100 (ویں ٹیسٹ میں سنچری بنائی ہاشم آملہ نے (سید وزیر علی قادری سید پرویز قیصر

305

ابھی تک 66 کھلاڑیوں نے سو سے زیادہ ٹیسٹ کھیلے ہیں، جن میں سے 8 کھلاڑیوں نے اپنے 100 ویں ٹیسٹ میں سنچری اسکور کی ہے۔ سری لنکا کے خلاف جوہانسبرگ میں جنوبی افریقہ کے بلے باز ہاشم آملہ نے اپنے ٹیسٹ میچوں کی سنچری مکمل کی۔ اس ٹیسٹ میں انہوں نے 391 منٹ میں 265 گیندوں پر 16 چوکوں کی مدد سے 134 رن بنائے جو ان کی 26 ویں سنچری تھی۔
100ویں ٹیسٹ میں سنچری اسکور کرنے والے پہلے کھلاڑی انگلینڈ کے کولن کاؤڈرے تھے۔ انہوں نے آسٹریلیا کے خلاف برمنگھم میں 1968ء میں اپنا 100واں ٹیسٹ کھیلا تھا جس کی پہلی اننگ میں انہوں نے 244 منٹ میں 247 گیندوں پر 15چوکوں کی مدد سے 104 رن بنائے تھے۔ اس ٹیسٹ کی دوسری اننگ میں انہوں نے بلے بازی نہیں کی تھی اور یہ ٹیسٹ بغیر کسی فیصلے کے ختم ہوا تھا۔
لگ بھگ 21 سال بعد پاکستان کے جاوید میاں داد اپنے 100ویں ٹیسٹ میں سنچری بنانے میں کامیاب ہوئے۔ ہندوستان کے خلاف لاہور میں 1989ء میں جاوید میاں داد نے 365 منٹ میں 289 گیندوں پر 10 چوکوں کی مدد سے 145 رن بنائے تھے۔ پاکستان نے 203.4 اوور میں 5 وکٹ پر 699 رن بنائے تھے مگر پھر بھی یہ ٹیسٹ بغیر کسی فیصلے کے ختم ہوا تھا۔ ہندوستان نے پہلی اننگ میں 178.2 اوور میں 509 رن بنائے تھے۔
ویسٹ انڈیز کے افتتاحی بلے باز گورڈن گرینج نے انگلینڈ کے خلاف سنیٹ جونس میں 1989-90ء میں اپنا 100واں ٹیسٹ کھیلا تھا جس میں انہوں نے 380 منٹ میں 207 گیندوں پر 18 چوکوں اور 3 چھکوں کی مدد سے 149 رن بنائے تھے۔ ان کے ساتھی افتتاحی بلے باز ڈیسمنڈہینز جو 89 واں ٹیسٹ کھیل رہے تھے وہ بھی سنچری بنانے میں کامیاب رہے تھے۔ ڈیسمنڈ ہینز نے 533 منٹ میں 317 گیندوں پر 24 چوکوں اور ایک چھکے کی مدد سے 167 رن بنائے تھے۔ دونوں کھلاڑیوں نے پہلی وکٹ کی شراکت میں 298 رنز جوڑے تھے جس کی بدولت ویسٹ انڈیز نے 120.5 اوور میں 446 رن بنائے تھے۔ انگلینڈ سے دونوں اننگز میں بھی یہ اسکور پورا نہیں ہوسکا اور وہ ایک اننگ اور 32 رن سے یہ ٹیسٹ ہار گیا۔
گورڈن گرینج کے بعد ایلک اسٹیورٹ اپنے 100ویں ٹیسٹ میں سنچری بنانے میں کامیاب رہے تھے۔ ویسٹ انڈیز کے خلاف مانچسٹر میں 2000ء میں انہیں اپنا 100واں ٹیسٹ کھیلنے کا موقع ملا تھا جس میں انہوں نے 186 منٹ میں 153 بالوں پر 13 چوکوں کی مدد سے 105 رن بنائے تھے۔ یہ ٹیسٹ بغیر کسی فیصلے کے ختم ہوا تھا۔
پاکستان کے انضمام الحق نے 2004-05ء میں ہندوستان کے خلاف بنگلور میں اپنا 100واں ٹیسٹ کھیلا تھا جس میں وہ 361 منٹ میں 264 گیندوں پر 25 چوکوں کی مدد سے 184 رن بنانے میں کامیاب رہے تھے۔ یونس خان نے اس اننگ میں 690 منٹ میں 504 گیندوں پر 32 چوکوں اور ایک چھکے کی مدد سے 267 رن بنائے تھے۔ پاکستان نے یہ ٹیسٹ 168 رن سے جیتا تھا اور انضمام الحق اس میچ میں پاکستان کے کپتان تھے۔
100ویں ٹیسٹ میں سنچری بنانے کے بعد انضمام الحق نے ویسٹ انڈیز کے خلاف کنگسٹن میں جون 2005ء میں اپنے 101 ویں ٹیسٹ میں بھی سنچری اسکور کی تھی۔ ٹیسٹ کی پہلی اننگ میں 50 رن بنانے کے بعد انہوں نے دوسری اننگ میں آؤٹ ہوئے بغیر 117 رن بنائے تھے۔
آسٹریلیا کے رکی پونٹنگ واحد کھلاڑی ہیں جنہوں نے 100ویں ٹیسٹ کی دونوں اننگز میں سنچری بنائی تھی۔ سڈنی میں 2005-06ء میں انہوں نے جنوبی افریقہ کے خلاف یہ ٹیسٹ کھیلا تھا جس میں آسٹریلیا کو 8 وکٹ سے فتح ملی تھی۔
رکی پونٹنگ نے آسٹریلیا کی پہلی اننگ میں 257 منٹ میں 174 بالوں پر 12 چوکوں اور ایک چھکے کی مدد سے 120 رن بنانے کے بعد دوسری اننگ میں 202 منٹ میں 159 بالوں پر 16 چوکوں کی مدد سے آؤٹ ہوئے بغیر 143 رن بنائے تھے۔
رکی پونٹنگ نے اپنے 99 ویں ٹیسٹ میں بھی سنچری اسکور کی تھی۔ جنوبی افریقہ کے خلاف میلبورن میں انہوں نے اپنا 99 واں ٹیسٹ کھیلا تھا اور 298 منٹ میں 198 گیندوں پر 13 چوکوں کی مدد سے 177 رن بنائے تھے۔
جنوبی افریقہ کے گریم اسمتھ نے اوول میں 2012ء میں اپنا 100واں ٹیسٹ انگلینڈ کے خلاف کھیلا تھا اور 367 منٹ میں 273 گیندوں پر 20 چوکوں کی مدد سے 131 رن بنائے تھے۔ یہ میچ جنوبی افریقہ نے ایک اننگ اور 12 رن سے جیتا تھا۔
دس کھلاڑیوں نے اپنے 99 ویں ٹیسٹ میں تو سنچری اسکور کی مگر وہ 100 ویں ٹیسٹ میں ایسا نہیں کرسکے۔ آٹھ کھلاڑیوں نے 100 ویں ٹیسٹ میں تو سنچری نہیں بنائی مگر وہ 101 ویں ٹیسٹ میں سنچری بنانے میں کامیاب رہے۔
ویسٹ انڈیز کے برائن لارا اور سری لنکا کے مہیلاجے وردھنے نے اپنے 99 ویں اور 101 ویں ٹیسٹ میں سنچریاں بنانے کا اعزاز حاصل کیا۔
برائن لارا نے جنوبی افریقہ کے خلاف جوہانسبرگ میں 2003-04ء میں اپنا 99 واں ٹیسٹ کھیلا تھا جس میں 439 منٹ میں 274 گیندوں پر 32 چوکوں اور 2 چھکوں کی مدد سے 202 رن بنائے تھے۔ اس میچ کی دوسری اننگ میں وہ صرف پانچ رن بناسکے تھے۔ اس سیریز کے دوسرے ٹیسٹ میں جو ڈربن میں کھیلا گیا تھا، برائن لارا نے پہلی اننگ میں 72 اور دوسری میں 11رن بنائے۔
کیپ ٹاؤن میں کھیلا گیا سیریز کا تیسرا اور آخری ٹیسٹ برائن لارا کا 101 واں ٹیسٹ تھا جس میں وہ 326 منٹ میں 238 گیندوں پر 16 چوکوں اور ایک چھکے کی مدد سے 115 رن بنانے میں کامیاب رہے۔ ٹیسٹ کی دوسری اننگ میں انہوں نے 185 منٹ میں 138 گیندوں پر 14 چوکوں کی مدد سے 86 رن بنائے۔
مہیلا جے وردھنے نے بنگلا دیش کے خلاف میرپور ڈھاکا میں 2008-09ء میں اپنا 99 واں ٹیسٹ کھیلا تھا۔ پہلی اننگ میں 3 پر آؤٹ ہونے کے بعد انہوں نے دوسری اننگ میں 391 منٹ میں 269 گیندوں پر 19 چوکوں اور ایک چھکے کی مدد سے 166 رن بنائے تھے۔ 100ویں ٹیسٹ میں 11 اور 22 رن بنانے کے بعد جب انہوں نے پاکستان کے خلاف کراچی میں 2008-09ء میں اپنا 101 واں ٹیسٹ کھیلا تھا تو 531 منٹ میں 424 گیندوں پر 32 چوکوں کی مدد سے 240 رن بنائے تھے۔ سری لنکا نے اس اننگ میں 7 وکٹوں کے نقصان پر 644 رن بنائے تھے مگر وہ یہ ٹیسٹ نہیں جیت سکی کیونکہ یونس خان کی 313 رن کی شاندار اننگ کی بدولت پاکستان نے 6 وکٹ پر 765 رن بنا ڈالے تھے۔

nn

حصہ