(لیس منا (روفیسر عبدالحمید ڈار

291

خاندان کا ادارہ انسانی تمدن کی بنیاد ہے۔ اس کے درست رہنے سے انسانی تمدن ترقی کرتا ہے اور اس کے نادرست ہونے سے انسانی تمدن زوال کی نذر ہوجاتا ہے۔ خاندان مرد اور عورت کے ازدواجی رشتے سے تشکیل پاتا ہے۔ اگر مرد اور عورت کا ازدواجی تعلق خوشگوار ہو تو اس سے اعلیٰ سیرت و کردار کے حامل افراد معاشرے کو میسر آئیں گے جو اس کے استحکام اور ترقی میں معاون و مددگار ثابت ہوں گے۔ اس کے برعکس اگر میاں و بیوی کے درمیان ناچاقی کی وجہ سے خاندان کے ماحول میں تلخیاں پائی جاتی ہوں تو معاشرے کی تعمیر و ترقی میں خاندان کا کردار غیر مؤثر بلکہ منفی ہوکر رہ جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کی رہنمائی کے لیے جو ضابطۂ حیات اسے عطا کیا ہے اس میں بھی خاندان کو مرکزی حیثیت دی ہے اور اسے مستحکم بنانے والے اور اسے عدم استحکام سے دوچار کرنے والے عوامل کی بڑے مفصل طریقے پر نشاندہی کی ہے۔ زیرنظر حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق بھی انسانی زندگی کے اسی پہلو سے ہے۔ عورت اور مرد میں جدائی ڈالنا شیطان لعین کا محبوب ترین مشغلہ ہے۔ ایک حدیث پاک میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے:
’’تحقیق ابلیس پانی پر اپنا تخت رکھتا ہے، پھر اپنی فوجیں لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے بھیجتا ہے۔ اس لشکر میں سے ابلیس کے نزدیک تر وہ ہے جس کا فتنہ بہت بڑا ہو۔ ان میں سے ایک آتا ہے وہ کہتا ہے کہ میں نے ایسا اور ایسا کام کیا۔ ابلیس کہتا ہے کہ تُو نے کچھ بھی نہیں کیا۔ پھر ان میں سے ایک آتا ہے اور کہتا ہے کہ میں نے اس کو نہیں چھوڑا یہاں تک کہ اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان جدائی ڈال دی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ اس کو اپنے قریب کرلیتا ہے اور کہتا ہے کہ ہاں بس تُو نے کام کیا ہے اور پھر اسے گلے لگا لیتا ہے‘‘۔
(مشکوٰۃ، باب وسوسہ کا بیان،بحوالہ مسلم، راوی جابرؓ)
اس نوعیت کے گھناؤنے کام شیطان ہم سے کرواتا ہے۔ وہ ہمیں اکساتا ہے، دل میں وسوسے ڈالتا ہے اور خواہشات کے سبز باغ دکھا کر ہمیں اپنے دام تزویر میں پھانس لیتا ہے۔ اس کے چکمہ میں آکر کوئی شخص کسی معزز خاتون کے کان میں ازراہ تفنن اور مذاق یا کسی مقصد براری کے لیے اس کے شوہر کے کسی غیر سے تعلق کے بارے میں کچھ غلط سلط بات پھونک دیتا ہے، پھر موقع بہ موقع وہ اس پر اس طرح آہن زنی کرتا ہے کہ یہ بات خاتون کے دل کی گہرائیوں میں گڑ جاتی ہے اور خاوند کی وفاداری سے اس کا اعتماد متزلزل ہوجاتا ہے۔ گھر میں پہلی خوشگواری اور حلاوت دم توڑنے لگتی ہے اور فضا میں تلخیوں کا زہر گھل جاتا ہے۔ بچوں پر بھی اس صورت حال کے اثرات پڑتے ہیں اور ان کی تربیت کا رنگ بدلنے لگتا ہے۔ بعض اوقات یہ صورت حال میاں بیوی کے درمیان دائمی جدائی کا باعث بن جاتی ہے۔ اس طرح شیطان لعین ایک بہترین گہوارۂ تربیت کو ویران کرکے معاشرے کو اعلیٰ پایہ کی افرادی قوت فراہم کرنے والا ایک دروازہ بند کردیتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم رحمۃ للعالمین ہیں۔ انہوں نے رحمت کا دَر وا رکھنے کے لیے خاندان کے ادارے کو تباہ کرنے والے افعال کا سختی سے نوٹس لیا ہے اور ان کا ارتکاب کرنے والے گھناؤنے کردار کے لوگوں سے اعلانِ برأت فرمایا ہے اور بتایا ہے کہ ایسے افرادِ معاشرہ کا ان کے طریقِ زندگی سے کوئی تعلق نہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ حسنہ یہ تھا کہ جب آپؐ کو حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؓ کی باہمی شکر رنجی کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود ان کے گھر تشریف لے گئے۔ کچھ دیر کے بعد باہر تشریف لائے تو اصحابؓ نے پوچھا ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! جب آپؐ گھر کے اندر گئے تو چہرۂ مبارک پر حزن و ملال کے آثار تھے اور جب باہر تشریف لائے ہیں تو بہت خوش اور مطمئن نظر آرہے ہیں، یہ کیا بات ہے؟‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’میں نے ان دو شخصوں میں صلح کرا دی ہے جو مجھے بہت زیادہ عزیز ہیں‘‘۔
(سیرت فاطمۃ الزہرہؓ۔ طالب الہاشمی بحوالہ مدارج النبوۃ، از شیخ عبدالحق محدث دہلوی)
اللہ تعالیٰ سب اہلِ ایمان کو شیطان کے شر سے بچائے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کی پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)

حصہ