(اہل علم کی مطالعاتی زندگی (عرفان احمد بھٹی عبدالرؤف

392

مطالعے کا ذوق بلکہ لت مجھے بدوشعور سے ارزانی ہوئی، میں نے جو کتاب سب سے پہلے پڑھی تھی وہ حیات سعدی (خواجہ حالی) تھی۔ اُس وقت میری عمر12سال تھی۔ پڑھی کیا تھی چکھی تھی، شاید 25 فی صد مواد کسی حد تک سمجھ میں آیا ہو۔ والد مرحوم کے کتب خانے میں مختلف علوم کی کتابوں کے ساتھ بہت سی اردو کتابیں بھی تھیں، جامعہ عثمانیہ کے دارالترجمہ کی، دارالمصنفین اعظم گڑھ کی، خواجہ حسن نظامی کی مطبوعات وغیرہ، میں روز ان میں سے دو ایک کتابیں نکالتا تھا۔ کسی کی زیارت کرکے، کسی اور کی ورق گردانی کرکے واپس الماری میں رکھ دیتا۔ اپنے اس ذوق کو میں خون کا اثر کہوں گا۔ والد مرحوم مجھے چھے سال کا چھوڑ کر دنیا سے چلے گئے تھے۔ دوسرے جو بزرگانِ خاندان تھے وہ صرف تعلیم کو ضروری سمجھتے تھے، مطالعے کی طرف انہوں نے کبھی متوجہ نہیں کیا، اور چوں کہ میں کھیل کود کے بجائے کتب خانے میں وقت گزارتا تھا اس لیے وہ مطمئن تھے۔ اس ذخیرے میں سیماب وساغر کے ماہ نامہ پیمانہ کے شمارے بھی تھے (جو والد مرحوم کے لیے اعزازی آیا کرتے تھے)، الہلال و البلاغ کے فائل بھی تھے۔ مولانا راشد الخیری والد مرحوم کے زیر علاج رہے تھے، اس لیے ان کے، یہاں رسائل و مطبوعات بھی تھے۔ علامہ مشرقی کی کتاب ’’تذکرہ‘‘ جو بہت اعلیٰ کاغذ پر چھپی ہوئی تھی اس کی جلد بھی اعلیٰ تھی۔ اس لیے وہ بار بار اٹھا کر دیکھتا اور رکھ دیتا تھا۔ والد مرحوم نے میری ہمشیرہ کے لیے کئی زنانہ رسائل جاری کروائے تھے، وہ والد مرحوم کے بعد بھی منگواتے رہے۔ ان میں سے دو کے نام اس وقت یاد آرہے ہیں ’’آوازِ نسواں‘‘ اور ’’تہذیبِ نسواں‘‘ وہ میں پڑھ لیتا تھا۔ اسی زمانے میں لاہور کے ناشر علامہ اقبال اور خواجہ دل محمد وغیرہ کی نظمیں چھوٹے چھوٹے اور خوش نما کتابچوں کی شکل میں چھاپتے تھے۔ وہ ایک مقامی تاجر کتب کے یہاں سے خرید لاتا اور یہ نظمیں جھوم جھوم کر پڑھتا۔ حافظہ اس دور میں بہت اچھا تھا، اس لیے زیادہ تر نظمیں مجھے زبانی یاد ہوجاتی تھیں۔ مولانا شبلی کے کلیات (شاید ’’مجموعہ نظم شبلی‘‘ نام تھا) بھی ہم (آپا جان اور میں) پڑھتے تھے اور بہت متاثر ہوتے تھے اور یاد ہوگئے تھے۔ دادی صاحبہ اور والدہ صاحبہ اکثر فرمائش کرکے ہم سے سنا کرتی تھیں۔
میرا ماحول سراسر مشرقی اور قدامت پسندی کا تھا۔ میں درس نظامی کا متعلم تھا۔ درسی کتابوں پر جو توجہ دینا ہوتی، وہ دیتا۔ اساتذہ کو کبھی مجھ سے بے شوقی اور غفلت کی شکایت نہیں ہوئی۔ مگر وہ نصاب سے خارج خاص طور پر اردو کتابوں کے مطالعے کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے تھے۔ غیر معیاری اور مخرب اخلاق کتابوں کا تو سوال ہی نہیں تھا۔ میرے ہاتھ میں جب بھی دیکھتے کوئی علمی یا ادبی کتاب ہوتی، مگر ان کی پیشانی پر شکن آجاتی۔ یہ تھا اس ماحول میں میرے مطالعے کا آغاز۔ جیسے جیسے عمر بڑھی، صلاحیت بھی بڑھتی گئی۔ غیر نصابی کتابوں کے مطالعے کی رفتار بھی بڑھتی گئی۔ منقولات، معقولات، تاریخ (امصار و دیار کی تاریخ)، علوم کی تاریخ، تصوف، نظم، افسانہ (ناول کے مطالعے میں کبھی دل نہ لگا، صرف شرر کے دو ناول پڑھ سکا تھا)، سفرنامے، خودنوشت تحریریں، علمی و دینی ادبی رسائل (طب کا ذکر آپ کو مطلوب نہیں)۔ اس طرح برسوں مطالعے کا جنون شباب پر رہا۔ مگر طولِ عمر، ضعفِ قویٰ، ضعفِ دماغ و بصارت کے سبب یہ جنون اعتدال پر آگیا ہے اور مطالعے کی رفتار سست ہوئی ہے، اور موضوعات کا دائرہ بھی سکڑ گیا ہے۔ اب ہر قسم کی کتابیں اور ہر قسم کے رسائل نہیں پڑھتا۔ میرے چھوٹے بھائی مسعود احمد برکاتی کے پاس بکثرت رسائل آتے ہیں، مہینے میں ایک دو بار جاکر ان سب پر بھی ایک سرسری نظر ڈال لیتا ہوں۔ بعض کتابوں سے مصافحے اور معانقے پر اکتفا کرتا ہوں اور رسائل میں سے بعض بعض کے خاص خاص مضامین پڑھ کر رسالہ سامنے سے ہٹا دیتا ہوں۔ مختصر یہ کہ مرض میں افاقہ ہے مگر ابھی اس کا ازالہ نہیں ہوسکا۔
غیر نصابی کتابوں کے مطالعے کی ترغیب میں کسی بھی شخصیت کا نام یاد نہیں آرہا۔ اصل ترغیب و تحریک اسکولوں اور کالجوں کے ہم عمر طلبہ سے ہوئی ہے۔ ہم لوگ اپنی زیر مطالعہ کتابوں اور رسائل کا باہم ذکر کرتے اور باہم تبادلہ کیا کرتے تھے۔
کتابیں اور رسالے بکثرت پڑھتا رہا ہوں۔ دائرۂ مطالعہ خاصا وسیع تھا۔ بس جو کتاب یا رسالہ ہاتھ آیا، پڑھ ڈالا۔ مگر چند خاص موضوعات یہ تھے:
شعر و ادب جس کا مجھے فطری ذوق تھا، چنانچہ شعرا (متقدمین و معاصرین) کے دواوین اور مجموعے پڑھتا رہتا تھا۔ 1944ء سے 1948ء تک دلّی میں رہا، اس لیے جدید شعراء کے مجموعہ ہائے کلام میں شاید ہی کوئی مجموعہ میری نظر سے بچا ہو۔ فارسی شعرائے متقدمین کے دواوین خوب پڑھے۔ مگر عربی شاعری مجھے کبھی نہیں بھائی، عربی شعرا کے تذکرے ضرور پڑھتا تھا۔ ویسے ہمارے نصاب میں جاہلی دور اور اسلامی دور کے شعرا کے کافی انتخاب شامل تھے۔ تصوف کا ذوق مجھے ورثے میں ملا تھا لیکن کئی سال تک یہ ذوق سر نہ ابھار سکا۔ جب میں نے تصوف کے خلاف فضلا کے مقالات پڑھے تو اس طرف رجوع ہوا اور اکابر صوفیہ کی عربی و فارسی کی کتابیں، صوفیہ کے تذکرے، ملفوظات، مکتوبات وغیرہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر پڑھنے شروع کیے تو صوفیہ اور تصوف کے متعلق بہت سی غلط فہمیاں دور ہوئیں اور متاخرین کے تصور میں در آنے والی بعض فلسفیانہ اور بعض تدابیر غیر اسلامی عناصر کا سراغ ملا اور تکثیر مسلمین کے سلسلے میں ان کی خدماتِ جلیلہ کا اندازہ ہوا۔ براعظم پاک و ہند کے صوفیہ (جن میں سے اکابر تو بیرون ہند سے ہی آئے تھے) کی دینی خدمات کے ساتھ ان کی سیاسی خدمات کا بھی علم ہوا اور پھر میں نے صوفیائے کرام پر ایک کتاب لکھنے کا ارادہ کیا اور بہت سا مواد جمع کرلیا، اس سلسلے میں چند مضامین بھی لکھے جو شائع بھی ہوئے۔ صوفیہ اور حصولِِ علم، صوفیہ اور مقامی زبانیں، صوفیہ کے ذرائع معاش، صوفیہ اور خدمتِ خلق۔ پھر یہ کام آگے نہ بڑھ سکا، حسرت ہی رہی کہ کام مکمل ہوجاتا۔
تاریخ درس نظامی میں ایک بہت بڑی کمی یہ ہے کہ اس میں جغرافیہ اور تاریخ کو نظرانداز کردیا گیا ہے۔ تاریخ میں صرف تاریخ الخلفاء(جلال الدین سیوطی) ایک مختصر سی کتاب داخل تھی۔ خلافتِ راشدہ سے سیوطی نے اپنے دور تک کے خلفا کو نمٹا دیا ہے۔ تاریخ و جغرافیہ سے بے خبر ہونے کا احساس کسی بھی موضوع کی کتاب کے مطالعے کے دوران شدید ہوتا تھا خصوصاً جب اپنے ہم سنوں سے میں شمال و جنوب سنتا یا قطب شمالی یا قطب جنوبی سنتا، یا کوئی تاریخی واقعہ اس کے محل وقوع کی وضاحت کے ساتھ سنتا تو بڑی الجھن ہوتی۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے میں اسکولوں کی ابتدائی جماعتوں کے طلبہ سے ان کی جغرافیہ کی نصابی کتابیں لے کر پڑھتا اور پرائمری اور سیکنڈری کے طلبہ سے ان کی تاریخ کی کتابیں لے لے کر پڑھیں۔ پھر یہ لے بڑھتی گئی اور میں نے ہند کی تاریخ، عرب کی تاریخ، یورپ کی تاریخ، انبیا علیہ السلام کی تاریخ۔۔۔ غرض جو جو ملا، خرید کر یا عاریتاً لے کر پڑھا۔ اب خود میرے پاس تاریخ و سوانح کا الحمدللہ اچھا خاصہ ذخیرہ ہے۔
میں صرف عربی، فارسی اور اردو کی کتابیں پڑھتا ہوں۔ انگریزی کی مجھے شُدبُد ہے۔ طب جدید کی انگریزی کتابوں کا کسی حد تک مطلب نکال لیتا ہوں۔
پسند میں عمر کے ساتھ کمی بیشی اور تبدیلی ہوتی ہے۔ میرے پسندیدہ مصنف مولانا شبلی نعمانی، مولانا سید سلیمان ندوی، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی، نعیم صدیقی، مولانا عبدالماجد دریا آبادی، مولانا مناظر احسن گیلانی، مالک رام، قاضی عبدالودود اور علامہ اقبال وغیرہ ہیں۔
جہاں تک میری پسندیدہ کتابوں کا تعلق ہے وہ کثیر ہیں، خاص کر قرآن و متعلقاتِ قرآن اور سنتِ نبوی اور علوم دینیہ کی کتب۔ درسِ نظامی کا طالب علم ہونے کی وجہ سے طب کی کتابیں اپنے فن کی وجہ سے اور قدیم فلسفہ کی کتب خیر آبادی خاندان کی وراثت کی وجہ سے زیر مطالعہ رہتی ہیں۔ اس کے علاوہ جن کتب کا بار بار مطالعے کو دل چاہتا ہے ان میں مولانا آزاد کی تذکرہ، غبار خاطر، کلام نعیم صدیقی، کلیات علامہ اقبال اردو، فارسی، دیوان حافظ، وغیرہ ایک محدود انتخاب ہے۔
اب تو برسوں سے افسانے پڑھنے کا وقت نہیں ملتا۔ کرشن چندر کے افسانے پسند آتے تھے۔ ایک زمانے میں مرحوم ابن انشاء کے کالم پڑھنے میں لطف آتا تھا۔
جن شخصیات کا میری شخصیت پر زیادہ اثر ہوا ہے ان میں پہلے نمبر پر مولانا ابوالکلام آزاد اور دوسرے نمبر پر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ہیں۔
جہاں تک اخبارات کا تعلق ہے، ہمیشہ کراچی کا کوئی ایک روزنامہ پڑھتا رہا ہوں۔ کسی زمانے میں روزنامہ انجام کراچی، روزنامہ حریت کراچی پڑھتا تھا، اب عرصے سے روزنامہ جنگ کراچی پڑھتا ہوں جو ایک مکمل روزنامہ ہے، اگرچہ اسلام دشمن طاقتوں کا آلہ کار ہے، اور جب سے روزنامہ جسارت کراچی جاری ہوا ہے التزاماً پڑھتا ہوں اگرچہ ایک ناقص روزنامہ ہے، مگر کاروانِ عزیمت کا ایک مسافر ہے۔
جب تک ریل میں سفر کرتا تھا تو مسلسل پڑھتا تھا، کیوں کہ مجھے سفر میں نیند نہیں آتی۔ ہوائی جہاز میں جب بھی طویل سفر کیا ہے تمام وقت پڑھتے ہوئے گزرتا ہے۔
مطالعے کے اوقات اب تو وہی ہیں جو فراغت کے ہیں، یعنی مطب اور تالیف کے اوقات۔ مگر دوران تعلیم درس گاہ سے فراغت کے بعد باقی وقت سیر و تفریح کے بجائے مطالعے میں صرف کرتا تھا۔ ٹونک میں تو صرف کتابیں پڑھتا تھا۔ جب اجمیر پہنچا تو وہاں کتابوں کے علاوہ چند تازہ دینی اور ادبی رسائل بھی مل جاتے تھے۔ وہاں ایک لائبریری تھی جس میں علمی و ادبی کتابوں کا اچھا خاصا ذخیرہ تھا، مثلاً انجمن ترقی اردو کے رسالے اردو کا پورا فائل تھا۔ نگار کا بھی فائل تھا اور کئی رسالے جو بند ہوگئے ان کے بھی فائل تھے۔
پہلے وہ کتاب پڑھتا تھا جو ہاتھ آجاتی تھی، چاہے کسی موضوع پر ہو، کسی بھی سطح کی ہو۔ لیکن اب بہت دن سے ان کے انتخاب کا دائرہ تنگ کردیا ہے، بلکہ کردینا پڑا ہے۔ جسمانی قویٰ کے اضمحلال، دماغ اور بصارت کے ضعف کی وجہ سے موضوعات کی فہرست مختصر کردی ہے۔ بہرحال جو کتابیں ہدیتاً ملتی ہیں انہیں ضرور سرسری انداز میں پڑھ ڈالتا ہوں۔ ایسی کتابوں کے نام بھی بھولنے لگا ہوں، مگر معیاری کتابوں اور ان کے مضامین کے ناموں کو بھلانے پر قادر نہیں ہوں۔
اگر کتاب اپنی ہو تو اس پر بین السطور لائنیں لگاتا ہوں اور جلد کے سادہ اوراق پر خاص خاص مشمولات کے صفحات لکھ دیتا ہوں۔ مطالعے کے ساتھ میں قلم اور کاغذ تقریباً پچاس سال سے ساتھ رکھتا ہوں جس پر کچھ عبارتیں نقل کرتا رہتا ہوں جو بعد میں فائل میں لگا دیتا ہوں۔
پڑھنے کے لیے سکون مطلوب تھا اور وطن میں تو یہ حاصل تھا مگر پاکستان میں چھوٹے گھروں میں یہ سہولت بہت کم مل سکی، اس لیے ہر حالت میں پڑھ لیتا ہوں۔
بیگم کو الحمدللہ مطالعہ کا ذوق ہے، مگر وہ صرف سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم، سیر صحابہؓ و صحابیات اور فقہ کی کتابیں پڑھتی ہیں، اخبارات پر چند منٹ کے لیے نظر ڈالتی ہیں۔ میرے ایک بیٹے جامعہ کراچی میں استاد ہیں۔ وہ زیادہ تر سائنس کی کتابیں، اور دو بیٹے طبیب ہیں وہ زیادہ تر طب کی کتابیں پڑھتے ہیں۔ تین بچیوں میں سے دو کو یہ ذوق ہے اور ان کے پاس اچھا خاصا ذخیرۂ کتب بھی ہوگیا ہے۔ یہ دونوں زیادہ تر اسلامی اور مسلمین کی تاریخ اور دینی موضوعات پر کتابیں پڑھتی ہیں۔
میرے کتب خانے میں سولہ ریک ہیں جن میں عربی، فارسی، اردو کی تقریباً پانچ ہزار کتابیں ہیں۔ رسائل کے فائل ان کے علاوہ ہیں۔ اس ذخیرے کی ابتدا میرے محترم پردادا حکیم سید دائم علی سے ہوئی۔ پھر محترم دادا سید برکات احمد، پھر والد محترم سید محمد احمد اس میں اضافہ کرتے رہے۔ میں بھی اس میں اضافہ کرتا رہا۔ پھر ترکِ وطن جن حالات میں کرنا پڑا ان میں مطبوعات کی بڑی تعداد امانتاً اعزہ کے ہاں رکھ دی گئی، کیوں کہ وہ ذخیرہ قانوناً اور عملاً ساتھ نہیں لایا جا سکتا تھا۔ اس لیے مخطوطات میں سے بھی نوادار، مطبوعات میں بھی قدیم الطبع اور کم یاب مطبوعات ساتھ لے کر چلا، وہ بھی اس طرح کہ والدہ محترمہ اور بیگم نے اس سفر ہجرت کے لیے سخت انتخاب کے بعد دوصندوق تیار کیے تھے، میں نے ان میں سے بے دردی کے ساتھ تمام قیمتی ملبوسات نکال لیے اور ان کی جگہ کتابیں رکھیں اور دونوں سے عرض کیا کہ یہ سب چیزیں ان شاء اللہ وہاں دوبارہ مل جائیں گی (الحمدللہ مل گئیں)، مگر یہ کتابیں، یہ خزانہ پھر ہاتھ نہیں آئے گا۔ دو صندوق صرف کتابوں کے الگ بھرے اور الحمدللہ یہ خزانہ یہاں پہنچ گیا۔ پھر اس ذخیرے میں ہر فن اور زبان کی کتابوں کا اضافہ ہوتا رہا۔ میں بھی خریدتا رہا اور متعدد حضرات نے میرا ذوق اور یہ ذخیرہ دیکھ کر اپنا ذخیرہ مجھے عطا کیا۔ کسی نے پندرہ کتابیں اور کسی نے اس سے زیادہ، جن میں کچھ کم یاب کتابیں اور چند مخطوطات بھی تھے۔ اسی طرح نظم و نثر کی وہ کتابیں اس ذخیرے میں اضافہ کرتی رہیں جو شعرا اور اہلِ قلم احباب اور مریضوں نے دیں۔ یوں ساٹھ سال میں حدیث، تفسیر، فقہ، اصولِ فقہ، تصوف، منطق، فلسفہ، علم الکلام، طب، عربی، فارسی ادب، اردو ادب، تاریخِ عالم، تاریخِ ہند، تاریخِ اسلام وغیرہ کا یہ ذخیرہ جمع ہوا۔ اپنی تصانیف نظم و نثر عطا کرنے والے حضرات میں جو نام یاد آرہے ہیں ان میں اختر شیرانی، ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی، ڈاکٹر اسلم (لاہور)، سید ابوالخیر کشفی، حکیم محمد سعید، حکیم نیر واسطی (لاہور)، مولانا ماہر القادری، ڈاکٹر معین الحق، سید محمد سلیم، ڈاکٹر معین الدین عقیل، ڈاکٹر سید اسلم، ابواللیث صدیقی، ڈاکٹر ابوسلمان شاہ جہان پوری، محمد ایوب قادری، سید الطاف علی بریلوی، سید مصطفی علی بریلوی، ثناء الحق صدیقی، نادم سیتا پوری، مسلم ضیائی، ڈاکٹر سفیر اختر، مولانا مفتی مظہر بقا صاحب، محمود احمد عباسی، مولانا فضل اللہ، جامعہ عثمانیہ حیدرآباد دکن کے پروفیسر مجتبیٰ احسن، ڈاکٹر وقار احمد رضوی، مولانا عرشی امرتسری، ضیاء الدین لاہوری، رئیس علوی وغیرہ ہیں۔ کراچی کے شعرا میں سے رئیس امروہوی، راغب مراد آبادی، انجم اعظمی، قمر ہاشمی، سحر انصاری، سرشار صدیقی، امید فاضلی، رضی اختر شوق، ظفر محمد خان ظفر انجم وغیرہ۔
نادر کتابوں میں المشجر الکبیر، یحییٰ بن نوادرماسویہ (597 ہجری) برعظیم میں اس کتاب کے تین نسخے ہیں جن میں سے دوسرا پٹنے میں اور تیسرا رام پور میں ہے۔ مگر میرا یہ مخطوطہ چھٹی صدی ہجری میں کتابت ہوا۔ دوسرا پٹنے کا مخطوطہ آٹھویں صدی ہجری میں اور رام پور کا نسخہ گیارہویں صدی ہجری میں۔ بیرون ملک کے جن ذخائر کی فہرست نظر سے گزری ہے اس میں اس کا ذکر نہیں ہے۔ مگر اب یہ نسخہ کراچی نیشنل میوزیم میں ہے۔
تاریخ یمنی ترجمہ مولانا فضل امام خیر آبادی۔ یہ مولانا فضل امام کا اصلی نسخہ ہے۔
بیاض مولانا فضل حق خیر آبادی (جن میں چند مکاتیب کے مسودے اور چند قصہ ہیں)
حاشیہ شفا (ابن سینا) از آقا حسین خوانساری۔
حاشیہ قدیمہ برشرح تجدید محقق طوسی کی کتاب تجدید الکلام کی شرح علامہ قوشیخی نے کی تھی، اس پر محقق دوانی نے تین حاشیے یکے بعد دیگرے لکھے تھے، ان میں سے یہ پہلا حاشیہ ہے۔
حاشیہ خوانساری۔ ابن سینا کی کتاب الاشارات کی ایک شرح امام نے کی تھی اور ایک محقق طوسی نے۔ علامہ قطب الدین رازی نے ان دونوں پر محاکمہ کیا تھا۔ اس کتاب کا حاشیہ خوانساری نے لکھا تھا۔ یہ مخطوطہ خوانساری کے شاگرد محمد اشرف کاخی نے خوانساری کی حیات میں خود محنسی کے نسخے سے نقل کیا تھا۔
کتاب التحصیل (منطق، طبعیات، الٰہیات) از بہمار بن و زباں آذربائیجان) یہ ابن سینا کے شاگرد تھے۔
ابن سینا کی کتاب الشفا کے حصہ الٰہیات کا حاشیہ از مولانا عبدالحق خیر آبادی۔
تین سال اجمیر میں رہا، وہاں خواجہ اجمیر کی درگاہ تھی اس لیے یہاں ملک کے گوشے گوشے سے معتقدین شعراء، علماء، سیاسی زعما کثرت سے آتے رہتے تھے۔ اس لیے ان میں سے کسی سے سلام کا تبادلہ، کسی سے مصافحہ، کسی سے سرسری گفتگو اور کسی سے مفصل ملاقات ہوتی رہی تھی۔ پھر چار سال دہلی میں رہا تو وہاں کثرت سے علما، شعرا، مصنفین کو سونگھا، چکھا، تناول کیا۔ افسوس ہوا کہ کاش ہم ان کو اتنے قریب سے نہ دیکھتے کہ ان کا قد اتنا بلند نہیں ہے جتنا ہم نے قیاس کیا تھا۔ ان کا کردار بے داغ نہیں ہے۔ یہ اتنے بڑے نہیں ہیں جتنا ہم انہیں دیکھنے سے پہلے سمجھ بیٹھے تھے۔ کسی کو بہت پست قامت پایا اور اندازہ ہوا کہ شہرت صرف کمال اور جمال ہی سے حاصل نہیں ہوتی، بہت کم صلاحیتوں کے ساتھ بھی بہت سے ذرائع سے شہرت حاصل کی جاتی ہے۔ پھر جب میں دہلی پہنچا تو مے خانے کا در کھل گیا۔ وہاں ایک طرف بہت سے اہلِ علم و قلم، قدیم و جدید مدارس کے معلمین، نام ور مصنفین، شعر و سخن کے اساتذہ جمع تھے۔ علمی و ادبی اجتماعات ہوتے رہتے تھے۔ اس لیے دہلی پہنچ کر معلوم ہوا کہ تہہ خانے سے نکل کر میدان میں آگیا ہوں۔ وہاں ندوۃ المصنفین کا مشہور علمی ادارہ اور ماہ نامہ برہان کا دفتر تھا۔ یہ ہمارے کالج کے قریب تھا۔ ادارے کے ارکان مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی، مولانا سعید احمد اکبر آبادی، مولانا عتیق الرحمن عثمانی اور مولانا بدر عالم میرٹھی تھے۔ زندگی میں پہلی بار کوئی علمی ادارہ دیکھا تھا، اس لیے میں اکثر وہاں جاتا تھا۔ سراسر علمی ماحول، ارکان اپنے اپنے کمروں میں خاموشی سے مصروفِ کار، ہر کمرے میں الماریاں کتابوں سے معمور، انتظام مفتی عتیق الرحمن کے ہاتھ میں تھا، وہ کتابوں اور ماہ نامے کے پیکٹ بنوانے، کتابت کروانے، پروف کی اصلاح وغیرہ میں مصروف ہوتے اور میں برہان کے تبادلے میں آئے تازہ رسائل اور الماریوں میں سے اپنی پسند کی کتابیں نکال کر پڑھنے بیٹھ جاتا اور ضخیم کتاب بھی مفتی صاحب مجھے لے جانے کی اجازت دے دیتے تھے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کا مرکز اُس وقت تک قرول باغ میں اجمل روڈ پر ہی تھا۔ جامعہ کا کتب خانہ اور دارالمطالعہ بھی اسی روڈ پر تھا۔ میں وہاں بھی حملے کرتا رہتا تھا اور اپنی علمی بھوک اور پیاس بجھانے کی کوشش کرتا۔ شہر میں دو اور دارالمطالعے تھے، ایک پنجابی سوداگران دہلی کا اور دوسرا ہارڈنگ لائبریری کا۔ تقریباً دونوں جگہ کے پھیرے کرتا تھا۔ ہمارے اساتذۂ طب حکیم خواجہ رضوان، حکیم فرید احمد عباسی، حکیم عبدالحفیظ صاحبان کے کتب خانوں تک بھی میری تگ و تاز تھی، ان کتب خانوں میں طبی کتابوں کے علاوہ ان اساتذہ کے ذوقِ مطالعہ کی وجہ سے علمی، دینی و تاریخی کتابیں بھی ہوتی تھیں۔ یہ حضرات میرے بزرگوں سے نہ صرف واقف بلکہ ارادت مند تھے، اس لیے مجھ سے دوسرے طلبہ کی بہ نسبت خصوصی معاملہ فرماتے تھے اور میں ان کے یہاں سے نادر مطبوعات تک لے آتا تھا۔ ہارڈنگ لائبریری کے انچارج اُس زمانے میں اسرار الحق مجاز تھے۔ وہ دارالمطالعہ میں ایک اونچے چبوترے پر ایک بڑی سی میز پر بیٹھتے تھے۔ روزانہ ان سے سلام کا تبادلہ ہوتا تھا۔ ایک دن میں نے ان سے کہا کہ آپ مجھے بہت اچھے لگتے ہیں مگر جب وقت ختم ہونے کا گھڑیال بجاتے ہیں تو آپ پر بہت غصہ آتا ہے، تو انہوں نے بہت لطف لیا۔ رئیس احمد جعفری کی قائداعظم پر ایک ضخیم کتاب ایک دن لائبریری میں داخل ہوئی تھی، مجھے اس کے مطالعے کا اشتیاق تھا مگر میں لائبریری کا ممبر نہیں تھا، اس لیے اپنے نام جاری نہیں کروا سکتا تھا۔ فرطِ اشتیاق سے میں مجاز صاحب کے پاس لے کر گیا اور درخواست کی کہ اسے اپنے نام سے جاری کروا دیں۔ یہ سوال ان کے لیے غیر متوقع تھا اس لیے سن کر مسکرائے اور کچھ دیر سوچتے رہے، پھر اپنے نام سے کتاب جاری کروا دی۔ میں کتاب لے آیا اور صبح ہوتے ہوتے کتاب پڑھ ڈالی۔ دوسرے روز حسب معمول عصر کے بعد لائبریری پہنچ کر کتاب مجاز صاحب کو پیش کردی۔ انہوں نے حیرت سے کتاب ہاتھ میں تولنے کے انداز میں پوچھا ’’کتاب پڑھ لی؟‘‘ میں نے کہا ’’جی ہاں پڑھ کر واپس کرنے لایا ہوں، رات بھر پڑھ کر ختم کردی، صبح اپنے دوسرے فرائض ادا کیے اور اب واپس کرنے آیا ہوں‘‘۔ مجاز صاحب استفہام انکاری کے لہجے میں کہنے لگے ’’اتنی ضخیم کتاب ایک رات میں!‘‘ میں نے کہا ’’مجاز صاحب میں قائداعظم پر تین کتابیں پڑھ چکا ہوں، اس کتاب میں قائداعظم اور دوسروں کی تقاریر کے طویل طویل اقتباسات میرے لیے نئے نہیں تھے۔ اجلاسوں کی رودادیں بار بار پڑھی ہیں، ان کا پڑھنا کیوں ضروری تھا؟ باقی ہر نئی چیز میں نے پڑھ لی ہے، آپ امتحان لے لیں۔‘‘
مطالعے کے اس جوع البقر کا یہ عالم تھا کہ رسالوں کا فلمی حصہ جس میں فلموں کی خبریں، اداکاروں کی کارکردگی پر تبصرے وغیرہ ہوتے تھے مَیں وہ بھی پڑھ ڈالتا تھا، حالانکہ نہ اُس وقت تک کوئی فلم دیکھی تھی نہ کبھی اس کا شوق ہوا تھا۔ اس سلسلے میں ایک واقعہ دل چسپ ہوا۔ میں چند دن کے لیے اپنے اعزہ کے یہاں ملنے کے لیے گیا۔ وہاں بزرگوں سے زیادہ اپنے ہم سن عزیزوں کے ساتھ وقت گزارتا تھا۔ ایک دن ان حضرات نے تواضع کی خاطر مجھے فلم دکھانے کا پروگرام بنا لیا۔ اور جب مجھ سے ذکر کیا تو میں نے یہ دعوت قبول کرنے سے صاف انکار کردیا۔ احباب نے اس انکار کو تکلف پر محمول کیا، مگر میں نے انہیں بتایا کہ میں نے آج تک کوئی فلم دیکھی ہے اور نہ اس کو جائز سمجھتا ہوں، تو وہ حیرت زدہ رہ گئے۔ ان کی حیرت کی وجہ یہ تھی کہ اس عرصے میں ان سے جب بھی گفتگو ہوتی اور وہ اپنے ذوق کے مطابق فلموں کی بات کرتے تو میں بھی اس گفتگو میں حصہ لیتا تھا اور فلموں اور اداکاروں کے متعلق اپنے ماہرانہ تبصرے اس شانِ اعتماد سے بیان کرتا کہ جیسے فلم میں نے خود دیکھی ہو۔ میری یہ معلومات رسالوں کے فلمی صفحات حرف بحرف پڑھنے کا نتیجہ تھیں۔
رسائل اور کتابوں کے علاوہ شعر و ادب سے بھی زیادہ دل چسپی رہی اور شعرا و ادبا کے ساتھ ادبی موضوعات پر مذاکروں کا سلسلہ جاری رہتا۔ اس دور میں ترقی پسند ادب بھی ہمارا خاص موضوعِ بحث تھا، اور اس موضوع کے حامیوں اور مخالفوں کی جو کتابیں شائع ہوتی تھیں وہ میں ضرور پڑھتا تھا۔ اسی طرح شعراء کے مجموعہ ہائے کلام بھی کثرت سے شائع ہورہے تھے اور وہ میں التزاماً پڑھتا تھا۔ چنانچہ جاں نثار اختر نے مولانا ماہر القادری سے ایک محفل میں میرے متعلق کہا ’’تازہ شائع ہونے والا ہر مجموعہ یہ ضرور حاصل کرتے اور پڑھتے ہیں‘‘۔ انہی دنوں مولانا ابوالکلام آزاد کی کتاب ’’غبارِ خاطر‘‘ کے زیر طباعت ہونے کی خبر ملی، میں اردو بازار دہلی میں ناشر کی دکان کے روز چکر لگانے لگا۔ آخر ایک روز وہ بازار میں آگئی اور میں جب دکان پر پہنچا تو دکان کے مالک نے اس کتاب کا ایک نسخہ میز کی دراز میں سے نکال کر مجھے دیا کہ لاٹ میں سے پہلا نسخہ میں نے آپ کے لیے پہلے الگ کرلیا تھا کہ سب سے زیادہ انتظار آپ کو ہی تھا۔
nn

حصہ