(بسمل(مزمل شیخ

311

دماغ ایک انتہائی حیرت انگیز شئے ہے اور میچو کاکو نے بجا طور پر کہا تھا کہ آپ کے کاندھوں پر رکھا یہ دماغ ہماری معلوم کائنات میں پائی جانے والی سب سے پیچیدہ چیز ہے۔ نیورو سائنس اور شعبہ نفسیات کے سائنس دان مستقل کسی نہ کسی تحقیقی سرگرمی سے جڑے ہوئے دماغ کے کسی نہ کسی مظہر کو مستقل زیرِ بحث رکھتے ہیں۔ کچھ عرصے پہلے تک ہمارا یہ خیال تھا کہ ہم دماغ کے بارے میں کافی کچھ جان چکے ہیں۔ اس میں ہونے والے وظائف (Functions) نہ سہی، لیکن اس کی ساخت (Anatomy) کو ہم نے اچھی طرح سمجھ لیا ہے۔ لیکن یہ واہمہ بھی غلط ثابت ہوگیا جب سائنسی جریدے ’’نیچر‘‘ میں یہ تحقیق شائع ہوئی کہ دماغ کے نقشے پر نئی تحقیق کے مطابق 180 علاقے دریافت ہوئے ہیں جن میں سو کے قریب ایسے ہیں جن سے ابھی تک ہم بے خبر تھے۔ اس دریافت نے انسانوں کو ایک بار پھر حیرت کے سمندروں میں دھکیل دیا۔
لیکن جو ں جوں مادی ترقی بامِ عروج کو پہنچی، دماغی یکسوئی کو متاثر کرنے کا سامان بڑھتا چلا گیا۔ دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی نے افراد، اقوام اور انواع کے درمیان ضروریاتِ زندگی کے لیے جنگ در جنگ کا ایک لا متناہی سلسلہ شروع کردیا۔ انسانوں کو نہ صرف یہ کہ ہر ہر لمحے جہدِ بقا میں مصروف رہنا ضروری ہوگیا، بلکہ بقا کے ساتھ ’’زیبِ بقا‘‘ کو برقرار رکھنے کا بھی ایک نیا سلسلہ وجود میں آیا۔ یعنی اب بات صرف یہیں نہیں رکی کہ دن میں دو وقت پیٹ کیسے بھرا جائے، بلکہ سوالات اب اور بھی زیادہ بڑھ چکے ہیں۔ مثلاً کھانے میں کیا کھایا جائے؟ اس کے لوازمات کیا ہوں؟ دال ہو یا مرغی؟ بچوں کو کون سے اسکول میں پڑھایا جائے؟ گاڑی کون سی ہو؟ گھر کیسا ہو اور کس علاقے میں ہو؟ کپڑے کس طرح کے ہوں؟ موبائل کون سا ہو؟ اور اس سب کے بعد پھر برانڈ اور لگژری کا ایک لامحدود اور کبھی نہ ختم ہونے والا مقابلہ دائمی حرص و ہوس کو جنم دیتا ہے۔ یہ وہ سلسلہ ہے جس کی ڈور کا کوئی دوسرا سِرا موجود نہیں۔ اس سمندر کا کوئی بھی کنارہ قابلِ تسخیر نہیں ہے۔ اس جدلی کیفیت میں دماغی یکسوئی کا متاثر ہونا قطعاً اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ نتیجتاً ہم میں سے ہر ایک شعوری یا لاشعوری طور پر نفسیاتی عارضوں اور واہموں میں جکڑتا چلا جارہا ہے۔ کوئی مستقل کامیابی کی وجہ سے احساسِ برتری میں، اور کوئی ناکامی سے احساسِ کمتری میں مبتلا ہوتا ہے۔ کوئی مایوسی کی وجہ سے ڈپریشن کا مریض بنتا ہے اور کوئی سہولیات کی زیادتی اور خوب سے خوب تر کی تلاش میں اپنے نفسیاتی ٹھیراؤ کو خیرباد کہہ دیتا ہے۔
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ ان نفسیاتی امراض سے کس طرح بچاؤ کیا جائے؟ اب تک کے مطالعات اور تحقیقات کے مطابق ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ نفسیاتی بیماریوں سے بچاؤ میں آپ کا طرزِ زندگی بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اس حوالے سے دماغی یکسوئی قابلِ ذکر ہے۔ بہت سے لوگ شکایت کرتے ہیں کہ کسی کام میں دل نہیں لگتا۔ کام کرنے بیٹھو تو کئی گھنٹے بعد بھی کام وہیں کا وہیں رہتا ہے اور دماغ اِدھر اُدھر کی باتوں میں مصروف رہتا ہے۔ کوئی بھی کام شروع کرنے کے بعد اختتام تک نہیں پہنچ پاتا اور وجہ یہی ہے کہ وہ کسی بھی کام کو یکسو ہوکر اپنی توجہ نہیں دے پاتے اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دماغ راہِ فرار اختیار کرنا شروع کردیتا ہے۔ ذیل میں چند ایسے قابلِ ذکر طریقے بتائے جارہے ہیں جن پر عمل کرتے ہوئے آپ اپنی روزمرہ زندگی کو نہ صرف بہتر طریقے سے استعمال میں لا سکتے ہیں بلکہ بہت سے نفسیاتی امراض سے قبل از وقت بچاؤ بھی کرسکتے ہیں۔
جسمانی ورزش کو معمول بنائیں
عام طور پر ہمارے یہاں ورزش صرف وہ لوگ کرتے ہیں جو اپنے جسم کی ساخت کو اچھا کرنا چاہتے ہوں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ورزش کا کوئی ایک فائدہ نہیں بلکہ سیکڑوں جسمانی اور نفسیاتی فوائد ہیں۔ دماغ کے حوالے سے الزائمرز اور پارکنسن جیسی بیماریوں سے بچاؤ کے لیے ماہرین ورزش کو بہت اہم قرار دیتے ہیں۔ ایسی متعدد تحقیقات ہیں جن میں جسمانی ورزش کو اے ڈی ایچ ڈی (ADHD)، بائیپولر ڈس آرڈر (Bipolar Disorder) ڈپریشن، پینک (Panic) اور دوسرے نفسیاتی امراض میں بھی مفید پایا گیا ہے۔ ورزش کے لیے کوئی بہت محنت و مشقت کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ عام طور پر دن میں بیس منٹ کی جسمانی ورزش ہفتے میں کم از کم چار دن کرنے سے بہت سے نفسیاتی امراض کو قابو میں رکھا جاسکتا ہے۔ کرنا صرف یہ ہے کہ دن کے کسی بھی آدھے گھنٹے کا انتخاب کرلیں اور اس میں بھاگ دوڑ جیسی کسی ورزش کو معمول بنا لیں۔ اگر آپ گھر سے باہر نہیں جا سکتے تو رسّی کودنا ایک ایسی ورزش ہے جو آپ اپنے کمرے سے باہر نکلے بغیر بھی کرسکتے ہیں۔ اگر پہلے دن سے بیس منٹ ورزش نہیں کرسکتے تو دس منٹ سے شروع کریں اور روزانہ دو منٹ بڑھاتے جائیں۔ ایک ہفتے میں سو یا ایک سو بیس منٹ کی ورزش آپ کی صحت پر نمایاں اثرات لے آئے گی جو کہ آپ چند دنوں میں ہی محسوس کرنے لگیں گے۔ بس یہ احتیاط رہے کہ کھانے کے فوراً بعد ورزش نہ کی جائے بلکہ کھانے سے پہلے یا پھر کھانے کے دو گھنٹے بعد کریں۔
ٹائم ٹیبل بنائیں
جی ہاں، ایک ٹائم ٹیبل بنائیں جس میں اپنے دن بھر کے کاموں کی ترجیحات ترتیب دیں۔ اور اس ٹائم ٹیبل کو کسی ایسی جگہ چسپاں کردیں جہاں آپ کا زیادہ وقت گزرتا ہو۔ جیسے اپنے کمرے کی کسی الماری پر یا اپنی کام کرنے والی ٹیبل یا میز وغیرہ پر۔ مختلف امور کو ترجیحی بنیادوں پر ترتیب دے کر ٹائم ٹیبل میں لکھیں۔ سب سے اہم جو معاملہ ہے وہ ٹائم ٹیبل بنانے کے بعد سختی سے اس پر عمل کرنے کا ہے۔ ممکن ہے کہ شروع میں یہ کام تھوڑا مشکل ہو، لیکن آپ کو جبراً ایسا کرنا ہوگا۔ اس ترکیب کو اختیار کرنے سے آپ کا دماغ نظم و ضبط کا عادی ہونا شروع ہوجائے گااور وقت کے ساتھ آپ کی یکسوئی میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔
اپنے کاموں پر انعام مقرر کریں
جی آپ نے درست پڑھا۔ اپنے کاموں پر انعام مقرر کریں۔ یہ ترکیب بھی بہت کارآمد ہے۔ ایسا کرنے سے دماغ آہستہ آہستہ خود اس بات کا عادی ہوجائے گا کہ آپ اپنی کسی بھی من پسند سر گرمی کو اختیار کرنے سے پہلے کوئی ایسا ٹاسک مکمل کرتے ہیں جو کہ مشروط ہوتا ہے اور رفتہ رفتہ آپ کے ضروری کام نمٹنے لگیں گے۔
سیر و سیاحت کریں
جی بالکل، سیر و سیاحت اتنی ہی ضروری ہے جتنا کہ زندہ رہنے کے لیے خوراک اور غذا۔ گھر یا دفتر میں بند زندگی آپ کے دماغ پر انتہائی منفی اثرات چھوڑتی ہے، جس کی وجہ سے آپ میں بیزاری، مایوسی اور انتہائی حالات میں ترکِ دنیا کا رجحان پیدا ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ اس کا بہتر راستہ یہ ہے کہ سفر کریں۔ کسی بھی ایسی جگہ جائیں جو آپ کی استطاعت میں ہو۔ اندرونِ ملک یا بیرونِ ملک، کوئی بھی جگہ جہاں آپ سکون محسوس کریں۔ دراصل سیر و سفر سے آپ کے دماغ کو سکون پہنچتا ہے جس کے نتیجے میں دماغ کی ہائپر ایکٹی ویٹی (Hyperactivity) میں کمی آتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں دماغ کو سکون دینے والی ایسی تمام سرگرمیاں مراقبے (Meditation)کا قائم مقام ہوتی ہیں۔
(باقی صفحہ 41پر)
سوشل میڈیا کا استعمال محدود کردیں
سماجی روابط کی ویب سائٹس دماغی یکسوئی کو ختم کرنے کا مضر ترین ہتھیار ہیں۔ جہاں اس کے فوائد سے انکار نہیں کیا جاسکتا وہیں اس کے منفی اثرات پر اگر نظر نہ رکھی جائے تو بھاری نقصان کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ بدقسمتی سے فیس بک، ٹویٹر، انسٹا گرام اور دوسری سماجی روابط کی ویب سائٹس ہمارے یہاں فائدوں سے کہیں زیادہ نقصان کا سبب بن رہی ہیں۔ ایسے بھی لوگ دیکھنے میں آئے ہیں جو کہ ایسی ویب سائٹس کے مستقل اور لگاتار استعمال کی وجہ سے اپنی حقیقی زندگی میں ہر کام سے بیزار ہوتے چلے گئے۔ گھر اور دفتر کے کام ایک کے بعد ایک بڑھتے جا رہے ہیں لیکن ختم ہونے کی نوبت نہیں آرہی۔ اس لیے ان ویب سائٹس کے استعمال کو ترک نہ سہی، لیکن محدود کردیں۔ ٹائم ٹیبل میں ان ویب سائٹس کا خانہ بنائیں اور وہاں ان کے استعمال کا وقت درج کریں اور کوشش کریں کہ اس کے سوا دوسرے اوقات میں ان ویب سائٹس کا استعمال نہ ہو۔
حرفِ آخر
یہ وہ تبدیلیاں ہیں جو اگر آپ اپنی زندگی میں لے آئیں تو نہ صرف آپ کے دماغ پر مثبت و دیرپا اثرات مرتب ہوں گے، بلکہ آپ کی زندگی میں ایک نظم و ضبط بھی آئے گا اور آپ کے کام مقررہ وقت پر مکمل بھی ہوں گے۔ آپ کا دماغ ایک فریبی شئے ہے اور اگر آپ چاہتے ہیں کہ یہ آپ کے قابو میں رہے تو اسے کسی نہ کسی طریقے سے بیوقوف بناتے رہیں۔ لیکن کچھ نہ کچھ کرنا ضروری ہے ورنہ دواؤں کا سہارا لینا پڑے گا اور ضروری نہیں کہ ہر بیماری کو ناسور بنانے کے بعد ہی اس کا علاج کیا جائے۔

حصہ