد قلم کاروں کی فلاح بہبود کو قرار دیا گیا ہے اور اس سلسلے میں 25-Objects منظور کیے گئے ہیں، جو کہ اس ایکٹ کے دائرۂ کار کا تعیّن کر رہے ہیں، جس میں اکیڈمی آف لیٹرز کو ادیبوں اور شاعروں کی فلاح و بہبود کے پروگرام ترتیب دے کر حکومت پاکستان کو بھیجنا بھی شامل ہے۔ اس میں ادبی ایوارڈز کی منصفانہ تقسیم اور حکومت کی طرف سے مختص کردہ رقوم کی غیر جانب دارانہ تقسیم، تمام زبانوں کی ترویج و اشاعت، کانفرنسوں کا انعقاد، قلم کاروں کے درمیان رابطے، ادبی دفاتر کا قیام، انسائیکلوپیڈیا کی اشاعت اور زبان و ادب کے سلسلے میں تحقیقی ریسرچ پراجیکٹ کا انعقاد بھی شامل ہے۔ اکیڈمی آف لیٹرز پاکستان کی ذمے داریوں میں انسائیکلو پیڈیا‘ قلم کاروں کی ڈکشنری رسالے کی اشاعت، قلم کاروں کی انشورنس، قلم کاروں کی مالی اعانت وگیرہ وغیرہ شامل ہیں۔ 25 نکات پر مشتمل فلاح و بہبود کا پروگرام اکیڈمی آف لیٹرز کے دائرۂ کار میں شامل کیا گیا ہے، لیکن بدقسمتی سے قلم کاروں کی فلاح و بہبود کے لیے قائم کردہ ادارہ اکیڈمی آف لیٹرز پاکستان کا چیئرمین ایک غیر تخلیق کار کو بنادیا گیا ہے، جس کے باعث قلم کاروں کے مسائل حل نہیں ہو پارہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اکیڈمی آف لیٹرز کا مرکزی دفتر، علاقائی دفتر برائے سندھ سے کوئی مشاورت نہیں کرتا۔ اکادمی ادبیات پاکستان سندھ کے ریذیڈنٹ ڈائریکٹر قادر بخش سومرو کا کہنا ہے کہ انہیں اسلام آباد میں ہونے والی کانفرنس کی دعوت نہیں دی گئی۔ کمالِ فن ایوارڈز کی تقسیم پر بھی مرکز ادبیات پاکستان کی غیر جانب داری مشکوک ہوچکی ہے۔ جن لوگوں کو یہ ایوارڈ دیے گئے ہیں، ان کے صحیح اور غلط ہونے کا فیصلہ تو اربابِ عقل و دانش کریں گے، لیکن کراچی کے قلم کاروں کو کیوں نظر انداز کیا جارہا ہے؟ اس کا جواب دیا جانا چاہیے۔ کراچی کے ڈاکٹر جمیل جالبی، ڈاکٹر ابو سلمان، شاہ جہاں پوری، ڈاکٹر توصیف تبسم، جمیل یوسف جیسے اہم لوگوں کو کب ’’کمالِ فن ایوارڈ‘‘ سے نوازا جائے گا؟ کیوں کہ یہ فنڈ ایوارڈ زندہ قلم کاروں کو دیا جاتا ہے، جب کہ متذکرہ قلم کار ضعیف العمر ہوچکے ہیں۔ اسلام آباد کانفرنس میں جن لوگوں کو مقالے پڑھنے کے لیے بلایا گیا، ان سے زیادہ معتبر لوگ موجود تھے، انہیں کیوں نہیں بلایا گیا۔ حکومت پاکستان کی جانب سے ابھی حال ہی میں قلم کاروں کی فلاح و بہبود کے لیے اکیڈمی آف لیٹرز کو پچاس کروڑ روپے دیے گئے ہیں، ہمیں ڈر یہ ہے کہ رقم غلط طور پر استعمال نہ ہوجائے لہٰذا تمام قلم کاروں کو چاہیے کہ وہ اپنے حقوق کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔ رونق حیات نے مزید کہا کہ وہ اس سلسلے میں آل کراچی کانفرنس کرنے جارہے ہیں، جس میں کراچی کی تمام ادبی اداروں کو نمائندگی دی جائے گی۔
اس پروگرام کی نظامت حجاب عباسی نے کی، انہوں نے اپنے خطبہ استقبالیہ میں کہا کہ ہم اپنے اہم قلم کاروں کو کیوں فراموش کر رہے ہیں؟ تخلیق کار کے پلیٹ فارم سے مشاعروں کے علاوہ فنون لطیفہ کی دیگر شاخوں کے بارے میں بھی پروگرام ہوچکے ہیں اور یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ کشظر عدیل جعفری نے کلماتِ تشکر ادا کیے۔ اس موقع پر صاحبِ صدر، مہمان خصوصی، مہمان اعزازی اور مشاعرے کی ناظمہ کے علاوہ جن شعرا نے اپنا اپنا کلام پیش کیا، ان میں فیروز خسرو، فیاض علی خاں، راقم الحروف (ڈاکٹر نثار)، سحر تاب رومانی، احمد سعید، خالد محمود رانا، کشور عدیل جعفری، عامر شیخ، سعد الدین سعد، عاشق شوکی اور علی کوثر شامل ہیں۔ یہ پروگرام اُردو لُغت بورڈ کے تعاون سے منعقد ہوا۔
۔۔۔*۔۔۔
راقم الحروف (ڈاکٹر نثار) کی زیر صدارت گزشتہ اتوار کو ادارۂ فکر نو کے تحت ایک شعری نشست منعقد ہوئی، جس میں یوسف چشتی مہمان خصوصی تھے اور رشید خاں رشید نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ اس نشست میں صاحبِ صدر، مہمان خصوصی اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ اختر سعیدی، محمد علی گوہر، شمع انصاری، احمد اقبال، اقبال آرزو، علی کوثر، عاشق شوی اور دیگر نے کلام سُنایا۔ اختر سعیدی نے خطبۂ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر نثار نے بہت کم وقت میں کراچی کے ادبی منظر نامے میں اپنی جگہ بنائی ہے اور یہ بہت تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ ان کا ایک حوالہ یہ بھی ہے کہ یہ ماہر تعلیم ہیں اور انہوں نی اپنے تعلیمی اداروں میں بھی مشاعروں کی روایات ڈالی ہیں۔ یہ جس تعلیمی ادارے سے وابستہ رہے، اس ادارے کی عزّت و شہرت میں اضافہ کیا اور یہ اُردو ادب کے معتبر خدمت گزار ہیں۔ ان کی ادبی تنظیم یارانِ سخن کراچی ہر ماہ ایک مشاعرہ منعقد کررہی ہے، جس میں بہت اہم شعرا و شاعرات شریک ہوتے ہیں۔ اختر سعیدی نے مزید کہا کہ اب لانڈھی کورنگی میں ادبی سرگرمیاں اپنے عروج پر ہیں۔ جو تنظیمیں اس علاقے میں ادب کی ترویج و اشاعت کے لیے مصروف عمل ہیں، ہم ان کے ساتھ ہر ممکن تعاون کے لیے تیار ہیں۔ محمد علی گوہر نے کلمات تشکر ادا کیے۔

حصہ