بچوں کے لیے تفہیم القرآن کا تحفہ
روزنامہ نوائے وقت کے ساتھ 1990ء سے 2003ء تک میری بہت طویل رفاقت رہی۔ ماہنامہ پھول کے زیر اہتمام ملک کے ۶۰؍ سے زائد شہروں میں پھول کلب بنائے تو اکثر جگہوں پر جانا پڑتا۔ اتنی دور دراز جگہوں سے خطوط اور فون آتے تو لوگوں کے اچھے لفظوں اور اچھے تصورات سے محبت کا بار بار اندازہ ہوتا۔ مجید نظامی صاحب اس حوالے سے بہت شفیق تھے کہ آگے بڑھتے کام کو روکتے نہیں تھے۔ انھوں نے ۳؍ہزار کا ماہانہ بجٹ دیا ہوا تھا جو لکھنے والوں پر خرچ ہو جاتا۔ عام قارئین اور مقابلوں میں حصہ لینے والوں کے لیے لاہور میں تو ہم ڈان بریڈ اور پارلے والوں سے بڑے بڑے انعام لے لیتے مگر اندرون ملک والے محروم رہتے۔
میں نے ایک روز اللہ کا نام لے کر قاضی صاحب کو خط لکھ دیا۔ میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب انھوں نے بچوں کے لیے ہر ماہ ایک تفہیم القرآن کا سیٹ اور مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کی کتابیں بالخصوص خطبات بطور تحفہ دینے کی منظوری دے دی اور پھر سالوں ہمیں باقاعدگی سے یہ تحائف ملتے رہے۔ اندرون پنجاب اور اندرون سندھ جب ڈاک سے یہ کتابیں پہنچتیں تو بچوں ہی کی نہیں ان کے والدین کی خوشی بھی دیدنی ہوتی، جس کا وہ فوری اظہار بھی کرتے۔ اکثر گوٹھوں اور قصبوں میں تو رجسٹرڈ پیکٹ سے کتابیں ہی پہلی بار پہنچی تھیں۔ ان تحائف نے جن میں آنے والے سالوں میں البدر پبلی کیشنز کے عبدالحفیظ صاحب کی چھاپی ہوئی خرم مراد کی کتاب، چند تصویریں اور تعمیر انسانیت کے محمد سعید اللہ صدیق کی شائع کردہ صحیح مسلم اور صحیح بخاری کی جلدیں بھی شامل ہو گئی تھیں، نے بچوں کی تربیت اور ادارے کی نیک نامی میں بہت اضافہ کیا۔قاضی صاحب کی شفقت کے بغیر یہ ممکن ہی نہیں تھا۔میری شادی کے موقع پر صفدر چوہدری صاحب قاضی صاحب کی طرف سے تفہیم القرآن کا سیٹ اور دعاؤں کا تحفہ لائے تو اس کی خوشی الگ سے ہوئی۔
ہور کی حال اے
قاضی صاحب سے تعلق اور محبت کا حوالہ ہر فرد کے لیے الگ سے ہے۔ بے شک ایسے بھی ہیں جنھیں وہ بہت پسند نہیں تھے مگر ان کے ولولہ انگیز خطاب سن کر جذباتی ہو جانے والے ان کے مسکراتے چہرے پر قربان ہونے کی آرزو کرنے والے اور انھیں اس قوم کے لیے خدا کا انعام سمجھنے والے بھی بہت تھے۔ جمعیت کے کارکنان کی محبت میں ایک عجیب ہی والہانہ پن اور وارفتگی ہوتی تھی۔ ’’ہم بیٹے کس کے! قاضی کے‘‘ کا نعرہ اس عہد کا محبوب ترین نعرہ تھا۔ جمعیت کے ایک اجتماع میں لانے کے لیے جس نوجوان کی ڈیوٹی لگائی گئی، وہ بھی اس محبت کے شیرے میں بھیگا ہوا تھا۔شوکت علی نام تھا ان کا۔
اسی کار میں بیٹھے دوسرے نوجوان نے ملاقات اور سفر کا آنکھوں دیکھا حال بیان کرتے ہوئے کہا، ’’ساتھی قاضی صاحب کے ساتھ پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئے۔ خوشی، محبت، عقیدت کا اس قدر غلبہ تھا کہ ان سے بات نہیں ہو رہی تھی۔ انھوں نے قاضی صاحب کا ہاتھ تھاما اور بے اختیاری میں بولے، ’’ہور سناؤ قاضی صاحب! کی حال اے‘‘ قاضی صاحب نے ان کے سوال کا مکمل جواب دیا، ’’تھوڑی دیر بعد انھوں نے پھر قاضی صاحب کی طرف والہانہ انداز میں دیکھا۔ جونہی آنکھیں چار ہوئیں۔ بے اختیار ان کے منہ سے نکلا ’’ہور سناؤ قاضی صاحب! کیسی گزر رہی ہے؟‘‘ قاضی صاحب نے ذرا محسوس کیے بغیر، بلکہ احساس دلائے بغیر دوبارہ اس کے سوال کا جوا ب دیا۔ میں اگلی نشست پر بیٹھا شرمندگی سے پانی پانی ہو رہا تھا کہ قاضی صاحب محترم کیا سوچ رہے ہوں گے کہ لاہور میں یہ معیار ہے۔ ابھی میں یہاں تک ہی سوچ پایا تھا کہ دیکھا، ہم اجتماع گاہ پہنچنے ہی والے تھے۔ پچھلی سیٹ سے اچانک آواز آئی، ’’قاضی صاحب محترم! اجتماع میں اس بار بہت بڑی تعداد آئی ہے۔ ہور سناؤ فیر کی حال اے۔‘‘
گاڑی کا ڈرائیور تک یہ سن کر مسکرائے بغیر نہ رہ سکا مگر قاضی صاحب نے مجال ہے ساتھی کو احساس بھی دلایا ہو کہ اس سوال سے خود ان پر کیا بیتی ہے۔
بان کی چارپائی کا مزہ
ملک کے معروف آئی سرجن اور الخدمت پاکستان کے سابق صدرڈاکٹر حفیظ الرحمن،[جن کا ایک دنیا جماعت کی سیاسی سرگرمیوں مین بڑا اور قابل ذکر کردار دیکھ رہی ہے ] بے حد نفیس اور مہربان انسان ہیں۔ خدمت ان کا شعار ہے اور عمدہ تجزیہ ان کی زندگی کا معمول۔ ان کی خدمات کا دائرہ پشاور سے اسلام آباد اور کراچی سے زیارت تک ہی نہیں سوڈان سے صومالیہ اور مصر سے اردن تک پھیلا ہوا ہے۔ وہ قاضی صاحب کے بارے میں بات کرتے ہیں تو کھو سے جاتے ہیں۔ ’’ہم نے کیا کھو دیا، ان کے جانے کے بعد احساس ہوتا ہے،وہ خدا کی کتنی بڑی نعمت تھے۔ دن بھر سیاسی سرگرمیوں، ملاقاتوں میں مصروف رہتے اور رات کو اپنے رب سے جڑنے کا کام ان کی ترجیح ہوتا۔ ‘‘وہ رکے۔ دو راتوں کی گواہی ہے میرے پاس، دونوں مختلف مواقع تھے۔
اسلام آباد میں تاریخی دھرنے کی رات میں ان کا میزبان تھا۔ سخت گرمی کے دن تھے اور میرے گھر میں اے سی نہیں تھا۔ ڈرائنگ روم میں بان کی چارپائی رکھ کر اوپر فوم ڈال کر ان کے لیے بستر تیار کیا تھا۔ دروازے کے نیچے دراز تھی جس سے مینڈک اندر آتے جاتے تھے۔ میں رات کے کئی پہر شرمندگی سے سوچتا رہا، اتنی بڑی جماعت کا قائد، لاکھوں لوگوں کا محبوب، میرا مہمان ہے اور کیا خبر وہ ٹھیک سے سو بھی سکے گا یا نہیں؟ نماز فجر سے بہت پہلے اسی گھبراہٹ میں کمرے میں گیا تو دیکھا، فوم کا میٹ رول کیا پڑا ہے اور وہ نماز پڑھ رہے ہیں۔یقین ہو گیا کہ گرمی اور فوم نے رات بھر آرام نہ کرنے دیا ہو گا۔
سلام پھیر کر بولے: ’’ڈاکٹر صاحب بان کی چارپائی پر سونے کامزہ ہی کچھ اور ہے۔ ہمارے گھر میں ہوتی تھی مگر برسوں سے موقع ہی نہیں مل پایا۔‘‘ ڈاکٹر حفیظ آج بھی بے یقینی کا شکارہیں۔ انھیں نہیں لگتا کہ وہ کچھ دیر کے لیے بھی سوئے ہوں گے یا ساری رات عبادت میں ہی مصروف رہے کیونکہ بستر اور چارپائی کے استعمال کے شواہد ہی موجود نہیں تھے۔
دوسرے دھرنے کے موقع پر اپنے ایک دوست سیال صاحب کے ہاں رات گئے قاضی صاحب کو لے کر پہنچایا، اس عالم میں کہ گھر کی بتیاں بند تھیں اور طے تھا کہ کسی کو بھی خبر نہ ہو گی کہ قاضی صاحب یہاں ٹھہرے ہیں۔ سیال صاحب نے بعد میں حیرت ملی پریشانی سے کہا کہ’’ میں ساری رات چائے اور لوازمات لے کر ان کے کمرے میں وقفے وقفے سے جاتا رہا۔ تمھارا امیر بھی کیا آدمی ہے، سوتا ہی نہیں،جب بھی گیا سجدے ہی میں ملا۔‘‘
جماعت کے اندر مزاحمتی طرزِ فکر
قاضی حسین احمد کو جماعت اسلامی کے اندر جو عزت احترام اور وقعت ملی وہ اس سے پہلے سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے علاوہ کسی اور کو نصیب نہ ہوئی تھی۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ نصف صدی کی جامد روایات اور کم رفتاری نے جماعت کے اندر شدید مزاحمتی اور دفاعی مائنڈ سیٹ پیدا کر دیا ہے۔ پرانی بات پر اصرار، ہر نئی چیز سے انکار، ناکامیوں کا جواز، کامیابیوں پر اعتراض، معمول کے مناظر کا حصہ ہیں۔ قاضی صاحب کو زندگی بھر ان کے پیاروں سے بھرپور مزاحمت ہی ملی۔
میاں طفیل محمد سابق امیر ہونے کے باوجود شوریٰ میں تھے۔ وہ شوریٰ کے علاوہ بھی وقتاً فوقتاً پریس سے آزادانہ گفتگو کر جاتے۔ بنیادی طور پر وہ ایک صاف دل اور معصوم اور سیدھے سادھے انسان تھے جو جماعت کی رہنمائی پر طویل عرصہ فائز رہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کے دور کی کم و بیش تمام سیاسی پالیسیوں پہ جماعت کو دفاعی پوزیشن اختیار کرنا پڑتی رہی۔ وہ قاضی صاحب کی اختراعات اور تیز رفتاری پہ بھی معترض تھے۔ ایسے ہی اعتراضات کے باعث جو بعد میں لایعنی ثابت ہوئے۔
نعیم صدیقی کی علیحدگی اور احترام
بزرگوں کا ایک پورا گروپ نعیم صدیقی صاحب کی قیادت میں الگ ہو گیا اور انھوں نے تحریک اسلامی بنا لی۔میاں طفیل محمد اور بعض دوسرے ناراض بزرگ بہرحال ان کے ساتھ نہیں گئے، وہ جماعت کا حصہ رہے۔
نئی تحریک میں کچھ ہی عرصے کے بعد قیادت کے حصول کی جنگ شروع ہو گئی۔ بیچارے نعیم صدیقی صاحب قیادت کے حریص صالحین کی راہ میں رکاوٹ بنے تو انھیں سبکدوش کر دیا گیا۔ یہ وہ دن تھے جو نعیم صدیقی صاحب پہ بہت بھاری تھے۔ مجھے نعیم صدیقی اپنی شاعری اور باکمال نثر، محسن انسانیت جس کی عمدہ مثال ہے، کے باعث ہمیشہ بہت عزیز تھے۔ میں نے صفدر چوہدری صاحب سے رابطہ کیا اور صورتِ حال جاننا چاہی۔ صفدر صاحب جماعت کے شعبہ تعلقات عامہ کے سدا بہار سربراہ رہے۔ میڈیا، اخبارات اور دیگر جماعتوں کے موثر لوگوں سے کم ہی جماعتی لوگوں کے اس قدر دیرپا تعلقات رہے ہوں گے۔جس قدر صفدر صاحب نے قائم کیے اور نبھائے۔
انھوں نے کہا ’’قاضی صاحب کے حکم سے میں نعیم صاحب کے گھر گیا اور انھیں کہا کہ قاضی صاحب محترم نے فرمایا ہے کہ آپ ہمارے لیے اسی قدر محترم ہیں جیسے روز اول سے تھے۔ کسی لمحے کو بھی ہماری محبت میں کمی نہ ہو گی۔‘‘ نعیم صاحب بیمار ہوئے تو منصورہ ہسپتال میں ان کا علاج ہوا۔ قاضی صاحب بطور خاص عیادت کے لیے جاتے اور ہمیں ان کا خیال رکھنے کا فرماتے۔ نعیم صاحب کی وفات کے بعد ان کے گھر گئے، بڑے صاحبزادے نوید اسلام صدیقی سے تعزیت کی اور درجات کی بلندی کی دعا کرنے کے بعد کہا ’’مجھے یقین ہے کہ ہماری طرح ان کا دل بھی ہمارے لیے صاف اور مطمئن ہو گا۔‘‘ بیٹے نے اس پر صاد کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نعیم صدیقی کا گھر قاضی صاحب کے گھر سے بالکل متصل تھا۔ دروازے اور صحن بھی جڑے ہوئے تھے۔ اختلاف اور علیحدگی کے بعد بھی جب قاضی صاحب سیڑھیوں پر یا سرراہ ملتے تو ان کی خوش مزاجی اور احترام میں رتی برابر فرق نہ آتا۔
زیادہ سابقہ امیر جمع ہو گئے تو مشکل ہو گا
میاں طفیل صاحب کے اختلافی بیانات اور اخباری تنقید کے دوران ایک روز دارالضیافہ جہاں سید منور حسن صاحب باقاعدگی سے صحافیوں اور کالم نگاروں سے خود بھی ملتے اور قاضی صاحب سے تبادلہ خیال کا موقع بھی فراہم کیا کرتے تھے، تب قاضی صاحب دوسری ٹرم کے لیے امیر منتخب ہو چکے تھے اور کچھ حلقے ان پر تنقید کے تیر برسا رہے تھے۔ ایسے میں ہمیں بلایا گیا۔ اس موقع پر میں نے اپنی طرف سے بڑا انقلابی مشورہ دینے کی کوشش کی کہ امیر جماعت ایک ہی ٹرم کے لیے ہو یا حد دو ٹرم کے لیے،تا کہ نئی قیادت نئی قوت کے ساتھ جماعت کو سنبھالتی اور چلاتی رہے۔ یوں تبصرے اور تنقید کم ہو جائے گی اور کسی کی غلط پالیسیوں کا زیادہ نقصان بھی نہیں ہو گا۔ قاضی صاحب نے بے اختیار قہقہہ لگایا ’’آپ سے ایک سابق امیر تو سنبھلتا نہیں دو دو، تین تین سابق امیر جماعت ہو گئے تو بڑی مشکل میں پڑ جائیں گے۔‘‘
مخالفت اور دل آزاری
صوبہ سرحد میں جماعت میں علما کی تعداد باقی صوبوں سے زیادہ رہی ہے۔ سوئے اتفاق سے اب ان کی اکثریت تہہ خاک سو رہی ہے۔ قاضی صاحب نے اپنی بصیرت اور فہم کے مطابق جس کا جماعت کے ارکان نے انھیں حق اوراختیار دیا تھا، جب جب کوئی نیا کام کرنا چاہا، سب سے زیادہ سخت الفاظ انہی علما کی طرف سے استعمال ہوئے۔ نیک لوگوں کا ہمیشہ سے یہی مسئلہ رہا ہے کہ وہ اپنی تعبیر اور رائے کو حرف آخر سمجھتے ہیں اور اختلاف ان کے نزدیک گردن زدنی ٹھہرتا ہے۔ پوری اسلامی تاریخ میں جگہ جگہ یہ مثالیں بکھری ہوئی ہیں اور اس سوچ اور انداز نے امت کے بہت سے خوابوں کو بھی بکھیرنے میں بڑی معاونت کی۔ ایک موقع پر جب کسی نے قاضی صاحب کے سامنے جمعیت علماء اسلام کے قائد مولانا فضل الرحمن اور ان کے کچھ احباب پر تنقید کی تو قاضی صاحب نے سختی سے منع کیا۔ وہ صاحب اپنی رائے پر مصر رہے اور کچھ اور بھی ناگوار باتیں کہہ ڈالیں تو قاضی صاحب نے صرف ایک جملہ کہا ’’اپنی رائے اور دلائل ضرور رکھیں مگر عدل کا دامن تو ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ علما کسی بھی جماعت اور گروپ کے ہوں، عمر اور علم میں آپ سے زیادہ اور بہتر ہوتے ہیں۔ یہ فضیلت اللہ کی دی ہوئی ہے۔ اس کا خیال کرنا چاہیے۔‘‘ پھر کہنے لگے: ’’ہمارے اپنے ساتھیوں نے خاص کر مولانا نے جس قدر میری مخالفت اور دل آزاری کی ہے، اتنی توساری جمعیت العلماء اسلام نے مل کر نہیں کی ہو گی۔ جب خود ہی قیادت کا حق دیا ہے تو قیادت کے لیے دل کو بھی بڑا کرتے ہیں۔‘‘
(جاری ہے)