بھارت کے بعد امریکہ کی’’جمہوریت‘‘ نے بھی متنازع اور مسلم دشمن ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنا صدر منتخب کرلیا ہے۔سیکولر بھارت میں متعصب مسلم دشمن نریندر مودی وزیراعظم منتخب ہو چکا ہے۔ ارب پتی کاروباری شخصیت اور ری پبلکن سیاست دان ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کے پینتالیسویں صدر کی حیثیت سے حلف اُٹھا لیا ہے۔ اب یہ ایک حقیقت ہے کہ امریکی قوم نے 20جنوری کو امریکی صدارت کی کرسی پر ایک ایسی شخصیت کو بٹھا دیا ہے جو کھلم کھلا اسلام اور پاکستان مخالف ہے۔ واضح رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران صرف مسلمانوں کے خلاف نفرت کا بھرپور پرچار نہیں کیا تھا بلکہ وہ اسلام کے خلاف زہر اگلنے والے اداروں کو فنڈز دینے والے نمایاں امریکیوں میں بھی شامل ہیں۔ بعض لوگوں کے نزدیک ٹرمپ کی جیت غیر متوقع ہے۔ ایک طرف ان کی امریکی سی آئی اے سمیت انٹیلی جنس اداروں سے جنگ تھی تو دوسری طرف امریکی اور مغربی میڈیا ہیلری کلنٹن کی کامیابی کے دعوے کررہے تھے۔ لیکن رائے عامہ کے تمام جائزے اور اندازے دھرے کے دھرے رہ گئے ۔
1928ء کے بعد ٹرمپ امریکہ کے پہلے طاقتور صدر ہوں گے جن کو امریکی کانگریس اور سینیٹ کی اکثریتی حمایت حاصل ہے۔ امریکی جمہوری نظام کے تحت انہوں نے 290 الیکٹورل ووٹ حاصل کیے جبکہ ہیلری کلنٹن 228 ووٹ حاصل کرسکیں۔ انتخابی مہم کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ پر مسلمان دشمن، غیر مہذب، ناتجربہ کار، متعصب ہونے کے الزامات لگے۔ پھر ہم نے اسی مہم کے دوران امریکی میڈیا پر یہ بھی دیکھا کہ ہیلری کو انسان دوست، مہذب اور امن پسندکہا گیا، اور بار بار کہا گیا، لیکن جمہور کا فیصلہ ’’غیر مہذب‘‘ کے حق میں ہی آیا۔
صدارتی انتخابات میں فتح کے بعد اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ آج ہر مذہب، رنگ ونسل اور تہذیب سے تعلق رکھنے والے امریکی کے لیے تاریخی لمحہ ہے، یہ ایک انتخابی مہم نہیں بلکہ تحریک تھی ، کوئی خواب اور کوئی چیلنج بڑا نہیں ہوتا، محنت سے سب کچھ حاصل کیا جاسکتا ہے، میں تمام امریکیوں کا صدر ہوں، اس لیے ان تمام امریکیوں کا بھی شکرگزار ہوں جنہوں نے میری حمایت نہیں کی، ہیلری کلنٹن نے مجھے فون کیا اور فتح پر مبارکباد دی، میں نے بھی انہیں بھرپور انتخابی مہم چلانے پر سراہا، وقت آگیا ہے کہ ہم سب اکٹھے ہوجائیں، ہماری حکومت لوگوں کی خدمت کرے گی، ہم ایک بار پھر امریکہ کے خوابوں کو پورا کریں گے۔ ٹرمپ نے کہا کہ میں تمام امریکیوں کا صدر ہوں، میں مخالفین کو ساتھ آنے کی دعوت دیتا ہوں، ہم مل کر امریکہ کو عظیم سے عظیم تر بنائیں گے، ہمارے پاس ایک مضبوط معاشی منصوبہ ہے جس کے ذریعے دنیا میں دوبارہ معاشی طاقت بن کر ابھریں گے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے خطاب سے قبل نائب صدر کے امیدوار مائیک پینس نے کہا کہ امریکہ نے نیا عالمی چیمپئن منتخب کرلیا، ٹرمپ کے نظریے سے امریکہ ایک بار پھر پورے عالم میں جگمگائے گا، مجھے امریکہ کا نائب صدر بننے پر فخر ہے، میں بھرپور طریقے سے امریکہ کی خدمت کروں گا۔ اس سے قبل امریکی نشریاتی ادارے ’سی این این‘ کی رپورٹ کے مطابق صدارتی امیدواروں کے درمیان مباحثے کے حوالے سے پروگرام میں بات کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ اپنی اس بات پر قائم ہیں کہ اسلام ہم سے نفرت کرتا ہے۔ میزبان نے سوال کیا کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ دنیا بھر کے ایک ارب 60 کروڑ مسلمان امریکہ سے نفرت کرتے ہیں؟ جس پر ڈونلڈ ٹرمپ نے جواب دیا کہ اس سے میری مراد عالمِ اسلام کی غالب اکثریت ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے مزید کہا کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ صرف ’شدت پسند‘ امریکہ سے نفرت کرتے ہیں، لیکن زیادہ تر لوگ حقیقت سے آگاہ نہیں ہیں کہ عالمِ اسلام کی اکثریت امریکہ سے سخت نفرت کرتی ہے۔ اس پس منظر میں ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ بھی کہنا تھا کہ مذہب اسلام اور مسلمانوں میں فرق کرنا نہایت مشکل ہے، تاہم ہماری جنگ صرف شدت پسند اسلام سے ہے جو جاری رہے گی۔ یہ بھی واضح رہے کہ ان کے بیانات یا خیالات انتخابی مہم کی جذباتی تقریروں کے ساتھ ختم نہیں ہوگئے بلکہ صدر بننے سے قبل انہوں نے ایک بیان میں مسلمانوں کے امریکہ میں داخلے پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا تھا تو آج صدر بننے کے بعد اس پر عمل شروع ہوگیا ہے اور وہ ایک خصوصی صدارتی حکم نامے پر دستخط کرنے جارہے ہیں، جس کے تحت مسلم ممالک سے تارکین وطن کے امریکہ میں داخلے پر پابندی لگادی جائے گی، جبکہ امریکہ کے ساتھ میکسیکو کی سرحد پر دیوار کی تعمیر بھی شروع کردی جائے گی۔ اس حکم نامے کے بعد ایران، عراق، لیبیا، صومالیہ، سوڈان، شام اور یمن سے آنے والے پناہ گزینوں کو امریکی سرزمین پر داخل ہونے نہیں دیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ مسلم ممالک کے لیے امیگریشن کے نئے قوانین اور ان کی جانچ پڑتال سخت کرنے کی باتیں بھی کی جارہی ہیں۔ دوسری طرف ٹرمپ کی یہ دھمکی ریکارڈ پر ہے کہ بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان کو سبق سکھایا جائے گا۔
ٹرمپ بھارت کو امریکہ کا ’’بہترین دوست‘‘ بنانے کا پہلے ہی عندیہ دے چکے ہیں۔ اور اب ڈونلڈ ٹرمپ اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ٹیلی فون پر دو طرفہ امور پر تبادلہ خیال بھی کیا ہے۔ بات چیت کے دوران دونوں رہنماؤں نے معاشی اور دفاعی شعبوں میں تعاون کو مزید بڑھانے پر بھی اتفاق کیا۔ ترجمان وائٹ ہاؤس کے مطابق دورانِ گفتگو ٹرمپ کا کہنا تھا کہ امریکہ بھارت کو ایک سچا دوست اور عالمی مسائل میں ساتھ دینے والا شراکت دار سمجھتا ہے۔ اس موقع پر ٹرمپ نے نریندر مودی کو اس سال کے آخر میں دورۂ امریکہ کی دعوت بھی دی ہے۔ اس صورت حال میں ان کے ہر بیان کی اہمیت ہے اور اس کا پس منظر ہے جسے کوئی بھی نظرانداز نہیں کرسکتا۔ ٹرمپ نے ہی ایک بیان یہ بھی دیا تھا کہ میرے صدر بنتے ہی ڈاکٹر شکیل آفریدی امریکہ میں ہوگا۔ انہوں نے بڑے پُراعتماد لہجے میں کہا تھا کہ پاکستانی حکام میری اس بات پر فوری عمل کریں گے۔ پاکستان ہم سے مدد لیتا ہے، پیسے لیتا ہے، اس کے باوجود ہمارے صدر کی عزت نہیں کرتا، لیکن میں یقین دلاتا ہوں میرے دور میں ایسا نہیں ہوگا۔ پاکستان کے نیو کلیائی فوجی ہتھیاروں کی وجہ سے میں افغانستان میں مستقل دس ہزار امریکی فوجی رکھوں گا۔ ہمیں مشرق وسطیٰ جانے کے بجائے صرف افغانستان جانا چاہیے تھا کیوں کہ وہ پاکستان کے قریب ہے۔ اس کے جواب میں ہمارے وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے یہ توکہا تھاکہ پاکستان امریکہ کی نوآبادی نہیں لہٰذا ڈونلڈ ٹرمپ کو خودمختار ممالک کے ساتھ احترام سے پیش آنا چاہیے، کیونکہ شکیل آفریدی پاکستانی شہری ہے لہٰذا کسی دوسرے کو اس بات کا حق نہیں پہنچتا کہ وہ ہمیں اس بارے میں ہدایات جاری کرے۔ لیکن بیانات تو ریمنڈ ڈیوس کے حوالے سے بھی اسی طرح دیے گئے تھے جس نے سرعام لاہور کی سڑک پر دو پاکستانی شہریوں کو قتل کر دیا تھا، اور رنگے ہاتھوں گرفتار ہوا تھا، لیکن آج وہ امریکہ میں آزادبیٹھا ہے۔ اس پس منظر میں دیکھا جائے تو مستقبل قریب میں پاکستان اور عالم اسلام کے لیے بڑے خطرات سامنے کھڑے ہیں۔ اس ضمن میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا ہمارے حکمرانوں کو اس کا شعور ہے؟کیا ان کی نئے امریکی سیاسی، سماجی اور نفسیاتی حملوں کے سدباب کی تیاری ہے؟ یا آج بھی ان کی پہلی ترجیح ملکی دولت لوٹنا اور قوم کو غلامی کی کسی نئی زنجیر میں باندھ دینا ہی ہے؟ لیکن اس ساری صورت حال میں ایک بات اور بھی اہم ہے کہ مسلمانوں کی تو پوری دنیا میں رسوائی اور پٹائی مسلم حکمرانوں کے تعاون سے امریکہ ایک عرصے سے کر ہی رہا ہے، اس میں زیادہ سے زیادہ کچھ اور اضافہ ہوجائے گا، لیکن اس کھلے دشمن سے اس بات کا امکان تو بہرحال پیدا ہوگا کہ یہ سلسلہ زیادہ دیر تک چلنے والا نہیں ہے۔ مسلم امہ بیدار ہورہی ہے، تحریکیں زور پکڑ رہی ہیں اور اہلِ علم اور سمجھ دار لوگ جن میں امریکی دانشور اور تجزیہ نگار بھی شامل ہیں، کہہ رہے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت میں امریکہ کا مستقبل خطرے میں پڑ جائے گا۔ اور اب خطرے میں اسلام نہیں بلکہ امریکہ ہوگا۔
nn