کوئٹہ میٹروپولیٹن کارپوریشن کی حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کے درمیان کشمکش شدت سے برقرار ہے۔ حزبِ اختلاف حزبِ اقتدار پر بدعنوانی، اقربا پروری اور نااہلی کے الزامات لگا رہی ہے۔ اس تناظر میں حزبِ مخالف کی جانب سے دو الگ الگ ’’وائٹ پیپر‘‘ جاری کیے جاچکے ہیں جن میں میئر ڈاکٹر کلیم اللہ کے خلاف بدعنوانی اور اقربا پروری کی لمبی فہرست دی گئی ہے۔ حزب اختلاف چونکہ مقامی حکومت کا حصہ ہے چنانچہ اس کی جانب سے لگائے گئے الزامات کی تردید بھی یقیناًحزبِ اقتدار کی جانب سے ہی ہوسکتی ہے جو کہ کی بھی گئی ہے، یا احتساب اور بدعنوانی کے خلاف کارروائی کرنے والا کوئی ادارہ ہی مجاز ہے کہ وہ اس وائٹ پیپر کی بنیاد پر حقائق مترشح کرے۔
بلاشبہ ڈاکٹر کلیم اللہ کو ایک مضبوط اپوزیشن کا سامنا ہے جس کے قائد عبدالرحیم کاکڑ ہیں۔ عبدالرحیم کاکڑ اس سے قبل کوئٹہ کے میئر اور سٹی ناظم بھی رہ چکے ہیں، یعنی وہ ایک تجربہ کار رکن ہیں۔ جس وقت میٹرو پولیٹن کارپوریشن کی میئرشپ کے لیے سیاسی جماعتوں کی دوڑ دھوپ ہورہی تھی تو عبدالرحیم کاکڑ میئر کے لیے ایک مضبوط امیدوار کے طور پر سامنے آئے۔ مسلم لیگ (ن)، جمعیت علمائے اسلام (ف)، عوامی نیشنل پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی، جمعیت علمائے اسلام اور تحریک انصاف کا اتحاد بنا۔ مقابلے میں پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی تھیں۔ بعدازاں مسلم لیگ (ن) نے پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی کی حمایت کا فیصلہ کیا۔ اس طرح حکومت ان کی بنی اور ڈپٹی میئر مسلم لیگ (ن)کے محمد یونس بلوچ بنائے گئے۔
28 دسمبر 2016ء کے اجلاس میں اس کشمکش میں تندی دیکھنے کو ملی۔ یہ بجٹ اجلاس تھا۔ گویا تصادم کی سی صورت حال تھی جس کی وجہ سے 2016-17ء کا بجٹ منظور نہ ہوسکا۔ اجلاس جمعہ 30 دسمبر کو دوبارہ طلب کیا گیا، پھر اسے بھی مؤخر کیا گیا۔ جواز میئر ڈاکٹر کلیم اللہ کی جانب سے یہ پیش کیا گیا کہ اگر اجلاس جمعہ کے روز طلب کیا جاتا تو خون خرابہ ہوسکتا تھا۔ میئر کی اس تشویش سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ میٹروپولیٹن کے اندر حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف والوں کے درمیان اختلافات کس قدر شدید اور گمبھیر ہیں۔ اس بجٹ اجلاس میں ڈپٹی میئر و کنوینر نے رائے شماری کرانے کا اعلان کیا اور پہلی بار گنتی ہونے پر اپوزیشن اور حکومتی ارکان کی تعداد41,41 تھی۔ دوسری بار ڈپٹی میئر اپنی نشست چھوڑ کر خود نیچے گئے اور دوبارہ گنتی کرائی اور دونوں جانب41,41 ووٹ برابر ہونے کا اعلان کیا۔ حزبِ اختلاف کے لیڈر عبدالرحیم کاکڑ کا اس موقع پر کہنا تھا کہ حزبِ اختلاف اجلاس کا بائیکاٹ نہیں کرے گی اور رائے شماری میں حصہ بھی نہیں لے گی۔ ان کا الزام تھا کہ گزشتہ دو بجٹ ابھی تک ایوان میں پیش نہیں کیے گئے، اس لیے یہ بجٹ غیر قانونی ہے جسے تسلیم نہیں کرتے۔ یاد رہے کہ مسلم لیگ (ن) کے کونسلر بھی اب حزب اختلاف کے حامی بن چکے ہیں۔ میر اسلم رند جن کا تعلق مسلم لیگ (ن) سے ہے، کا کہنا تھا کہ یہ بجٹ بار بار بنایا گیا اور ایک موقع پر ایک ارب روپے کا خسارہ بھی بتایا گیا۔ عبدالرحیم کاکڑ نے الزام لگایا کہ بجٹ اجلاس میں حزبِ اختلاف کی اکثریت کو کم کیا گیا اور ڈپٹی میئر نے جانب داری کا مظاہرہ کیا۔ حزبِ اختلاف نے پہلے ہی واضح کیا تھا کہ جب تک 2014-15ء اور 2015-16ء کا بجٹ ارکان کے سامنے نہیں لایا جاتا اُس وقت تک بجٹ منظور نہیں ہونے دیا جائے گا۔ اور یہ کہ کارپوریشن کا اصول ہے کہ جب بھی بجٹ پیش کیا جاتا ہے تو ایک ہفتہ قبل بجٹ کی کاپیاں ارکان میں تقسیم کی جاتی ہیں، جبکہ میئر اور ان کے حامیوں نے اس اصول کی خلاف ورزی کی اور بجٹ سے ایک دن قبل تین دفعہ بجٹ تبدیل کیا۔ عبدالرحیم کاکڑ کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہاؤس کا کنوینر غیر جانب دار ہوتا ہے مگر کنوینر (ڈپٹی میئر یونس بلوچ) نے دباؤ میں آکر حزبِ اختلاف کی 42 کی تعداد کو41 میں تبدیل کردیا۔ حکومتی ارکان کی تعداد40 تھی کیونکہ قانون کے مطابق میئر اپنا ووٹ کاسٹ نہیں کرسکتا، لیکن اس کے باوجود دونوں کی تعدادکو41,41 قرار دیا گیا، جبکہ حلقہ4کے کونسلر سرور بازئی کا ووٹ غیر قانونی طور پر مسترد کیا گیا جن کا تعلق حزبِ اختلاف سے ہے۔ واضح ہو کہ میئر ڈاکٹر کلیم اللہ نے بھی ڈپٹی میئر پر تحفظات ظاہر کیے۔ بقول ڈاکٹر کلیم اللہ کے ’’اجلاس کے دوران حزبِ اقتدار کے کچھ ساتھی ’’سلپ‘‘ ہوگئے اور اجلاس میں دونوں طرف سے 41,41 ارکان رائے شماری میں آئے تھے۔ رول کے مطابق میئر رائے شماری میں حصہ لے سکتا ہے، تاہم برابری کی بنیاد پر ڈپٹی میئر بھی ووٹ استعمال کرسکتا ہے، مگر اجلاس میں ڈپٹی میئر نے ووٹ استعمال نہیں کیا۔ چنانچہ یہ بھی ایک سوال ہے؟ وقت آنے پر اس سوال کا جواب ڈپٹی میئر خود دے سکتے ہیں۔‘‘
ڈاکٹر کلیم اللہ خود پر بدعنوانی کے الزامات کی وضاحت بھی کرچکے ہیں کہ جب سے وہ منتخب ہوئے ہیں انہوں نے کارپوریشن میں منصفانہ طریقے سے ترقیاتی کاموں کا آغاز کیا اور کرپشن کے عادی بعض دوست ان (ڈاکٹر کلیم اللہ) کے ذریعے بھی بڑی رقم نکلوانا چاہتے تھے۔ ان کی بڑی خواہشات اور فرمائشیں تھیں لیکن یہ رقم میرے (ڈاکٹر کلیم اللہ کے) بس سے باہر تھی، جب انکار کیا تو مختلف جماعتوں سے تعلق رکھنے والے کونسلروں نے مخالفت میں مہم شروع کردی۔ ڈاکٹر کلیم اللہ نے کہاکہ ان پر مختلف علاقوں میں عوام کو الاٹمنٹ اور سرکاری زمین لیز پر دینے کے الزامات حقائق کے برعکس ہیں۔ اگر ایک انچ زمین کی الاٹمنٹ ثابت ہوجائے تو وہ استعفیٰ دیں گے۔ ادھر ڈپٹی میئر یونس بلوچ نے جانب داری کے تاثر کو مسترد کردیا۔
بجٹ اجلاس کے بعد جمعیت علمائے اسلام (ف) نے اپنے ایک کونسلر کی بنیادی رکنیت ختم کردی۔ جے یو آئی (ف) کے مطابق ان کے حلقہ41 کے کونسلر اور یونٹ امیر مولانا محمد ایوب ایوبی نے جماعت اور پالیسی کے برخلاف جمعیت کے اپوزیشن اتحاد کے خلاف ووٹ دیا جس پر ان کی پارٹی کی بنیادی رکنیت ختم کردی گئی۔
اب مختصر ذکر اُن الزامات کا کرتے ہیں جو حزبِ اختلاف وائٹ پیپر کے ذریعے کھلے عام لگا چکی ہے۔ حزبِ اختلاف کے مطابق کارپوریشن کے پاس وسائل کے باوجود شہر کے مسائل حل نہیں ہورہے ہیں۔ میئر کوئٹہ منظورِ نظر لوگوں کو نواز رہے ہیں اور بلدیاتی حلقوں میں غیر منتخب لوگ مداخلت کررہے ہیں۔ میٹرو پولیٹن کے ریٹائرڈ افسران پر مشتمل مانیٹرنگ کمیٹی بنائی گئی ہے جو کہ بلاجواز ہے، جن کو تنخواہوں کی مد میں ماہانہ لاکھوں روپے ادا کیے جاتے ہیں۔ کارپوریشن میں بھرتی کیے گئے عارضی خاکروبوں کی تعداد بجٹ میں 800ہے جبکہ تنخواہیں1300کی ادا کی جاتی ہیں۔
میئر ڈاکٹر کلیم اللہ کے لیے اب وقت بہت کٹھن ہوچکا ہے۔ حزبِ اختلاف ان سے مستعفی ہونے کا برابر مطالبہ کررہی ہے بلکہ اُس کے الزامات کی پوری ایک تفصیل ہے۔
ممکن ہے کہ میئر ان الزامات کا تشفی بخش جواب دیں، تاہم حقیقت یہ ہے کہ مضافات کو تو چھوڑیے، وسطی شہر کے اندر صفائی ستھرائی کا نظام ابتر ہے۔ شہر کی صورت حال بدانتظامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ادھر ڈپٹی میئر یونس بلوچ کہہ چکے ہیں کہ بیوروکریسی منتخب بلدیاتی نمائندوں کے کام میں رکاوٹ ڈال رہی ہے، اس طرزِعمل نے پورے نظام کو جمود کا شکار بنا رکھا ہے۔ nn