پاکستان کی تاریخ کا وہ سیاہ دور تھا جب طلبہ یونین پر جنرل ضیاء الحق نے پابندی لگادی تھی۔ یہ پابندی گورنر صوبہ سرحد (خیبر پختون خوا) جنرل فضل حق کے جلسے میں طلبہ کی گڑبڑ کے بعد لگائی گئی۔ جنرل ضیاء الحق نے اس واقعہ کو بہانہ بنایا۔ اس کے بعد سے وفاق میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کئی بار اقتدار میں آئیں لیکن ان میں سے کسی نے بھی اس پابندی کو نہیں اٹھایا۔ دونوں پارٹیاں طلبہ کی قوت سے خوف زدہ تھیں۔ 1970ء کے انتخابات میں جماعت اسلامی کو تاریخی صدمہ ہوا اور یہ شکست اس کے وہم وگمان میں بھی نہ تھی۔ ان انتخابات کے نتیجے میں ملک دولخت ہوگیا۔ اس کی کئی وجوہات تھیں۔ اس کی ایک وجہ بھٹو صاحب کا سیاسی عمل تھا جس کا نتیجہ شیخ مجیب الرحمن کی جیت کی صورت میں نکلا تھا۔ اس نتیجے کو نہ فوج نے قبول کیا، نہ اسٹیبلشمنٹ نے۔۔۔ اور نہ پنجاب کو مشرقی پاکستان کی یہ بالادستی قبول تھی۔ مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے کے بعد اب پنجاب معاشی تقسیم کے مسئلے پر اپنی عددی برتری کو جواز بناتا ہے اور چھوٹے صوبے اس کے محتاج ہوکر رہ گئے ہیں۔
ہم طلبہ یونین پر پابندی اور اس کی بحالی کے حوالے سے تجزیہ کررہے ہیں، درمیان میں ایک تاریخی حوالہ بھی آگیا۔ آج ہمیں اس پہلو سے غور کرنا چاہیے کہ پاکستان کی اکثر و بیشتر سیاسی جماعتیں طلبہ یونین سے خوف زدہ کیوں ہیں؟ 1970ء میں جماعت اسلامی کو جو شکست ہوئی تو اُسے اُس وقت سکون ملا جب پنجاب یونیورسٹی اور کالجوں میں اسلامی جمعیت طلبہ تاریخی کامیابی حاصل کرکے سرخرو ہوگئی اور بھٹو بطور وزیر خارجہ پنجاب یونیورسٹی سے خطاب نہ کرسکے۔ صدر یونین بارک اللہ خان نے انہیں یونیورسٹی سے نکال باہر کیا، اور پھر جب پنجاب یونیورسٹی میں پیپلز اسٹوڈنٹس نے جہانگیر بدر کو پنجاب میں کھڑا کیا اور انہوں نے جاوید ہاشمی سے شکست کھائی تو بھٹو نے طلبہ یونین پر پابندی نہیں لگائی۔ انہیں داد دینی چاہیے کہ انہوں نے اس طرف قدم نہیں بڑھایا۔ لیکن ضیاء الحق نے حکومت کا تختہ الٹا اور بھٹو اُن کی گرفت میں آگئے، اور ضیاء الحق نے انہیں تختۂ دار پر کھینچ دیا۔ جنرل ضیاء الحق کی حادثاتی موت کے بعد بے نظیر اقتدار میں آگئیں۔ وہ جمہوریت پر یقین رکھتی تھیں مگر وہ بھی حوصلہ نہیں کرسکیں کہ جنرل ضیاء الحق کے جابرانہ اقدام کو ختم کرتیں۔ اس کے بعد نوازشریف آئے، وہ بھی حوصلہ نہیں کرسکے اور طلبہ یونین پر پابندی برقرار رہی۔ دونوں سیاسی شخصیات باری باری برسراقتدار آتی رہیں لیکن اس طرف کوئی قدم نہیں اٹھا سکیں۔ 2008ء میں آصف علی زرداری بے نظیر کی شہادت کے صلے میں اقتدار میں آگئے۔ ان کا دور کیسا تھا، اس پر کسی لمبے چوڑے تجزیے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کی حکومت کا نتیجہ 2013ء کے انتخابات میں ہم نے دیکھ لیا۔ پنجاب اور بلوچستان میں پیپلزپارٹی پر جھاڑو پھرگئی۔ صدر زرداری کے دور میں بھی طلبہ یونین پر پابندی برقرار رہی۔ اب چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے سینیٹ میں طلبہ یونین کی بحالی کے اقدام کی بات کی۔ اب وہ جمہوری اقدام کی طرف لوٹ رہے ہیں، اس کو خوش آمدید کیا جانا چاہیے، لیکن ایک سوال اپنے آپ کو جمہوریت پسند اور لبرل کہنے والے پیپلزپارٹی کے ان دانشور سے ہے کہ ان پندرہ سالوں میں اس طرف کیوں توجہ نہیں دے سکے؟ انہیں اس کا جواب دینا ہوگا۔ اور اس کے علاوہ بھی کئی جوابات ان کے ذمے ہیں۔ اب وہ طلبہ یونین کی بحالی کی گھنٹی مسلم لیگ (ن) کے گلے میں ڈالنا چاہتے ہیں۔ میاں رضا ربانی سے گزارش ہے کہ طلبہ یونین کی بحالی کے حق میں وہ پہلے ایک قرارداد صوبہ سندھ میں منظور کرائیں جہاں ان کی اکثریت ہے اور پھر اپنی پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی سے بھی قرارداد پاس کرائیں تو ان کے مؤقف میں کچھ صداقت نظر آئے گی۔ صرف بیان سے بات نہیں بنے گی۔ اور یہی مطالبہ صوبہ خیبر پختون خوا میں عمران خان کی پارٹی پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی سے ہے جو وہاں برسر اقتدار ہیں۔ وہ بھی اپنی اسمبلی سے قرارداد پاس کرائیں۔ بلوچستان اسمبلی میں پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی موجود ہیں، اور مسلم لیگ (ن) ان کی حلیف جماعت ہے۔ دونوں جماعتیں ایک سیاسی ماضی اور حال رکھتی ہے اور ان کی سیاسی جدوجہد کی تاریخ 1954ء کے بعد سے منظم ہوئی۔ دونوں جماعتوں کی طاقتور شخصیات عبدالصمد خان شہید اور غوث بخش بزنجو مرحوم کی صورت میں ایک جمہوری اور سیاسی سوچ کا حصہ رہی ہیں۔ ان دونوں جماعتوں کو اس طرف قدم اٹھانا چاہیے۔ اس حوالے سے عبدالمالک بلوچ سے جب وہ وزیراعلیٰ تھے، عید کے موقع پر وزیراعلیٰ ہاؤس میں ملاقات ہوئی۔ ان سے گزارش کی کہ بلوچستان میں طلبہ یونین کے انتخابات کرائیں، اور انہیں مشورہ بھی دیا اور ان سے کہا کہ آپ سے اس مسئلے پر علیحدہ بات کرنا چاہتا ہوں تاکہ اس کا میکنزم طے کرسکیں۔ انہوں نے صرف ہاں کہا، اس کے بعد کوئی پیش رفت نہ ہوئی اور نہ انہوں نے اس مسئلے پر کسی ملاقات کا عندیہ دیا۔ مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ وہ اس طرف آنے کو تیار نہ تھے اور نہ طلبہ یونین کی بحالی ان کی خواہش تھی۔ اب ایک طویل عرصے کے بعد چیئرمین سینیٹ نے اپنے بیان سے جمہوری سیاسی قوتوں کو متوجہ کیا ہے کہ طلبہ یونین کی بحالی کی طرف عملی قدم اٹھایا جائے۔ یہ ایک بہتر اور مثبت سوچ ہے، جس کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے۔ طلبہ یونین کی بحالی ایک اہم فیصلہ ہوگا۔ سب جانتے ہیں کہ یونیورسٹیوں اور کالجوں میں طلبہ یونین پر پابندی کی پشت پر اسٹیبلشمنٹ کا غیر جمہوری، غیر سیاسی اور جمہور دشمن ذہن کارفرما رہا ہے، اور سب سے زیادہ حیرت تو اس پر ہے کہ پیپلزپارٹی بھٹو کے بعد تین مرتبہ حکومت میں آئی لیکن وہ بھی اس طرف قدم اٹھانے سے خوف زدہ رہی۔
پاکستان میں آج جتنی اہم سیاسی قیادت نظر آرہی ہے اس میں وہ نوجوان زیادہ نمایاں ہیں جو یونیورسٹیوں اور کالجوں میں طلبہ یونین کے مرکزی عہدیدار رہے ہیں، لیکن آمریت اور خوف زدہ سیاسی پارٹیاں جو برسراقتدار رہی ہیں، ان کا خوف اب تک سمجھ نہیں سکا۔ آمروں کا تو معلوم ہے کہ وہ حقیقی جمہوریت سے خوف زدہ رہتے ہیں لیکن سیاسی ذہن کا خوف کچھ عجیب لگتا ہے۔ ان غیر سیاسی پارٹیوں کی قیادت کا خوف ایک لحاظ سے واضح نظر آتا ہے اور وہ یہ ہے کہ پنجاب یونیورسٹی اور کراچی یونیورسٹی وغیرہ کے صدر اور جنرل سیکرٹری اپنی پشت پر ہزاروں طالب علموں کی قوت رکھتے تھے، اس لیے ان میں وہ نمایاں ہیں جو کبھی طلبہ یونین کے صدر رہے ہیں۔
اس پابندی کے نتیجے میں پارلیمان میں غیر نمائندہ قوتوں کے منتخب نمائندے نظر آتے ہیں، ان قوتوں کو کرپشن کی مکمل چھوٹ ہوتی ہے اور ان نمائندوں کو ان کا حصہ ملتا رہتا ہے۔ ایک حقیقی پارلیمنٹ کے لیے ضروری ہے کہ طلبہ یونین بحال کی جائیں تاکہ عوام کی پشت پر ایک حقیقی طلبہ قوت بھی موجود ہو۔ یوں پارلیمان آمریت کی گرفت سے آزاد ہوجائے گی اور غیر جمہوری قوتوں کا راستہ طلبہ یونین کی قوت روک سکے گی اور ملک کو امریکہ اور اغیار کی غلامی سے نکال سکے گی۔
nn