(ڈونلڈپ ٹرمپ کا پہلا خطاب(عمر ابراہیم

220

’’آؤ متحد ہوجائیں، ریڈیکل اسلام کو صفحۂ ہستی سے مٹادیں! پرانا اتحاد مضبوط بنائیں، نئے اتحادی بنائیں، اور مہذب دنیا کا لاؤ لشکر لے کر اس ’’برائی‘‘ کا وجود فنا کردیں۔ انجیل مقدس کہتی ہے کہ متحد رہو، فتح مند رہوگے۔ امریکہ خدائے بزرگ کی حفاظت میں ہے۔‘‘
شانِ خداوندی ہے، ڈونلڈ ٹرمپ نے سچ کا سفر آسان کردیا۔ ظاہر ہٹ گئے، باطن سامنے آگئے۔ گمراہ کن اصطلاحات میں لپٹی مغربی منافقتیں عریاں ہوگئیں، مغرب زدہ سوشلسٹ اور لبرل باقیات کی تاویلات اور حیلے بازیاں بے وقعت ہوگئیں۔ بنیاد پرستی، انتہا پسندی، اور دہشت گردی کے پردے ہٹ گئے۔ ریڈیکل اسلام قدرے بلاغت سے سامنے آگیا۔ یوں سمجھ لیجیے، مجددِ اسلام سید مودودیؒ کی تعلیم زمینی حقیقت بننے لگی۔ ’اسلام اور جاہلیت‘ کا پس منظر اور پیش منظر ضم ہونے لگے، تصادم کے خدوخال مکمل ہونے لگے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے انسانوں کی دنیا کو دو کیمپوں میں تقسیم کردیا۔ چند سطروں سے سرمئی حصہ مٹا ڈالا۔ سیاہ سفید صاف کرڈالا۔ انقلابی اسلام اور مہذب نما جاہلیت کی واحد کشمکش مان لی، واحد تصادم تسلیم کرلیا۔ ’اسلام اور جاہلیت‘ کی توضیح، تصریح، تشریح، اور تفصیل کی نئی ضرورت زندہ کردی۔ تہذیبی تصادم میں ’اسلام اور جاہلیت‘ کی غالب حیثیت نمایاں کردی۔ یہ امریکہ زدہ دنیا کا علانیہ اعتراف ہے، کہ عالمی نظام کے لیے واحد مبارزت ’انقلابی اسلام‘ ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ مزاحیہ ہوسکتا ہے، احمق ہوسکتا ہے، متنازع ترین صدر ہوسکتا ہے، اور ہر جانب سے تنقید کا شکار بھی ہوسکتا ہے۔ مگر یہی سچ ہے کہ یہی مغرب کا چہرہ ہے، یہی مغرب کی فکر ہے، یہی مغرب کی غالب قوت ہے، یہی مغرب کی زمینی حقیقت ہے، اور یہی مغرب کی اصل قیادت ہے۔ جو سمجھتے ہیں ٹرمپ کی باتیں بڑھکیں ہیں وہ ناسمجھ ہیں۔ جو سمجھتے ہیں ٹرمپ ہوائی باتیں کررہا ہے وہ زمینی حقائق سے واقف نہیں۔ ٹرمپ کے صدارتی خطاب نے امریکہ سے دشمنی کی دکان چمکانے والوں کی اہمیت ختم کردی۔ روس اور چین کے نام تک نہ لیے گئے۔ داعش کا نام بھی نہ سنا گیا۔ مغرب کے اس نمائندے کے مختصر خطاب کا موضوع تھا صرف ’انقلابی اسلام‘۔ اس خطاب میں انسانوں کی مہذب نما دنیا کو جو واحد مسئلہ درپیش تھا، وہ ’غلبہ اسلام‘ کا تھا۔
چند سطروں کا یہ ایسا سچ ہے، جس نے مغرب کا فلسفۂ حیات خس و خاشاک کردیا۔ عالمی معاشی کشمکش کا ماحول اور مسابقتیں ملیامیٹ کردیں۔ امریکہ زدہ دنیا جیسے یکایک یتیم ہوگئی۔ کہاں گئی وہ یک قطبی دنیا، جسے اشتراکی روس سے رقابت تھی؟ چین کی معاشی ترقی سے مسئلہ تھا؟
کہاں گیا وہ امریکہ، جو عالمگیریت، انسانیت اور مساوات کا درس دیتا تھا؟
کہاں گیا لبرل جمہوریت کا برآمد کنندہ؟ کہاں گیا وہ انکل سام، جسے بڑے بڑے ملکوں کی چھوٹی چھوٹی قوموں سے بڑی ہمدردی تھی؟ آج اُس کا دیس کیسے ’سب سے پہلے امریکہ‘ ہوگیا؟ کہاں گئیں عالمی معاشی اقدار؟ کہاں گئے مالی مسئلے؟ کہاں گیا سیکولر امریکہ کا تشخص؟
ٹرمپ کی تقریر پر کسی عالمی قوت سے کوئی تبصرہ برآمد نہ ہوسکا۔ صرف صدمے سے دوچار لبرل، نیولبرل، ڈیموکریٹک، ہیومنسٹ، اور دہریے سڑکوں پر آگئے، سب توڑپھوڑکر رکھ دیا۔ لندن سے واشنگٹن تک احتجاج ہی احتجاج ہوا، یہ درحقیقت وہ صدمہ تھا جو مغربی اقدارکی موت پر ہوا تھا۔ اکثریتی سطح پر ٹرمپ مخالف جذبات اور مسلمانوں سے ہمدردی کا دور تک کوئی تعلق نہیں۔
سچ کی چند سطریں، مسئلہ مغرب کی نشاندہی کرگئیں۔ مسئلہ ہے اسلامی تہذیب، جو انسانی حیات کے بنیادی سوالات کا واحد جواب ہے۔ جو انسان کی فطری ضروریات اور تقاضوں سے ہم آہنگ ہے۔ جو انسان کی سلامتی اور نجات کا واحد راستہ ہے۔ یہ راہ ’اسلام اور جاہلیت‘ کی کشمکش سے نکلتی ہے۔ یہ راہ مصری زندانوں، بنگالی پھانسی گھاٹوں سے گزرتی ہے۔ یہ راہ دریائے ناف کی لہروں سے، بحیرہ روم کی موجوں سے نکلتی ہے۔ یہ ایلان کردی، محمد شحیط اور بے شمار معصوم شہادتوں سے گزرتی ہے۔ یہ برہان وانی کی مسکراہٹ سے، سید علی گیلانی کی عزیمت سے گزرتی ہے۔ یہ راہ عافیہ کی روشن روح کا سفر ہے۔ یہ سفرآسان نہیں، قدم قدم بلا ہے، وادئ پُرخارہے، نمرود کی آگ ہے۔
آج یہی سفرِ اسلام مہذب نما طاغوت پر گراں ہے۔ مگر یہی انسانی انقلاب کا واحد سفر ہے، یہی منزل تک لے جاتا ہے، اس سے مفر ممکن نہیں۔ رہ گئی بات بڑھک کی، روئے زمین کے چہرے سے صرف وہی مٹے گا جسے انجیل مقدس نے مٹادیا۔
nn

حصہ