(چہرہ روشن (سید مہر الدین

451

آیت نمبر 47,46 میں ارشاد ہوا:۔ ’’اِن دونوں گروہوں (اہلِ جنت اور اہلِ جہنم) کے درمیان ایک اوٹ حائل ہوگی جس کی بلندیوں (اَعراف) پر کچھ اور لوگ ہوں گے۔ یہ ہر ایک کو اس کے قیافہ (چہرے) سے پہچانیں گے اور جنت والوں سے پکار کر کہیں گے کہ ’’سلامتی ہو تم پر‘‘۔ یہ لوگ جنت میں داخل تو نہیں ہوئے، مگر اس کے امیدوار ہوں گے۔ اور جب ان کی نگاہیں دوزخ والوں کی طرف پھریں گی تو کہیں گے ’’اے رب! ہمیں اِن ظالموں میں شامل نہ کیجیو‘‘۔
اپنی بیلنس شیٹ آج ہی بنا لیجیے:۔
جن لوگوں کی زندگی دنیا میں نہ اتنی اچھی تھی کہ جنت میں بھیج دیے جائیں، اور نہ ہی اتنی خراب تھی کہ جہنم میں ڈال دیے جائیں، یہ جنت اور دوزخ کے درمیان ایک دیوار کی بلندی (اَعراف) پر ہوں گے اور اپنے رب کی رحمت کے امیدوار ہوں گے۔ یہ لوگ جب اہلِ جہنم کو دیکھیں گے تو ان سے اللہ کی پناہ مانگیں گے اور جب جنت کی طرف دیکھیں گے تو اہلِ جنت کو سلام کریں گے۔ ایک شاعر کا مشہور مصرع ہے
اَز دوزخیاں پرس کہ اعراف بہشت است؟
دوزخی جب اہلِ اعراف کو دیکھیں گے تو انہیں پُرسکون پائیں گے اور پوچھیں گے کہ کیا اَعراف جنت ہے؟ ہمارے لیے اِس آیت کا پیغام یہ ہے کہ ہم آج ہی اپنی بیلنس شیٹ بنا لیں۔ انسان اپنے آپ کو خوب اچھی طرح جانتا ہے، اس لیے بہتر ہے کہ تنہائی میں اپنا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ آپ کی اب تک کی زندگی کا کون سا پہلو زیادہ وزنی ہے، نیکی کا یا بدی کا؟ اور پھر اپنے آپ کو جہاں بھی پائیں مزید بہتر کرنے کی کوشش کریں۔کہیں ایسا نہ ہوجائے کہ ہم روزِ حشر اپنے لیے سفارشی تلاش کررہے ہوں یا یہ کہیں کہ ہمیں دوبارہ واپس ہی بھیج دیا جائے تاکہ جو کچھ ہم پہلے کرتے تھے اس کے بجائے اب دوسرے طریقے پر کام کرکے دکھائیں۔ ابھی موقع ہے درست طریقے پر کام کرنے کا۔ یہ موقع بعد میں نہ ملے گا۔ ایک اور بات معلوم ہوئی کہ جنت میں صرف 100 فیصد والے لوگ نہیں جائیں گے، بلکہ وہ جائیں گے جن کی زندگی میں اچھائی کا پہلو غالب رہا ہو۔ دوسرے الفاظ میں جن کے اچھے اعمال برے اعمال سے زیادہ ہوں گے۔ اس لیے دنیا کی اِس زندگی میں کسی کو 100 فی صد کے پیمانے پر نہ ناپیں۔۔۔ دوسروں کو بھی نہیں اور اپنے آپ کو بھی نہیں۔ اِس سوچ سے یہ ہوتا ہے کہ آدمی دوسروں کے کسی ایک ہی کام کو اپنے طور پر غلط سمجھتے ہوئے اس سے خود بھی بدظن ہوتا ہے اور لوگوں میں بھی بدظنی پھیلاتا ہے۔ یہ باریک بینی اگر انسان اپنے بارے میں کرنے لگے تو اپنی چھوٹی چھوٹی غلطیوں کو دیکھ کر مایوس ہوجاتا ہے، اور اپنی اصلاح کرنے کے بجائے مزید برائی میں ڈوب جاتا ہے۔
ظالم اپنے چہروں سے پہچانے جائیں گے:۔
جب کوئی ماضی کے فرعون و نمرود۔۔۔ اور چنگیز و ہلاکو کی تصویر بناتا ہے تو اسے شکل ہی سے ظالم، جابر اور خوں خوار دکھاتا ہے۔۔۔ لیکن آج کے فرعون، نمرود، ہلاکو اور چنگیزکو آپ دیکھیں تو ان کے چہروں کو دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ یہ اِتنے سفاک، اِتنے ظالم ہوں گے۔ بلکہ ان کا گیٹ اَپ اور میک اَپ ایسا ہوتا ہے کہ اِنہیں دیکھ کر ایک عام اور سادہ آدمی دھوکا کھا جاتا ہے۔ یہ ایسی چکنی چپڑی باتیں کرتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے اِن سے زیادہ مخلص، وفادار اور دیانت دار کوئی نہیں۔۔۔ لیکن یہ بھی صرف رٹے ہوئے ڈائیلاگ ہوتے ہیں۔ یہ کاغذ کے پھولوں کی طرح خوش نما ضرور ہوتے ہیں لیکن اِن میں وفا کی خوشبو نام کو بھی نہیں ہوتی۔ بقول اقبالؒ
چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر
ان کے جرائم کے خلاف کوئی گواہی نہیں ملتی اور نہ ہی ان کی کرپشن کے کوئی ثبوت ملتے ہیں۔۔۔ اور یہ عدالت میں جاکر مزید عزت پاتے ہیں۔ جبکہ عالمِ آخرت میں نیک، اور بدکردار لوگ چہرے سے پہچانے جائیں گے۔ آج کی طرح وہاں کوئی بھیس نہ بدل سکے گا۔۔۔ وہاں یہ اپنے جرائم کے خود گواہ ہوں گے، ان کے ہاتھ، پاؤں اور زبان ان کے خلاف گواہی دیں گے اور فیصلہ اُس علیم و خبیر ذات کا ہوگا جس سے کچھ چھپا ہوا نہیں۔۔۔ جو ظلم نہیں کرتا، اور حساب لینے میں بہت تیز ہے۔ اس لیے دنیا کی زندگی میں اگر لوگوں کو پرکھنے کا کوئی پیمانہ ہوسکتا ہے تو وہ ان کا عمل اور اس کے ذریعے سے پیدا ہو نے والے نتائج ہیں۔ اگر آپ دنیا کی زندگی میں لوگوں کو اُن کے اعمال سے نہیں پہچانیں گے بلکہ صرف ان کے چہرے، ان کے لباس، رہن سہن، ان کی چکنی چپڑی، بناوٹی، جھوٹی باتوں میں آئیں گے تو دھوکا کھائیں گے۔ دنیا میں اِن کے شَر اور فساد سے بچنے کے لیے انہیں ان کے عمل اور اِس سے پیدا ہونے والے نتائج سے پہچاننا ہوگا۔ آج اگر بھوک بڑھ رہی ہے۔۔۔ بیماریاں اور ہلاکتیں بڑھ رہی ہیں۔۔۔ غربت بڑھ رہی ہے۔۔۔ دہشت اور خوف بڑھ رہا ہے تو اس کا سبب یہی بہروپیے ہیں جن کے ظاہر سے دھوکا کھا کر لوگ اِن پر بھروسا کرتے اور انہیں رہنما بناتے ہیں۔ سورہ الرحمن آیت نمبر 41 میں اِرشاد ہوا ’’مجرم وہاں اپنے چہروں سے پہچان لیے جائیں گے اور انہیں پیشانی کے بال اور پاؤں پکڑ پکڑ کر گھسیٹا جائے گا۔‘‘
عالمِ آخرت۔۔۔ دوسرا جہاں:۔
آیات 48 تا 51 میں ارشاد ہوا: ’’پھر یہ اَعراف کے لوگ دوزخ کی چند بڑی بڑی شخصیتوں کو اُن کی علامتوں سے پہچان کر پکاریں گے کہ ’’دیکھ لیا تم نے، آج نہ تمہارے جتھے تمہارے کسی کام آئے اور نہ وہ ساز و سامان جن کو تم بڑی چیز سمجھتے تھے۔ اور کیا یہ اہلِ جنت وہی لوگ نہیں ہیں جن کے متعلق تم قسمیں کھا کھا کر کہتے تھے کہ اِن کو تو خدا اپنی رحمت میں سے کچھ بھی نہ دے گا؟ آج انہی سے کہا گیا کہ داخل ہوجاؤ جنت میں، تمہارے لیے نہ خوف ہے نہ رنج۔۔۔‘‘ اور دوزخ کے لوگ جنت والوں کو پکاریں گے کہ کچھ تھوڑا سا پانی ہم پر ڈال دو یا جو رزق اللہ نے تمہیں دیا ہے اس میں سے کچھ پھینک دو۔ وہ جواب دیں گے ’’اللہ نے یہ دونوں چیزیں ان منکرینِ حق پر حرام کردی ہیں جنہوں نے اپنے دین کو کھیل اور تفریح بنا لیا تھا اور جنہیں دنیا کی زندگی نے فریب میں مبتلا کررکھا تھا‘‘۔ اللہ فرماتا ہے کہ آج ہم بھی انہیں اسی طرح بھلا دیں گے جس طرح وہ اِس دن کی ملاقات بھولے رہے اور ہماری آیتوں کا انکار کرتے رہے۔‘‘
آج فاصلے مٹتے جا رہے ہیں اور رابطے آسان ہوتے جا رہے ہیں، ملکوں اور براعظموں کے درمیان رابطہ لمحوں کی بات ہے۔۔۔ زیادہ پرانی بات نہیں جب سات سمندر پار جانے والے اپنے پیاروں سے جیتے جی کٹ جاتے تھے۔ یہ رابطے کس نے ممکن بنائے؟ انسان نے!!! تو جو اِنسان کا خالق ہے کیا نہیں کرسکتا؟ اس کا کسی حد تک اندازہ اوپر درج اہلِ جنت اور اہلِ دوزخ اور اصحاب الاعراف کی گفتگو سے کیا جا سکتا ہے کہ عالمِ آخرت میں انسان کی قوتوں کا پیمانہ کس قدر وسیع ہوجائے گا۔ وہاں آنکھوں کی بینائی اتنے بڑے پیمانے پر ہوگی کہ جنت اور دوزخ اور اعراف کے لوگ جب چاہیں گے ایک دوسرے کو دیکھ سکیں گے۔ وہاں آواز اور سماعت بھی اتنے بڑے پیمانے پر ہوگی کہ اِن مختلف دنیاؤں کے لوگ ایک دوسرے سے بآسانی باتیں کرسکیں گے۔ یہ اور ایسے ہی دوسرے بیانات جو عالم آخرت کے متعلق ہمیں قرآن میں ملتے ہیں، اس بات کا تصور دلانے کے لیے کافی ہیں کہ وہاں زندگی کے قوانین ہماری موجودہ دنیا کے قوانین طبیعی سے بالکل مختلف ہوں گے، اگرچہ ہماری شخصیتیں یہی رہیں گی جو یہاں ہیں۔ جن لوگوں کے دماغ اِس عالمِ طبیعی کے حدود میں اس قدر مقیّد ہیں کہ موجودہ زندگی اور اس کے مختصر پیمانوں سے وسیع تر کسی چیز کا تصور ان میں نہیں سما سکتا وہ قرآن اور حدیث کے اِن بیانات کو بڑی حیرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور بسا اوقات ان کا مذاق اڑا کر اپنی کم عقلی کا مزید ثبوت بھی دینے لگتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ان بیچاروں کا دماغ جتنا تنگ ہے زندگی کے امکانات اتنے تنگ نہیں ہیں۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہم سب کو اپنے دین کا صحیح فہم بخشے اور اس فہم کے مطابق دین کے سارے تقاضے اور مطالبے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔
وآخر دعوانا انالحمد و للہ رب العالمین ۔

حصہ