فرائیڈے اسپیشل: آپ کا ادارہ ملک کے دفاعی اور تزویراتی امور پر کام کررہا ہے اور اسی حوالے سے تحقیقی کام بھی کرتا ہے۔ یہ بتائیے کہ امریکہ میں حال ہی میں ایک بہت بڑی تبدیلی آئی ہے اور ڈونلڈ ٹرمپ صدر بن گئے ہیں جن کے بارے میں بہت سے خدشات سامنے آئے ہیں۔ اس خطے اور بالخصوص پاکستان کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ کیسے صدر ثابت ہوں گے؟
ڈاکٹر ماریہ سلطان: ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں واقعی بہت سی باتیں کی جارہی ہیں اور خدشات بھی ظاہر کیے جارہے ہیں، لیکن ان کے بارے میں یہ بات کی جاسکتی ہے کہ وہ پاکستان کے لیے امریکہ کے ماضی کے صدور سے بہت مختلف ثابت ہوں گے اور ان کا انتخاب پاکستان کے لیے بھی بہتر ثابت ہوگا۔ وہ وہاں کی اسٹیبلشمنٹ کی توقعات کے برعکس صدر منتخب ہوئے ہیں۔ ہلیری کا خیال تھا کہ وہ وہاں کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ چل رہی ہیں لہٰذا ان کے لیے منتخب ہونا مشکل نہیں ہوگا۔ لیکن نتائج ان کی توقع کے برعکس نکلے۔
فرائیڈے اسپیشل: ٹرمپ پاکستان کے لیے کیسے بہتر ثابت ہوں گے؟ اپنی اس رائے کی کچھ وضاحت کردیں۔
ڈاکٹر ماریہ سلطان: بارک اوباما انتظامیہ نے اِس خطہ میں پاکستان کے بجائے بھارت کی حمایت کی اور اسے اہمیت دیتی رہی، بلکہ بھارت سے اوباما انتظامیہ نے دفاعی معاہدے کیے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ معاہدے حد سے آگے جاکر کیے گئے ہیں۔ اوباما کی جانب سے امریکہ کی تاریخ میں ایک اور بہت عجیب کام کیا گیا کہ وہ جاتے جاتے ایک ایسا فیصلہ مسلط کرکے جانا چاہتے تھے جس سے پاکستان کے ان 44 اداروں پر قدغن لگ جاتی جو ہماری دفاعی ضروریات میں مددگار سمجھے جاتے ہیں۔ الفا پراجیکٹ کی چھتری تلے یہ فیصلے اور اقدامات کیے گئے تھے، لیکن ہماری جانب سے ردعمل ہوا اور خدشات ظاہر کیے گئے تو اس کا یہ نتیجہ نکلا کہ اب یہ اقدامات محض سات اداروں تک محدود ہوگئے ہیں، جب کہ ٹرمپ انتظامیہ ان اقدامات کو درست نہیں سمجھتی۔ ٹرمپ انتظامیہ پاکستان کو ایک الگ ملک تصور کرے گی اور اسی حساب سے ہمارے ساتھ بات کرے گی۔ لیکن ماضی میں اوباما انتظامیہ اور دیگر نے نائن الیون کے بعد ہمیں افغانستان کے ساتھ جوڑ دیا تھا اور یہ سمجھا گیا کہ پاکستان پارٹنر نہیں بلکہ ایک مسئلہ ہے، جسے حل کرنا ضروری ہے۔ نئی امریکی انتظامیہ اب پاکستان کو ایک الگ ملک کے طور پر دیکھے گی۔ وہ بھارت کو بھارت، افغانستان کو افغانستان کے طور پر دیکھے گی۔ ہمیں افغانستان کے ساتھ نتھی کیا جائے نہ بھارت کے ساتھ۔ ٹرمپ نے حلف اٹھانے کے بعد تقریر کی اور وہ سی آئی اے ہیڈ کوارٹر بھی گئے، لیکن ان دونوں جگہ کی جانے والی گفتگو میں بہت فرق ہے، اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: ٹرمپ کو لانے کی پالیسی کیا وہاں کی اسٹیبلشمنٹ کی تھی؟
ڈاکٹر ماریہ سلطان: امریکہ میں کہا جاتا ہے کہ امریکی صدر تو غلطی کرسکتا ہے لیکن امریکی صدر کا آفس، اوول آفس غلطی نہیں کرسکتا۔ ماضی میں وہاں دراصل سی آئی اے نے کھل کر اپنا کھیل کھیلا اور امریکی صدور کو اپنے طے شدہ اہداف کے دائرے کے اندر رہنے پر مجبور کیے رکھا، اسی لیے پاکستان کے لیے مسائل بڑھتے رہے اور ہمیں سلالہ جیسے واقعات بھی دیکھنا پڑے۔ ہم نے امریکہ کے ساتھ مل کر کام کیا لیکن ہماری ہی فوجی چیک پوسٹ سلالہ پر حملہ کیا گیا۔ اس کے بعد ہم نے کہا کہ اب ہم بھی اپنے مقاصد اور اہداف کے مطابق ہی کام کریں گے۔ نائن الیون کے بعد امریکی سی آئی اے نے بہت سے شعبوں میں کام کیا جن میں میڈیا بھی شامل ہے، پارلیمنٹ اور تاجر بھی شامل ہیں، طلبہ اور اساتذہ بھی شامل کیے گئے۔ ہماری اطلاع کے مطابق پاکستان سے اسّی ہزار ایسے لوگ تھے جو براہِ راست امریکیوں کے لیے کام کرتے تھے۔
فرائیڈے اسپیشل: پاکستان میں ایسا کس طرح ہوا؟
ڈاکٹر ماریہ سلطان: کیری لوگر بل کیا تھا! یہاں سے اسّی ہزار افراد اس کے لیے کام کرتے تھے، جن کا میڈیا سمیت زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق تھا۔ ہمارے ہاں بائیس ایسے مقام ہیں جہاں انہوں نے پیسہ لگایا اور میڈیا کے علاوہ سیاست دانوں اور ریٹائرڈ عسکری شخصیات پر بھی پیسہ لگایا اور یہ فیصلہ ہوا کہ ایک لاکھ ڈالر جس جس کو دیے جائیں گے ان کے نام تیس سال تک خفیہ رکھے جائیں گے۔ آپ دیکھیں کہ نائن الیون کے بعد بہت سے ایسے چہرے ہمارے میڈیا پر آئے جن کا میڈیا سے کوئی تعلق ہی نہیں رہا اور جن تک ہماری کبھی رسائی نہیں ہوتی تھی، اور میڈیا میں آنے کے بعد بھی وہ رسائی سے باہر رہے ہیں، لیکن وہ ہر میڈیا ہاؤس کے ہر پروگرام اور ٹاک شوز میں لازمی شریک ہوتے تھے۔ یہ لوگ اسی منصوبہ بندی کا حصہ تھے جس کے لیے سی آئی اے نے پیسہ لگایا۔ سی آئی اے نے ہمارے معاشرے میں باقاعدہ اہداف طے کرکے کام کیا، اور لوگوں کو اپنا بناکر جن پر کام ہوا اُن میں شکیل آفریدی جیسے لوگ اس کی مثال ہیں۔ اسی طرح انہوں نے ہائر ایجوکیشن میں کام کیا اور اپنے بندے لگائے، پارلیمنٹ کی دفاعی کمیٹی میں، اور پارلیمنٹ کے اسٹاف پر بھی اپنے اہداف کے حصول کے لیے کام کیا۔ سلالہ چیک پوسٹ پر امریکی حملے کے بعد سی آئی اے کے ساتھ ہمارے اختلافات پیدا ہوئے اور ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ اپنے مفادات کا ہر قیمت پر تحفظ کریں گے۔ اسی لیے ہم نے نیٹو سپلائی روکی۔ کیری لوگر بل ہی نے تو خرابیاں پیدا کی ہیں کہ پیسہ شخصیات اور این جی اوز کے ذریعے تقسیم ہوا۔ اس کی مدد سے امریکہ نے ساری دنیا میں اور پاکستان میں بھی اپنے اہداف کے حصول کے لیے مقامی افراد تیار کیے اور ان سے کام لیا۔
فرائیڈے اسپیشل: کوئی اور ذریعہ بھی اپنایا؟
ڈاکٹر ماریہ سلطان: جی، منشیات اور ڈرگ کی اسمگلنگ کی اور اس سے پیسہ بنایا اور پیسہ تقسیم کیا۔ سی آئی اے اس میں پیش پیش رہی ہے۔ منشیات کا نوّے فی صد حصہ افغانستان میں پیدا ہوتا ہے اور اس میں چالیس فی صد منشیات پاکستان کے راستے دنیا بھر کے ممالک میں اسمگل کرکے بھیجی جاتی ہے۔ سی آئی اے نے ہزاروں بلین ڈالر منشیات سے کمائے اور اس کی جگہ کوکین نے لے لی ہے۔ سی آئی اے جس طرح بے لگا م ہورہی تھی اب ٹرمپ کے آجانے کے بعد یہ امید پیدا ہوئی کہ وہ اسے لگام ڈالیں گے۔ اسی لیے دنیا بھر میں سی آئی اے نے ہی ان کے خلاف مظاہرے کرائے ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: سوال یہ ہے کہ نئی انتظامیہ ماضی سے کیسے مختلف ہوگی؟
ڈاکٹر ماریہ سلطان: ٹرمپ سی آئی اے کے ایسے اقدامات کے خلاف ہیں، انہیں ماضی کی امریکی انتظامیہ کے ان اقدامات سے بھی اتفاق نہیں جن کے تحت دفاعی ٹیکنالوجی بیرون ملک منتقل کی جارہی ہے۔ ٹرمپ کا مؤقف ہے کہ اس طرح اپنے ملک میں بے روزگاری بڑھ جائے گی اور ٹیکنالوجی منتقل کرنے سے امریکی اثر بھی کم ہوجائے گا۔ اب دیکھیں کہ نائن الیون کے بعد پاکستان پر کوئی تین سو ستّر ڈرون حملے ہوئے ہیں۔ ایک حملے کے لیے نوّے ملین ڈالر اخراجات آتے ہیں، اور اس طرح ڈرون حملوں میں امریکی انتظامیہ نے چار سو ستّر بلین ڈالر خرچ کیے ہیں۔ سی آئی اے پاکستان کے مقابلے میں بھارت کی طرف داری کرتی ہے، وہ بھارت کے ساتھ دفاعی شعبے میں تعاون بڑھانے کی خواہاں ہے، لیکن امریکی صدر ٹرمپ ایسا نہیں کرنے دیں گے۔ سی آئی اے کی وجہ سے ہی تو بھارت اور امریکہ کا مؤقف ایک ہوا ہے کہ دونوں تحریک طالبان اور جیشِ محمد کے بارے میں یکساں سوچ رکھے ہوئے ہیں۔ بھارت صرف اور صرف وہی بات کہتا ہے جس کا اشارہ واشنگٹن سے ہوتا ہے۔ اوباما بھی سی آئی اے کی اسی پالیسی کو لے کر چلتے رہے ہیں۔ لیکن اب وہاں تبدیلی آگئی ہے۔ اوباما انتظامیہ نے بھارت کے ساتھ 63 معاہدے کیے ہیں جن میں دفاعی ٹیکنالوجی کی منتقلی بھی شامل ہے، جس کے نتیجے میں امریکی سائنس دان بھارت جائیں گے اور بھارت کے سائنس دان امریکہ جائیں گے، اور اسی معاہدے کے تحت بھارتی شہر ممبئی اور حیدرآباد میں بہت بڑی تبدیلیاں لائی جانی تھیں، لیکن ٹرمپ نے آکر پالیسی بدل دی ہے۔ سی آئی اے نے ہی تو بھارت کو میزائل ٹیکنالوجی دی کہ ایک میزائل کی مدد سے چھے جگہ فائر کیا جاسکتا ہے۔ اب امریکہ اسے ایف سولہ طیاروں کی ٹیکنالوجی بھی دے رہا تھا۔ ٹرمپ انتظامیہ ان معاہدوں کے بارے میں ماضی کے برعکس فیصلے کرے گی۔
فرائیڈے اسپیشل: یہ بتائیے کہ امریکی انتظامیہ کے نزدیک سب سے زیادہ اہمیت کس چیز کی ہوتی ہے؟
ڈاکٹر ماریہ سلطان: امریکی معاشرے اور معیشت کی بنیاد یہ ہے کہ اسلحہ مارکیٹ، دفاعی اشیاء اور تحقیقی عمل کے علاوہ ڈالر کی قیمت مستحکم رکھی جائے، جس کے لیے امریکہ دنیا بھر کی معیشت کو کنٹرول میں رکھتا ہے۔ جب سی آئی اے نے امریکی دفاعی ٹیکنالوجی ہی بیرونِ ملک منتقل کرنا شروع کردی اور اس کے لیے فیصلے کرلیے تو اس بات کو ٹرمپ نے چیلنج کیا۔ ان کا مؤقف ہے کہ اس طرح ملک میں ادارے بند ہوجائیں گے جس کے نتیجے میں بے روزگاری بڑھ جائے گی اور معاشرے میں عدم توازن ہوجائے گا۔ ایک لاکھ ڈالر اگر کہیں دیے جائیں تو اس کے نتیجے میں چودہ ہزار ملازمتیں پیدا ہوتی ہیں، اور اگر یہی کام دنیا میں امریکہ کرتا چلا جائے تو اس کے اندر بے روزگاری کا طوفان آجائے گا۔
فرائیڈے اسپیشل: کیا یہ ممکن ہے کہ نائن الیون کے بعد جو قوانین بنائے گئے وہ بھی ٹرمپ ختم کرائیں گے؟
ڈاکٹر ماریہ سلطان: بہت سے قوانین ہیں جو اقوام متحدہ اور اس کے اداروں کے ذریعے بنوائے گئے ہیں۔ ایسے قوانین تو شاید ختم نہ ہوسکیں، لیکن ٹرمپ انتظامیہ نئے قوانین کے لیے پرانی حکمت عملی اختیار نہیں کرے گی، وہ امریکہ کے اندر ایسی سوچ پیدا کرنے جارہی ہے کہ امریکہ خود اپنے اندر رہے اور داخلی مسائل حل کرے۔
فرائیڈے اسپیشل: کیا یہ ممکن ہے کہ نائن الیون کے بعد امریکہ نے پاکستان کے ساتھ جس طرح کا سلوک کیا اور ہمیں کولیشن فنڈز تک سے محروم رکھا، اس کا ازالہ کیا جائے؟
ڈاکٹر ماریہ سلطان: امریکی سی آئی اے نے اس شعبے میں بہت بدعنوانیاں کی ہیں۔ آپ دیکھیں کہ پاکستان نے امریکہ کو اخراجات کے بل بھجوائے جو کہ 13.8 بلین ڈالر کے قریب تھے، لیکن امریکہ نے ان میں سے 11.3 بلین ڈالر منظور کیے، اور سب سے مزے کی بات یہ ہے کہ اس نے 24.4 بلین ڈالر کے اخراجات ظاہر کیے ہیں جو کہ کہیں بھی خرچ نہیں ہوئے، یہ ساری رقم کرپشن کی نذر ہوئی ہے۔ کرپشن اس حد تک ہوئی کہ سی آئی اے نے افغانستان کو بحری جہاز تک دیے ہیں جن کا کوئی وجود ہی نہیں ہے اور نہ افغانستان کے ساتھ سمندر لگتا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: یہ رقم کس کی جیب میں گئی؟
ڈاکٹر ماریہ سلطان: سی آئی اے کھاگئی۔ اسی کو پتا ہونا چاہیے کہ یہ رقم کہاں گئی۔
فرائیڈے اسپیشل: پرویزمشرف کی کتاب میں ذکر ہے کہ انہیں دس لاکھ ڈالر ملے۔ لیکن انہوں نے یہ ذکر اپنی انگریزی کتاب میں تو کیا اردو ایڈیشن میں نہیں کیا۔
ڈاکٹر ماریہ سلطان: امریکہ نے فیصلہ کررکھا تھا کہ جہاں یہ رقم خرچ کی جائے، حقائق جاننے کے لیے وہاں تک کسی کی رسائی نہ ہو۔
فرائیڈے اسپیشل: یہ بتائیے کہ اس وقت سی پیک کے بارے میں بہت کہا اور لکھا جارہا ہے، اس بارے میں آپ کا تجزیہ کیا ہے، یہ منصوبہ کس حد تک پاکستان کے لیے فائدہ مند ہوگا؟
ڈاکٹر ماریہ سلطان: یہ منصوبہ واقعی گیم چینجر ہے۔ سی پیک 2018ء تک بن جائے گا۔ اس حوالے سے چین ہمیں جو مدد دے رہا ہے وہ بہت اہم ہے۔ وہ ہمیں بجلی کے منصوبوں میں پیسہ دے رہا ہے، ریلوے کے نظام کو بہتر بنانے میں مدد دے رہا ہے، اور گوادر پورٹ تعمیر کرکے دے رہا ہے۔ اس منصوبے کی تکمیل کے بعد پاکستان میں ترقی کی رفتار بڑھ جائے گی اور ہم معاشی میدان میں کامیاب ہوجائیں گے۔ اس منصوبے میں بہت سا روزگار ہے۔ سب سے بڑا کام انٹرنیٹ کا ہے۔ ہماری مصنوعات دنیا بھر میں متعارف ہوجائیں گی، جو بھی چیز یہاں بنے گی اور تیار ہوگی اگلے ہی لمحے انٹرنیٹ کے ذریعے پوری دنیا کی مارکیٹ تک پہنچ جائے گی۔ گوادر ایک ایسی پورٹ ہے جس کے سامنے سے دنیا کی 70 فی صد تجارت گزرتی ہے، اور جب یہ پورٹ بن گئی تو دنیا کی معیشت کا مرکز یہی گوادر ہوگا۔
فرائیڈے اسپیشل: آپ کی گفتگو سے ایک بات سامنے آئی کہ ہمیں ہر شعبے کے لوگوں کو قومی سلامتی کے امور کے بارے میں ضرور آگاہ کرنا چاہیے اور اس کے لیے تیاری بھی کرنی چاہیے، آپ کا ادارہ اس حوالے سے کس حکمت عملی پر کام کررہا ہے؟
ڈاکٹر ماریہ سلطان: ہم نے ایک حکمت عملی بنائی ہے کہ ینگ پارلیمنٹیرین کو تربیت دی جائے تاکہ وہ قومی سلامتی کے امور میں حصہ لیں اور بہتر نتائج دے سکیں۔
فرائیڈے اسپیشل: اس وقت ہمارے لیے کیا خطرات ہیں؟
ڈاکٹر ماریہ سلطان: سب سے بڑا خطرہ سی آئی اے کا ردعمل ہے۔ وہ ہمارے ملک میں فرقہ وارانہ فسادات پیدا کرسکتی ہے۔ پارہ چنار میں حالیہ واقعہ بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہے کہ اس جگہ واردات کرکے امریکی سی آئی اے نے ملک میں فرقہ وارانہ فسادات کی آگ بھڑکانے کی کوشش کی ہے۔
nn