(عظیم تالیف(عبدالصمد تاجیؔ

263

بیس بائیس سال قبل روزنامہ ’پاکستان‘ کراچی کے عیدمیلادالنبی ایڈیشن میں پروفیسر خیالؔ آفاقی صاحب نے جو اداریہ لکھا وہ آج بھی ذہن میں تازہ ہے:
’’اے اللہ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! کائنات کی تاریخ میں آپؐ کے سوا کون ہے جس کو اس قدر چاہا گیا ہو؟ آج بھی ایک ارب سے زیادہ فرزندانِ توحید، شمع رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے پروانے جذبۂ عشق سے سرشار آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جاں نثاری کی تمنا رکھتے ہیں۔ صدقت یارسول اللہ، صدقت یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حق فرمایا۔ ہم اعتراف کرتے ہیں کہ جس شدت سے ہمارے سینے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے سرشار ہیں اسی قدر ہمارے اعمال کی دنیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے خالی ہے۔ ہم صرف گفتار کے غازی بن کر رہ گئے ہیں۔ لیکن آہ! اے ہمارے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وسلم آج ہم آپؐ سے بہت شرمسار ہیں، ہم آپؐ کو منہ دکھانے کے لائق نہیں، ہم نے وہ سب گنوا دیا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عطا فرمایا تھا۔
اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ سے دعا فرمایئے کہ ہم پھر وہی مثالی امت بن جائیں جس کو قرآن نے ’’امتِ وسط‘‘ قرار دیا ہے، یقیناًاس وقت ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جشنِ ولادت مناتے نور میں ڈوبے ہوئے محسوس کریں گے، لیکن آج تو ہم تاریکیوں میں کھوئے ہوئے ہیں۔‘‘
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انظر حالنا
یا حبیب اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسمع قالنا
اور پروفیسر صاحب پر نظرِ عنایت ہوئی، کہا ہوا قبول ہوا۔ خیالؔ آفاقی صاحب کے خوبصورت خیال کو صحرائے عرب نے خوش آمدید کہا، اور یہ ارضِ پاک میں رہتے ہوئے مدینے کے مکین بن گئے اور وہاں کی خوشبو ’’رسولِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ کے صفحات میں بسادی۔
اس عظیم تالیف کی تقریبِ رونمائی کا اہتمام قائداعظم رائٹرز گلڈ کے بانی و موجودہ صدر جلیس سلاسل نے شیخ زید اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی یونیورسٹی کے تعاون سے اس کے مرکزی باوقار ہال میں کیا، جہاں سرد موسم کے باوجود ہال مہمانوں سے پُر تھا۔ کم سن قاری حذیفہ حماد کی خوبصورت آواز میں ’’سورۂ قلم‘‘ کی تلاوت اور ترجمے سے تقریب کا آغاز ہوا، نعتِ مبارکہ کی سعادت سید نورالاحد کے حصے میں آئی۔ خطبۂ بسم اللہ گلڈ کی سیکریٹری جنرل معروف کالم نگار نسیم انجم نے پڑھا، جس میں گلڈ کے زیراہتمام گزشتہ سات معروف کتابوں کی تقریبات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ نمبر1: آصف جیلانی کی کتاب ’’وسط ایشیا، نئی آزادی نئے چیلنج‘‘، نمبر2: جلیس سلاسل کی ’’ٹیبل ٹاکس‘‘ اور ’’کورٹ مارشل‘‘، نمبر 3: ایس ایم ظفر ایڈووکیٹ کی ’’میرے مشہور مقدمے‘‘، نمبر 4: ڈاکٹر معین الدین احمد کی ’’رخشِ خیال‘‘ اور ’’ہم وہ نہیں‘‘، نمبر 5: نسیم انجم کی ’’فضا اعظمی کے فلسفۂ خوشی کا تجزیہ‘‘ شامل ہیں۔
تقریب کے مہمانِ خصوصی جسٹس حاذق الخیری نے کہا کہ میں تقریباً1400 صفحات پر مشتمل یہ کتاب دیکھ کر حیران رہ گیا، میں نے اس کو جہاں تک پڑھا اندازہ ہوا کہ اس کا بیان کرنے والا نہ صرف تاریخ بلکہ سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی پوری طرح واقف ہے اور اس کا طرزِ نگارش قاری کو اپنے ساتھ لے کر چلتا ہے، اس کو ہر گھر اور ہر لائبریری کی زینت ہونا چاہیے، یہ کتاب ہمارے ادبی لٹریچر میں گرانقدر اضافہ ہے۔ گو کہ پروفیسر صاحب نے شروع ہی میں لکھ دیا ہے کہ یہ فرضی کہانیاں ہیں۔ یہ درست ہے کہ یہ فرضی تو ہیں لیکن ان کے پیچھے سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور تاریخی واقعات بھی پوشیدہ ہیں، انہوں نے بڑی تحقیق کے بعد بڑی جاں سوزی سے چھ سات سال کے عرصے میں یہ کتاب تیار کی ہے۔ میں اس موقع پر اپنے اس دکھ کا تذکرہ کرنا بھی اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ شام و عراق میں لاکھوں مسلمان اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے ہاتھوں قتل ہورہے ہیں۔ اس سے زیادہ افسوسناک بات اورکیا ہوگی کہ قاتل اور مقتول دونوں کلمہ گو ہیں۔ میری نظر میں اس کا واحد سبب صرف یہ ہے کہ ہم نے رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو یکسر فراموش کردیا ہے۔ پروفیسر مجید اللہ قادری نے اپنے شگفتہ خطاب میں پروفیسر صاحب کی سوانح بیان کرتے ہوئے بتایا: ’’آگرہ میں پیدا ہونے والا ایک بچہ عقیل احمد جب سال بھر تک نہ بولا تو گھر والوں نے دعا تعویذ کرائے اور ایک اللہ والے حکیم قمر احمد اکبر آبادی جو پیر جماعت علی شاہ ؒ سے فیض یافتہ تھے، کے پاس لے کر آئے، انہوں نے جب یہ پڑھایا ’’رب زدنی علما‘‘ تو یہ بچہ بولنے لگا، میٹرک میں پہنچا تو تصنیف و تالیف کی طرف راغب ہوا اور عقیل احمد سے خیالؔ آفاقی بن گیا۔ پروفیسر صاحب نے طلبہ کو علم سنایا نہیں بلکہ علم منتقل کیا ہے، اور یہ عمل اس کتاب سے بھی جاری ہے۔ پڑھنے والا پڑھتے وقت خود کو بھی اُسی ماحول میں پاتا ہے جہاں خیالؔ آفاقی صاحب کا خیال جاتا ہے‘‘۔ میر نواز خان مروت سابق وفاقی وزیر قانون نے کہا کہ ’’یہ کتاب پروفیسر خیالؔ آفاقی نے ایک ناول کے انداز میں لکھی ہے۔ یہ دل و دماغ اور روح سے متعلق ہے۔ اس میں خانۂ کعبہ کی مکمل تاریخ بھی ہے جسے پڑھ کر میرے علم میں اضافہ ہوا کہ ابرہہ ایک عیسائی فوجی افسر تھا، اس نے کرسمس منانے کی تحریک شروع کی۔ اس کتاب میں عبدالمطلب کا درست نام بھی ہے اور آب زم زم کی تاریخ بھی۔ یہ کتاب علم کا ایک خزانہ ہے۔ آپ سب جانتے ہیں کہ دنیا ایک ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمان ہیں، مگر اس کے باوجود ہر جگہ مسلمانوں کا قتلِ عام ہورہا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ہم نے اللہ کے احکامات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات فراموش کردی ہیں‘‘۔ شیخ زید اسلامک ریسرچ سینٹرکی ڈائریکٹر عابدہ پروین نے اظہارِ تشکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ پروفیسر صاحب نے ’’رسولِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ بالکل منفرد انداز میں تحریر کی
(باقی صفحہ 41پر)
ہے۔ یہ تحقیق ہی نہیں ادب میں بھی قابلِ قدر اضافہ ہے۔ اگر میں اس تقریب میں شریک نہ ہوتی تو مجھے اہلِ علم و ادب کی آج کی صحبت سے محرومی کا بے حد دکھ ہوتا۔ ڈاکٹر علم الدین نے آزاد کشمیر سے ٹیلی فونک خطاب میں کہا کہ یہ صرف سیرت کی کتاب ہی نہیں محبت کا سمندر ہے۔ سیرت نگاری میں خوبصورت اسلوب اختیار کیا گیا ہے، عقیدت و محبت میں کوئی مبالغہ نہیں کیا گیا۔ صدرِ محفل معروف محقق، مصنف، مؤرخ، سینئر قانون داں آزاد بن حیدر ایڈووکیٹ نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ معاشرے کی تشکیل ادب کرتا ہے، پروفیسر خیالؔ آفاقی کی کتاب بڑی تحقیقی کتاب ہے اور بڑی دلآویز ہے۔ میں نے حکومت کو تجویز دی تھی کہ تمام کالجوں، یونیورسٹیوں کے بہترین اساتذہ کا انتخاب کرکے انہیں ایوارڈ دیے جائیں۔ حکومت نے اس پر توجہ نہ دی۔ اب میری درخواست ہے کہ پروفیسر خیالؔ آفاقی کو صدارتی ایوارڈ دیا جائے، اس لیے کہ انہوں نے ’’رسولِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ جیسی کتاب لکھ کر وطنِ عزیز کے تمام اساتذہ کا حق تنہا ادا کردیا ہے، کیونکہ یہ کتاب پاکستان کی تمام یونیورسٹیوں و کالجوں کے طلبہ و طالبات کی تعلیم و تربیت دونوں کا اہتمام بیک وقت کرتی ہے، یہ اتحاد کا درس بھی دیتی ہے۔ عالم اسلام کے مسلمان جب تک فرقہ واریت کے جال کو نہیں توڑیں گے مسلمانوں میں اتحاد ممکن نہیں۔
تقریب کے آخر میں پروفیسر خیالؔ آفاقی نے قائداعظم رائٹرز گلڈ اور شیخ زید اسلامک ریسرچ سینٹر کے تمام منتظمین کو اس کامیاب محفل کی مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ مسجد میں نمازی تو نماز پڑھنے کا ثواب ضرور حاصل کرتے ہیں لیکن اس کا کریڈٹ مسجد بنانے والے کو جاتا ہے۔ میں نے سیرتؐ لکھی نہیں بیان کی ہے۔ میں اس کا مصنف نہیں، مؤلف ہوں۔
تقریب میں جلیس سلاسل، ڈاکٹر قمرالحق، ضیا الرحمن گلرد، محمد حلیم انصاری، پروفیسر شاہین حبیب، عمر سیال، سید سلیم احمد ایڈووکیٹ، سلطان مسعود شیخ، انور اقبال، نسیم احمد شاہ، مطاہر حسین صدیقی، شیخ محمد داؤد، خلیل احمد ایڈووکیٹ، شفیق الرحمن، ڈاکٹر جویریہ یوسف، طارق عرفان، ڈاکٹر جاوید صدیقی، غزالہ حبیب، حنا یوسف، محمد علی قریشی، فرح اختر، حرا گلرو اور دیگر اہلِ علم کے علاوہ بڑی تعداد میں مہمانوں نے شرکت کی۔ رفیق مغل نے مؤلف کو خوبصورت گلدستہ پیش کیا اور چند نعتیہ اشعار بھی سنائے۔ تقریب کی خوبصورت نظامت پروفیسر شازیہ ناز عروج نے انجام دی۔

حصہ