حامد ریاض ڈوگر

289

ریل کی پٹری پر ایک اور سانحہ۔۔۔ بغیر پھاٹک کے ریلوے کراسنگ نے ایک ہی خاندان کے چھ افراد کی زندگی کا چراغ گل کردیا۔ فالج کے ایک مریض کے لیے زندگی کی بھیک مانگنے کے لیے گھر سے نکلنے والا پورا خاندان موت کی وادی میں جا سویا۔ ضلع سرگودھا کی تحصیل سلانوالی کے چک 148/47 کا رہائشی منصبؔ فالج کا مریض تھا، اس کے خاندان کے لوگ ناصر، شہناز بی بی، محمد افضل اور فلک شیر ایک کمسن بچے فیضان کے ہمراہ اتوار 22 جنوری کو کار میں گوجرہ کے نواحی گاؤں 93 ج ب میں دلبر نامی شخص سے منصب کو دم کروانے کے لیے روانہ ہوئے۔ سوا گیارہ بجے کے قریب وہ راستے میں ’’پکا آتا‘‘ ریلوے اسٹیشن سے دوکلومیٹر کے فاصلے پر بغیر پھاٹک ریلوے کراسنگ سے گزر رہے تھے کہ کراچی سے لاہور آنے والی ریل گاڑی، شالیمار ایکسپریس (نائٹ کوچ) کی زد میں آگئے۔ ٹرین کار کو ایک کلومیٹر دور تک گھسیٹتے ہوئے لے گئی۔ کار کے پرخچے اڑ گئے، اور چھ انسانی لاشوں کے لوتھڑے اور خون دور دور تک پٹری اور اس کے اردگرد بکھر گئے، جنہیں مقامی لوگوں نے جمع کرکے سول ہسپتال گوجرہ پہنچایا۔
وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے اس شام لاہور ریلوے ہیڈ کوارٹرز میں پریس کانفرنس طلب کی اور حسبِ معمول واقعہ پر گہرے دکھ کا اظہار کیا اور 48 گھنٹے کے اندر ریلوے حکام سے رپورٹ طلب کرلی۔ پنجاب کے خادم اعلیٰ شہبازشریف نے بھی انسانی جانوں کے ضیاع پر دکھ اور افسوس کا اظہار کیا اور ضلعی انتظامیہ کو تفصیلی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔ وزیر ریلوے نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ریلوے کراسنگ پر حادثات میں نظام کی غلطی نہیں ملی، ریلوے کراسنگ پر ریفلیکٹر لگانے کے منصوبے پر کام کررہے ہیں، کہ ریلوے کی جانب سے خربدار بورڈ نصب تھا، ٹریک کی سطح بھی ہموار تھی، اس کے علاوہ پھاٹک سے قبل اسپیڈ بریکر بھی بنا ہوا تھا، مگر بدقسمت گاڑی کا ڈرائیور جلد بازی میں گزرنے کی کوشش میں ٹرین کی زد میں آگیا اور کار میں سوار تمام افراد موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے۔ انہوں نے کہا کہ ریلوے ایکٹ 1890ء کے سیکشن 12 کے مطابق ریلوے ٹریک سے راستہ دینے کے لیے کراسنگ پر گیٹ اور گیٹ مین تعینات کرنا صوبائی حکومتوں یا وہ اتھارٹی جو ریلوے ٹریک سے راستہ بنانا چاہتی ہے، اس کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ریلوے کے ذمے اس کراسنگ پر خبردار کا بورڈ آویزاں کرنا، ٹریک کو ہموار کرنا اور اگر ضرورت ہو تو وہاں پر اسپیڈ بریکر بنانا ہوتا ہے۔ یہ تینوں چیزیں حادثے کا باعث بننے والے ریلوے کراسنگ پر موجود تھیں۔ گویا ریلوے انتظامیہ اس سانحہ میں بالکل بری الذمہ ہے۔۔۔!!!
اللہ کرے یہ آخری حادثہ ہو، مگر یہ پہلا ہرگز نہیں تھا۔ گزشتہ ساڑھے تین سال کے دوران یعنی موجودہ حکومت اور وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کے اس وزارت کا چارج سنبھالنے کے بعد سے چھوٹی بڑی نوعیت کے تین سو سے زائد ریلوے حادثات رونما ہوچکے ہیں جن میں خود وزیر ریلوے کے بقول 80 سے زائد لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں جب کہ زخمیوں کی تعداد بھی سینکڑوں میں ہے۔
ابھی صرف دو ہفتے قبل اسی ماہ کی چھ تاریخ کو لودھراں کے قریب بچوں کو اسکول لے جانے والا موٹر سائیکل رکشہ کھلے پھاٹک سے گزرتا ہوا تیز رفتار ٹرین کی زد میں آگیا، جس سے رکشہ ڈرائیور اور اس کے بیٹے سمیت آٹھ جیتی جاگتی ہنستی کھیلتی زندگیاں لقمۂ اجل بن گئیں۔ لودھراں کے نواحی موضع کونڈی کے رہائشی طلبہ دو موٹر سائیکل رکشوں پر صبح اسکول جارہے تھے، لودھراں اور آدم واہن کے درمیان پھاٹک کا گیٹ کھلا دیکھ کر ڈرائیوروں نے رکشے گزارنے کی کوشش کی جو موت کا پیغام بن کر آنے والی تیز رفتار ٹرین کو دھند کی وجہ سے دیکھ نہ سکے۔ رکشہ پھاٹک میں پہنچا تو ’’ہزارہ ایکسپریس‘‘ اس پر چڑھ دوڑی اور تقریباً دو کلومیٹر تک رکشہ کو اپنے ساتھ گھسیٹتی ہوئی لے گئی۔ اس رکشہ پر 11 بچے سوار تھے، جب کہ دوسرا رکشہ ٹائر پھٹ جانے کی وجہ سے بچ گیا۔ اس المناک سانحہ میں ایک ہی خاندان کے 6 معصوم بچے اسکول کے بجائے منوں مٹی تلے جا پہنچے، جب کہ کئی معصوم شدید زخمی ہوگئے۔ ٹرین کے آہنی پہیوں کے نیچے روندے جانے والے پھول اور کلیوں کی حالت دیکھ کر ہر آنکھ اشکبار تھی۔ دوسری طرف وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق بھی اگلے دن جائے حادثہ پر پہنچے، مرحومین کے اہلِ خانہ سے تعزیت کی اور مرنے والوں کے لیے فی کس 15 لاکھ اور زخمیوں کے لیے فی کس 3 لاکھ روپے امداد دینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ حادثے کے ذمہ داران کو معاف نہیں کیا جائے گا۔
وزیر ریلوے ہر ایسے حادثے کے بعد تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دینے اور 48 یا 72 گھنٹوں میں رپورٹ طلب کیے جانے کا اعلان کرتے ہیں، ساتھ ہی حادثے کے ذمہ داروں کو معاف نہ کیے جانے اور عبرت ناک سزا دینے کا اعلان بھی اُن کی طرف سے کیا جاتا ہے، اور پھر کئی 48 اور 72 گھنٹے، دن، ہفتے، مہینے اور سال گزرتے چلے جاتے ہیں، نہ تو تحقیقاتی رپورٹ منظرعام پر آتی ہے اور نہ ہی آنکھیں کسی مجرم کو عبرت ناک سزا دیئے جانے کا منظر دیکھ پاتی ہیں۔ ایسے حادثات خصوصاً بغیر پھاٹک ریلوے کراسنگ پر رونما ہونے والے سانحات پر ہمیشہ صوبائی حکومتوں کی جانب سے ایسے کراسنگ پر پھاٹک لگانے اور گیٹ مین کی تعیناتی کے لیے اخراجات صوبائی حکومتوں کی طرف سے دیئے نہ جانے کو جواز بناکر ریلوے کے وزیر اور دیگر حکام خود تمام ذمہ داریوں سے جان چھڑا لیتے ہیں۔
دو ڈھائی سال قبل ایسے ہی ایک سانحہ کے بعد ریلوے ہیڈ کوارٹرز میں پریس کانفرنس کے دوران وزیر ریلوے نے یہ نوید سنائی تھی کہ انہوں نے پنجاب کے خادم اعلیٰ شہبازشریف سے مل کر انہیں صورتِ حال کی سنگینی سے آگاہ کیا ہے جس سے اتفاق کرتے ہوئے انہوں نے بغیر پھاٹک ریلوے کراسنگز پر آہنی پھاٹک لگانے کے لیے درکار رقم فوری طور پر ادا کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ اس وعدے کو دو ڈھائی برس بیت چکے ہیں مگر ابھی تک ریلوے پھاٹک لگنے کی نوبت نہیں آسکی جس کے باعث ان کراسنگر پر حادثات آئے روز کا معمول بن چکے ہیں اور ریلوے لائنوں پر بغیر پھاٹک کے ان راستوں کی تعداد ایک دو یا درجنوں میں نہیں، خود ریلوے حکام کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق مجموعی طور پر 3987 میں سے 2470 راستے ایسے ہیں جن پر پھاٹک موجود نہیں۔ اب یہ بتایا گیا ہے کہ ان پھاٹکوں کی تنصیب کے لیے پنجاب حکومت نے 61 کروڑ اور سندھ حکومت نے 10 کروڑ روپے ریلوے کو ادا کردیئے ہیں۔ اللہ کرے اب بھی یہ پھاٹک لگا دیئے جائیں اور اگر رقم میں کوئی کمی بیشی بھی ہو تو وزارتِ ریلوے اپنے فنڈز سے اسے پورا کرکے انسانی جانوں کے تحفظ کو یقینی بنائے اور صوبائی حکومتوں سے لین دین بعد میں کرلے، کہ انسانی جان کا تحفظ بہرحال مقدم تصور کیا جانا چاہیے۔
ان حادثات کا ایک اور پہلو بھی فوری توجہ کا طالب ہے، اور یہ کسی ایک فرد کا نہیں ہماری پوری قوم کا مسئلہ ہے۔ یہ مسئلہ جلدبازی کا مرض ہے جو بحیثیت قوم ہمیں لاحق ہوچکا ہے۔ ریلوے پھاٹک ہو یا سڑک پر ٹریفک کا اشارہ ۔۔۔ اکثر لوگ جان کی پروا کیے بغیر یہاں جلد بازی کا مظاہرہ کرتے نظر آتے ہیں اور قانون اور قواعد و ضوابط کی پروا نہیں کی جاتی، جس کے نتیجے میں جلدباز لوگ خود بھی جانی و مالی اذیت سے دوچار ہوتے ہیں اور دوسروں کے لیے بھی نقصان اور پریشانی کا سبب بنتے ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ حکومت ایک جانب قوانین اور قواعد و ضوابط کی پابندی کروانے کے لیے ٹھوس عملی اقدامات کرے اور دوسری جانب عوام میں اس کی اہمیت، افادیت اور ضرورت کو اجاگر کرنے کے لیے بھرپور آگاہی مہم کا بھی ہر سطح پر اہتمام کیا جائے۔
nn

حصہ